’’خطبات مطہری‘‘۔ ایک نظر میں

Published by fawad on

تحریر: شیخ تجمل الاسلام
مرتضی مطہری ایران کے ایک انقلابی مفکر‘ فلسفی‘ دانشور اور فقیہ ہیں۔ انہوں نے اسلام کی اخلاقی و سیاسی نیز اسلامی فکر و فلسفے پر بے شمار کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے تھوڑے ہی دنوں بعد انہیں ضدِ انقلاب گروہ نے انہیں شہید کر دیا۔ آپ کی حال ہی میں آپ کے مقالات کا ایک مجموعہ‘ جس کا حال ہی میں اردو میں ترجمہ ہوا ہے‘ اس پر اسلام آباد کے ایک ممتاز دانشور اور اہلِ فکر جناب شیخ تجمل الاسلام نے تبصرہ کیا ہے‘ جو درج ذیل ہے:


میں اس بات کو اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ میں نے خطباتِ مطہری نام کی اس کتاب کا مطالعہ کیا اور ایسا محسوس ہوا کہ علم و فکر کا ایک بیش قیمت ذخیرہ میرے ہاتھ لگا‘ میں ان لمحات کو ہمیشہ اپنے لیے انتہائی قیمتی تصور کرتا رہوں گا جو میں نے استاد مرتضیٰ مطہری کے خطبات کو پڑھنے میں وقف کیے۔

میں استاد مرتضیٰ مطہری کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتاہوں لیکن مجھے اطمینان ہوا کہ ان جیسے دیگر علماء و دانشوروں کی تحریریں پڑھ کر بعض موضوعات پر جن نتائج کو میں نے اخذ کیا ہے ان نتائج کی نشاندہی استاد مطہری نے بھی پوری شرح وبسط سے فرمائی ہے۔ بیشتر مضامین کے حوالے سے میری فکر کو جلاملی اور ایک نئی سمت بھی۔

خطبات مطہری
خطبات مطہری

ان خطبات نے یقینا میرے افکار میں ایک تلاطم پیدا کیا۔ میں ایک ایک جملہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس کرتا رہا کہ جیسے برسوں کی میری پیاس بجھ رہی ہو اور میں افکار کی جس دنیا کی تلاش میں تھا مجھے وہ مل رہی ہو۔ اس کتاب میں استاد مرتضیٰ مطہری کے چودہ خطبات ہیں اور ایک ایک خطبہ بلند اور توانا افکار وخیالات کا گنجینہ ہے۔ اس کا سہرا استاد مطہری کے سر تو ہے ہی البتہ یہ سہرا یقیناً جناب ثاقب اکبر کے سر بھی ہے جنہوں نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ اپنی قابلیت و صلاحیت کے جوہر دکھا کر ترجمے کا فریضہ انجام دیا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ ثاقب اکبر محض مترجم نہیں وہ خود ایک دانشور‘ مفکر اور سب سے بڑھ کر اسلام کی عملی جدوجہد کے شہسوارہیں۔ ان کے یہ رنگ خطبات مطہری کے ترجمے میں خوب جھلکتے ہیں۔ استاد مرتضیٰ مطہری کے ان خطبات کو پڑھ کر امام خمینیؒ کی اس وصیت کا مقصد سمجھ میں آتا ہے جس میں انہوں نے طلبہ اور دین دوسست روشن فکر طبقے سے کہا کہ وہ اس عزیز استاد کے افکار کو فراموش نہ کریں۔ اس وصیت میں اس بات کا بھی واضح اشارہ ہے کہ غیر اسلامی قوتیں ضرور سازشیں کریں گی کہ لوگ مطہری کی کتابوں‘ تحریوں اور تقریروں کو پس پشت ڈالیں۔

یہ خطبات پڑھیں تو مترجم کا یہ جملہ بھی اپنی صداقت کا لوہا منواتا ہے کہ مطہری فقیہ بھی تھے اور فلسفی بھی ‘ استاد بھی اور مفکر بھی‘ خطیبِ منبر بھی اور معلم بھی‘ اسلام کی تحریک احیاء کے راہنما بھی اور انقلابی دانشور بھی‘ زیر نظر کتاب کے تمام چودہ خطبات یقیناً فکر کشا بھی ہیں اور دل پذیر بھی۔ استاد کے سمجھانے کا واقعی ایک منفرد اسلوب ہے۔ جس انداز سے دلیل پیش کرتے ہیں وہ انہی کا انداز ہے۔ انہوں نے امت مسلمہ کو سمجھایا ہے کہ اس کی بقا کی ضمانت اس بات میں ہے کہ وہ خود کو انسانیت کے لیے مفید و موثر بنائے۔ انسانی معاشرے میں ایسے وجو د کو زوراور زبردستی قائم نہیں رکھا جاسکتا جس نے اپنی افادیت ختم کی ہو اور یہی اللہ کا قانون ہے۔ داعیانِ دین کو کہاہے کہ انسانیت کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اس کو اسلام کی ضرورت ہے اور اسلام کو انسان کی ایک ناگزیر ضرورت کے طور پر پیش کیا جائے۔ استاد مطہری کے یہ دلائل اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ آج کے علم و فکر‘ روشن عقلی ‘ قانون ‘ نظریات اور فلسفوں کے زمانے میں بھی دین و ایمان کی شدید ضرورت ہے کیونکہ بقول اقبال:

جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا

اس شعر کا تو مرتضیٰ مطہری نے کوئی حوالہ نہیں دیا البتہ اس شعر کی تفسیر دیکھیے کہ کس طرح ہوئی:

استاد مطہری کہتے ہیں :
’’آج کی دنیا کو ایمان کی ضرورت و احتیاج ہے۔‘‘

آپ کے بقول عدالت ‘ آزادی‘ احسان‘ امن و امان‘ سچائی اور امانت و دیانت‘ یہ ساری انسانی قدریں ایمان کے شجر سے پھوٹتی ہیں اور افسوس کہ آج کا انسان اس نعمت عظمیٰ سے محروم ہے۔

استاد مطہری حیات و کائنات کی ایک الم نشرح حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے سمجھاتے ہیں کہ تحرک‘ ترقی اور تبدیلی انسانی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ انسان اپنی ابتداء سے مسلسل تبدیلی اور ارتقاء کے مراحل سے گزرتا رہا ہے اور مسلمان اسلام کو بھی عزیز رکھتا ہے اور دنیا کی ترقی کو بھی اور تہذیب کے ارتقاء کو بھی ۔ ساتھ ہی آپ خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ واقعتاً ہم مسلمان بھی ہوں اور دنیا کے تغیر کے ساتھ بھی رہیں۔ آپ نے معاشرے کے تین طبقوں کی بہت ہی صحیح صحیح نشاندہی فرمائی ہے۔ ایک طبقہ ان لوگوںکا ہے‘ جو معاشرے کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں اور تبدیلی و ترقی کے مظاہر سے جب پوری طرح شکست کھالیتے ہیں‘ پھر سرجھکالیتے ہیں۔ استاد مطہری نے ایک عربی شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عاقل وہ ہوتا ہے جو واقعات کے آگے آگے چلتا ہے۔‘‘

امام صادق ؑ کے ایک قول کو یوں نقل کرتے ہیں:
’’جو شخص اپنے زمانے سے آگاہ ہو وہ اشتباہ کے کاموں میں گرفتار نہیں ہوتا۔‘‘

دوسرا طبقہ وہ ہے جو ہر قدیم بات اور اصول کو رد کردیتا ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے نام پر خود کو دین او ر مذہب سے الگ کیا ہے۔

استاد مطہری کا خیال ہے کہ ایک درمیانی طبقے کی ضرورت ہے جو دین دار بھی ہو او ر زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اپنی دین داری کو انسانی تاریخ کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ یہاں استاد مطہری ایک اور نازک نکتے کو چھیڑتے ہیں‘ ان کا کہنا ہے کہ انسان زمانے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھے‘ زمانے کی پیش قدمی کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہوگی کہ زمانے کے انحرافات کا مقابلہ کرے۔ یہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے ہاتھ میں زمانے کی نبض ہو اور جن کو اس بات کا بخوبی ادراک ہو کہ اسلام کے اندر ایک تحریک ہے نہ کہ جمود۔ ان کے اندر اس بات کی بھی صلاحیت ہو کہ وہ زمانے کی تبدیلیوں اور ترقیوں کو سمجھتے ہوئے اسلام کے اندر کی تحریکی قوت کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور بروئے کار لائیں۔ استاد مطہری مسلمان کو غور و فکر پر ابھارتے ہیں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں‘ جس کا مفہوم ہے کہ مجھے اپنی امت کے مالی افلاس کی فکر نہیں کیونکہ یہ افلاس اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا بلکہ اگر مجھے ڈر ہے تووہ فکری افلاس کا ہے‘ غور و خوض کے فقر کا ہے۔

استاد مطہری نے کمال فن کے ساتھ اسلام کے تصور آزادی کو سمجھایا ہے۔ مجھے نہیں معلوم اس انداز سے اس موضوع پر کوئی پہلے بات کر بھی سکا ہے کہ نہیں کہتے ہیں کہ اسلام آیا ہی اس لیے ہے کہ انسان کو آزادی دے۔ اس کا نعرہ ہی نعرہ آزادی ہے اس نے انسان کو سکھایا‘ کہ وہ آزادی کا حق حاصل کرنے کے لیے کس طرح لڑے۔ صرف لڑنا نہیں سکھایا حاکمیت کے مناصب پر بیٹھنے والے لوگوں کے ضمیر کے اندر ایک انقلاب برپا کرکے انہیں اس بات کی طرف راغب کیا کہ وہ کمزوروں اور محکوموں کا استحصال نہ کریں‘ انہیں غلام نہ بنائیں۔ا سلام ظالم سے یہ صرف یہ نہیں کہتا کہ ظلم نہ کر بلکہ اس کے اندر وہ روحانی طاقت پیدا کردیتا ہے جو اسے ظلم سے روکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن کے اندر یہ روحانی طاقت موجود ہوتی ہے ان کے لیے ظلم ‘ چوری اور زیادتی کرنا ممکن ہوتا ہے لیکن وہ کرتے نہیں۔ کہتے ہیں کہ اہل ایمان کی زندگی کی بنیاد غلامی پر بھی ہوتی ہے اور آزادی پر بھی ۔ غلامی اللہ کی اور آزادی غیر اللہ کی۔ طاغوت سے کفر اور اللہ پر ایمان اور یہی کلمہ طیبہ کا تقاضا ہے۔ ایک اور حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اصل آزادی انسان کی معنوی آزادی ہے۔ انسان آزادی کی فکر سے جب ہی لطف اندوز ہوگا جب وہ خرافات اور باپ دادا کے طور طریقوں کا تعصب نہ رکھتا ہو اور جمود کا غلام نہ ہو۔ اس حوالے سے آپ نے نبی کریمؐ کی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ اس قدر موثر ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اس کو یہاں نقل کروں۔

ایک روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اصحاب صفہ کے پاس آئے۔ آپؐ ان میں سے ایک سے بات کررہے تھے اس نے عرض کیا:

یا رسول اللہ! میری روح تو اصلاً اس دنیا سے آزاد ہوگئی ہے۔ اس طرح سے کہ اس دنیا کا پتھر اور سونا میرے لیے یکساں ہوگیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:
بس پھر تو آزاد ہوگیا ہے۔

استاد کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا کا سب سے برا مسئلہ نفاق کا ہے جو اس زمانے کا نمایاں ترین مظہر ہے۔ منافقت انسانیت کے لیے شدید خطرہ ہے اور پہلے بھی اس کی حیثیت یہی رہی ہے‘ البتہ آپ کا کہنا ہے کہ مومن اپنی عقل کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہ دے تو وہ اپنی بصیرت کی آنکھ سے منافق کو پہچانے گا اور وہ اہل ایمان کو منافقت کی دسیسہ کاریوں سے محفوظ رکھے گا۔ استاد سمجھاتے ہیں کہ منافق تاقیامت رہیں گے اور ہمیشہ رہے ہیں۔ البتہ معاشرے کو چاہیے کہ وہ آگاہ رہے اور ظاہر داری کے وسوسے میں نہ آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نفاق پر پریشانی کا اظہار کیا وہاں امت کے جاہل رہنے پر بھی فکر مند رہے۔

استاد مطہری کا خیال ہے کہ مسلمان کو شعائر اسلام کو زندہ رکھنا چاہیے۔ ان کا قول و عمل‘ نشست و برخاست اور طرز زندگی اس بات کا واضح اعلان و اظہار ہو کہ وہ اہل ایمان ہیں اور ان کی وابستگی توحید‘ رسالت اور آخرت جیسے سنہری عقائد کے ساتھ ہے۔ کہتے ہیں کہ اللہ اکبر‘ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ الحمد للہ رب العالمین‘ سلامُ علیکم‘ حسن ‘حسین‘ عباس اور علی جیسے دیگر نام ہمارے شعار ہیں جن کا ہمیں خم ٹھونک کر اظہار بھی کرنا چاہیے اور انہیں اختیار بھی۔ امام عالی مقام حضرت حسینؓ کی یزیدی فوج کے ساتھ جنگ اسلام کے لیے تھی‘ عدل و انصاف کی قدروں کے لیے‘ لہٰذا ہر سال امام کی عزاداری کی تجدید و شعار اسلام ہے‘ جو اسلام اور عدل کی قدروں کو زندہ رکھے گا۔ آپ ہماری توجہ ایسی باتوں کی طرف بھی دلاتے ہیں جو بادی النظر میں ہمیں معمولی لگتی ہیں لیکن اپنی اصلیت کے اعتبار سے بڑی اہم ہیں۔ مثلاً کہتے ہیں کہ بہت عجیب ہے کہ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن جب ہمارا کوئی دوست فوت ہوجاتا ہے تو دوسروں کے شانہ بشانہ رہ کر ہم ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرلیتے ہیں اور صم بکم ہوجاتے ہیں۔ کہتے ہیں یہ طریقہ اہل یورپ کا ہے۔ ہم اس کی تقلید کیوں کریں۔ ہم تو دعائے مغرت کریں گے۔ قل ھواللہ اور اناللہ کا ورد کریں گے۔

استاد مطہری کہتے ہیں کہ رسول اکرمؐ کی ذاتِ اقدس یا امیر المومنین ؑ کے نام پر اور ان سے منسوب تصاویر کو شعائر اسلام کے طو رپر گھر میں رکھنا غلط ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ان تصاویر کی کوئی بنیاد نہیں اور خود ان تماثیل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت امیرالمومنین ؑ کے ساتھ منسوب کرنا بھی قابل قبول نہیں۔ حضر ت علی ؑسے منسوب تصویروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عجیب قیافہ ہے۔ سخت چہرہ‘ ان کو ہمیشہ دونوک والی تلوار‘ جیسے دوسروں والا سانپ ہوتا ہے کہ ساتھ دکھایا جاتا ہے ۔ کیا علی ؑاس طرح کے تھے؟ کہتے ہیں: ہرگز نہیں‘ وہ تو خندہ رو تھے۔ استادچاہتے ہیں کہ ایسی تصویروں کے بجائے قرآنی آیات کو اپنے گھروں کی زینت بنائیں کیونکہ وہی ہمارے شعائر ہونے چاہئیں۔ آپ کا یہ خیال ہے کہ ہمیں اپنے کیلنڈروں کا حساب عیسوی تاریخ جس کی اپنی ابتداء ہی جعلی ہے کے بجائے ہجری تاریخ سے کرنی چاہیے۔

استاد مطہری نے ایک اور زبردست موضوع چھیڑا ہے یعنی حقیقت کی تلاش۔ کہتے ہیں کہ شک کی دو قسمیں ہیں ایک مثبت ایک منفی۔ مترجم نے یہاں مقدس اور غیر مقدس کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ خود استاد مطہری نے یہاں کن الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ بہرحال مثبت شک وہ ہے جو انسان کو یقین کی طرف لے جائے۔ انسان کو کسی بات پر یقین تب ہوگا جب پہلے شک پیدا ہوجائے۔ بڑے دلچسپ جملے ہیں آپ بھی لطف اندوز ہوں۔ یہاں آپ کو ا س بات کا بھی اندازہ ہوگا کہ مترجم کو ترجمہ کے فن پر کس قدرید طولیٰ حاصل ہے۔ ایسے دلپذیر اور فکر انگیز جملے اور عبارتیں آپ کو زیر نظر کتاب میں جگہ جگہ ملیں گی۔

’’شک انسان کے لیے ایمان تک پہنچنے کے لیے اچھی گزر گاہ اور ایک اچھا دالان ہے۔ جب تک وہ اس دالان سے نہ گزر جائے وہ اس نہایت عالی اور لذت بخش منزل تک نہیں پہنچ سکتا جس کا نام یقین ہے۔‘‘

جس شک کو مطہری رد کردیتے ہیں وہ شک انسان کے ذہن کو بیمار بنادیتا ہے جس کا شاخسانہ یہ ہوتا ہے کہ انسان وسوسوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں استاد نے بڑی دلچسپ مثالیں دے کر بات کو واضح کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مطلوب شک وہ ہے جو یقین کی طرف لے جائے‘ جو شک انسان کو مسلسل تذبذب میں رکھے وہ غیر مطلوب ہے۔ شک گزرگاہ ہے نہ کہ مقام اور منزل۔

استاد مطہری کا کہنا ہے کہ جہاد کا حکم امام یا نائب امام صادر کرسکتے ہیں البتہ امربالمعروف و نہن عن المنکر ہرفرد کی ذمہ داری ہے۔ دین محض ایک خیال یا وجدان نہیں کہ یہ صرف اپنے آپ تک محدود رہے۔ انسان دین کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرتا ہے لہٰذا اس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دین کو دوسروں تک پہنچائے۔

کتاب کے حصول کے لیے لنک پر کلک کریں: https://albasirah.com/urdu/product/khutbat-mutahari/

آپ کا کہنا ہے کہ جو غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں ان کے ساتھ اچھے روابط قائم کئے جاسکتے ہیں لیکن جو جنگ کی حالت میں ہیں ان سے ایسے روابط رکھنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس بات کو اس طرح مثال دے کر سمجھاتے ہیں کہ اگر آپ چاہیں کہ اسرائیل کو غذا فراہم کریں تاکہ وہ کھاپی کر توانا ہوجائے اور پھر اسلامی ممالک پر چڑھ دوڑے تو ایسا کام قابل مذمت ہے لیکن ممکن ہے کہ کوئی یہودی مسلمانوں کے کسی محلے میں مقیم ہو‘ وہ بھوکا ہو اور اس سے کسی مسلمان اور مسلمان معاشرے کو کوئی خطرہ نہ ہو تو اس صورت میں آپ اسے پیٹ بھر کر کھانا دے سکتے ہیں‘ اس کو کھانا کھلانا ایک باعث ثواب کام ہوگا۔

مسئلہ نفاق پر بات کرتے ہوئے قائدینِ اسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کی فکر غیرمعمولی طور پر بلند ہوتی ہے‘ وہ غیر معمولی حد تک حقیقت شناس ہوتے ہیں‘ اپنے دوستوں سے بے اعتنا نہیں ہوتے‘ ہر ایک کی بات سنتے ہیں اور فیصلہ اس طرح سے کرتے ہیں جیسے کرنا چاہیے۔ قائدین اپنے دوستوں کے لیے ایسے نرم خو ہوتے ہیں کہ سب انہیں اپنے میں سے سمجھتے ہیں۔ اہل ایمان سے کہتے ہیں کہ اوہام اور خرافات سے اجتناب کریں۔ عددوں کے چکر ‘ دنوں‘ تاریخوں اور انسانوں سے منسوب نحوستوں سے بچ کر ہمشہ اپنی غلطیوں کا احتساب کریں۔ اپنی روزمرہ زندگی میں جن منفی نتائج کو دیکھیں ان کے اصل اسباب اپنے اندر تلاش کریں‘ تجزیہ و تحلیل سے کام لینا سیکھیں‘ بجائے اس کے کہ ان نتائج کو مصنوعی نحوستوں سے منسوب کریں۔

میں نے جو باتیں کہیں وہ مشتے نمونہ از خروارے ہیں۔ میں تو کہوں گا کہ یہ کتاب ہر جگہ پہنچنی چاہیے۔ ہر شخص کے پاس اس کا نسخہ ہونا چاہیے۔ اس بات کے علی الرغم کہ وہ شیعہ ہے یا سنی۔ یہ کتاب مسلمانوں کی فکر کو صحیح رخ عطا کرے گی‘ ان کی سوالات کے شافی و کافی جوابات دے گی ان کی گرہیں سلجھائے گی‘ ان کے نفس کی تہذیب و تربیت کا سامان فراہم کرے گی اور انہیں اسلامی جدوجہد کے راستے بتا کر اعلائے کلمتہ اللہ کے عظیم نصب العین کے لیے اپنا حصہ ادا کرنے پر آمادہ کرے گی۔ یہ خطبات عام مسلمانوں کے لیے مفید تو ہیں ہی‘داعیان دین تو اس سے خصوصی طور پر استفادہ کرسکتے ہیں۔