×

جدید تہذیب کا زوال، حجاب دشمنی

سید ثاقب اکبر

جدید تہذیب کا زوال، حجاب دشمنی

جدید تہذیب کو اپنے جن افکار و نظریات پر ناز تھا، وہ گذشتہ صدی میں ہی رفتہ رفتہ زوال کا شکار ہونے لگے۔ مغرب نے جب دو قطبی دنیا کا معرکہ بظاہر سر کر لیا تو اسے اپنے سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک نئے عالمی دشمن کی ضرورت تھی۔ بظاہر اس کا دشمن تو کوئی نہیں تھا، اس لیے دشمن تراشی کا راستہ اختیار کیا۔ مغرب نے اسلام، اس کے مظاہر اور مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے اختیار کیا۔ امریکا یہ بھی ضروری سمجھتا تھا کہ اپنی قیادت میں قائم فوجی اتحاد نیٹو کو بھی قائم رکھے، کیونکہ نیٹو کے ذریعے یورپ پر بھی اس کی بالادستی قائم ہے۔ لہذا نیٹو کو افریقا، ایشیاء اور دیگر خطوں میں مصروف رکھنا ضروری تھا۔ پھر دنیا میں جو کچھ ہوا، سب کے سامنے ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کا مکتب قرار دیا گیا۔ اسلامی معاشروں کے اندر دہشت گرد اور انتہاء پسند گروہ پیدا کیے گئے اور انہی کے نعروں اور چہروں کو اسلام کا چہرہ قرار دیا گیا۔ اپنے معاشروں کو ان مقاصد سے ہم آہنگ و یکجا کرنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات کیے گئے۔ رسول اسلامؐ، قرآن حکیم، مساجد کے مینار اور خواتین کا حجاب سب کے خلاف نفرت انگیز کارروائیاں عمل میں آنے لگیں۔ رحمت للعالمینؐ، سید المرسلین ؐکہلانے والی ہستی کے ایسے کارٹون شائع کیے گئے کہ جس سے وہ نعوذ باللہ ایک دہشت گرد راہنماء دکھائی دیں۔ ان کے خلاف کتابیں لکھی گئیں، ”آیات شیطانی“ ان میں سے ایک ہے۔

جب ان اقدامات کے خلاف مسلمانوں نے آواز بلند کی تو آزادی اظہار کے نام پر مغرب کی حکومتیں بھی مقابلے میں صف آراء ہوگئیں۔ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ قرآن حکیم کو اعلانیہ جلانے کے اقدامات ہوئے۔ مسلمان عورتوں کو حجاب پہننے سے روکنے کے لیے طرح طرح کے اقدامات شروع ہوگئے۔ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی، سرکاری اداروں میں حجاب پر پابندی، دفاتر میں حجاب پر پابندی، حجاب پہنے ہوئے عورتوں پر حملے اور بعض کا سرعام ہولناک قتل، یہ سارے واقعات مغرب میں ہو رہے تھے اور اب بھی ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ بعض انتہاء پسندوں نے مسجد کے میناروں کو بھی میزائلوں سے مشابہ کہہ کر انھیں بھی دہشت گردی کی علامت قرار دے دیا۔ سیاسی پارٹیوں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ جن معاشروں میں مسلمانوں کی تعداد انتہائی کم تھی، وہاں بھی اسلام دشمنی کی فضا پیدا کرکے ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اس طرح سے نفرت، بغض، حسد اور حرص سے بھرے ہوئے سیاست دان نما لوگ پارلیمانوں میں پہنچنے لگے۔

مغرب تو اپنی جدید تہذیب کو آزادی اظہار پر استوار قرار دیتا ہے، لیکن یہ آزادی اظہار مسلمانوں سے چھینی جا رہی ہے۔ مغربی تہذیب، مذہب کی آزادی کی دعویدار ہے، لیکن اسلام کی آزادی، اس سے مستثنٰی ہوتی جا رہی ہے۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں خود مغربی معاشرے شدت پسندی کا شکار ہو رہے ہیں۔ بڑھتی شدت پسندی کسی وقت ہمہ گیر بھی ہوسکتی ہے، لیکن ابھی عالمی مقاصد اور مسلمان دنیا کے وسائل کی لوٹ مار کے سلسلے جاری ہیں۔ ابھی مسلمانوں کے پاس بہت سے خزانے باقی ہیں، جن پر ظالم اور بے رحم سرمایہ داری نظام کی نظریں گڑی ہوئی ہیں، لہذا ابھی معرکے کو جاری رکھنا ہے۔

بھارت تو پہلے ہی اسلام دشمنی میں شہرت رکھتا ہے۔ ماضی میں کانگریس کے راہنماؤں نے محمد علی جناح جیسے سفیر امن کے پیغام یکجہتی کو درخور اعتنا نہ جانا اور ہندو اکثریت کے گھمنڈ میں مسلمانوں کی دلجوئی کو بھی ضروری نہ سمجھا۔ ان کا یہ طرز عمل مسلمانوں کے لیے متبادل سیاسی پلیٹ فارم کے وجود میں آنے اور متحرک ہونے کا باعث بنا۔ ابھی جب ہندوستان کی تقسیم عمل میں نہیں آئی تھی تو انتخابات کے نتیجے میں مسلمانوں کو جو سیاسی حیثیت حاصل ہوئی، اس کو بھی بلڈوز کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے ہی طرز عمل کے استمرار اور تسلسل کے نتیجے میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ یہ بٹوارہ نئی معرض وجود میں آنے والی اکائیوں اور حقیقتوں کے لیے بھی عبرت آموز تھا۔ بھارت کے حکمران طبقے کو سوچنا چاہیے تھا کہ بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اکثریت کے ساتھ جوڑ کر رکھنے میں نئے معرض وجود میں آنے والے بھارت کا مفاد مضمر ہے۔ اس کو کانگریس کی اس دور کی قیادت نے بظاہر محسوس بھی کیا، اسی لیے اس نے بھارت کے آئین کو سیکولر بنیادوں پر تشکیل دیا اور سیکولزم کے نعرے کو ایک عرصے تک نمایاں طور پر جاری رکھا گیا۔ اگرچہ پس منظر میں بہت سے ایسے واقعات اور اقدامات دکھائی دیتے ہیں، جو مسلم دشمنی کا شاخسانہ ہیں۔ کشمیر پر فوجی قبضہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔

پاکستان دشمنی کو بھی بھارتی حکمرانوں کی ذہنیت کا عکاس کہا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے ملنے والی ریاستوں جونا گڑھ اور حیدر آباد دکن پر فوجی قبضہ تقسیم ہند کے فارمولے کی پامالی کے مترادف تھا لیکن یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مداخلت اور فوجی جارحیت، اس دشمنی کا ایک اور بہت بڑا مظہر ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان مستقبل میں ہم آہنگی کی آواز بلند کرنے پر انتہاء پسند ہندؤوں نے اپنے باپو گاندھی جی کو بھی خون میں نہلا دیا۔ وہ لوگ جنھوں نے گاندھی جی کا قتل کیا، آج وہی بھارت میں برسر اقتدار ہیں۔ بنگلہ دیش بنانے میں اپنے کردار پر فخر کا اظہار موجودہ بھارتی وزیراعظم ڈھاکہ میں جا کر کرچکے ہیں۔ دنیا میں ایسی ننگی جارحیت پر افتخار مودی جیسا قصاب ہی کرسکتا ہے۔ اسی نظریے کے علمبردار آج بھارت میں دندناتے پھرتے ہیں۔ ہندوتوا کا نظریہ کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے اور اسے احترام کا مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سکھوں کے ساتھ حال ہی میں جو سلوک روا رکھا گیا، وہ اسی دہشت گردانہ تعصب کا نتیجہ ہے۔ اب بھارت کی مسیحی آبادی بھی اس نفرت انگیزی کا شکار ہو رہی ہے۔

چند ہفتوں سے بھارت میں حجاب کے خلاف ایک عریاں جنگ جاری ہے، مغرب تو پہلے ہی حجاب کے خلاف ایک تحریک کی زد پر ہے۔ کئی ایک مغربی حکمران اور راہنماء بھی اس جنگ کا حصہ ہیں، لہذا اس سلسلے میں بھارت کو پوچھنے والا کون ہے؟ اگرچہ بھارت کے اندر اور باہر سے اکا دکا آوازیں اس اقدام کے خلاف اٹھ رہی ہیں، لیکن ان کی مثال نقار خانے میں طوطی کی آواز کی سی ہے۔ مسلمان بچیوں پر کئی ایک تعلیمی اداروں میں کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ایسے اقدامات ان کے مستقبل کو تاریک کرنے کے مترادف ہیں، جو انھیں تعلیم کے حصول سے محروم کرسکتے ہیں۔

افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کو ہندوستان کا سپریم کورٹ جواز بخش چکا ہے۔ اسی طرح کرناٹک کی صوبائی عدالت حجاب پر پابندی کے اقدامات کی حمایت کرچکی ہے۔ گویا بھارتی ریاست کے بنیادی ادارے جن میں حکومت، انتظامیہ، پارلیمان کی اکثریت، عدالت، فوج اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ شامل ہیں، اسلام دشمنی پر متحد ہوچکے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ ”ہندتوا“ اور نئی اصطلاح کے مطابق ”مودتوا“ کی حمایت میں ریاستی اداروں کا یہ اتحاد سامنے آرہا ہے۔ بھارت کے اندر ملک کے بہت سے خیر خواہ اور وطن دوست آج یہ بات کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اگر یہی طرز عمل جاری رہا تو بھارت پارہ پارہ ہو جائے گا، کیونکہ 21 کروڑ مسلمانوں کے علاوہ دیگر تمام اقلیتیں بھی اپنے آپ کو بھارت کے اندر غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ بھارت کی اس صورتحال میں جو سبق پاکستان کے اداروں اور عوام کے لیے کار فرما ہے، اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

بشکریہ : اسلام ٹائمز

Share this content: