کیا پاکستان ایک انقلاب سے گزر رہا ہے؟
معروف صحافی عمران ریاض خان نے اپنی ایک ویڈیو میں یہ بات بتائی ہے کہ جب سابق وزیراعظم عمران خان کے وزیراعظم ہائوس میں آخری چند گھنٹے رہ گئے تھے تو انھوں نے کوئی سات آٹھ صحافیوں کو بلایا، جن سے بات کرتے ہوئے انھوں نے پوچھا: دیکھنا! اب کوئی رہ تو نہیں گیا، جو اس ملک میں میرے خلاف نہ ہو۔
بعض صحافیوں نے جواب دیا: نہیں، خان صاحب! اب کوئی نہیں رہ گیا۔
اس پر عمران خان نے کہا: اب ٹھیک ہے۔
اس وقت موجود صحافیوں میں معید پیرزادہ، ارشد شریف، صابر شاکر، عمران خان اور چند دیگر افراد شامل تھے۔ اس کے بعد کئی افراد نے عمران خان کی وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہونے سے متعلق باتیں بیان کی ہیں۔ وزیراعظم نے ایک صحافی کے جواب میں ہی کہا تھا کہ وزیراعظم ہائوس میں میرا کوئی سامان نہیں ہوتا، میں صبح ایک ڈائری لے کر آتا ہوں، واپس جاتے ہوئے وہی لے جاتا ہوں۔ بہرحال وہ اپنی رہائش گاہ بنی گالہ کی طرف رخصت ہوگئے۔ پاکستانی عوام سے اپنے آخری خطاب میں انھوں نے اپیل کی تھی کہ غیر ملکی ایجنڈے پر حکومت کی تبدیلی کے خلاف وہ اتوار کو نماز عشاء کے بعد نکلیں اور احتجاج کریں۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں عوام اس طرح سے باہر نکلے کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ کسی بھی اجتماع میں عمران خان خود موجود نہیں تھے، لیکن عوام ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر موجود تھے۔ عوام کا خود سے اس طرح سے سڑکوں پر نکلنا اور رات بھر جذبات سے بھرپور اجتماعات کا جاری رہنا واقعاً اپنے اندر ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔ عمران خان سے لوگوں کی والہانہ محبت کے مناظر دیدنی تھے۔ عمران خان کا خود داری کا پیغام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا ہے۔ مجمعوں میں سب سے زیادہ بازگشت اسی پیغام کی تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم امریکہ کی غلامی کو قبول نہیں کرتے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں امپورٹڈ گورنمنٹ قبول نہیں ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم بھکاری نہیں ہیں، ہم خوددار لوگ ہیں۔ یہ لوگ لائے نہیں گئے تھے، خود آئے تھے۔ یہ کہنا ناکافی ہے کہ ملک کے طول و عرض میں تحریک انصاف کے کارکن نکلے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام نکلے تھے، چھوٹے چھوٹے بچوں سے لے کر اَسی سالہ بزرگوں تک، یہ پاکستانی لوگ تھے، یہ پاکستانی عوام تھے۔
عوام نے اس سارے نظام کو ٹھکرا دیا، جس نے ان کے ایک منتخب غیرت مند لیڈر کو ہاتھ پائوں باندھ کر باہر نکال دیا اور جن افراد پر کرپشن کے ہوشربا کیسز اور الزمات ہیں، اقتدار ان کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ لوگوں نے اس مراسلے کی حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے، جس میں عمران خان کو نکالنے کی بات کی گئی ہے۔ اگرچہ عمران خان کے خلاف آنے والی سیاسی قیادت اس کے بارے میں جو بھی کہے، لیکن لوگوں کو ان کی باتوں پر اعتبار نہیں، وہ عمران خان کی بات کو معتبر سمجھتے ہیں۔ عمران خان اور اس کے ساتھی عدلیہ کے لیے احترام کا لفظ استعمال کرتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں اس نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے اور جیسے عمران خان کو نکالنے کے لیے ہنگامی عدالتیں لگائی ہیں اور جو چیز عمران خان کے مخالفین نے مانگی بھی نہیں تھی، وہ بھی انھیں عطا کر دی ہے، اس پر عمران خان اور اس کے ساتھی اظہار افسوس کرتے ہیں، البتہ عوام عدلیہ کے بارے میں بہت کچھ کہہ رہے ہیں، ہمیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔
فوج کے بارے میں عمران خان کا نظریہ بہت ہی دانش مندانہ ہے، جس سے فقط عصری شعور ہی نہیں جھلکتا بلکہ پاکستان کی گہری محبت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ وہ پس پردہ حقائق کو جانتے ہیں، لیکن واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ فوج کے خلاف کچھ نہ کہا جائے کہ یہ فوج ہی ہے کہ جو اس ملک کی حفاظت کی ضامن ہے۔ وہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ فوج اگر کمزور ہو جائے تو پاکستان تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اس کے لیے وہ عالم اسلام کے کئی ملکوں میں ہونے والی صورت حال کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ البتہ عوام کی زبان کو کون روک سکتا ہے، وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں بلکہ قائدین کے منع کرنے کے باوجود لکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں اور جتنا کچھ لکھ اور کہہ رہے ہیں، اس سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں: زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
ہم جسے انقلاب کہتے ہیں، وہ ایک جامع مفہوم رکھتا ہے۔ صرف ایک حکومت کے جانے اور دوسری کے آنے کو ہم انقلاب نہیں کہتے۔ ایک پارٹی کے جانے اور دوسری کے آنے کو انقلاب نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز سے ہی پاکستان کو ایک آزاد، خود مختار اور خود دار ملک کے طور پر دیکھنے کی بات کرتے آئے ہیں، ان کی ماضی کی تقاریر جن میں سے بعض آج کل سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں، وہ اس پر گواہ ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کا منشور بھی ان کے اس نظریے کو بیان کرتا ہے، تاہم ان کی جس حکومت کا خاتمہ کیا گیا ہے، اس کے ذریعے سے پاکستان میں ایک ہمہ گیر انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جب تک پاکستان کے نظام کو تشکیل دینے والے سارے ادارے اور ریاست کی ساری اکائیاں یکسو نہ ہوں تو ایک ہمہ گیر تبدیلی وجود میں نہیں لائی جاسکتی۔ یہ تبدیلی اداروں کی مدد سے بھی نہیں آسکتی، چونکہ ادارے تو سٹیٹس کو (status quo) کا حصہ اور محافظ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے ہوشربا کیسز کا فیصلہ عدالتوں ہی نے نہیں ہونے دیا، کیونکہ ہماری عدلیہ اسی سٹیٹس کو کا حصہ ہے۔
انقلاب وہ ہے جو عدالتوں میں بھی انقلاب لے کر آئے اور انقلاب وہ ہے، جو ایک انقلابی فوج تشکیل دے سکے، جس سے استعماری طاقتیں مایوس ہو جائیں، لیکن یہ سب کچھ عوام کے بھرپور، باشعور، زور دار، ہمہ گیر انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ انقلاب کی اصل طاقت عوام ہی ہوتے ہیں۔ راقم کی رائے میں عمران ریاض خان کی مندرجہ بالا روایت کے آخر میں عمران خان سے منسوب یہ جملہ اُن کے اسی شعور کی حکایت کرتا معلوم ہوتا ہے، یعنی’’اب ٹھیک ہے۔‘‘ یعنی جب پورا نظام ان کے خلاف یکجا ہوگیا ہے اور نظام حاضر کی ساری اکائیاں اسے اٹھا پھینکنے پر اکٹھی ہوگئی ہیں اور اس کے پیچھے عالمی استعمار بھی فعال دکھائی دیتا ہے تو پھر بات واضح ہو جاتی ہے۔ اب جدوجہد بھرپور ہوگی اور اگر کامیاب ہوگئی تو پھر ٹھیک نتیجہ نکلے گا۔
اس ساری صورت حال کا ایک ہی جواب ہوسکتا تھا، جو اتوار اور سوموار کی درمیانی رات پاکستان کے کوچہ و بازار میں، خیابان و شاہراہ پر اور نگر نگر شہر شہر دکھائی دیا۔ خود جوش عوام کے سمندر تھے، جس کی منہ زور لہریں ساحلوں سے ٹکرا رہی تھیں اور ابھی عمران خان اپنے گھر میں تھے۔ عمران خان نے حاضر و موجود سے عوام کو بیزار کر دیا ہے۔ ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ عوام کس قدر مزاحمت کے لیے تیار ہیں اور ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ کتنے لوگ قربانی کے مرحلے میں ایستادہ رہیں گے، کتنے لوگ کردار کشی کی ہولناک مہم کا اثر قبول نہیں کریں گے۔ شاید ابھی قبل از وقت ہے، لیکن ایک اپیل پر عوام کی دیوانہ وار شاہراہوں پر اس طرح سے آمد پاکستان میں بے مثال اور آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ ان کے نعرے اور ان کے شعار، ان کے انقلابی شعور کے غماز ہیں۔ وہ سامراج کے خلاف غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے۔ ملک میں سامراج کے اشاروں پر حرکت کرنے والوں کے خلاف ان کے جذبات اور اظہارات دیدنی تھے۔ اپنے ملک و قوم کی سامراج کے شکنجے سے آزادی کے لیے وہ بے قرار تھے۔
علامہ اقبال کی ایک نظم ’’امامت‘‘ یاد آرہی ہے۔ اسے بلا تشبیہ فقط صورت حال کو واضح کرنے کے لیے نقل کیے دیتے ہیں:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے ميری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تيرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بيزار کرے
موت کے آئینے ميں تجھ کو دکھا کر رُخ دوست
زندگی تيرے ليے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تيرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بيضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطيں کا پرستار کرے
یہاں بہتر ہے کہ امامت سے مراد سیاسی قیادت لی جائے۔
ہم جانتے ہیں کہ آج کا عمران خان وہ نہیں، جو ماضی میں تھا لیکن ہم میں سے کون ہے جو آج وہی ہے، جو ماضی میں تھا اور ہمیں بھی ان کے ماضی کے متعدد اقدامات سے اختلاف رہا ہے، لیکن انسان میں فکری اور روحانی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور آئینہ دل صاف ہو جائے تو انسان کے اندر سے ایک اجلی اور بڑی روح ظہور کرسکتی ہے۔ اس کا امکان ہر اس شخص کے لیے موجود ہے کہ جو اپنی ذات سے اٹھ کر اجتماع کے لیے سوچنا شروع کرے اور جو اپنے آپ کو بندوں کے حوالے سے اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنے لگے۔ البتہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ سب کچھ لمحۂ موجود کے حوالے سے ہے۔ عمران خان جن نظریات کا اظہار آج کر رہے ہیں، وہ اس پر قائم رہیں تو اس قابل ہیں کہ ان کی تائید کی جائے اور وہ بدل جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی بندوں کے دلوں کو ان سے پھیر لے گا۔
بعض صحافیوں نے جواب دیا: نہیں، خان صاحب! اب کوئی نہیں رہ گیا۔
اس پر عمران خان نے کہا: اب ٹھیک ہے۔
اس وقت موجود صحافیوں میں معید پیرزادہ، ارشد شریف، صابر شاکر، عمران خان اور چند دیگر افراد شامل تھے۔ اس کے بعد کئی افراد نے عمران خان کی وزیراعظم ہائوس سے رخصت ہونے سے متعلق باتیں بیان کی ہیں۔ وزیراعظم نے ایک صحافی کے جواب میں ہی کہا تھا کہ وزیراعظم ہائوس میں میرا کوئی سامان نہیں ہوتا، میں صبح ایک ڈائری لے کر آتا ہوں، واپس جاتے ہوئے وہی لے جاتا ہوں۔ بہرحال وہ اپنی رہائش گاہ بنی گالہ کی طرف رخصت ہوگئے۔ پاکستانی عوام سے اپنے آخری خطاب میں انھوں نے اپیل کی تھی کہ غیر ملکی ایجنڈے پر حکومت کی تبدیلی کے خلاف وہ اتوار کو نماز عشاء کے بعد نکلیں اور احتجاج کریں۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں میں عوام اس طرح سے باہر نکلے کہ جس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ کسی بھی اجتماع میں عمران خان خود موجود نہیں تھے، لیکن عوام ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے سڑکوں پر موجود تھے۔ عوام کا خود سے اس طرح سے سڑکوں پر نکلنا اور رات بھر جذبات سے بھرپور اجتماعات کا جاری رہنا واقعاً اپنے اندر ایک بہت بڑا پیغام رکھتا ہے۔ عمران خان سے لوگوں کی والہانہ محبت کے مناظر دیدنی تھے۔ عمران خان کا خود داری کا پیغام لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا ہے۔ مجمعوں میں سب سے زیادہ بازگشت اسی پیغام کی تھی۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم امریکہ کی غلامی کو قبول نہیں کرتے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہمیں امپورٹڈ گورنمنٹ قبول نہیں ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ہم بھکاری نہیں ہیں، ہم خوددار لوگ ہیں۔ یہ لوگ لائے نہیں گئے تھے، خود آئے تھے۔ یہ کہنا ناکافی ہے کہ ملک کے طول و عرض میں تحریک انصاف کے کارکن نکلے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام نکلے تھے، چھوٹے چھوٹے بچوں سے لے کر اَسی سالہ بزرگوں تک، یہ پاکستانی لوگ تھے، یہ پاکستانی عوام تھے۔
عوام نے اس سارے نظام کو ٹھکرا دیا، جس نے ان کے ایک منتخب غیرت مند لیڈر کو ہاتھ پائوں باندھ کر باہر نکال دیا اور جن افراد پر کرپشن کے ہوشربا کیسز اور الزمات ہیں، اقتدار ان کے قدموں میں ڈال دیا ہے۔ لوگوں نے اس مراسلے کی حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے، جس میں عمران خان کو نکالنے کی بات کی گئی ہے۔ اگرچہ عمران خان کے خلاف آنے والی سیاسی قیادت اس کے بارے میں جو بھی کہے، لیکن لوگوں کو ان کی باتوں پر اعتبار نہیں، وہ عمران خان کی بات کو معتبر سمجھتے ہیں۔ عمران خان اور اس کے ساتھی عدلیہ کے لیے احترام کا لفظ استعمال کرتے ہیں، لیکن حالیہ دنوں میں اس نے جس طرح کا کردار ادا کیا ہے اور جیسے عمران خان کو نکالنے کے لیے ہنگامی عدالتیں لگائی ہیں اور جو چیز عمران خان کے مخالفین نے مانگی بھی نہیں تھی، وہ بھی انھیں عطا کر دی ہے، اس پر عمران خان اور اس کے ساتھی اظہار افسوس کرتے ہیں، البتہ عوام عدلیہ کے بارے میں بہت کچھ کہہ رہے ہیں، ہمیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔
فوج کے بارے میں عمران خان کا نظریہ بہت ہی دانش مندانہ ہے، جس سے فقط عصری شعور ہی نہیں جھلکتا بلکہ پاکستان کی گہری محبت کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ وہ پس پردہ حقائق کو جانتے ہیں، لیکن واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ فوج کے خلاف کچھ نہ کہا جائے کہ یہ فوج ہی ہے کہ جو اس ملک کی حفاظت کی ضامن ہے۔ وہ کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ فوج اگر کمزور ہو جائے تو پاکستان تین ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اس کے لیے وہ عالم اسلام کے کئی ملکوں میں ہونے والی صورت حال کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ البتہ عوام کی زبان کو کون روک سکتا ہے، وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں بلکہ قائدین کے منع کرنے کے باوجود لکھ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں اور جتنا کچھ لکھ اور کہہ رہے ہیں، اس سے زیادہ سمجھ رہے ہیں۔ ہم صرف اتنا کہہ سکتے ہیں: زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
ہم جسے انقلاب کہتے ہیں، وہ ایک جامع مفہوم رکھتا ہے۔ صرف ایک حکومت کے جانے اور دوسری کے آنے کو ہم انقلاب نہیں کہتے۔ ایک پارٹی کے جانے اور دوسری کے آنے کو انقلاب نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ عمران خان اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز سے ہی پاکستان کو ایک آزاد، خود مختار اور خود دار ملک کے طور پر دیکھنے کی بات کرتے آئے ہیں، ان کی ماضی کی تقاریر جن میں سے بعض آج کل سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں، وہ اس پر گواہ ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کا منشور بھی ان کے اس نظریے کو بیان کرتا ہے، تاہم ان کی جس حکومت کا خاتمہ کیا گیا ہے، اس کے ذریعے سے پاکستان میں ایک ہمہ گیر انقلاب برپا نہیں کیا جاسکتا تھا۔ جب تک پاکستان کے نظام کو تشکیل دینے والے سارے ادارے اور ریاست کی ساری اکائیاں یکسو نہ ہوں تو ایک ہمہ گیر تبدیلی وجود میں نہیں لائی جاسکتی۔ یہ تبدیلی اداروں کی مدد سے بھی نہیں آسکتی، چونکہ ادارے تو سٹیٹس کو (status quo) کا حصہ اور محافظ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کرپشن کے ہوشربا کیسز کا فیصلہ عدالتوں ہی نے نہیں ہونے دیا، کیونکہ ہماری عدلیہ اسی سٹیٹس کو کا حصہ ہے۔
انقلاب وہ ہے جو عدالتوں میں بھی انقلاب لے کر آئے اور انقلاب وہ ہے، جو ایک انقلابی فوج تشکیل دے سکے، جس سے استعماری طاقتیں مایوس ہو جائیں، لیکن یہ سب کچھ عوام کے بھرپور، باشعور، زور دار، ہمہ گیر انقلاب کے بغیر ممکن نہیں۔ انقلاب کی اصل طاقت عوام ہی ہوتے ہیں۔ راقم کی رائے میں عمران ریاض خان کی مندرجہ بالا روایت کے آخر میں عمران خان سے منسوب یہ جملہ اُن کے اسی شعور کی حکایت کرتا معلوم ہوتا ہے، یعنی’’اب ٹھیک ہے۔‘‘ یعنی جب پورا نظام ان کے خلاف یکجا ہوگیا ہے اور نظام حاضر کی ساری اکائیاں اسے اٹھا پھینکنے پر اکٹھی ہوگئی ہیں اور اس کے پیچھے عالمی استعمار بھی فعال دکھائی دیتا ہے تو پھر بات واضح ہو جاتی ہے۔ اب جدوجہد بھرپور ہوگی اور اگر کامیاب ہوگئی تو پھر ٹھیک نتیجہ نکلے گا۔
اس ساری صورت حال کا ایک ہی جواب ہوسکتا تھا، جو اتوار اور سوموار کی درمیانی رات پاکستان کے کوچہ و بازار میں، خیابان و شاہراہ پر اور نگر نگر شہر شہر دکھائی دیا۔ خود جوش عوام کے سمندر تھے، جس کی منہ زور لہریں ساحلوں سے ٹکرا رہی تھیں اور ابھی عمران خان اپنے گھر میں تھے۔ عمران خان نے حاضر و موجود سے عوام کو بیزار کر دیا ہے۔ ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ عوام کس قدر مزاحمت کے لیے تیار ہیں اور ابھی نہیں کہا جاسکتا کہ کتنے لوگ قربانی کے مرحلے میں ایستادہ رہیں گے، کتنے لوگ کردار کشی کی ہولناک مہم کا اثر قبول نہیں کریں گے۔ شاید ابھی قبل از وقت ہے، لیکن ایک اپیل پر عوام کی دیوانہ وار شاہراہوں پر اس طرح سے آمد پاکستان میں بے مثال اور آنکھیں کھول دینے والی ہے۔ ان کے نعرے اور ان کے شعار، ان کے انقلابی شعور کے غماز ہیں۔ وہ سامراج کے خلاف غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے۔ ملک میں سامراج کے اشاروں پر حرکت کرنے والوں کے خلاف ان کے جذبات اور اظہارات دیدنی تھے۔ اپنے ملک و قوم کی سامراج کے شکنجے سے آزادی کے لیے وہ بے قرار تھے۔
علامہ اقبال کی ایک نظم ’’امامت‘‘ یاد آرہی ہے۔ اسے بلا تشبیہ فقط صورت حال کو واضح کرنے کے لیے نقل کیے دیتے ہیں:
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے ميری طرح صاحب اسرار کرے
ہے وہی تيرے زمانے کا امام برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بيزار کرے
موت کے آئینے ميں تجھ کو دکھا کر رُخ دوست
زندگی تيرے ليے اور بھی دشوار کرے
دے کے احساس زیاں تيرا لہو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنہ ملت بيضا ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطيں کا پرستار کرے
یہاں بہتر ہے کہ امامت سے مراد سیاسی قیادت لی جائے۔
ہم جانتے ہیں کہ آج کا عمران خان وہ نہیں، جو ماضی میں تھا لیکن ہم میں سے کون ہے جو آج وہی ہے، جو ماضی میں تھا اور ہمیں بھی ان کے ماضی کے متعدد اقدامات سے اختلاف رہا ہے، لیکن انسان میں فکری اور روحانی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور آئینہ دل صاف ہو جائے تو انسان کے اندر سے ایک اجلی اور بڑی روح ظہور کرسکتی ہے۔ اس کا امکان ہر اس شخص کے لیے موجود ہے کہ جو اپنی ذات سے اٹھ کر اجتماع کے لیے سوچنا شروع کرے اور جو اپنے آپ کو بندوں کے حوالے سے اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھنے لگے۔ البتہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ سب کچھ لمحۂ موجود کے حوالے سے ہے۔ عمران خان جن نظریات کا اظہار آج کر رہے ہیں، وہ اس پر قائم رہیں تو اس قابل ہیں کہ ان کی تائید کی جائے اور وہ بدل جائیں تو پھر اللہ تعالیٰ بھی بندوں کے دلوں کو ان سے پھیر لے گا۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز