کیا کشمیر بھارت اور پاکستان کو لے ڈوبے گا۔۔۔۔۔؟
مقبوضہ کشمیر کے دانشور اے سی بوس کا تجزیہ (ترجمہ: غزالہ یاسمین )
نوٹ: یہ مضمون مارچ 2010 ماہنامہ پیام کے ایڈیشن میں شائع ہوا ہے۔
تلخیص: کارگل میں آپریشن ’’اوجے‘‘ ختم ہو نے کے بعد بھارت کو اپنی پوری کشمیر پالیسی پر غور کرنا چاہیے۔ 1947ء میں ہمارے دو فوجی افسروں لیفٹیننٹ کرنل ڈی سی رائے اور میجر ایس این شرما نے کشمیر کی حفاظت اور خوشحالی کے مشن کا آغاز کیا اور ریاست سے غیر ملکی در اندازوں کو نکالنا شروع کیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک نہ صرف غیر ملکی حملوںکے دفاع کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ریاست کے اندر بے چینی کو دبانے کے لئے بھی فوج استعمال کی جا رہی ہے ۔ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ مرکزی سرکار نے اس ریاست کو امن و امان کے شعبے میں 1045.31 کروڑ روپے ادا کئے۔بھارت کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ وہاں کے لوگوں کی وفاداریاں خریدی جائیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ روپے سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے لیکن وفاداری اور اتحاد نہیں۔ کشمیری ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور کیا انھیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ آپ کر سکیں؟
____________
گزشتہ دنوں روزنامہ ’’کشمیر ٹائمز‘‘جموں میں مقبوضہ کشمیر کے ایک ہندو دانشور اور سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر اے سی بوس نے اپنے ایک مضمون میں حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا ہے جس کا ترجمہ ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔
کارگل میں آپریشن ’’اوجے‘‘ ختم ہو نے کے بعد بھارت کو اپنی پوری کشمیر پالیسی پر غور کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ غور کرنا ہوگا کہ ہم نے کشمیر میں کتنا سرمایہ لگایا ، کتنا منافع کمایا اور کتنا نقصان اٹھایا؟ کیا ہم اتنا بڑا سرمایہ لگا کر اس فردوس بر روئے زمین کو حاصل کرنے کے قابل ہو سکے ؟ گزشتہ 60سال کو تو چھوڑیے صرف کارگل کے معرکے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چار سو جانوں کی قربانی دے کر اور اس سے دگنے فوجیوں کے رستے زخموں کے خون کے باوجود ہم کیا کچھ حاصل کر سکے ؟ (سرکاری اعداد و شمارکے مقابلے میں غیر سرکاری اعداد و شمار نے ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی ہے )انسانوں کی قربانی کے علاوہ ہم نے اس معرکے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ گولے استعمال کئے جن کی کم از کم قیمت چھ ارب روپے ہے۔ ہم نے اپنے تین لڑاکا طیارے گنوائے ، جن کی قیمت 70 کروڑ روپے تھی۔ ہم نے ان برفانی چوٹیوں پر اپنی افواج اور ساز و سامان برقرار رکھنے پر روزانہ پندرہ سے پچیس کروڑ خرچ کئے ۔ یہ سلسلہ اب شروع نہیں ہوا ۔ پچیس سال قبل یہ اندازہ لگایا گیا تھا کہ لیہہ میں ایک انڈہ بارہ روپے تک پہنچتا ہے ۔ ظاہر ہے اب یہ قیمت اس سے کئی گنا زیادہ ہو گی ۔ اسی سے ایک لیٹر پٹرول، ایک بوتل مٹی کے تیل، خوراک کے ایک پیکٹ اور گولیوں کے ایک صندوق کی قیمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لمبے لمبے فوجی قافلوں اور پٹرول پھونکتے ہیلی کاپٹروں کا استعمال کتنا مہنگا سودا ہے۔ اس کا قیاس کرنا مشکل نہیں ۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق بھارت کو مجموعی طور پر کارگل کے معرکے کے ضمن میں کم از کم آٹھ ہزار کروڑ روپے کے اخراجات برداشت کرنا پڑے ۔ مزید برآں ، آئندہ وادی مشکوہ سے چوٹی نمبر NJ9842 تک کے تمام علاقے میں پورا سال فوج رکھنا لازمی ہو جائے گی تاکہ علاقے پر نگرانی رکھی جا سکے۔ اس طرح ایک اور سیاچن وجود میں آجائے گا۔ سیاچن پر بھارت کو روزانہ 5 کروڑ روپے کے اخراجات اٹھانا پڑ رہے ہیں اور ہر ہفتے دو جانوں کا ضیاع ہو جاتا ہے۔ یہ حالتِ امن کے اعداد و شمار ہیں جو ہم 1984 ء سے برداشت کرتے چلے آرہے ہیں اور اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہم یہ بوجھ اس وقت سے برداشت کئے چلے آرہے ہیں جب 1947ء میں ہمارے دو فوجی افسروں لیفٹیننٹ کرنل ڈی سی رائے اور میجر ایس این شرما نے کشمیر کی حفاظت اور خوشحالی کے مشن کا آغاز کیا اور ریاست سے غیر ملکی در اندازوں کو نکالنا شروع کیا۔ اس وقت سے لے کر اب تک نہ صرف غیر ملکی حملوںکے دفاع کا سلسلہ جاری ہے بلکہ ریاست کے اندر بے چینی کو دبانے کے لئے بھی فوج استعمال کی جا رہی ہے ۔ ساتھ ہی لوگوں کی وفاداریاں خریدنے کے لئے وسیع پیمانے پر رعایتیں دینے کے لئے سرمایہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں ہمارے کشمیر کے ایک سابق وزیر اعلیٰ سید میر قاسم کا یہ قول لائق توجہ ہے ، جس کا اظہار انھوں نے اپنی کتاب ’’داستان حیات‘‘ میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’بھارت نے ان لوگوں کی وفاداریاں چاول اور دیگر اشیاء سستے داموں مہیا کر کے خریدنے کی کوشش کی جو جیل میں بھی شیخ محمد عبد اللہ کو نہ بھلا سکے‘‘۔ انھوں نے یقیناسستے داموں غذائی اشیاء حاصل کیں لیکن ہم نے ان کے اس وقت کے محبوب رہنما کے ساتھ جو سلوک کیا تھا اس پر انھوں نے کبھی ہمیں معاف نہیں کیا، بعد میں 1975ء میں یہ رعایتیں بھی ختم کر دی گئیں لیکن ذرا ایک نگاہ ڈالئے ان ترقیاتی رقوم پر جو جموں و کشمیر کو ملتی ہیں اور جن کا بڑا حصہ شمال میں واقع وادی کے بطن میں چلا جاتا ہے۔ آر بی آئی کے دسمبر 1995 ء کے ایک شماریاتی جائزے کے مطابق جموں و کشمیر نے سال 1994-95ء ، میں 3010 روپے فی کس کے برابر مرکزی امداد حاصل کی۔ جب کہ ریاست بہار کو اسی ضمن میں 190 روپے فی کس کے برابر امداد ملی۔ اتر پردیش کو اس کے مقابل 341 روپے ملے جب کہ تامل ناڈو کو صرف 305 روپے ملے۔ باقی کو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بغیر منصوبہ بندی کے ملنے والی امداد میں ریاست جموں و کشمیر کا حصہ 720 روپے فی کس کے برابر تھا۔ جب کہ دیگر ریاستوں کے حصے میں تقریباً ایک سو روپے فی کس آئے ۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر نے جو کچھ حاصل کیا اس کا 90 فیصد امداد کی شکل میں تھا۔ جب کہ صرف 10 فیصد کو قرضہ کی مد میں شمار کیا گیا۔ دیگر ریاستوں کے معاملے میں یہ نسبت 30 فیصد امداد اور 70 فیصد قرض کی تھی۔ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ مرکزی سرکار نے اس ریاست کو امن و امان کے شعبے میں 1045.31 کروڑ روپے ادا کئے۔ یہ رقم گزشتہ سال سے واجب الادا تھی۔ بھارت کے ٹیکس دہندگان کو قطعا حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کہ اگر انھیں یہ پتہ چلے کہ اس رقم کا بڑا حصہ جموں سے ہوتا ہوا سیدھا سری نگر اور پھر وہاں چند لوگوں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے ۔ اس لحاظ سے صرف 1994-95ء پر ہی کیا موقوف ہے بھارت کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ وہاں کے لوگوں کی وفاداریاں خریدی جائیں۔ ہم اپنی کاوشوں اور مساعی میں کس حد تک کامیاب ہوئے اس کا جائزہ ہم ربیعہ سعید کے اغوا اور بانڈی پورہ میں قائم بارڈر سیکورٹی فورس کے کیمپ پر حملے کے درمیانی عرصے کے واقعات کی مدد سے لے سکتے ہیں۔
یقیناً کشمیر کے اپنے جذبات ہیں جن کے لئے ہم قربانیاں دیے چلے جا رہے ہیں اور جن کے لئے اپنا پیٹ کاٹ رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب ہم اس حقیقت کا ادراک کر لیں کہ روپے سے سب کچھ خریدا جاسکتا ہے لیکن وفاداری اور اتحاد نہیں۔ بندوق کی گولی وقتی طور پر شاید دشمنی کو دبا سکے لیکن اسے وفاداری میں تبدیل نہیں کر سکتی اور یہ بھی ایک المیہ ہے کہ ہماری فوج اور انتہا پسندوں کے مابین گولیوں کے تبادلے میں بے چارہ کشمیری ہی مارا جاتا ہے۔ آخر اسے کس گناہ کی سزا مل رہی ہے؟ صورتحال یہ ہے کہ :
۱۔ پاکستان کشمیر پر اپنا برسوں پر محیط دعویٰ ترک نہیں کر سکتا۔
۲۔ بھارت بے وقوفی کا مظاہر ہ کرتے ہوئے وادی پر اپنا کنٹرول ختم کرنے کو تیار نہیں۔
۳۔ کشمیریوں کی اکثریت قطعاً یہ قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ بھارتی ہیں اور نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے اپنے قومی کمیشن برائے
انسانی حقوق کی اطلاع کے مطابق گذشتہ سالوںمیں 50000 سے زائد کشمیریوں نے جن میں 1468 مسلمان بھی شامل ہیں کشمیر کو امن سے محرومی کی بناء پر چھوڑا۔ حفاظتی عملے کے افراد سمیت 16850 جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے علاوہ 352 سرکاری افسران مارے گئے۔ 15 سینئر سیاستدان اور 11 عام سیاسی رہنما اس عرصے میںکام آئے۔ اس کے علاوہ 2491 افراد اغوا ہوئے جن میں سے 1036 حتمی طور پر ہلاک کر دیے گئے۔ 1264 سرکاری عمارتیں، 758 اسکول اور 9309 نجی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں ۔ 1959 دکانیں ، 243 چھوٹے پل اور نو ہسپتال تباہ و برباد ہو گئے ۔ اس موقع پر شاید ایک مخصوص سیاسی سوچ کے حامل لوگوں کی باچھیں کھل جائیں کہ ہلاک ہونے والوں میںسے بہت بڑی اکثریت 6291 مسلمان تھی لیکن حقیقت میں یہ ایک ظالمانہ قتل عام تھا۔
کیا یہ سب کچھ یہ بتانے کے لئے کافی نہیں ہے کہ کشمیری ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور کیا انھیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ آپ کر سکیں؟ یقینا انھیں بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اسی طرح حق حاصل ہے جیسے ہمیں 1947ء میں ملا تھا۔ کیا اب وہ وقت نہیں آگیا کہ ہم اپنی جا گیر دارانہ ذہنیت بد لیں اور زمین کے ایک ٹکڑے کو اپنے آبائو اجداد کی ملکیت سمجھ کر معاملہ نہ کریں؟ یقینا کشمیر میں رہنے والے اس زمین کے مقابلے میں زیادہ قیمتی ہیں۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم وہاں رہنے والے لوگوں کی حفاظت تک نہیں کر سکتے ۔ پنڈتوں کا معاملہ آیا تو ہم نے اتنی بھی توجہ انھیں بچانے پر نہ دی جتنی ہم نے کارگل پر دی ۔ پنڈتوں کے بھارتی ہونے میں تو قطعاً کوئی شک نہ تھا لیکن ہم نے انھیں وادی میں تحفظ دینے کی ذمہ داری قبو ل نہ کی۔ آج کل ہم وہاں کی سرحد کو اپنے معلوم دشمن سے بچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں لیکن ہمیں یہ علم نہیں ہے کہ کن لوگوں کی حفاظت کے لئے جانیں لڑا رہے ہیں۔
مختلف واقعات کے باعث مسئلہ کشمیر ہمیشہ عالمی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ یہیں سے اس بات کی ضرورت آشکار ہوتی ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنے موقف پر غور کریں کہ کیا وادی اتنے خون خرابے اور قربانی کے لائق بھی ہے؟ 1878 ء میں عظیم مدبر بسمارک نے کہا تھا ’’پورا مشرق مل بھی جائے تو ایک چھوٹے سے گرنیڈ کے نقصان کا مداوا نہیں کر سکتا‘‘کیا ہمیں یہی سوچ کشمیر کے بارے میں نہیں اپنانی چاہیے؟ کیا ہم بھی کشمیر میں زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر سب کچھ قربان نہیں کر تے جار ہے ؟ آخر اس کا فائدہ کیا ہے؟ آخر ہم کن لوگوں کی حفاظت کر رہے ہیں؟ یقینا ان کی جو ہم سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات مد نظر رہنی چاہئے کہ ہمیں اپنی سرزمین کے ایک ایک انچ پر جان نچھاور کر دینی چاہیے ۔ لیکن کیا کشمیر کبھی دنیا کے نقشے پر بھارت کا حصہ رہا ہے؟ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ جب میں پیدا ہوا تو ہندوستان مشرق میں تھائی لینڈ سے لے کر مغرب میںایران تک پھیلا ہوا تھا۔ 1937 ء میں برما اور عدن اس سے الگ ہو گئے اور 1947ء میں پاکستان نے ایسا ہی کیا جس میں موجودہ بنگلہ دیش بھی شامل تھا۔ کچھ عرصہ بعد ہم نے سکم کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ گویا بھارت کا نقشہ تبدیل ہو تا رہا۔ کبھی ایک خطہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا ۔ ہمارے قومی ترانے میں ایک ایسے علاقے کا بھی ذکر موجود ہے جو اب ہمارے ساتھ نہیں ہے اور جسے ہم اپنا دشمن خیال کرتے ہیں۔ گویا تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ایک سیاسی اور انتظامی ادارے کی وفاداری کو کس طرح قربانیوں کے لئے لازمی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یقینا اگر کوئی علاقہ حقیقت میں بھارت میں ہے تو اس کے لئے ہمیں جانیں لڑانے میں عار نہیں ہونی چاہئے لیکن لازمی بات یہ ہے کہ وہاں کے لوگ بھی خود کو بھارتی خیال کرتے ہوں ۔ جبراً ہم کسی کو بھارتی کیسے بنا سکتے ہیں؟ بھارت یقیناً مقدس سر زمین ہے لیکن ان کے لئے جو اسے مقدس خیال کرتے ہوں۔ یہیں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ حقیقی بھارتی کون ہے؟ میری رائے میں حقیقی معنوں میں بھارتی وہ ہے جو خود کو ایسا سمجھے اور جب وقت آئے تو اس کے لئے کام کرے۔ مارے اور مر جائے لیکن اگر کچھ لوگ خود کو بھارتی نہ سمجھتے ہوں تو دوسرے ان کے لئے کیوں لڑیں اورجانیں قربان کریں؟ ایسے لوگوں کو بھارتی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان کی کوئی چنداں ضرورت ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ الجزائر 1931 ء میں فرانس کا ایک حصہ تھا۔ اسی طرح ہندوستان میں پانڈیچری اور ودن رنگر کے علاقے فرانس کا حصہ تھے۔ ان علاقوں کو بالکل وہی حیثیت حاصل تھی جو پیرس کو حاصل تھی۔ فرانس اور الجزائر دونوں کو لاکھوں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا اور آخر کار 1960 ء میں یہ ثابت ہو گیا کہ الجزائری فرانس کا حصہ نہ تھے۔ کوہ قاف کا سارا علاقہ زار اور کمیونسٹ عہد سے روس کا حصہ سمجھا جا تا رہا ہے لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس علاقے میں چیچنیا بھی ہے ، ابخازیہ بھی ہے اور دیگر علاقے بھی جو سب کے سب روس سے آزادی کے لئے لڑ تے رہے ہیں ۔ یہی معاملہ کارن اور تامل لوگوں کا ہے وہ بھی برما اور سری لنکا کے ایسے ہی شہری ہیں جیسے عراق ، ترکی اور ایران کے ۔ میں ایک بار پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ بھارتی اور ہندوستانی کہلانا باعث فخر ہے ان لوگوں کے لئے جو ایسا پسند کر تے ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جو ایسا پسند نہیں کرتے انھیں کب تک بندوق کی طاقت سے ساتھ رکھا جا سکتا ہے ؟ میں تو ابراہام لنکن کے اس فلسفے پر یقین رکھتا ہوں کہ’’ اگر میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میں غلام ہوں تو مجھے آقا رہنے پر بھی اصرار نہیں کرنا چاہیے‘‘ ۔ جہاں کے لوگ خود کو بھارتی کہلانا پسند کرتے ہیں وہاں بیروزگاری اور اقتصادی محرومی کے باوجود مشرقی ریاستوں کے لوگوں کی طرح لوگ خود کو علیحدگی پسند نہیں کہتے۔ جن علاقوں کے لوگ علیحدگی چاہتے ہیں وہاں مسلسل خونریزی نے بھارت کی اخلاقی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں
یہ بھی پڑھیں: یوم حق خود ارادیت نئے عزم کا دن https://albasirah.com/urdu/haq-e-khud-iradiat/
۔۔۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریبا ً 50 فیصد بھارتی فاقہ کشی کی حالت میں سوتے ہیں،45 فیصد ابھی تک ان پڑھ ہیں،22 فیصد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے اور70 فیصد کھلی فضا میں قضائے حاجت کرتے ہیں۔ اکثر دیہاتی بچے اسکول صرف نام کی حد تک جاتے ہیں اور اکثر ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے ادویات نہیں۔ مسئلہ صرف انسانی نہیں سیاسی بھی ہے۔ ہم لوگوں نے ایک ہزار سال سے بظاہر مضبوط سماج تو تشکیل دے رکھا ہے لیکن اسے مہذب نہیں بنا سکے۔ ہم سیاسی اعتبار سے ابھی تک کمزور ہیں۔ دیکھیے قرون وسطیٰ میں جب انگلینڈ اور فرانس کے لوگ خود کو ان کا شہری کہلانے میں فخر محسوس کیا کرتے تھے ،ہم طبقاتی اور گروہی تفریق سے دو چار تھے۔ ہمارے ہاں کبھی حاکم اور محکوم کے مابین خوشگوار تعلق استوار نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے کبھی باہر کے حملہ آوروں کومزاحمت کا چنداں سامنا نہیں کرنا پڑا۔یقینا غوری کو ایک بار شکست ہوئی لیکن وہ دوبارہ آیا اور فتح حاصل کر لی۔ بعد میں کسی بھی ہندوستانی حکمران کو اپنی شکست کو فتح میں بدلنے کی توفیق نہ ہو سکی۔ انگریزوں نے ہمارے وطن پر قبضہ کیا تو ان سے بھی ہمارے تعلقات کشیدہ رہے۔ ہم نے یا تو ان سے لڑائی کی یا پھر مقاطعہ کیا۔ جب ہمیں آزادی مل گئی تو ہماری ریاست نے کافی حد تک دور دراز گائو ں میں اسکول اور صحت کے مراکز قائم کئے ۔ ٹیوب ویل لگائے گئے ،گائوں کو شہروں سے ملا یا گیا اور لوگوں کو نجی سطح پر تقسیم کے ذریعے سستے داموں چیزیں مہیا کی گئیں لیکن ایسا وسیع پیمانے پر نہیں کیا جا سکا۔ اندریں حالات یہ لازم ہے کہ اگر ہم ریاست اور اس کے شہریوں کے مابین بُعدکم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں لوگوں کی خدمت کے جذبے کو اپنا کران پر زیادہ سے زیادہ فنڈز صرف کرنا ہونگے ۔ لیکن ہم ابھی تک ان علاقوں پر اپنے فنڈز صرف کیے جا رہے ہیں جن سے عام بھارتی شہری کا کوئی واسطہ یا تعلق نہیں۔عام بھارتی کے لئے ریاست کا مطلب غذا، سائبان، وقار اور آگے بڑھنے کے مواقع ہیں اور وہ ریاست کے قوانین کا تب ہی پابند بن کر زندگی گزارے گا جب اسے یہ یقین ہو گا کہ ریاست بھی اس کا خیال رکھتی ہے۔ اسی کے بعد شہریوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی ریاست کے اتحاد اور خود مختاری کے لئے جا ن لڑا دیں۔ اگر بنیاد مضبوط ہو گی تو سرحدیں محفوظ ہوں گی۔ بھارت کی مقتدرا شرافیہ کو چاہیے کہ اس کا تعلق خواہ کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو اقتدار میں ہو یا نہ ہو اسے قطعاً یہ حق نہیں کہ محروم طبقات پر اپنے جا گیر دارانہ عزائم مسلط کرے اور پھر ان کی تکمیل کے لئے ان لوگوں سے قربانیوں کا تقاضا کرے۔ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے جب کہ محروم طبقات کو ان کے کم از کم حقوق سے بھی استفادہ کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا ۔ یہی سلوک کشمیریوں سے بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ انھیں بھی ان کے کم از کم حق یعنی حق خود ارادیت سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ لیکن آخر کب تک؟ یہ رویہ جس پر قومیت کی ملمع سازی کی جا رہی ہے اخلاقی اعتبار سے قابل مذمت، سیاسی اعتبار سے ناقابل عمل اور سماجی و اقتصادی اعتبار سے تباہ کن ہے۔ کیا اب بھی ہم سو ویت یونین ، یوگو سلاویہ اور رضا شاہ پہلوی کے ایران سے سبق نہیں سیکھ سکتے ؟ ۔۔۔وقت آگیا ہے کہ ہم تاریخ سے سبق حاصل کریں، قبل اس کے ہم تاریخ کے بے رحم عمل سے دوچار ہو جائیں۔ ہم کیوں نازیوں، مسولینی کے فاشسٹوں، جاپان کے خود سر فوجی حکمرانوں اور ظالم کے جی بی کے انجام کو بھول جاتے ہیں۔ ؟ آج ان کا نام و نشان تک موجود نہیں ۔ اس موقع پر عظیم جے پر کاش نرائن کا یہ قول قابل توجہ ہے ’’جو کچھ اخلاقی لحاظ سے غلط ہوتا ہے وہ سیاسی لحاظ سے بھی غلط ہوتا ہے‘‘۔
اور توجہ فرمائیے! ہماری کشمیر پالیسی سراسر گمراہ کن ہے۔ ہر گزرتا لمحہ ہماری کشمیر پالیسی کے تباہ کن نتائج سے ہمیں دوچار کرتا رہتا ہے اور ہمیں اس کے سنگین انجام سے قریب کر دیتا ہے ۔ یہاں ہمیں دریو دھن کے اس واقعے سے بھی سبق لینا چاہیے کہ جب وہ اپنی ماں گندھاری سے دعا لینے گیا تو اس نے کہا تھا کہ ’’یا تو دھرما ساتو جئے ‘‘اس کا مطلب ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے ۔ اسلام بھی اسی آفاق سچائی کا علمبردار ہے ۔ اسلام کا پیغام ہے ’’نصر من اللہ و فتح قریب ‘‘یعنی اللہ کی مدد حق کے علمبرداروں کے ساتھ ساتھ سایہ فگن رہتی ہے ۔ یہیں سے یہ ابدی اصول ابھرتا ہے کہ وہ جو کبھی خود حق کے حصول کی خاطر لڑے تھے انھیں کسی صورت دوسروں کو اس سے محروم نہیں کرنا چاہیے۔
یہ بھی ملاحظہ فرمائیں: https://na.gov.pk/en/pressrelease_detail.php?id=5223
Share this content: