محمد بن سلمان کی شاہی، کانٹوں کی سیج
Published by سید اسد عباس on
سلمان بن عبد العزیز جو گذشتہ چند ماہ سے سیاسی منظر نامے سے غائب ہیں، ان کی جگہ ان کے فرزند محمد بن سلمان لے چکے ہیں۔ امید یہی ہے کہ سعودیہ کے اگلے شہنشاہ محمد بن سلمان ہی ہوں گے۔ محمد بن سلمان نے اپنے والد کے سلطان بننے کے بعد سے سعودیہ میں بہت تیز رفتار تبدیلیاں عمل میں لائیں۔ محمد بن سلمان کا ابتدائی ترین کام آل سعود کی موثر شخصیات، ملک میں موجود اپنے ناقدین اور افسران کو کنٹرول کرنا تھا۔ اس سلسلے میں محمد بن سلمان کے زمانے میں جو اہم شخصیات منظر نامے سے غائب ہوئیں، ان کا ایک اجمالی خاکہ حسب ذیل ہے۔ یاد رہے کہ یہ اعداد و شمار مڈل ایسٹ آئی اور دیگر منابع سے اخذ کردہ ہیں:
شاہی خاندان کے منظر نامے سے غائب ہونیوالے افرد
محمد بن سلمان نے 2017ء سے 2021ء تک شاہی خاندان کے متعدد اراکین کو گرفتار کیا جو یا تو سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہوگئے یا پھر اب بھی ان کی صورتحال واضح نہیں ہے۔
·محمد بن سعد بن عبد العزیز: شاہ سلمان کے مرحوم بھائی کا فرزند جو بیعت کونسل اور شاہی کونسل کا رکن ہے۔ یہ کونسل سعودیہ کے نئے سلطان کے تعین کا فیصلہ کرتی ہے۔
·محمد بن نائف: سابق ولی عہد، وزیر داخلہ اور شاہ سلمان کا بھتیجا۔
·احمد بن عبد العزیز: شاہ سلمان کے بھائی۔
·نائف بن احمد: احمد بن عبد العزیز کا فرزند۔
·منصور الشلہوب: احمد بن عبد العزیز کے دفتر کا ڈائریکٹر۔
·سعود بن نائف: محمد بن نائف کا بڑا بھائی، مشرقی صوبے کا گورنر، بیعت کونسل کا رکن۔
·مطب بن عبد اللہ: شاہ عبد اللہ کا بیٹا اور نیشنل گارڈ کا سربراہ۔
·ولید بن طلال: دنیا کا امیر ترین شخص اور شاہی ہولڈنگ کمپنی کا چیئرمین۔
·فہد بن عبد اللہ: سابق نائب وزیر دفاع۔
·فہدہ بن فلاح: محمد بن سلمان کی والدہ۔
·خالد بن طلال: ولید بن طلال کا بھائی۔
·ترکی بن عبد اللہ: شاہ عبد اللہ کا بیٹا، ریاض کا سابق گورنر۔
·فیصل بن عبد اللہ: سعودی ہلال احمر کا سربراہ، شاہ عبدللہ کا فرزند۔
·مشل بن عبد اللہ: مکہ اور نجران کا گورنر، شاہ عبد اللہ کا فرزند۔
·ترکی بن ناصر: ماحولیات کا سربراہ۔
·ترکی بن محمد بن سعود الکبیر: شاہی دربار کا مشیر۔
·عبد العزیز بن فہد: شاہ فہد کا فرزند، ان کے بارے اطلاعات ہیں کہ مزاحمت کے دوران یہ مارے گئے۔
·بندر بن سلطان: نیشنل سکیورٹی کونسل کے سابق سیکریٹری جنرل۔
ان شہزادوں کے ہمراہ ان کے دفاتر کے بہت سے سول و فوجی افسران، سابق وزراء کو بھی گرفتار کیا گیا، جن میں عادل فقیہ، عبداللہ بن سلطان، ابراہیم عبد العزیز، محمد التوبیشی، علی الخطانی، خالد التویرجی، وغیرہ شامل ہیں۔ کاروباری افراد میں سے بکر بن لادن امرالدباغ، محمد حسین الامودی، ڈاکٹر ولید فتاحی، ہانی خوجہ، ناصر الطیار، ولید بن ابراھیم نیز دیگر متعدد اہم شخصیات شامل ہیں، جو اب بھی سعودی اداروں کی تحویل میں ہیں۔
قتل کیے جانے والے اہم افراد
·جمال خاشقجی: ترکی بن فیصل کا میڈیا ایڈوائزر اور صحافی۔
·منصور بن مقرن: صوبہ اثیر کا ڈپٹی گورنر، سابقہ ولی عہد کا فرزند۔
·شیخ سلمان عبد الرحمن: مکہ کی عوامی عدالت کا صدر اور جج۔
·شیخ نمر باقر النمر: صوبہ احصاء کے عالم دین۔
گرفتار علماء اور دانشور:
محمد بن سلمان کے ولی عہد بنتے ہیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے مذہبی شخصیات کے خلاف شکنجہ سخت ہونے لگا۔ اب تک مختلف مکاتب فکر کے زیر حراست علماء میں چند ایک کے نام حسب ذیل ہیں: شیخ سلمان بن اودا، اید القرنی، علی العمیری، سفر الحوالی، ابراھیم السکران، سید ھاشم الشخص، شیخ حسین الراضی، شیخ محمد حبیب، سید جعفر العلوی، شیخ محمد العباد، شیخ عبد الطیف الناصر، شیخ بدر آل طالب، شیخ محمد زین الدین، شیخ حبیب الخبار، شیخ حسن ال زید، سمیر الہلال، عبد الجلیل العشیان، عباس المزانی، سید خضر العوامی، عباس السعید۔ ان علماء کے علاوہ اخوان المسلمین اور سہوہ تحریک سے تعلق رکھنے والے 60 کے قریب افراد کو گرفتار کیا گیا۔
سول سوسائٹی کے گرفتار اراکین
12 سے زیادہ انسانی حقوق، بالخصوص خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے خواتین کو بھی گرفتار کیا گیا، جن میں لوجین، ایمان النفجان، عزیزہ الیوسف قابل ذکر ہیں۔
معاشرتی تبدیلیاں:
محمد بن سلمان کا ویژن ہے کہ ہم سعودیہ کو فقط تیل پر انحصار سے باہر نکالیں اور اپنے سیاحتی پوٹینشل کو بھی استعمال کریں گے، جو فی ذاتہ برا خیال نہیں ہے۔ تاہم اس کے لیے جو راستہ محمد بن سلمان نے اختیار کیا ہے، وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ ایک جانب تو وہ اپنے تیل کی پیداوار پر موجود بوجھ کو کم کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب یمن کے ساتھ گذشتہ سات برس سے حالت جنگ میں ہیں، جس میں یومیہ لاکھوں ڈالر استعمال ہو رہے ہیں۔ محمد بن سلمان سعودی معاشرے کے عرصہ دراز سے قائم تاثر کو بدلنے کے بھی درپے ہیں۔ یاد رہے کہ سعودیہ ایک ایسا ملک ہے، جہاں وہابی علماء کا ایک طویل عرصے سے اثر و رسوخ قائم ہے، بلکہ اس ریاست کے قیام میں بھی وہابی علماء کا اہم کردار تھا۔ ملک میں سلفی قوانین نافذ ہیں، تاہم اب حالات تبدیلی کی جانب گامزن ہیں۔
اس سلسلے میں نصاب تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں، مختلف سیاحتی ایونٹس کا نعقاد، میلے ٹھیلے، ڈانس پارٹیاں، موسیقی کے پروگرام، عالمی اداکاروں کو سعودیہ آنے کی دعوتیں، کھیلوں کے بڑے مواقع، مخلوط پروگرام، خواتین کو زیادہ آزادیاں دینا شامل ہے۔ یہ صورتحال شاید معاشرے کے کچھ حصے کے لیے قابل قبول ہو، تاہم ایک ایسا طبقہ بھی ہے، جو ان معاشرتی تبدیلیوں سے نالاں ہے۔ اسی طبقہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کی امور کی ماہر ڈاکٹر مداوی الرشید نے اپنی ایک حالیہ تحریر میں کہا کہ اگرچہ محمد بن سلمان آل سعود میں اپنے تمام مخالفین کے دانت کھٹے کرچکے ہیں، تاہم وہابی علماء اور ان کے پیروکاروں سے نمٹنا محمد بن سلمان کے لیے آسان نہ ہوگا اور یہ ٹاکرا خونی ہوگا۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز