خلوص، سادگی اور عمل کا نمونہ، مولانا سید صفدر حسین نجفی
مولانا سید صفدر حسین نجفی 1932ء میں علی پور ضلع مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے اور 3 دسمبر 1989ء کو لاہور میں ان کی وفات ہوئی۔ بظاہر یہ ایک مختصر سی زندگی ہے، لیکن ان کے کاموں کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ایک شخص کو جوانی کے دو سو سال ملے ہیں اور اس نے ان میں خوب کام کیا ہے۔ آپ نقوی سادات سے تعلق رکھتے تھے۔ علماء کا محترم خاندان تھا، لیکن آپ کی حیثیت اس خاندان میں آج بھی گلِ سر سبد کی کی طرح ہے۔ ان کی خدمات اور کاموں کے بہت سے شعبے ہیں اور ہر شعبے میں ان کی خدمات کمال کو پہنچی ہوئی ہیں۔ راقم کو 1970ء کی دہائی میں ان کی قربت کا موقع ملا اور پھر ان کی وفات تک یہ قربت نصیب رہی۔ قریب سے ان کو دیکھا، ان کی مصروفیات اور کاموں کو دیکھا، بہت سے امور میں ان کے ساتھ مصروفیت رہی۔ بعض شعبوں میں ان کے معاون کی حیثیت سے کام کیا۔ یہ قربت بعدازاں عزیز داری میں تبدیل ہوگئی لیکن ان سے محبت کی اصل وجہ ان کا خلوص، للہیت، اعلیٰ اخلاق، سادگی اور پر کاری ہی رہی۔
آئی ایس او میں ڈاکٹر محمد علی شہید کے ساتھ کام کرتے ہوئے ممکن نہ تھا کہ مولانا سید صفدر حسین نجفی سے ارتباط نہ ہوتا اور ان کی صحبت نصیب نہ ہوتی، چونکہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کا مرحوم سے بہت قریبی تعلق تھا۔ یہ تعلق عزیز داری کی بنیاد پر بھی تھا اور مولانا صاحب کی اپنی دینی شخصیت کی وجہ سے بھی۔ وہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کے پھوپھا لگتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی ایک عالم دین کے بیٹے تھے۔ مولانا صفدر حسین نجفی اور مولانا امیر حسین نقوی جو ڈاکٹر صاحب کے والد گرامی تھے، دونوں نجف اشرف میں ایک ہی زمانے میں زیر تعلیم رہے تھے۔ دوسری طرف ڈاکٹر غلام شبیر سبزواری سے راقم کی بہت دوستی تھی۔ وہ آئی ایس او میں میرے نہایت قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ یوں مولانا سید صفدر حسین نجفی کے ہاں آنا جانا رہتا تھا۔ ان کے گھر میں بھی ملاقاتیں ہوتی تھیں اور جامعۃ المنتظر جس کے وہ سربراہ تھے، وہاں بھی ملاقاتوں کا سلسلہ رہتا تھا۔
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پر سید ثاقب اکبر کی کتاب “رفیق محبوب” مطالعہ کیجیے: https://albasirah.com/urdu/product/rafeeq-e-mahbbob/
مولانا صاحب کو ہم عام طور پر ’’مولوی صاحب‘‘ کہتے تھے۔ اب دور بدل گیا ہے، ایک مبتدی دینی طالب علم کو مولوی صاحب کہیں تو اسے لگتا ہے کہ اس کی بے ادبی ہوگئی ہے، جبکہ ہم جب علی الاطلاق ’’مولوی صاحب‘‘ کہتے تھے تو اس سے مراد مولانا سید صفدر حسین نجفی ہوتے تھے۔ کسی دوسرے مولوی صاحب کے لیے ساتھ ان کا نام لینا پڑتا تھا۔ مولانا صاحب کی زندگی میں ان کی جو کتابیں یا تراجم شائع ہوئے، ان کے ٹائٹل پر عام طور پر ان کے ساتھ القاب نہیں لکھے ہوتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ کہیں مولانا لکھا جاتا تھا اور بعض کتابوں پر تو یہ بھی نہیں تھا۔ ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا، انھوں نے ایک کتاب ’’ارشاد القلوب‘‘ کا ترجمہ کیا تھا، یہ کتاب مکتب اہل بیت ؑکی نہایت اہم شخصیت شیخ مفید کی تصنیف ہے۔ کتاب امامیہ پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی تھی۔ کتاب چھپ کر آئی تو ٹائٹل پر مولانا کے نام کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ لکھا ہوا تھا۔
شیخ محمد امین ساعتی اس کے مسئول تھے، انھوں نے کتاب دیکھی تو سٹپٹائے۔ میرے پاس آئے تو کہنے لگے کہ ثاقب بھائی! یہ دیکھیں کتاب پر مولوی صاحب کے نام کے ساتھ یہ چھپ گیا ہے، میں پریشان ہوں کہ مولوی صاحب کو کیا جواب دوں گا اور یہ کتاب کس طرح ان کے سامنے پیش کروں گا۔ میں نے کہا: گھبرائیں نہیں، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں، مولوی صاحب کو یہ کتاب چل کر دکھاتے ہیں۔ ہم مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچے، امین بھائی بہت پریشان تھے اور شرمسار بھی۔ کتاب مولوی صاحب کو پیش کی اور کہا: مولوی صاحب! یہ دیکھیں آپ کے نام کے ساتھ ’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ چھپ گیا ہے۔ مولوی صاحب نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا: کوئی بات نہیں، پتہ نہیں بعد میں کسی نے دعا کرنی ہے یا نہیں، یہ میری زندگی میں ہی دعا ہوگئی ہے۔ امین بھائی، جیسے ان کی بندھی ہوئی سانس آزاد ہوگئی ہو۔
مولوی صاحب جنھیں بجا طور پر محسن ملت کہا جاتا ہے، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سرپرست کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ اس تنظیم کی مجلس مشاورت میں بھی شامل تھے۔ اس مجلس مشاورت کا نام تبدیل کرکے بعدازاں مجلس نظارت رکھ دیا گیا۔ اس میں دو دیگر علماء بھی شامل تھے، مولانا سید مرتضیٰ حسین صدر الافاضل اور مولانا آغا سید علی موسوی۔ بلا مبالغہ سب سے زیادہ مولانا سید صفدر حسین سرپرستی فرماتے تھے۔ انھیں نوجوانوں کی دینی اور اخلاقی تربیت سے بہت دلچسپی تھی۔ انھوں نے آئی ایس او کو جامعۃ المنتظر میں سالانہ کنونشن کے انعقاد کی اجازت دے رکھی تھی۔ جامعہ کی مسجد کے عظیم الشان ہال میں آئی ایس او کا سالانہ اجتماع منعقد ہوتا تھا۔ رہائش کے لیے کمرے بھی جامعہ میں دے دیئے جاتے تھے، یہاں تک کہ آئی ایس او کو جامعہ سے باہر کسی رہائش یا کمرے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ جامعہ کے تمام تر وسائل ان نوجوانوں کے سپرد کر دیئے جاتے تھے۔
مولوی صاحب خود بھی اجتماع میں شریک ہوتے اور نوجوانوں کو پدرانہ نصیحیتں کرتے۔ نیکی اور شرافت تو ان کے چہرے سے ٹپکتی تھی۔ ان کی باتیں دل میں اتر جاتی تھیں، اس لیے کہ دل سے نکلی ہوئی ہوتی تھیں۔ وہ سادگی کا مرقع تھے، سادہ انداز سے بات کرتے تھے اور سچائی سے اپنی نوجوان نسل کی اچھی تربیت کرنا چاہتے تھے۔ وہ کبھی کبھار ڈانٹ ڈپٹ بھی کر لیتے تھے، چونکہ تبشیر و انذار دونوں تربیت کا حصہ ہیں۔ ان کی ڈانٹ کبھی بری نہیں لگتی تھی۔ اس لیے کہ اس کے اندر چھپی ہوئی ان کی محبت کی شیرینی باقی رہتی تھی۔ مالی مشکلات کے حل میں بھی وہ ہمیشہ پیش قدم رہتے تھے۔
آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم نے یکم جون 1970ء میں نجف اشرف میں وفات پائی۔ وہ شیعوں میں بلند پایہ مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔ جیسا کہ ہمارے قارئین جانتے ہیں کہ شیعوں کے ہاں زندہ مجتہد اور فقیہ کی تقلید کی جاتی ہے۔ فقہاء میں سے جسے علماء اعلم سمجھتے ہیں، عوام کو اس کا تعارف کرواتے ہیں، تاکہ عوام ان کی تقلید اختیار کرسکیں۔ عام طور پر تین چار اعلیٰ درجے کے فقہا ہر دور میں ایسے ہوتے ہیں، جن کی تقلید دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔ اگرچہ فقہاء کی تعداد تو کہیں زیادہ ہوتی ہے، لیکن اعلمیت کے لیے عموماً چند ایک افراد ہی کا نام سامنے آتا ہے۔ آیت اللہ محسن الحکیم طباطبائی کی وفات کے بعد مولانا سید صفدر حسین نجفی نے امام خمینیؒ کی اعلمیت اور مرجعیت کا اعلان کیا۔ انھوں نے پوسٹ کارڈ پر مختصر سی عبارت لکھی اور کارڈ ہفت روزہ رضا کار لاہور کو بذریعہ ڈاک روانہ کر دیا۔
ہفت روزہ نے مولوی صاحب کی یہ عبارت شائع کر دی۔ یہ پاکستان میں امام خمینیؒ کی فقاہت و مرجعیت کا پہلا اعلان تھا۔ امام خمینیؒ اس زمانے میں نجف اشرف میں ہوتے تھے اور جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے۔ مولانا سید مرتضیٰ حسین صدر الافاضل اور مولانا آغا سید علی موسوی نے بھی امام خمینیؒ ہی کی مرجعیت کا اعلان کیا۔ مولانا صفدر حسین نجفی نے امام خمینیؒ کی توضیح المسائل کا ترجمہ کیا۔ مولوی صاحب بتاتے تھے کہ امام خمینیؒ نے اس کی اشاعت کے لیے سہم امامؑ خرچ کرنے کی اجازت نہ دی۔ امام خمینیؒ کا نظریہ تھا کہ دینی مسائل اور احکام پر عمل کرنا عوام پر واجب ہے۔ وہ اس سلسلے میں مطلوبہ کتاب خود حاصل کریں، اس کے لیے سہم امام خرچ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اس کے بعد مولانا سید صفدر حسین نجفی نے امام خمینیؒ کی معروف کتاب ’’اسلامی حکومت یا ولایت فقیہ‘‘ کا ترجمہ بھی کیا۔ یہ کتاب لاہور سے اثناء عشری کتب خانہ نے چھاپی تھی۔ راقم نے اسی زمانے میں اس کا مطالعہ کیا تھا۔ اس کتاب کے ذریعے اہل پاکستان امام خمینیؒ کے انقلابی نظریات اور اسلامی حکومت کے بارے میں ان کے نقطہ نظر سے آگاہ ہوئے۔ اخلاقیات کے حوالے سے بھی امام خمینیؒ کا ایک رسالہ ’’جہاد اکبر‘‘ کے نام سے تھا، جس کا ترجمہ مولانا سید صفدر حسین نجفی ہی نے کیا تھا۔ امام خمینیؒ سے ہماری قربت کا وسیلہ مولانا سید صفدر حسین نجفی ہی بنے۔ بعدازاں جب انقلابی تحریک زیادہ ابھر کر سامنے آئی تو ہم امام خمینیؒ سے آگاہ ہوچکے تھے۔ لہٰذا ان کا ساتھ دینا ہمارے لیے کوئی مشکل نہ تھا۔
23 اکتوبر 1977ء کو امام خمینیؒ کے بڑے فرزند آیت اللہ سید مصطفیٰ خمینی کو نجف اشرف میں شہید کر دیا گیا۔ پھر امام خمینیؒ کا نجف اشرف میں رہنا مزید مشکل بنا دیا گیا۔ مجبوراً انھوں نے وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ 6 اکتوبر 1978ء کو وہ پیرس جا پہنچے اور پیرس کے مضافات میں ایک قصبے میں رہائش اختیار کی۔ ان دنوں مولانا صفدر حسین نجفی بہت بے چین رہتے تھے۔ ہم نے لاہور میں امام خمینیؒ کی حمایت میں شاہ ایران کے مظالم کے خلاف مظاہرے بھی کیے۔ مولوی صاحب ان میں شرکت کرتے تھے۔ پھر انھوں نے پیرس جا کر امام خمینیؒ سے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ ان کی رائے تھی کہ وہ امام خمینیؒ کو پاکستان آنے کی دعوت دیں گے، چونکہ ایران میں شاہ ایران انھیں ہرگز داخلے کی اجازت نہیں دے گا۔ عرب ممالک سے بھی یہ توقع نہ تھی۔
چنانچہ وہ اپنے دیرینہ رفیق مرحوم سیٹھ نوازش علی ساعتی کے ہمراہ فرانس میں امام خمینیؒ کے پاس جا پہنچے۔ وہاں مولانا سید امیر حسین نقوی پہلے ہی مولوی صاحب کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ تینوں افراد پیرس کے نواح میں امام خمینیؒ سے ملے۔ امام خمینی کی توجہ چونکہ ایران میں انقلابی تحریک کی طرف تھی، وہ پاکستان تو نہ آسکتے تھے، لیکن انھوں نے پاکستانی وفد سے بہت محبت کا اظہار کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ مولانا صفدر حسین نجفی صاحب نے امام خمینی کی خدمت میں کچھ ہدیہ بھی پیش کیا، ہم نے بھی آئی ایس او کی طرف ایک خط امام خمینیؒ کی خدمت میں مولوی صاحب کے توسط سے بھجوایا تھا۔ انھوں نے وہ بھی امام خمینیؒ کی خدمت میں پیش کیا۔
Share this content: