×

امام حسین علیہ السلام مولانا طارق جمیل کی نظر میں(1)

سید ثاقب اکبر

امام حسین علیہ السلام مولانا طارق جمیل کی نظر میں(1)

پاکستان کے انتہائی معروف خطیب اور مبلغ مولانا طارق جمیل اکثر و بیشتر اپنی تقریروں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ ان کی عظمت و محبت کا بڑی رقت قلبی سے اظہار کرتے ہیں۔ وہ خاص طور پر پُرتاثیر لہجے میں امام حسین علیہ السلام کو یاد کرتے ہیں اور ان کی شہادت کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ان کی نگرانی اور سرپرستی میں کچھ عرصہ پہلے ایک ضخیم کتاب بعنوان ’’گلدستۂ اہلِ بیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم‘‘ شائع ہوئی ہے۔


اس میں انھوں نے اہل بیت رسالت کے فضائل اور تاریخ کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ چوتھے باب کی ایک فصل امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ہے۔ کتاب کی اشاعت کا پس منظر بیان کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں: ’’خود میری ایک عرصہ سے تمنا تھی کہ حضرات اہل بیت کے مناقب اور سیرت کو تھوڑا تھوڑا بیان کیا جائے، تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے خدام اور ان سے محبت کرنے والوں میں ہمیں اٹھا لے اور ہماری بخشش کا سامان بن جائے۔‘‘

’’میری یہ تمنا اس وقت عزم مصمم میں بدل گئی جب میں 2006ء میں سید نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ملاقات کے لیے حاضر ہوا تو مولانا ظفر احمد قاسم صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ میں اپنے تبلیغی دوستوں کے ساتھ ملنے گیا، اس وقت ان کے کمرے میں مرید بھی تھے، کمرہ بھرا ہوا تھا۔ شاہ صاحبؒ کچھ شوگر کی زیادتی کی وجہ سے صاحب فراش تھے۔ مجھے دیکھا تو بیٹھ گئے، بڑے پیار سے ملے، بٹھایا اور اکرام فرمایا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد مجھ سے فرمایا: آپ کو جو اہل بیت سے محبت ہے اور جس طرح آپ ہر بیان میں اہل بیت کا تذکرہ کرتے ہیں، اس پر ہم آپ کو اپنی طرف سے بیعت کی اجازت دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے ساری محفل میں سناٹا چھا گیا تو میں نے عرض کیا: حضرت! میں تو تصوف کی الف، ب بھی نہیں جانتا تو پھر فرمایا کہ آپ جو اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور جس طرح آپ نے اپنے بیانوں میں ان کے تذکروں کو زندہ کیا ہے، اس پر ہم آپ کو چاروں سلاسل میں خلافت دیتے ہیں۔

فرمایا: بھائی! تم سب گواہ رہو کہ میں نے مولوی طارق جمیل صاحب کو چاروں سلسلوں میں خلافت دی ہے۔‘‘ ’’اور فرمایا: آج کل میرے اوپر غلبہ ہے اہل بیت کی سیرت کو لوگوں کے سامنے لانے کا، بلکہ میں اس سے اگلی بات کرتا ہوں کہ میں مجبور ہوں اس کو سامنے لانے کے لیے اور اگر زیادہ واضح کروں تو میں مامور ہوں سیرت اہل بیت کو لوگوں کے سامنے لانے کے لیے کہ ناصبیت (حضرات اہل بیت کی حق تلفی) بہت بڑھ رہی ہے، میرا جی جاہتا ہے کہ اہل بیت کی شان کو لوگوں کے سامنے بار بار بیان کیا جائے۔۔۔ یہ الفاظ تھے، جو حضرت نے ارشاد فرمائے تھے۔ ‘‘(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۷ و۸)

چوتھا باب ’’ائمہء اہلِبیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم کی سیرت و مناقب‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا گیا ہے۔ باب کا تعارف ان الفاظ میں کروایا گیا ہے: ’’اس باب میں امیرالمومنین حضرت علی بن ابی طالبؓ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کی سیرت ذکر کی جائے گی نیز ان حضرات حسنین کریمینؓ کی اولاد میں پیدا ہونے والے بعض مشہور ائمہ اہل بیت کی سیرت و مناقب کو ذکر کیا جائے گا کہ یہ حضرات ائمہ اہل بیتؒ اصحابِ فضل و کمال تھے اور علم و عرفان اور تقویٰ و ولایت کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ ان سے خلق کثیر نے علمی و روحانی فائدہ حاصل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مشائخِ تصوف کے اکثر سلسلے انہی ائمہ اہل بیت پر جاکر ختم ہوتے ہیں۔ (بحوالہ: التفسیرالمظہری۸/ ۳۲۰، وکذا ینظر فی ھذا المقام: آل رسول اللہ و اولیائوہ، ص:۱۸۳ حیث قال صاحبہ فیہ، علماء اھل البیت أمۃ اھل السنۃ ولم تأتَمَّ الشیعۃُ بامام ذی علم و زھد الا واھل السنۃ یأتمُّون بہ)

[اور اسی طرح اس مقام پر کتاب آل رسول اللہ و اولیاء وہ میں ص ۱۸۳ میں یہی بات لکھی گئی ہے، نیز صاحب کتاب نے لکھا ہے کہ علمائے اہل بیت اہل سنت کے بھی امام ہیں اور شیعوں کے نزدیک جو صاحبان علم و زہد امامت کا درجہ رکھتے ہیں، وہ اہل سنت کے نزدیک بھی امامت کا درجہ رکھتے ہیں۔(ترجمہ:ث ا)] (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۱۸۳) چنانچہ ان کی سیرت کا تذکرہ جہاں باعث برکت ہے، وہاں ان کی حیات طیبہ امت مسلمہ کے لیے مشعلِ راہ ہے کہ ان کی مبارک زندگیوں میں ہمارے لیے کئی دروسِ حیات پوشیدہ ہیں، جن کی روشنی میں ہم اپنی زندگی کے مختلف موڑوں پر راہنمائی لے سکتے ہیں۔‘‘ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۱۸۳) اس باب کی فصل دوم حضرت امام حسن علیہ السلام کے بارے میں ہے، جس کے آخر میں حضرت امام حسنؑ و حسینؑ کے مشترکہ فضائل و خصائص بیان کیے گئے ہیں۔ یہاں سے ہم چند عبارات اپنے قارئین کے لیے نقل کرتے ہیں:

(۱) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مَن أحبَّ الحسن والحُسين فقد أحبَّني، ومَن أبغضهما فقد أبغضني ’’جس نے حسن و حسین سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘ (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۲۱۳)
(۲) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا: آپ کے اہل بیت میں سے آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین سے۔ اور بسا اوقات آپﷺ حضرت فاطمہؓ سے فرماتے: میرے دونوں بیٹوں کو بلائو۔ پھر آپ ان کو سونگھتے (جیسے آدمی پھول سونگھتا ہے) اور انھیں اپنے ساتھ چمٹا لیتے۔
(۳) رسول اللہﷺ نے فرمایا: الحَسَنُ وَالحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَھُلِ الجَنَّۃِ ’’حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ (بحوالہ:سنن الترمذی:۵/۶۵۶)

(۴) حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ ایک رات کسی کام سے میں حضورﷺ کے دروازے پر حاضر ہوا۔ آپﷺ باہر تشریف لائے اور کسی چیز کو چادر میں چھپا رکھا تھا، مجھے نہیں پتہ چل سکا کہ وہ کیا چیز ہے؟ جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو میں نے پوچھ ہی لیا کہ یارسول اللہ! یہ کیا چیز آپ نے چادر کے اندر لے رکھی ہے؟ آپﷺ نے کپڑا ہٹایا تو وہ حضرت حسنؓ و حسینؓ تھے، جو آپﷺ کے اوپر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپﷺ نے کہا: یہ میرے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ پھر فرمایا: اللَّھُمَّ اِنِّی أُحِبُّھُمَا فَأَ حِبَّھُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّھُمَا ’’اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما اور جو ان سے محبت کرے تو ان سے بھی محبت فرما۔‘‘ (بحوالہ:سنن الترمذی ت شاکر:۵/۶۵۷،۶۵۶)(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۲۱۲و۲۱۳)

(۵) جب یہ آیت {إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراً} نازل ہوئی تو آپﷺ نے حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ و رضوانہ علیہم کو بلایا اور انھیں اپنی چادر کے نیچے کر لیا اور حضرت علی سلام اللہ و رضوانہ علیہ آپﷺ کے پیچھے کھڑے تھے، آپﷺ نے ان کو بھی اپنی چادر کے نیچے کرلیا، پھر فرمایا: ’’اے اللہ! یہ (بھی) میرے اہل بیت ہیں۔[اصل عبارت یوں ہے: اَلّٰلھُمَّ ھٰوٴُلٰاءِ اَھْلُبَیْتِیْ اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے: یااللہ یہ ہیں میرے اہل بیت (ث ا)] آپ ان سے گندگی کو دور رکھیے اور انھیں مکمل پاکیزگی عطا فرمائیے۔ (بحوالہ:سنن الترمذی ت شاکر:۳/۳۵۱)
(۶) حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیت{فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَآءَنَا وَأَبْنَآءَكُمْ} نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین سلام اللہ رضوانہ علیہم کو بلایا، پھر کہا: اللَّھم ھولاء اھلی ’’اے اللہ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ (بحوالہ:صحیح مسلم:۱۸۷۱) (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۲۱۵)

اس باب کی فصل سوم حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ہے۔ امام حسینؑ کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: آپ کا نام ’’حسین‘‘ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا۔ آپؓ سے پہلے یہ کسی کا نام نہیں تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کے ’’حسن‘‘ اور ’’حسین‘‘ نام رکھنے تک یہ دونوں نام لوگوں سے پہلے مخفی رکھے۔(بحوالہ: اسد الغابۃ ط العلمیۃ:۲/۱۳) آپؓ ’’ریحانۃ النبیﷺ‘‘ (حضورﷺ کے پھول) (بحوالہ: اسد الغابۃ ط العلمیۃ :۲/۲۴) اور ’’سبط رسول اللہﷺ‘‘ (نواسہ رسول) (بحوالہ: سیر اعلام النبلاء ط الرسالۃ:۳/۲۸۰) کے معزز القابات سے مشہور ہیں۔ آپ اپنے بھائی حسن سے تقریباً ایک برس چھوٹے تھے، آپ کی پیدائش ۵ شعبان المعظم سن ۴ھ میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔ [مشہور تاریخ ولادت ۳شعبان المعظم ہے۔ث ا]۔(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۳۳)

حلیہ مبارک ان الفاظ میں درج کیا گیا ہے: آپ کا درمیانہ قد تھا، نہ بہت لمبا اور نہ ہی بہت کوتاہ۔ پیشانی کشادہ، داڑھی گھنی اور سینہ مبارک فراخ تھا۔ دونوں کندھے اعتدال کے ساتھ بڑے اور ہڈیاں بڑی و مضبوط تھیں۔ ہتھیلیاں اور قدموں کے تلوے قدرے کشادہ تھے۔ بال گھنگھریالے اور بدن خوب گٹھا ہوا اور سرخی مائل سفید تھا۔ داڑھی مبارک پر ’’وَسمہ‘‘ کا خضاب لگاتے تھے [’’وسمہ‘‘ایک بوٹی ہے جس کے پتوں سے بالوں کو سیاہ (یا بقول بعض سیاہی مائل) خضاب کیا جاتا ہے۔](بحوالہ:عمدۃ القاری:۱۶/۲۴۱، وکذا اختارہ ابن حجر فی موضع من فتح الباری لابن حجر:۷/ ۹۶، بینما ذھب فی موضع آخرمنہ:۱/ ۲۰۵ الی انہ نبت یخضب بورقہ الشعر اسود کما سیاتی) خضاب کیا جاتا ہے۔] (گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۳۴) (بحوالہ:النھایۃ فی غریب الحدیث والاثر:۵/۱۸۵، ولسان العرب:۱۲/۶۳۷،ومجمع بحار الانوار:۵/۵۴، وفتح الباری لابن حجر:۱/۲۰۵) آپؓ خوبصورت بدن کے ساتھ ساتھ خوبصورت آواز کے بھی مالک تھے اور آپؓ کی آواز میں جہاں سوز و ترنم تھاو وہاں گرج بھی تھی۔ آپؓ کی مبارک زلفیں، عمامہ کے نیچے سے ظاہر ہوتی تھیں۔ (بحوالہ:المعجم للطبرانی ۳/ ۱۰۰ و سیر اعلام النبلاء ۳/ ۲۹۱)(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۳۵)

حضرت حسینؓ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کے زیر عنوان لکھتے ہیں: کبھی آپؓ کو، حضورﷺ اور جبریل علیہ السلام کی ہم نشینی کا شرف حاصل ہو رہا ہے،(بحوالہ:سیر اعلام النبلاء ط الرسالۃ:۳/۲۸۹واسنادہ حسن) کبھی آپؓ حضورﷺ کی گود میں ہیں،(بحوالہ:مسند ابی یعلی الموصلی:۹/۲۵۰) کبھی ا ن کے ساتھ منبر رسول پر بیٹھے ہیں،(بحوالہ:سنن ابی دائود:۱/۲۹۰،و سنن النسائی:۳/۱۰۸) اور کبھی آپﷺ کے ساتھ مدینہ کی گلیوں میں معصومانہ ادائوں میں مشغول ہیں۔ (بحوالہ:سنن ابن ماجہ:۱/۵۱) کبھی ان کو حضورﷺ نے اپنے قدموں پر کھڑا کر رکھا ہے۔ (بحوالہ:فضائل الصحابۃ لاحمد بن حنبل:۲/۷۸۷) تو کبھی کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔ (بحوالہ:مسند احمدط الرسالۃ:۱۵/۴۲۰)

کبھی وہ سفر میں آپﷺ کے ساتھ ہیں۔ (بحوالہ:مجمع الزوائد ومنبع الفوائد:۹/۱۸۰) تو کبھی مسجد میں آپﷺ کے ہمراہ۔ (بحوالہ:مسند احمد ط الرسالۃ:۱۶/۳۸۶) کبھی آپﷺ ان پر دم کر رہے ہیں۔ (بحوالہ:سنن ابی دائود:۴/۲۳۵،و مسند احمد:۴/۲۰) تو کبھی ان کو بلوایا جا رہا ہے۔ (بحوالہ: سنن الترمذی:۵/۶۵۸، والمستدرک للحاکم:۳/۱۹۶) کبھی ان کو اپنی چادر کے اندر لپیٹ رکھا ہے۔ (بحوالہ:سنن الترمذی ت شاکر:۵/۶۵۶) تو کبھی سینے سے چمٹایا ہوا ہے۔ (بحوالہ:مسند احمد:۲۹/۱۰۴، ومجمع الزوائد:۹/۱۸۰) کبھی ان کو اپنے ساتھ خچر پر بٹھا رکھا ہے۔ (بحوالہ:صحیح مسلم:۴/۱۸۸۳) کبھی خود اپنی پیٹھ پر سوار کر رکھا ہے۔ (بحوالہ:مجمع الزوائد:۹/۱۸۲، ومسند ابی یعلی:۹/۲۵۰)(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۳۶و۳۳۷)

’’حضرت حسینؓ خلفائے راشدین کے زمانہ میں‘‘ کے عنوان سے لکھتے: خلیفۂ اول حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زمانے میں حضرت حسینؓ ابھی بچے تھے، مگر اس کے باوجود حضرت ابو بکرؓ ان کا بہت احترام و تعظیم کرتے تھے۔ (بحوالہ:البدایۃ والنھایۃ ط ہجر:۱۱/۴۷۶) وہ مزید لکھتے ہیں: خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ بھی آپ کی کم سنی کے باوجود آپؓ سے حد درجہ محبت اور آپؓ کا بہت احترام کرتے تھے۔ (بحوالہ:البدایۃ والنھایۃ ط ہجر:۱۱/۴۷۶)(گلدستہ اہل بیتؑ:ص ۳۳۸)
نوٹ: راقم نے اپنی عبارتیں بڑی قوسین [] میں لکھی ہیں نیز آخر میں (ث ا) لکھا گیا ہے۔ باقی تمام عبارتیں جن میں قوسین کے اندر موجود عبارتیں بھی شامل ہیں، اصل کتاب سے من و عن نقل کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ راقم کے مضمون کی عبارتیں واضح طور پر جدا موجود ہیں۔ حوالہ جات بھی کتاب ’’گلدستۂ اہلِ بیت سلام اللہ و رضوانہ علیہم‘‘ ہی سے درج کیے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share this content: