×

مولانا مودودی کا پولیٹیکل اسلام اور جارچوی کی جگت

مولانا مودودی کا پولیٹیکل اسلام اور جارچوی کی جگت

syed asad abbas


تحریر: سید اسد عباس

قرآن کریم کی چار بنیادی اصطلاحیں، اسلام کا نظام حیات اور اسلامی دستور مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی وہ تین کتب ہیں، جن کا مطالبہ رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے 1965ء میں جماعت اسلامی سے کیا۔ ان کتب کا ترجمہ اصلاحات چہار در قرآن، روش زندگی در اسلام اور قانون اساسی در اسلام کے عنوان سے شائع ہوا۔ رہبر انقلاب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے جو خط جماعت کو لکھا، اس میں کہا کہ ایران میں مودودی صاحب کی کتب ترجمہ ہو رہی ہیں، تاہم ان کا معیار اچھا نہیں ہے، ہماری خواہش ہے کہ ہمیں عربی کتب فراہم کی جائیں، تاکہ ان کا فارسی ترجمہ کیا جاسکے۔ درج بالا عبارت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مودودی 1965ء میں ایران کے تحریکی حلقوں میں متعارف تھے اور یہ کہ ان کی کتب عربی میں بھی ترجمہ ہوچکی تھیں۔

جماعت اسلامی کے ایک دوست سید لطیف الرحمن شاہ صاحب جو ملی یکجہتی کونسل کے رابطہ سیکریٹری بھی ہیں، ان کی ایک تحریر بہت دلچسپ لگی، جو انھوں نے کسی سیلانی نام کے فرد سے مستعار لی۔ سیلانی لکھتے ہیں کہ ہمارے ایک دوست سید مجتبیٰ لندن میں مقیم تھے۔ بقول سیلانی صاحب سید مجتبیٰ نے سوچا کہ فرصت ہے، کیوں نہ کسی موضوع پر پی ایچ ڈی کر لی جائے۔ پس سید مجتبیٰ نے 2500 الفاظ پر مشتمل ایک پرپوزل برطانیہ کی دو یونیورسٹیوں کو بھیجا۔ مجتبیٰ بتاتے ہیں کہ برمنگھم یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر کیتھرین برآؤن نے کچھ عرصے تک رابطہ کیا، موضوع کے انتخاب کو سراہا، لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس میں کچھ قانونی پیچیدگیاں ہیں اور اس موضوع پر فنڈنگ ملنا بھی مشکل ہے، ہاں اگر پولیٹیکل اسلام پر کام کرنا چاہیں تو میں سپروائز بھی کروں گی اور فنڈنگ کا انتظام بھی۔

سیلانی لکھتے ہیں کہ بات سے بات نکلی تو سید مجتبیٰ نے مغرب کی اسلام سے دلچسپی یا خطرہ سمجھنے کی وجہ جاننا چاہی تو کیتھرین برآؤن نے کہا کہ ہمارے ورلڈ آرڈر کو پولیٹکل اسلام سے خطرہ ہے۔ اگر اسلام کو نہ روکا گیا تو ہمارا ورلڈ آرڈر کہیں نہیں رہے گا۔ سیلانی مزید کہتے ہیں کہ اسی دوران ہماری ملاقات گلوسٹر یونیورسٹی میں تھیولوجی کے استاد اور کئی کتابوں کے مصنف رائے جیکسن سے ہوئی۔ گفتگو کا سلسلہ دور جدید میں احیائے اسلام کی تحریکوں کے چار بڑ ے ناموں محمد عبدو، حسن البناء، سید قطب اور مولانا مودودی تک پہنچا۔ کیتھرین اور بوڑھے پروفیسر کی معلومات وسیع تھیں، وہ اپنے رائے کا اظہار کرتے رہے۔

کیتھرین کا خیال تھا کے مصر سیاسی اسلام کی نرسری ہے، تاہم کافی دیر بعد جب رائے جیکسن سے اس کی رائے مانگی گئی تو اس نے کہا کہ یہ درست ہے کہ پولیٹیکل اسلام کی زیادہ تر تحریکیں براعظم افریقہ سے نمودار ہوئیں، لیکن اس کی باقاعدہ نظریاتی بنیاد برصغیر میں رکھی گئی۔ احیائے اسلام کے لیے ان چاروں کا بہت کام ہے، لیکن ان چاروں میں “مودودی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔” رائے جیکسن کے مطابق عہد حاضر کی جتنی بھی اسلامی تحاریک ہیں، ان سب کی نظریاتی آبیاری فلسفہ مودودی سے کی گئی ہے۔ فلسفہ مودودی قومیت، زبان اور فرقہ وارانہ سرحدوں سے ماوراء ہے۔ رائے جیکسن کا کہنا تھا کہ پولیٹیکل اسلام کو سمجھنا ہے تو مودودی کو سمجھو۔ مودودی سمجھ آگیا تو پولیٹیکل اسلام بھی سمجھ آجائے گا۔

سیلانی لکھتے ہیں کہ مجتبیٰ کے بقول اس دوران ایک ایشین خاتون جو کسی کام سے کمرے میں داخل ہوئی تھیں، وہ بھی وہیں رک گئیں۔ موضوع ان کی دلچپسی کا تھا، اختتامی کلمات کے بعد وہ ان کے ساتھ ہی کمرے سے نکلیں، لفٹ میں تعارف ہوا تو پتہ چلا وہ ریسرچ فیلو ہیں اور حال ہی میں “اسلام میں فیمینزم بمقابلہ رجعت پسندی” کے موضوع پر پی ایچ ڈی مکمل کی ہے، سید مجتبیٰ کہتا ہے کہ میں نے اس سے پوچھا کے کیا یہ سچ ہے کہ مودودی اور پولیٹیکل اسلام اس وقت تھیولوجی کا ہاٹ ٹاپک ہے تو وہ ہنس پڑی اور بولی۔ میری پوری تھیسس ہی مودودی کے افکار پر ہے اور میری ہی نہیں یورپ کی تمام جامعات میں اسلام پر سب سے زیادہ تحقیق “پولیٹیکل اسلام اور مودودی” پر ہورہی ہے۔

خدا حاظ کہتے ہوئے اس نے استقبالیے کے ساتھ لگے نوٹس بورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ وہاں تھیولوجی کے ممکنہ تحقیقی موضوعات کی فہرست لگی ہے، دلچسی ہو تو ایک نظر اس پر ڈال لو۔ بورڈ پر لگ بھگ 50 یا 60 موضوعات درج تھے، ان میں 9 پولیٹیکل اسلام سے متعلق تھے اور ہر موضوع کی تحقیق کے لیے ایک ہی حوالہ تھا، “مودودی۔” یہاں ایک لطیفہ بھی تذکرہ کرنا ضروری ہے، اگرچہ جارچوی صاحب کی بات سے اتفاق کرنا نہ کرنا قارئین کی صوابدید پر ہے۔ علامہ ابن حسن جارچوی قیام پاکستان کی تحریک کی سر برآوردہ شخصیات میں سے ایک تھے۔ کرپس مشن میں مشاورت کے لیے قائداعظم نے ان کا انتخاب کیا۔ علامہ جارچوی کئی ایک کتب کے مصنف ہیں۔ ان سے کسی نے مولانا مودودی کے بارے سوال کیا تو جارچوی صاحب نے کہا: “مولانا ابو اعلیٰ مودودی کے بڑے بھائی جو حیدر آباد دکن میں دار التصنیف میں ملازم تھے، بہت بڑے عالم فاضل تھے۔

کہتے ہیں کہ مولانا مودودی پہلے پاکستان آئے اور مولانا ابو الخیر مودودی بعد میں تشریف لائے۔ جب مولانا ابو الخیر مودودی لاہور میں کرایہ کا مکان تلاش کر رہے تھے تو مالکِ مکان نے دریافت کیا آپ کا یہاں کوئی جاننے والا ہے۔؟ مولانا ابو الخیر مودودی نے جواب دیا ’’جی ہاں ہے تو، وہی جس نے پاکستان میں اسلامی پکوڑوں کی دکان کھول رکھی ہے۔” بہرحال یہ تو ایک لطیفہ تھا، لیکن وہ بھی حقیقت ہے، جو سید مجتبیٰ نے بیان کی۔ اس وقت متعدد یورپی یونیورسٹیوں میں مولانا مودودی کے افکار پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مولانا مودودی نے نوجوانی کے عالم میں ایک رسالے کے مدیر کی حیثیت سے جو مقالات تحریر کیے، ان کو ادارہ معارف اسلامی نے جلوہ نور کے عنوان سے شائع کیا ہے۔

جمہوریت و ملوکیت کے عنوان کے تحت مولانا مودودی لکھتے ہیں: “ملوکیت کی بنیاد دو چیزوں پر ہے، ایک استبداد بالرائے، دوسرے حکومت کا ایک نسل اور خاندان کے ساتھ مخصوص ہونا، یہ دونوں چیزیں سنت رسولؐ اور سنت خلفائے راشدین کے خلاف ہیں۔ بہ خلاف اس کے جمہوریت کی اصل شوری اور استخلاف صالح پر ہے اور یہ دونوں چیزیں قرآن، سنت رسولؐ اور سنت خلفائے راشدین سے ثابت ہیں۔ پس اگرچہ جمہوریت کی کسی خاص شکل کو ہم اسلام کا طریق حکومت نہیں کہہ سکتے، لیکن نفس جمہوریت کے متعلق ہم بلاشک و ریب کہہ سکتے ہیں کہ وہ اور صرف وہی اسلام کا بتایا ہوا طریق حکومت ہے اور ملکیت یقیناً ایک جاہلی نظام ہے، جس کے بت کو توڑنا اسلام کے اصلاحی پروگرام کے سب سے پہلی دفعہ ہے۔(ابو الاعلی مودودی، جلوہ نور، جمہوریت و ملوکیت، ناشر معارف اسلامی، لاہور،۱۹۹۳ء، ص ۱۱۰)
یہ بھی پڑھیں: علامہ مفتی جعفر حسین، اتحاد کے مظہر
https://albasirah.com/urdu/mufti-jafar-hussain/

Share this content: