ہوگو شاویزہمیشہ زندہ رہے گا
سیدہ تسنیم اعجاز
تاریخ میں ایسے راہنما بہت کم پیدا ہوتے ہیں جنھیں عوام اپنا راہنما تسلیم کریں اور جان و دل نچھاور کرنے کے لیے ہمہ وقت آمادہ رہیں۔ ایسے ہی چیدہ راہنمائوں میں ہوگو شاویز ایک چمکتے ہوئے ستارے کی مانند افق سیاست پر نمودار ہوئے جو ہر آمریت سے بے خوف اور عوامی محبت کے جذبے سے سرشار تھے۔ عوام کی ناگفتہ بہ حالت کو سنوارنے کی سچی لگن اورخلوص نے انھیں بہت جلد ہر دلعزیز لیڈر بنا دیا تھا۔
ہوگو شاویز جولائی 1954 میں پیدا ہوئے۔ وینزویلا اکیڈمی آف ملٹری سائنسز(Venezuelan Academy of Military Sciences) سے 1975 میں ملٹری آرٹس اینڈ سائنسز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد آرمی آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے۔ اس وقت وینز ویلا کے معاشی اور سیاسی حالات بہت کشیدہ تھے سرمایہ دار طبقہ خوشحال تھا جن کے ہاتھوں عوام بدحالی کا شکار تھے۔ 1992 میں شاویز نے اپنے دیگر ملٹری ممبرز کے ہمراہ مل کر کارلس اینڈزپیرز کی حکومت کے خلاف بغاوت کردی یہ بغاوت ناکام ہو گئی جس کے نتیجے میں شاویز کو دو سال قید کاٹنا پڑی۔ بعدازاں انھوں نے عوامی سیاسی تحریک کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ 1998 میں حکومت کی کرپشن جھوٹ اور دھوکہ دہی کو بے نقاب کرتے ہوئے عوام کو معاشی حالات بدلنے کے لیے اعتماد میں لیا۔
شاویز بلا کے صاف گو بہادر اور انتہائی مخلص عوامی راہنما تھے۔ 1998 کے عام انتخابات میں شاویز بھاری اکثریت سے کامیاب ہو کر اقتدار میں آئے۔
صدر بننے کے بعد انھوں نے وینز ویلا کے لیے نیا آئین تشکیل دیا اور ملک کا نام بالیویرین ریپبلک آف وینز ویلا (Bolivarian Rebublic of Venezuela) رکھا۔
انھوں نے ہمیشہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی۔ امریکا کی دنیا بھر میں فوجی آمریت کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہو کر امریکا کے صدر ڈبلیو چارج بش کو شیطان آمر کہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ پر حاکم نظام اور مظلوم امریکی عوام(1) https://albasirah.com/urdu/america-pr-hakim-nizam-r-mazloom-americi/
2001ء میں شاویز نے بش انتظامیہ کو دہشت گرد قرار دیا اور 2002کی بغاوت کا الزام بھی امریکا پر لگایا جس کے جواب میں شاویز پر سیاسی عرصہ حیات اس قدر تنگ کردیا گیا کہ انھیں صدارت سے علیحدہ ہونا پڑا لیکن دلوں پر حکومت کرنے والے شاویز کو عوام بہت جلد واپس اقتدار میں لے آئے۔ صدر شاویز کا چرچ کے راہنمائوں سے بھی اختلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چرچ کے راہنما امرا کی جی حضوری میں لگے رہتے ہیں جس کی وجہ سے غریبوں کی حق تلفی ہوتی ہے اور امرا کو غریب عوام کو دبانے کا سرٹیفکیٹ مل جاتا ہے۔
شاویز نے صدر بننے کے بعد کیوبا کو تیل کی سپلائی شروع کی اور امریکا کو کولمبیا کی غیر قانونی منشیات فروشی کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے مصر میں امریکی مداخلت کو بھی شرمناک اور منافقانہ قرار دیا تھا۔ ایران کے ساتھ بھی وینزویلا کے تعلقات مثالی رہے ہیں ہوگو شاویز نہ صرف ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کے حامی تھی بلکہ ایران کے ساتھ کئی ایک تجارتی اور اقتصادی معاہدے بھی کرچکے تھے۔
شاویز نان الائنڈ موومنٹ (غیر جانبدار تحریک) کے سرگرم رکن تھے جس میں کیوبا ایران اور افریقہ کی کئی ریاستوں سمیت 100ممالک شامل ہیں جس کا حالیہ چیئرمین (صدر) ایران ہے۔
شاویز سے سرمایہ دار طبقہ ہمیشہ نالاں رہا کیونکہ انھوں نے تیل کی ساری آمدن بھی عوامی فلاح وبہبود پر خرچ کرنا شروع کردی تھی اور اپنی وفات تک مسلسل تیسری مرتبہ جمہوری صدر منتخب ہوئے۔
ہوگوشاویز کا کہنا تھا کہ عوام کی طاقت اور سوشلسٹ معیشت سے وہ عوام کی تقدیر بدل دیں گے اور وینز ویلا سرمایہ داروں کا قبرستان ثابت ہوگا پر افسوس کہ زندگی نے وفا نہ کی اور یہ چمکتا ہوا ستارہ عوام کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ آمریت کی آنکھوں میں کھٹکنے والا کانٹا اور عوام کا مخلص دوست انھیں آبدیدہ چھوڑ کر چلا گیا لیکن ہوگو شاویز عوام کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ان کی وفات پر عوام کا نعرہ یہی تھا کہ ہم سب ہوگو شاویز ہیں۔
اس موقع پر نائب صدر نکولس مادورو کا کہنا تھا کہ شاویز کی بیماری امریکا کی سوچی سمجھی سازش تھی۔ اسی طرح کا ایک بیان ایرانی صدر احمدی نژاد نے بھی دیا جس میں انھوں نے کہا کہ شاویز کوشہید کیا گیا ہے تاہم ابھی تک پتا نہیں چل سکا کہ یہ کس طرح ممکن ہوا ہے۔
ہوگو شاویز کے چلے جانے سے جہاں وینزویلا کے عوام ایک نڈر بہادر اور مخلص راہنما سے محروم ہوئے ہیں وہاں دنیا بھر کی سچی قیادت میں پیدا ہونے والے خلاء کو شدت سے محسوس کیا گیا ہے البتہ اس میں شک نہیں کہ ہوگو شاویز آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے لیے ہمیشہ ایک مثال رہیں گے اور جلد ہی استعماری سازشوں کا شکار اور ستم رسیدہ اقوام ان سے جرأت کا درس لے کر اپنے مقدر کے فیصلے خود کرنا سیکھیں گی اور یوں ہوگو شاویز ہر سچے راہنما کی طرح ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
Share this content: