×

انسان،کائنات اور قرآن

سید اسد عباس

انسان،کائنات اور قرآن

مدیر اعلی:

انسان اگر اشرف مخلوقات ہے اور اگر اس کا وجود کائنات میں حرکت وارتقا کے تسلسل کے نتیجے میں ہے تو پھر کائنات میں زمین سے ہٹ کر حیات کا وہ تصور جو اس زمین پرہے،کہیں اور بعید دکھائی دیتاہے۔’’انسان‘‘جوموجود کیفیت میں جسم وروح کی ترکیب سے تشکیل پایا ہے، کم ترحیات کی مختلف شکلوں اور جمادات کی مختلف صورتوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ حیات کی کم ترشکلیں بھی جمادات کے بغیر نہیں رہ سکتیں۔ لہٰذا کہیں بھی اورایسی زندگی کے لیے ایسی ہی سرزمین اور حیات کی ایسی ہی کم تر شکلیں (نباتات وحیوانات ) اورجمادات کا ایسا ہی سلسلہ ناگزیر ہے۔زمین پوری کائنات سے جدا نہیں ہے۔ نظام شمسی سے اس کا مختلف حوالوں سے تعلق ہے۔

سورج کے ساتھ اس کا تعلق پہلودار ہے۔ پھر یہ نظام شمسی ایک کہکشاں سے مربوط ہے اور پھراس کہکشاں کا تعلق ایک عظیم ترکائنات سے ہے۔لہٰذا حیات کی وہ شکل بلکہ اشکال جو ہماری زمین پر ہیں ، ان کا وجود اتنا سادہ اور منقطع نہیں ہے۔ ایسی حیات کے لیے ایسے ہی لوازم درکار ہیں۔قرآن حکیم میں ’’السماء ‘‘ کی جمع تو بارہاآئی ہے لیکن ’’الارض‘‘ کی جمع کہیں نہیں آئی۔
’’ وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مِّنْہُ‘‘ (جاثیہ۔۱۳)اور تسخیر سے متعلق ایسی ہی دیگر آیات کا اگر یہ مفہوم لیا جائے کہ ساری کائنات انسانی خدمت میں مصروف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان واقعاً اشرف المخلوقات ہے۔ ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ’’خدمت ‘‘ کا مفہوم کائنات کا مطالعہ کرنے والے انسان پر ابھی پوری طرح سے ہوید انہیں ہوا۔انسان اسی زمین سے ’’معراج‘‘ پر گیا ہے ۔ بقول اقبال :
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
شاید’’معراج مصطفی‘‘ اس طرف اشارہ ہوکہ اس زمین پر اللہ کی اعلیٰ ترین مخلوق بستی ہے جو بالقوۃ اور صلاحیت کے اعتبار سے ’’معراج ‘‘ کی لیاقت رکھتی ہے۔ شاید یہ اس طرف بھی اشارہ ہوکہ کہیں اور ایسی زندگی موجود نہیں ہے۔ملائکہ کاحضورِ انسانی میں حکم الٰہی پرسجدہ ریز ہونا، اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان اشرف مخلوقات ہے۔ تاہم ابلیس کا انکار اوراس کا انسان کی گمراہی کے درپے ہونا بلکہ ہمہ وقت گھات میں بیٹھے رہنا بتاتا ہے کہ انسان کی کامیابی کا راستہ ہموارنہیں ہے۔’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ‘‘ (التین۔ ۴)اور ’’ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ‘‘(بنی اسرائیل۔۷۰)جیسی آیات بھی انسان کی اشرفیت کی حکایت کرتی ہیں۔لہٰذا کسی عظیم تر مخلوق کا تصور ان آیات سے ہم آہنگ معلوم نہیں ہوتا۔ابتدائی سادہ نباتاتی حیات کے کچھ ہی دیر بعد انتہائی ابتدائی حیواناتی حیات کا وجود معقول ہے۔ یہ امر ناقابل تصور ہے کہ طرح طرح کے نباتات سے زمین لہلہا رہی ہو،رنگارنگ پھول اپنی بہار دکھارے ہوں، پھولوں کی مہک نے فضائوں کو معطر کردیا ہو، پھل دار درخت پھلوں سے لد گئے ہوں اور طرح طرح کے نباتات کی حیات اپنے جوبن پر ہولیکن حیوانی زندگی مفقود ہو۔تتلیاں، بلبلیں اور کوئلیں کچھ نہ ہو، بلکہ کیڑے مکوڑے بھی نہ ہوں۔ یہ ضروری ہے کہ رنگ دیکھنے کے لیے آنکھیں ،خوشبو سونگھنے کے لیے شامہ ،سبزیاں اور پھل کھانے کے لیے کوئی ایسی مخلوق جسے بھوک لگتی ہو، موجود ہو۔ طالب کے بغیر مطلوب کاوجود مہمل ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ قدرت وفطرت فیاض ہے لیکن باشعور بھی ہے۔ ہاں !تدریج ،ارتقا اور تکامل کاقانون بہرحال کائنات پر حاکم ہے اور اس کا ظہور سب سے زیادہ ہمیں اپنی زمین پر دکھائی دیتاہے۔ انسان کا آیاتِ انفس و آفاق میں غوروفکر اور ان کی شناخت کا سفر نہ فقط ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ ابھی ابتدا معلوم ہوتی ہے۔ ابھی تو آفاق میں ستاروں کا جہان انسان نے پوری طرح نہیں پہچانا بلکہ اس کے بارے میںاس کی معرفت ابھی بہت ہی کم ہے،چہ جائیکہ:
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
شاید مشاہدہ،عقل اوروحی کے مابین رابطے کا عملی مرحلہ ابھی دور ہے۔ انسان حالات کے تھپیڑے کھاتے کھاتے کسی دن ہو سکتا ہے اس مقام ارتکازو اتحاد تک پہنچ جائے۔ شعوری طور پر فطرت سے ہم آہنگ ہوکر چل پڑے تو ترقی کی مزلیں بہت تیزرفتاری سے طے ہوجائیں۔خارج میں ہماری مراد سائنس ،فلسفے اورقرآن کے درمیان شعوری اور عملی رابطے سے ہے۔ جو ’’وحی’’فکر وعقل کی حریت پر قد غن عائد کرے وہ جبریلی وحی نہیں، عزازیلی وسوسہ ہے ۔جبریلی وحی تو عقل کو جلابخشتی اور اس کی مدد کرتی ہے۔ نہ صرف انسانی فکر اور روح کے اجتماعی ارتقا کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ انسان کے اندر بھی جستجو کی تڑپ ابھی زندہ ہے، بلند پروازی کے ارمان بھی باقی ہیں۔ انسانی ارمانوں کو دیکھیں، زمین میں موجود خزانوں اورصلاحیتوں کودیکھیں،کائنات کی وسعتوں کو دیکھیں۔ ان سب کو دیکھیںتو معلوم ہوتاہے۔۔۔۔ ’’ابتدائے عشق ہے ‘‘۔ بقول اقبال:
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے، اب مرا انتظار کر
یہ بھی حقیقت ہے کہ عشق کے اس سفر میں، ہر منزل تازہ پر حیرت کا ساماں فزوں تر ہوتا چلا جاتا ہے اور عشق عمیق تر۔یہ سطور ’’انسان ،کائنات اورقرآن‘‘ پر غوروفکر اورمطالعے کے نتیجے میں بکھرے ہوئے چند نکات پرمبنی ہیں۔ انسانی فکر کا رہوار تھم گیا ہے اورنہ ان سب نتائجِ فکر کو حتمی کہا جاسکتا ہے ہاں یہ بات بہر حال حتمی ہے کہ: فَتَبَارَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔( مومنون۔۱۴)بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جو بہترین خالق ہے۔
زیر نظر شمارے میں رمضان المبارک کی مناسبت سے قرآن کریم سے مخصوص مضامین شائع کیے جارہے ہیں ۔ امید ہے ہماری یہ کاوش قارئین پیام کو پسند آئے گی۔

Share this content: