الزامات کی دھول سے اٹا محسن پاکستان
ڈاکٹر عبد القدیر خان، آخر کار اپنی مجاہدانہ زندگی کو خیر باد کہ کر آج 10 اکتوبر 2021ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کا تعلق پشتونوں کی معروف نسل یوسفزئی سے تھا۔ عبد القدیر خان 1936ء میں بھوپال ہندوستان میں پیدا ہوئے، ان کے والد عبد الغفور ایک سکول ٹیچر تھے۔ خان صاحب کے خاندان کے کئی افراد تقسیم ہند کے وقت پاکستان آگئے تھے، تاہم قدیر خان اپنے والد کے ہمراہ ہندوستان ہی رہے۔ بھوپال سے ہی ڈاکٹر قدیر نے میٹرک کیا، تاہم 1952ء میں وہ پاکستان آگئے۔ ڈاکٹر قدیر جو اس وقت فقط قدیر خان تھے، انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے فزکس میں بی ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ وہ کچھ عرصہ کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں انسپکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے۔ ملازمت کا یہ سلسلہ مغربی جرمنی سے سکالرشپ ملنے تک جاری رہا۔
1961ء میں ڈاکٹر قدیر خان برلن میں قائم ٹیکنیکل یونیورسٹی میں میٹریل سائنس کے طالب علم کی حیثیت سے داخل ہوئے۔ 1965ء میں ڈاکٹر قدیر خان جرمن یونیورسٹی سے ہالینڈ کی یونیورسٹی میں چلے گئے، جہاں انہوں نے میٹیرئیل ٹیکنالوجی میں انجینئیرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر قدیر نے اس کے بعد بیلجیم یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ پروگرام میں داخلہ لیا۔ 1972ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے ڈاکٹر آف انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ اسی برس ڈاکٹر قدیر کو ایک ریسرچ لیبارٹی میں ملازمت مل گئی۔ ایف ڈی او کو چھوڑنے کے بعد ڈاکٹر قدیر یورینکو نامی گروپ کا حصہ بن گئے، جو یورینیم کی افزودگی پر تحقیقی کام کر رہا تھا۔ 1974ء میں جب بھارت نے نیوکلیائی تجربہ کیا تو ڈاکٹر عبد القدیر خان کی حب الوطنی بیدار ہوئی اور وہ پاکستان کی ایمبیسی میں پہنچ گئے، جہاں کے مسئولین نے انھیں بتایا کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں ملازمت ملنا آسان کام نہیں ہے۔
اگست 1974ء میں انھوں نے ایک خط پاکستانی ایمبیسی کو لکھا، جس پر توجہ نہ دی گئی۔ دوسرا خط ڈاکٹر قدیر نے پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو لکھا۔ اس وقت پاکستان میں منیر احمد خان کی سربراہی میں خفیہ طور پر ایٹم بمب کی تیاری پر کام ہو رہا تھا، تاہم یہ کام یورینیم افزودگی نہیں بلکہ پلوٹونیم کو ہتھیاروں کی تیاری کے لیے استعمال کرنے سے متعلق تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ڈاکٹر قدیر کے سکیورٹی چیک کے لیے ایک ٹیم روانہ کی اور اسی طرح ایک ٹیم ڈاکٹر قدیر خان سے ملی اور ان کو پیغام دیا کہ وہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے اسلام آباد میں ملیں۔ ڈاکٹر قدیر پاکستان آئے اور سیدھا وزیراعظم ہاؤس پہنچ گئے۔ وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہونے والی اس نشست میں غلام اسحق خان، آغا شاہی اور مبشر حسن بھی موجود تھے۔ اس نشست میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے افزودہ یورنیم کے فوائد پر روشنی ڈالی اور یہ نشست ذوالفقار علی بھٹو کے ان الفاظ پر ختم ہوئی کہ اس کی بات میں وزن ہے۔
1976ء میں ڈاکٹر عبد القدیر خان تمام درکار معلومات کے ہمراہ پاکستان تشریف لے آئے اور پاکستان کے اٹامک پروگرام کا حصہ بن گئے، تاہم جلد ہی وہ اس تحقیقی کام سے متنفر ہوئے اور انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو لکھا کہ موجودہ تحقیقی کام کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے گا، مجھے یورینیم کی افزودگی کے لیے کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھی، جس کی سربراہی ڈاکٹر عبد القدیر خان کو سونپ دی گئی۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے ساتھی سائنسدانوں کی مدد سے 1984ء کے لگ بھگ آخر کار یورینیم کو ہتھیار کے لیے افزودہ کر لیا۔
ڈاکٹر قدیر خان کی زندگی ہمیشہ مشکلات سے دوچار رہی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈاکٹر قدیر میڈیا کے سامنے اپنا موقف بیان کرنے میں مہارت رکھتے تھے، حکومت کے نہ چاہنے کے باوجود انھوں نے متعدد مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ پاکستان ایٹم بمب بنانے کے قابل ہوچکا ہے۔ اداروں کی سیاست یا کسی اور وجہ سے پاکستان میں کچھ ایسا ہوا کہ ڈاکٹر قدیر خان کو ایٹمی پروگرام سے الگ گر دیا گیا اور ان کی جگہ نئے چہرے لائے جانے لگے۔ حتی کہ پاکستان میں ایٹمی دھماکوں کے فیصلے کا وقت آگیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے وقت ڈاکٹر عبد القدیر خان نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے خلاف ایک قانونی جنگ لڑی، جس میں ان کا موقف تھا کہ ایٹمی دھماکے کا موقع ان کے ادارے کے آر ایل کو دیا جانا چاہیئے۔
2000ء میں پاکستان ڈیفنس جرنل (پاکستان کا دفاعی مجلہ) میں شائع ہونے والی ان کی بیوروکریسی کے خلاف جنگ کی تفصیلات کے مطابق ڈاکٹر اے کیو خان نے مئی 1998ء کے دوسرے ہفتے میں کابینہ کی دفاعی کمیٹی کے سامنے اپنا کیس پیش کیا۔ رپورٹ کے مطابق انھوں نے زور دیا کہ کے آر ایل پوری طرح سے تیار ہے اور اگر کابینہ کی دفاعی کمیٹی حکم دے تو دس دن کے اندر جوہری دھماکے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی رپورٹ میں ڈاکٹر عبد القدیر خان نے لکھا کہ کے آر ایل ہی تھا جس نے پہلی بار یورینیم افزودہ کی، اسے دھات میں بدلا، نیم دائروں میں دھات کو مشین میں ڈھالا اور اپنی قسم کے جوہری بم کی شکل دی اور پھر اپنے طور پر اس کے کولڈ ٹیسٹ (کمپیوٹر پر جوہری دھماکوں کو جانچنے کا طریقہ) کئے۔
ڈاکٹر قدیر خان نے اس بات پر زور دیا کہ یہ سب کامیابیاں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی کسی مدد کے بغیر حاصل ہوئی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ جوہری شعبے میں کے آر ایل مکمل طور پر خود مختار تھا۔ ڈاکٹر خان نے اس حد تک کہا کہ چونکہ پاکستان کے لیے جوہری شعبے میں پہلی رسائی کے آر ایل کی وجہ سے ہوئی تھی، لہذا پاکستان کے پہلے جوہری دھماکوں کو انجام دینے کا اعزاز بھی اسے ہی ملنا چاہیئے اور اگر ایسا نہ ہوا تو یہ ادارہ مایوسی اور بددلی محسوس کرے گا۔ بہرحال جو کچھ ڈاکٹر قدیر اور پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے مابین ہوا، آج پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے۔ شاید یہ حقائق کبھی دنیا کے سامنے نہ آئیں، جیسا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا کراچی کی سڑک پر پیڑول کے انتظار میں ایمبولنس میں ایڑیاں رگڑنا، لیاقت علی خان کا قتل، فاطمہ جناح کا صدارتی دوڑ میں شکست کھانا، تقسیم پاکستان، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی، ضیاء الحق کا قتل، بے نظیر بھٹو کا قتل ہمیشہ کے لیے ماضی کے دھندلکوں میں کھو چکے ہیں۔
ڈاکٹر قدیر خان پر پرویز مشرف کے دور میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی کو پھیلانے کا الزام لگا، جس کو انھیں ٹی وی پر آکر قبول کرنا پڑا۔ پرویز مشرف نے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو گرفتار تو نہ کیا، تاہم ان کو نظر بند کر دیا گیا۔ ڈاکٹر قدیر اپنے ساتھ رکھے جانے والے رویہ کے بارے بہت پریشان تھے، تاہم انھوں نے پاکستان کے مفاد کو اپنے ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں ڈاکو، چور آزاد ہیں اور وطن کو مجھ سے خطرہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ مناسب وقت پر میں بتاؤں گا کہ کس کے کہنے پر سنٹری فیوج ٹیکنالوجی کے بارے کچھ ملکوں کو آگاہ کیا۔ ان کے الفاظ تھے کہ میں نے جو پاکستان کو دے دیا ہے، وہ کافی ہے، اب میں مزید کچھ نہیں دوں گا، جو دیا ہے اسی جرم کی سزا کاٹ لوں کافی ہے۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ کاش میں کسی یونیورسٹی میں پڑھاتا اور یہ سب نہ کرتا، جو میں نے کیا ہے۔
حکومت پاکستان نے ان کو اگرچہ بہت سے اعزازات سے نوازا ہے، تاہم زندگی کے آخری ایام میں ان کی مایوسی ایک ایسا المیہ ہے، جس سے پاکستان کے تقریباً ہر محسن کو گزرنا پڑتا ہے۔ اسی مایوسی کی کیفیت سے یقیناً قائد اعظم محمد علی جناح کراچی کی دھوپ میں کھڑی ایمبولنس کے اسٹریچر پر لیٹے ہوئے گزرے ہوں گے، فاطمہ جناح نے بھی سوچا ہوگا کہ کیا اس پاکستان کے لیے ہم سب نے یہ قربانیاں دیں تھیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کی شخصیت پر لگنے والے الزامات اور ان کے حوالے سے اٹھائے اعتراضات کی پرچھائیوں کو ان کی شخصیت سے جدا کیا جائے، تاکہ آئندہ بھی کوئی شخص پاکستان کی خاطر اپنی زندگی وقف کرتے ہوئے تذبذب کا شکار نہ ہو۔ اگر پاکستان کی خدمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ احسان کرنے والا زندگی کے آخری حصے میں ذلت سے دوچار ہو تو یہ بھی بتایا جائے، تاکہ پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ وقف کرنے والا شخص اس کے لیے آمادہ رہے۔
Share this content: