اسرائیل غزہ میں کیا چاہتا ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
سات اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی حماس اسرائیل جنگ آج یعنی 12 اپریل 2024ء تک جاری ہے، گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف علاقوں پر حملہ کیا ہے اور اب تک اس جنگ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 33 ہزار کے قریب ہے۔ تقریبا دو ملین فلسطینی گذشتہ چھے ماہ سے خانماں برباد ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں زخمی ہیں۔ فلسطین کے 35 ہسپتالوں میں سے فقط دس ہسپتال کام کر رہے ہیں۔ علاقے میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ اقوام متحدہ اور اسے کے ذیلی ادارے غزہ میں قحط کی پیشین گوئی کر رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایک افسوسناک حملے میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کے گھر کے دس افراد شہید ہوئے، جن میں ان کے بیٹے، پوتے اور پوتیاں شامل ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسرائیل نے غزہ پر حملے کا آغاز یہ کر کیا کہ ہمارا ہدف حماس کا خاتمہ ہے، ہمیں فلسطینیوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ بقول مرزا غالب
تیرے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
درحقیقت اسرائیل کا ہدف حماس یا جہاد اسلامی نہیں ہے، اس نے اہل فلسطین کو اجتماعی سزا دی ہے۔ چند ہزار حماس کے جنگجوؤں کے خاتمے اور چند سو یرغمالیوں کو چھڑوانے کے لیے پورا غزہ ملیا میٹ کر دیا گیا۔ پانی، بجلی، خوراک اور ادویات تک رسائی معدوم کر دی گئی۔ تعلیمی ادارے، فلاحی مراکز، ہسپتال، بجلی کے پلانٹس حتی ہر وہ چیز جو انسانی زندگی کا لازمہ ہے، اس کو تباہ و برباد کر دیا۔ ہزاروں انسان قتل ہوگئے، ہزاروں زخمی ہیں، لاکھوں گھر مسمار ہوگئے، کیا یہ واقعی حماس کے خلاف جنگ ہے۔؟ جنوبی افریقہ کہتا ہے اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے اسرائیل اس کی تردید کرتا ہے۔ دنیا کہتی ہے کہ عارضی جنگ بندی کی جائے، اسرائیل اس کی مخالفت کرتا ہے، تاکہ اہل غزہ تک خوراک کا ایک لقمہ نہ پہنچ سکے یہ ایک نسل کی اجتماعی یرغمالی ہے، یہ ایسا ظلم ہے، جس کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسرائیلی شہروں اور اس کی غزہ میں موجود افواج پر اہل غزہ کی جانب سے اب کوئی بڑی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ میں نے متعدد سائٹس اور ذرائع پر سرچ کیا ہے، حماس نے اسرائیل پر آخری راکٹ کب برسائے ہیں، کچھ معلوم نہیں۔ جنگ کے ابتدائی ایام میں حماس جواب دیتی رہی۔ اس کے بعد دو بدو لڑائیاں اور چھاپہ مار کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا، تاہم اس وقت لائیو اسرائیل وار میپ، الجزیرہ، مقاومتی ٹیلی گرام چینلز منجملہ “المحلل خ ف” پر کسی بڑی جوابی کارروائی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔اسرائیلی افواج نے غزہ میں متعدد مقامات پر ٹنلز میں پانی چھوڑا ہے۔ یہ بھی نہیں معلوم کہ غزہ میں شہید ہونے والے 33 ہزار افراد میں سے حماس اور جہاد فلسطین کے کتنے رکن شامل ہیں۔ اب تک تو متعدد لاشیں ملبے تلے دبی ہوئی ہیں۔ یہ 33 ہزار افراد کا عدد ایک اندازہ ہے، غزہ میں اس وقت کوئی مربوط نظام موجود نہیں ہے کہ ہلاکتوں اور زخمیوں کا درست اندازہ لگایا جا سکے۔ اس عدد کو ابتدائی اطلاع قرار دیا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت فقط حماس نہیں بلکہ غزہ کے تمام باسی اپنی سالمیت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دو بدو جنگ، اسرائیلی افواج پر حملے آخری فلسطینی تک جاری رہیں گے، تاہم یہ کہنا کہ حماس کے جنگجو اب بھی مکمل طور پر محفوظ ہیں اور زیر زمین ٹنلز میں چھپے بیٹھے ہیں، مجھے منطقی دکھائی نہیں دیتا۔ وہ لوگ جو ایسے دعوے کرتے ہیں، ان کے پاس ممکن ہے باوثوق ذرائع سے خبر موجود ہو، تاہم جہاں خوراک ختم ہوگئی ہے، وہاں اسلحہ کا باقی ہونا عجیب بات لگتی ہے۔ اہل غزہ نے ماہ صیام اور عید الفطر بمباری اور جنازے اٹھاتے ہوئے گزاری ہے۔ مجھے ان اندازوں اور تخمینوں سے بھی اختلاف ہے کہ اسرائیل اپنے معاشی اور سیاسی حالات کی وجہ سے فقط چند روزہ جنگ لڑ سکتا ہے۔ شائد اسرائیل تنہا ہو تو ایسا اس کے لیے ممکن نہ ہو، تاہم مغربی ممالک کی مدد اور خود دنیا بھر میں پھیلے ہوئے صہیونیوں کی مالی امداد کے ذریعے وہ کسی بھی جنگ کو طول دے سکتا ہے۔
کل یعنی بروز جمعرات اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ایک بیان میں جنگ کے ایک نئے مرحلے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم غزہ کے علاوہ دیگر علاقوں کے حوالے سے منظر ناموں کا جائزہ لے رہے ہیں، جو بھی ہمیں نقصان پہنچائے گا، ہم انھیں نقصان پہنچائیں گے۔ ہم اسرائیل کی تمام سکیورٹی ضروریات کو پورا کریں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اسرائیل نے گذشتہ چھے ماہ میں دمشق میں دو بڑے حملے کیے ہیں، جن میں ایرانی فوج کے اہم افسران اور سفارتکار شہید ہوئے ہیں۔ اسی طرح لبنان میں بھی اسرائیلی حملے مسلسل جاری ہیں۔ ایک ہی وقت میں متعدد محاذ کھلے ہوئے ہیں، اسرائیل کو عراق اور یمن کی جانب سے بھی حملے کا خطرہ درپیش ہے۔ سفارتی میدان میں بھی اسرائیلی عالمی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف، اقوام متحدہ میں بھی اسرائیلیوں کو دباؤ اور پشیمانی کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ڈھٹائی سے کھڑے رہنا اسرائیلیوں کا اپنے مقصد کے لیے عزم کی نشاندہی کرتا ہے۔
مسلمانوں کا عمومی تصور یہی ہے کہ مسلمان بہادر، جری، پرعزم اور اہل ایمان ہیں اور ان کے ایمان کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔ کسی حد تک یہ بات درست بھی ہے، لیکن ڈی این اے اور فیملی ہسٹری کا علم رکھنے والے احباب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ صہیونیوں اور عربوں کا ہیپلو گروپ ایک ہی ہے۔ یعنی ان دونوں نسلوں کی جد ایک ہے۔ ہیپلو گروپ “جے” کے حامل یہ دونوں قبیلے ابراہیم کی نسل ہیں، لہذا یہ کہنا کہ مسلمانوں میں کوئی خاص قسم کی سپر پاور موجود ہے، حالات کا درست تجزیہ نہ کرنا ہے۔ صہیونی مسلمانوں کی مانند اپنے دین اور اس کی تعلیمات پر ایمان رکھتے ہیں، بلکہ میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ لوگ اپنی تعلیمات کی پیروی میں مسلمانوں کی نسبت زیادہ شدت پسند ہیں۔ یہ بات لکھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ ہمیں حالات کو جذباتی انداز سے نہیں بلکہ منطقی انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اصل چیز حق پر ہونا ہے، اگر مسلمان حق پر ہیں تو انھیں کسی بھی طاقت سے نہیں گھبرانا چاہیئے، اپنی بے سروسامانی کے باوجود ان کو حق کا پرچم سربلند رکھنا چاہیئے، کیونکہ ہمیں یہی تعلیم دی گئی ہے کہ آخری فتح حق کی ہوگی۔
میرے خیال میں اسرائیل اس وقت اہل غزہ کی ظلم کے خلاف قیام کی طاقت کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اہل غزہ سے وسائل زندگی چھین کر انھیں فکر معاش و حیات میں مبتلا کر دیا جائے۔ وہ حقوق، ریاست، اقتدار، قانون کی حکمرانی، آزادی نامی چیزوں کو بھول کر روٹی، پانی، دوائی، پرامن رہائش جیسے بنیادی مسائل سے دوچار ہو جائیں۔ حقوق کے نعرے اسی وقت انسان کے ذہن میں آتے ہیں، جب موخر الذکر وسائل کسی حد تک میسر ہوں۔ جب موخر الذکر اشیاء اور خود زندگی کو ہی خطرات درپیش ہو جائیں تو اجتماعی بہبود، فلاحی ریاست، اقتدار اعلیٰ اور آزادی جیسی باتیں بے معنی ہو جاتی ہیں، تاہم اسرائیل کو یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ وہ اہل غزہ کے ساتھ جو کچھ کر رہا ہے، یہ ایک مصنوعی تعطل ہے۔ کسی بھی مذہب یا انسانیت کی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتیں اور اسے یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ جونہی اہل غزہ دوبارہ بنیادی وسائل حاصل کرلیں گے، وہ اپنی تحریک آزادی و حقوق کو جاری رکھیں گے، خواہ نام حماس ہو یا جہاد فلسطین، یہ تحریک تھمنے والی نہیں ہے۔
Share this content: