×

علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی کی شخصیت

نصیر الدین نصیر ہنزائی

علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی کی شخصیت

ایک ناقدانہ جائزہ
تحریر: ڈاکٹر سجاد استوری

dr-sajjad-astoori
علامہ نصیر الدین ہنزائی مذہب اسماعیلیہ کے نزاری فرقہ کے ایک مشہور اور معروف عالم ہیں۔ آپ حالیہ دنوں میں یورپ میں رہائش پذیر ہیں۔ آپ کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقہ جات ہنزہ سے ہے۔

آپ اپنے مسلکی حلقے میں بہت شہرت رکھتے ہیں اور لاثانی شخصیت کے مالک ہیں۔ باطنیت اور تاویلی علوم میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔ قرآن کی باطنی تشریح سے متعلق تقریباََ سو(۱۰۰) سے زیادہ کتب تحریر کرچکے ہیں۔ آپ مذہبی اسکالر ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب دیوان شاعر بھی ہیں۔ آپ نے ترکی ، اردو، فارسی اور اپنی مادری زبان( بروششکی) میں شاعری کی ہے۔ آپ کو بابائے بروششکی سے یاد کیا جاتا ہے۔ حکومت پاکستان نے آپ کی ادبی خدمات خصوصاََ حکمت قرآن کے اظہار بے مثال کے سبب آپ کو ستارہ امتیاز کا اعزاز عطا کیا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کی سینئر یونیورسٹیوں نے بھی اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے نوازا ہے۔ آپ یورپ کی جامعات میں اکثر و بیشتر روحانی علوم پرمغز لکچر دیتے رہتے ہیں۔ باطنی تاویلی اور روحانی علوم پر جو کتب آپ نے تحریر کی ہیں ان میں زیادہ مشہور ’’قرآنی علاج‘‘ ’’ہزار حکمت‘‘ ’’میزان الحقائق‘‘ ’’صنادیق جواہر‘‘ ’’کتاب العلاج‘‘ اور ’’امام شناسی‘‘ ہیں۔

علاوہ ازیں پیر صاحب نے مذہب اسماعیلیہ نزاریہ کی تبلیغ و ترویج کے لئے ایک ادارہ بنام ’’’خانہ حکمت‘‘ کراچی میں قائم کیا ہے۔ناقابل ذکر وجوہات کی وجہ سے آپ خود پاکستان میں مقیم نہیں لیکن آپ کی روحانی قیادت کی وجہ سے یہ ادارہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ پیر صاحب کی شہرت کی ایک وجہ آپ کی تبلیغی روش بھی ہے۔ باطنیت، روحانیت اور تاویلات کے دائرہ کا ر میں رہتے ہوئے ریاضت کے مختلف مظاہرے کرتے رہتے ہیں۔اسی طرح کی ریاضت کا ایک مظاہرہ انھوں نے فلمی انداز میںچند سال پہلے گلگت میں کیا تھا۔ ویسے تو تاویلات اور ریاضت کے بارے میں آپ کے مخصوص نظریات آپ کی تحریرات میں بہت پہلے سے موجود تھے لیکن فلمی اور ڈراموں کے انداز میں ان نظریات کے سامنے آنے کے بعد آپ کی شخصیت خاص حلقے سے باہر آچکی ہے۔ کچھ سال پہلے اس فلم کے سامنے آتے ہی بعض شدت پسند مسلمانوں نے شمالی علاقہ جات میں علامہ صاحب کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ اسی ضمن میں عام آدمی آپ کے ان مخصوص نظریات اور آپ کی شخصیت کو جاننا چاہتا ہے اور ضرورت بھی اس امر کی ہے کہ آپ کے نظریات کو سمجھا جائے اور اگرکسی کی نظر میں کوئی اسلام مخالف نظریہ پایا جاتا ہے تو اس کا مہذبانہ انداز میں جواب دیا جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر اس مقالہ کو لکھنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔

آپ کی شخصیت پر تبصرہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ایک پراثر شخصیت ہیں۔ نت نئے نظریات کے موجد اور ان نظریات کو عام کرنے کے مختلف ناقابل یقین طریقوں کے خالق ہیں۔ علامہ صاحب اپنی شخصیت کو پر اثر بنانے کے لئے ’’پیر ‘‘ کے ٹائٹل کو داعی اور حجّت کے برابر قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ مذہب نزاریہ کے حدود دین میں حجّت کا درجہ عظیم مقام رکھتا ہے جبکہ پیر نامور حکیم و پیر ناصر خسرو سے منسوب ایک لقب ہے۔ خود علامہ صاحب اپنی تحریرات میں یہ تحریر کرچکے ہیں کہ پیر ناصر خسرو نہ صرف داعی تھے بلکہ خراسان اور بد خشاں کے امام کی طرف سے حجّت بھی تھے۔ وہ تمام لوگ جو اب اپنے آپ کو ناصر خسرو سے منسوب کرتے ہوئے پیر کہتے ہیں کیا وہ سب حجت ہیں؟ ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ مذہب اسماعیلیہ کے حدود میں کرّہ ارض میں کل بارہ حجتیں ہوتی ہیں۔ جبکہ موصوف اپنی کتاب’’ شہید بہشت ‘‘میں کہتے ہیں:
بعد کے زمانوں میں حجّت یا داعی کے لئے پیر کا لقب بھی استعمال ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خلوص، سادگی اور عمل کا نمونہ، مولانا سید صفدر حسین نجفی https://albasirah.com/urdu/molana-safdar-najfi/

علاوہ ازیں آپ اپنے نام کے ساتھ بہت سارے القابات کا استعمال کرکے اپنی شخصیت کو پراثر بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اپنی ہر تصنیف میں اپنے نام کا تعارف بالکل نئے انداز میں کرتے ہیں۔جیسا کہ آپ کی کتاب ’’مفید انٹرویو‘‘ میں علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی اپنے ساتھ ’’لسان القوم‘‘لکھتے ہیں۔ کتاب ’’شہید بہشت‘‘میں اپنا نام انھوں نے اس طرح سے لکھا ہے:’’پروفیسر ڈاکڑ علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی، ڈاکٹر آف لیٹرز (آنریری) ڈسٹنگوشڈ سینئر پروفیسر سینئر یونیورسٹی کینیڈا، یو ایس اے‘‘۔ کتاب ’’معرفت کے موتی‘‘کے ٹائٹل پر اُن کا نام یوں لکھا ہے: ’’علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی، یسرچ ایسوسی ایٹ یونیورسٹی آف مونٹریال کینیڈا‘‘۔کتاب ’’سو سوال ‘‘میںوہ اس عنوان سے سامنے آتے ہیں:’’ پروفیسر ڈاکٹر علامہ نصیر الدین نصیر ہنزائی (ستارہ امتیاز)‘‘۔ ویسے تو علامہ صاحب کا اصل نام ’’پرتوِشاہ‘‘ ہے جس کو تبدیل کرکے نصیر الدین نصیر استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ کے نام کو یکجا کرکے پڑھا جائے تو آپ کا پورا نام یوں ہو: ’’پروفیسر ڈاکٹر علامہ پرتوِشاہ نصیر الدین (حبُّ علی) نصیر ہنزائی‘‘ یاد رہے کہ اعزازی پی ایچ ڈی اور وزیٹینگ پروفیسرز کی بنیاد پر آپ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر اور پروفیسر استعمال کرتے ہیں۔

علامہ صاحب کی تحریرات کا طائرانہ جائزہ
علامہ نصیر الدین ہنزائی یقینا ایک مشہور اور معروف اسکالر ہیں جنہوں نے مذہب اسماعیلیہ کی ترویج و اشاعت کے لئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ۔ چھوٹی اور بڑی تقریباََ ڈیڑھ سو سے زیادہ کتب تحریر کرچکے ہیں۔ اگر ان کتب پر نظر ڈالی جائے تو اکثر صرف تاویلات اور قرآنی سائنسز کے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ مذہب اسماعیلیہ کی تاریخ علمی اثاثہ سے بھری پڑی ہے لیکن علامہ صاحب کی کوئی تصنیف ان آثار کو اجاگر نہیں کرتی اور نہ مذہب اسماعیلیہ کے بنیادی عقائد اور نظریات کے بارے میں آپ کی کوئی تصنیف ہے۔ بلکہ آپ کی تحریرات زیادہ ترتاویلات پر ہیں جو زیادہ تر تخیلات کی بنیاد پر رقم کی گئی ہیں۔وہ اپنی بات کو پر اثر بنانے کے لئے قرآن مجید کی آیات کی تاویلات پر مشتمل دلائل زور و شور سے پیش کرتے ہیں لیکن اپنی دلیل کو پیش کرتے وقت موضوع کا رخ تبدیل کر لیتے ہیں تاہم اس کے لئے دلیل دینے سے قاصر رہتے ہیں۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں۔

’’پھر ہم نے اس میں دانہ اگایا اور اس دانہ سے خدا کی مراد اساس ہیں جو ناطق کے دل کی زمین ہیںاور ناطق کی تعلیم سے اُگ آیا، جس سے سات خوشے نکلے اور وہ اس دور کے امامانِ برحق ہیں‘‘ وعنباً فرمایا کہ اور انگور ۔ جس سے خدا نے پہلا امام (حضرت حسنؑ) مراد لیا۔(وجہ دین، ج۱، ص۱۴۴)
یہاں عنبا سے حضرت امام حسن ؑ مراد لینے کی کیا دلیل ہے۔ آیا یہ تفسیر بالرائے اور دعویٰ بلا دلیل نہیں ہے؟
اسی طرح آپ اپنی تحریرات میں بہت زیادہ مبالغے سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ آپ پیر ناصر خسرو کے بارے میں کہتے ہیں:
پیر ناصر خسرو زمانہ طالب علمی میں تین سو تفسیروں کا مطالعہ کرچکے تھے۔
یاد رہے کہ پیر صاحب چوتھی صدی ہجری میں گزرے ہیں۔ کیا اس زمانے میں تین سو تفاسیر تالیف ہوچکی تھیں؟ اور اگر لکھی بھی گئی تھیں تو پیر صاحب نے یہ بات کہاں بتائی ہے کہ میں نے تقریباََ تین سو تفاسیر کا مطالعہ کیا ہے؟ اسی طرح پیر صاحب کے بارے میں آپ لکھتے ہیں :
پیر صاحب عربی کے علاوہ ترکی، یونانی، عبرانی، اور سندھی زبان بھی جانتے تھے اور فارسی زبان ان کی مادری زبان تھی۔

یا رہے کہ پیر بلخ، بخارا ،خراسان اور عراق میں رہے ہیںتو پھر کس طرح چھ زبانوں کے ماہر بن گئے ۔کیا پیر صاحب کی تصانیف ان تمام زبانوں میں موجود ہیں؟ جبکہ پیر صاحب کا سارا کام عربی اور فارسی میں ملتا ہے۔ علاوہ ازیں علامہ صاحب نے پیر ناصر خسرو کے بارے میں لکھا ہے کہ پیر صاحب نے اثنا عشری عقیدہ کو ترک کرکے مذہب اسماعیلیہ قبول کیاتھا ۔ پیر صاحب کس مذہب کے پیرو کار تھے ،اس سے ہمارا تعلق نہیں ۔ یہاں صرف یہ کہنا مقصود ہے کہ علامہ صاحب اپنے دعوے کے ثبوت کے لئے خود ساختہ دلائل تراشتے ہیں۔ پیر ناصر خسرو کے عقیدے کی تبدیلی پر جو دلائل علامہ نے پیش کیے ہیں ان میں سب سے مشہور دلیل پیر صاحب کا یہ شعرہے:
برجانِ من چو نورِ امام زمان بتافت
لیل السَّرار بودم و شمس الضُّحیٰ شدم
نام بزرگ امام زمان است ازیں قبل
من از زمین چو زہرہ بدوبرسما شدم
علامہ صاحب کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’یعنی جب میری جان پر (بطریق باطن) امام زمان کا نور طلوع ہوا، تو میں جو (قبلاََ غفلت و جہالت کی) اندھیری رات تھا (اس نور کی بدولت) روز روشن بن گیا(پس) اس وجہ سے امام زمان (حق تعالٰی کا) اسم اعظم ہیں، میں تو انہی (کی روحانی طاقت) سے زہرہ کی طرح پرواز کرکے روحانیت کے آسمان پر جا پہنچا‘‘
اور اسی طرح ایک اور شعر اور اس کا ترجمہ ملاظہ کیجئے:
’’از دلِ حجّت بحضرت کردہ بُوَد
او بتائیدِش آگہ بُوَد
یعنی حجت کے قلب سے حضرت (امام زمان) تک (عرض و التجا جانے اور نورانی تاویل آنے کا روحانی) راستہ موجود ہے اور وہ (امام زمان) اس کو (روحانی و عقلانی) مدد پہنچانے سے (ہرگز غافل نہیں بلکہ ہمیشہ) آگاہ ہیں۔
ان اشعار کا ترجمہ کرتے ہوئے علامہ صاحب نے قوسین لگا کر کس طرح سے شعر کے مفہوم کو اپنے مقصد کے لئے پیش کیا ہے۔ اگر ان قوسین کو ہٹایا جائے تو شعر کے سادہ ترجمہ سے پیر صاحب کے عقیدہ کی تبدیلی کی کوئی دلیل نہیں بنتی ہے۔

علامہ صاحب کی علمی حیثیت
جیسا کہ لکھا جاچکا ہے کہ علامہ صاحب ڈیڑھ سو سے زیادہ کے کتب کے مصنف ہیں۔انھوں نے مذہب نزاریہ کی تبلیغ و ترویج کے لئے بہت خدمات انجام دی ہیں، نزاریہ فرقہ کے لوگوں کے درمیان آپ کی پوری دنیا میں شہرت ہے۔ بالخصوص پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے نوجوان آپ سے بے حد عقیدت رکھتے ہیں۔ لیکن اتنی بڑی حیثیت اور شہرت ہونے کے باوجود مذہب اسماعیلیہ کے دور حاضر کے ماہرین اور محققین اپنی تصانیف اور تحریرات میں آپ کا حوالہ نہیں دیتے۔ راقم نے مذہب اسماعیلیہ کے دور حاضر کے اکثر محققین کی تالیفات کا مطالعہ کیاہے کہیں بھی آپ کا حوالہ اور ذکر نہیں پایا۔ یہاں تک کہ IIS لندن سے جو تصنیفات سامنے آتی ہیں ان میں بھی آ پ کا حوالہ نہیں ہوتا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ نزاریہ یا آغا خانی مذہب کے محققین آپ کے علمی کارناموں کے معترف نہیں ہیں۔ آپ کی تحقیقات اور تالیفات کو مذہب اسماعیلیہ نزاریہ کی بنیادی کتب تصور کرنا صحیح نہیںاور نہ ہی ان کتب اور تالیفات سے مذہب نزاریہ کو سمجھا جاسکتا ہے۔

Share this content: