حضرت علی (ع) کی اسلام میں سبقت
احادیث اور اقوال علما ء کی روشنی میں
استخراج و انتخاب : سید ثاقب اکبر
(۱) مورخ علامہ جلال الدین سیوطی : ولم یعبد الاوثان قط (تاریخ الخلفاء (ص۱۱۳) ۔
ترجمہ: حضرت علی نے کبھی بھی بت پرستی نہیں کی ۔
خود حضرت رسول خدا نے اعلان فرمادیا تھا : ۔
(۲) ثلاثہ ماکفر واباللہ قسط مومن آل یاسین وعلی ابن ابی طالب و آسیہ امراۃ فرعون (تفسیر درمنشور جدل ۵ (ص ۲۶۲) مطبوعہ مصر۔
ترجمہ: تین شخصوں نے کبھی کفر اختیار نہیں کیا ۔ ایک مومن آل یاسین دوسری علی ابن ابی طالب تیسری آسیہ فرعون کی بیوی ۔
(۳) کنت اناوعلی نور آئیبن یدے اللہ تعالیٰ قبل ان یخلق آدم باربعہ عشرالف عام (ریاض نفرہ جلد ۲ (۱۶۴)۔
ترجمہ: ولادت حضرت آدم کے چودہ ہزار سال پہلے سے میں اور علی خدا کے سامنے ایک نور کی صورت میں رہتے تھے ۔
(۴) قال ابو طالب لعلی ماہذ الدین الزی انت علیہ ۔ قال یاابت آمنت باللہ و بروسولہو صلیت معہ فقال امانہ لاید عونا الی الخیر فالزمہ ۔
علامہ طبرسی وعلامہ اشیر (تاریخ طبری جلد ۲ (۲۱۳ ) تاریخ کامل جدل ۲ (۲۱) ۔
ترجمہ: جناب ابو طالب نے حضرت علی سے پوچھا کہ بیٹا یہ کون سا مذہب ہے ؟ تو حضرت علی نے فرمایا ائے با با میں خدا اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں اور آنحضرت کے ساتھ نماز پڑھتاہوں ۔ جناب ابوطالب نے کہا ہاں وہ ہم لوگوں کو اچھے ہی دین کی طرف بلاتے ہیں تم ضرور حضرت کے ساتھ رہو ۔
(۵) ربی فی حجہ النبی (ص) ولم یفارقہ (اصابہ جلد ۴(ص ۲۶۹)
ترجمہ: حضرت علی نے حضرت رسول خدا کی گود میں پرورش پائی اور کسی وقت حضرت سے جدا نہ ہوئے ۔
(۶) جناب مولوی عبید اللہ صاحب نے بھی لکھا ہے ۔
عن جابرین عبداللہ قال قال رسول اللہ ثلاثہ ماکفر واباللہ قسط مومن آل یاسین وعلی ابن ابی طالب وآسیہ امراہ فرعون(اخرجہ ابن عدی وابن عساکر و یسوطی فی الدر المنشور ) ۔
ترجمہ: جابر سے منقول ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’تین شخصوں نے کفر نہیں کیا مومن آل یاسین (حضرت یوشع پر ایمان لانے والا ) اور علی ابن ابی طالب اور آسیہ فرعون کی بیو ی ۔
(۷) عن الحسن بن مداینی قال لایعبد الاوثان قسط اصغر ومن ثمر یقال کرم اللہ وجھہ دون غیرہ من الصحابہ (اخرجہ ابن سعد نی طبقات وابن البرفی الاستعبات و شیخ قاصعہ بن قطلوق منسو ہ المشہور ، بمسدابی حنفیہ ) (نزل الابرار علامہ بدخشی ) (ارجح المطالب (ص۴۰۱)۔ فی الاستعیاب ، فی مسند
ترجمہ: حسن بن مدانینی کہتے ہیں کہ جناب امیر نے بچپن ہی سے ہر گز بتوں کی پرستش نہیں کی اسی وجہ سے ان کو کرم اللہ وجھہ کہا جاتا ہے یعنی خدا نے ان کے چہرے کو مکرم اور باتکریم کیا تھا کہ وہ بتوں کے آگے کبھی نہیں جھکے اور یہ لقب ان کے سوا اور اصحاب کے حق میں نہیں بولا جاتا ۔
(۸) ان الملائکہ ’’صلت علی وعلی علے سبع سین قبل ان یسلم بشر (کنزل العمال جلد ۶ (ص۱۵۶۔
ترجمہ : رسول اللہ (ص) نے فرمایا ’’کسی شخص کے مسلمان ہونے سے سات بر س پہلے سے فرشتے مجھ پر اور علی پر درود بھیجتے رہے ہیں ۔ ‘‘
(۹) اول من صلے /علی (کنزل العمال جلد ۶ (ص ۱۵۶) ۔ اول من صلحے معی علی
ترجمہ: رسول اللہ (ص) نے فرمایا ’’سب سے پہلے علی نے میر ے ساتھ نماز پڑھی ‘‘۔
(۱۰) قال رسول اللہ لقد صلت الملائکہ علے وعلے لانا کنا نصلی لیس معنا احد یصلی غیرنا (ریاض نضرۃ جلد ۲(ص۱۶۵)
ترجمہ : رسول اللہ نے فرمایا کہ ’’یقینا فرشتے مجھ پر اور علی پر برابر درود بھیجتے رہے ہیں کیونکہ ہم دونوں اس وقت سے نماز پڑھتے ہیں جب اور کوئی ہمارے ساتھ نماز نہیں پڑھتا تھا ‘‘۔
(۱۱) وکان قصی این کلاب ینھی عن عبادہ تغیر اللہ من اصنام وھوا القائل ادبا و احدام الف رب اذین اذا تعسمت الامور ترکت الات والغریٰ جمیعا کذالک یغعل الرجل البعیر (طل و نحل ج ۳ (۲۳۵) ۔
ترجمہ: جناب قصی بن کلاب (ہاشم کے داد ا ) خدا کے سوا دوسروں خاص کر بتوں کی عبادت سے منع کر تے تھے انہوں نے یہ شعر کہے تھے ۔ جب امور کی تقسیم ہو تو میں ایک معبود کو مانوں یا ہزار معبودوں کو میں نے لات اور عزمی (بلکہ) سب بتوں کو چھوڑ دیا اور جو شخص سمجھ دار ہو گا ایسا ہی کرے گا ۔
(۱۲) قال رسول اللہ تسیلہ اسرے بی الی السماء نظرت الی ساق العرش الامین فرائیت کتابافھمہ محمد رسول اللہ ایت بعلی ونعت بہ (ریاض نضر ہ جلد ۲ ص ۱۷۲)
ترجمہ : حضرت رسول اللہ فرماتے تھے کہ میں شب معراج میں آسمان کی طرف گیا تو عرش کے داہنے پائے کی طرف نظر کی اس پر کچھ لکھا ہو اتھا سمجھا تو یہ مضمون تھا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور علی کے ذریعہ سے میں نے ان کو مضبوط کیا اور انہیں علی سے مد دکی ۔
(۱۳) ابن اسحاق کی کتاب کثرت سے پھیلی اسی کتاب کو ابن ہشام نے زیادہ مفتح اور اضافہ کر کے مرتب کیا جو سیر ت ابن ہشام کے نام سے مشہور ہے ۔ ابن ہاشم نہاتے ثقہ اورنامور مصدث اور مورخ تھے ۲۱۳میں وفات پائی (سیرت النبی مولانا شبلی جلد ص ۷۱)۔
اسی علامہ نے لکھا ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ پھر حضرت علی نے ایمان قبول کیا حضرت کے بعد زید بن حارثہ اور ان کے بعد حضرت ابوبکر مسلمان ہوئے حضرت امیر المومنین کے بارے میں لکھا ہے ۔ کان اول ذکر من الناس آمن بروسل اللہ وصلے وصدق بما جاء ہ من اللہ تعالی علی ابن ابی طالب (سیر ت ابن ہشام برھاشیہ زادالمعاد جلد ص ۱۳۲)
ترجمہ : مردوں میں سب سے پہلے علی ابن ابی طالب آنحضرت پر ایمان لائے اور حضرت کے ساتھ نماز پڑھی اور جو جو دعوے آنحضرت نے فرمایا تھا سب کی تصدیق کی ۔
(۱۴) خدیجہ اول خلق اللہ اسلم باجماع المسلمین محمد علی ابن ابی طالب ومن ثمہ نقل عنہ ہنہ قال سبقتکمو الی الاسلام طرا۔ صغیر امابلفت اوان علمی (سیرۃ جلیہ علامہ علی بن برہان الدین ابحلی جلد ص (۳۶۹)۔
ترجمہ: مسلمانوں کا اس بات پر اجما ع ہے کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ مسلمان ہوئیں پھر حضر ت علی ابن ابی طالب نے اسلام قبول کیا اسی وجہ سے یہ حضرت نے یہ شعر فرمایا ہے کہ اسے مسلمانو ! میں تم سب لوگوں سے پہلے مسلمان ہو اس وقت میں کم سن تھا اور حد بلوغ تک بھی نہیں تھا‘‘۔
(۱۵) ثمہ اسلم من الصحابہ ابو بکر صدیق (سیر ہ حلیہ جلد ص ۲۷۳۔)
ترجمہ: حضرت علی کے بعد صحابہ میں حضرت ابو بکر مسلمان ہوئے ۔
(۱۶) علی ابن ابی طالب اول الناس اسلامانی قول کثیر من اھل العلم (اصابہ جلد۴ ص ۲۴۹۔)
ترجمہ : اکثر اہل علم کی تحقیق ہے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت علی ابن ابی طالب ہیں ۔
علامہ ابوالغدا لکھتے ہیں ۔
(۱۷) لا خلاف فی ان خدیجہ اول امن اسلام و اختلف فی من اسلم بعد ھافذ کر صاحب السیر ۃ و کثیر من اہل العلم ان اول اناس اسلاما بعد ھا علی ابن ابی طالب و ذکر صاحب السیر ہ ان الذی اسلم بعد علی زید بن حارثہ مولے رسول اللہ اشتراہ واعتقہ ثم بعد زید ابو بکر الصدیق (ابو الغدا جلد ص ۱۱۶) ۔
ترجمہ: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت خدیجہ پہلے اسلام لائیں مگر اس میں اختلا ف ہے کہ پھر کون مسلمان ہوا صاحب سیر ہ اور اکثر اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ حضر ت علی کے بعد زید مسلمان ہوئے ۔ جو حضرت رسول خدا کے غلام تھے ان کو حضر ت نے خرید کر آزاد کر دیا تھا ۔ پھر زید کے بعد ابوبکر صدیق مسلمان ہوئے ۔
علامہ جلا ل الدین سیوطی فرماتے ہیں ۔
(۱۸) ہو اول خلیفہ من بنی ہاشم و ابوالسبطین اسلم قدیما بل قال ابن عباس و انس وزید بن ارقم و سلمان الفارسی و جماعت انہ اول من اسلم و نقل بعضہم اللہ جماع علیہ ۔ (تاریخ الخلاص ۱۱۳)
ترجمہ: حضرت علی خاندان بنی ہاشم سے پہلے خلیفہ اور اما م حسن و امام حسین کے پدر و بزر گوار ہیں ۔ بہت پہلے اسلام قبول کیا بلکہ جناب ابن عباس انس زید بن ارقم سلمان فارسی اور ایک بڑی جماعت صحابہ نے کہا ہے کہ حضرت علی نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور بعض علماء نے نقل کیا ہے کہ اس بات پر مسلمانوں کا اجما ع ہے (کہ حضرت علی ہی سب سے پہلے مسلمان ہوئے )۔
(۱۹) ابن مجرمی نے لکھا ہے کہ ونقل بعشھم الاجماع علیہ واخر ج ابن سعد عن الحسن بن زید قال لم بعید الا وثان قط لغرہ ابے ومن ثمہ یقال فیہ کرم اللہ وجھہ (صواتمی محرکہ ص ۷۲)۱۱۲۔
ترجمہ : اور بعض علماء نے نقل کیا ہے کہ اس بات پر تمام مسلمانوں کااجما ع ہے کہ حضرت علی نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ابن سعد نے حسن بن زید سے روایت کی ہے کہ حضرت علی نے کبھی بتوں کو سجد ہ نہیں کیا اسی وجہ سے حضرت کو کرم اللہ وجھہ کہتے ہیں ۔ ۱۱۲
(۲۰) جناب مولوی عبید اللہ صاحب امرتسری بسمل نے تحریر کیا ہے ۔
’’علامہ بن البر الاستعیاب فی معرفہ الاصحاب یں لکھتے ہیں ‘‘۔
عن سلمان وابی ذروالمقداد وعمار و خباب وجابر و حذیغہ وابی سعید و زید بن ارقم ان علی ابن ابی طالب اول من اسلم ۔ جناب ابو حنفیہ کوفی کا بھی یہی اعتقاد تھا ۔ چنانچہ آگے فرماتے ہیں قال سالم ابن ابی الجعد قلت لابی حنفیہ اکاناابی بکر اولہم اسلاما یعنی سالم بن جعدکہتا ہے کہ میں نے ابو حنفیہ سے پوچھا آیا سب صحابہ کرام میںسے حضرت ابو بکر پہلے اسلام لائے تو انہوں نے جواب دیا نہیں (ارحج المطالب مطبوعہ لاہور ص ۳۹۷)۔
(۲۱) (۱) عنالبنی انہ قال اول ہذا الامتہ و درود الحوض اولھما اسلاما علی ابن ابی طالب ۔
نبی اکرم نے فرمایا اس امت کا پہلا شخص جو میر ے پاس حوض کو ثر پر پہنچے گا وہ ہو گا جو سب سے پہلے اسلام لایا اور وہ علی ابن ابی طالب ہیں ۔
(۲) قال رسول اللہ اولکم ودرود اعلے الحوض اولکم اسلاما علی ابن ابی طالب (استعیاب ج ۲ ص ۴۷۰ علامہ ابن عبدالبر ) ۔
(۲) رسول اللہ نے فرمایا تم میں سے پہلا شخص جومیر ے پاس حوض کوثر پہنچے گا جس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور وہ علی ہے اسلام قبول کرنے کے اسباب علل ۔
علامہ دیار کبر ی اور علامہ ابن اثیر جزوی وغیرہ نے لکھا ہے ۔
حضر ت ابو بکر صدیق فرماتے ہیں کہ ’’میں نبی کے مبعوث ہونے سے قبل یمن گیا اور قبیلہ از د کے ایک شیخ کے ہاں مہمان ہو ا ۔ یہ شیخ عالم تھا کتب سماویہ کا پڑھا ہو ا تھا اور ان کے علاوہ دوسرے علوم بھی جانتا تھا اس نے مجھے دیکھا تو کہا کہ میرا خیال ہے کہ تم حر م کے رہنے والے ہو ۔ میں نے کہا ہاں میں حرم کا رہنے والا ہوں ۔ پھر اس نے کہا میں تم کو قریشی سمجھتا ہوں ۔ میں نے کہا ہاں میں قریشی ہوںپھر اس نے کہا میں تم کو یتمی سمجھتا ہوں ۔ میں نے کہا ہاں میں یتم بن مرہ کی اولاد میں سے ہوں میں عبداللہ بن عثمان ہوں کعب بن سعد بنتیم بن مرہ کی اولاد سے ہوں اس نے کہا اب صر ف ایک بات باقی رہ گئی ہیی میں نے کہا وہ کیا کہا کہ تم اپنا پیٹ کھولو ۔ میں نے کہا ایسا نہ کروں گا ۔ تم مجھے بتائو کہ ایسا کیوں چاہتے ہو اس نے کہا کہ علم صحیح صادق میں مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ایک نبی حرم میں مبعوث ہونگے ان کے کام میں ایک جوان اور ادھیڑ مدد کریں گے ۔ جو ان تو نبی کی مشکلات میں ڈوبنے والا اور اس کی مصیبتوں کا ہٹانے والا ہو گا اور ادھیڑ سفید رنگ لاغر شکم میںایک بائیں دان پر ایک نشانی ۔ تمارا حرج کیا ہے اگر تم مجھے اپنا پیٹ دکھا دو کیونکہ اور سب باتیں تو آپ میں موجود ہیں صرف ایک بات باقی ہے ۔ پس میں نے اپنا پیٹ کھو ل دیا ۔ اس نے دیکھا تو ناف کے اوپر ایک سیاہ نل تھا کہنے لگا قسم ہے رب کعبہ کی وہ تمہیں ہو ۔ میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کر تاہوں اس کویاد رکھنا میں نے کہا وہ کیا ۔ اس نے کہا خبردار اس ہدایت دین اسلام سے انحراف نہ کرنا اور راہ راست کو پکڑے رہنا اور تمہیں جو حکومت ملے جو دولت عطاو اس میں خدا سے ڈرتے رہنا ۔
(تاریخ خبیں جلد ۱ ص ۳۲۴ ترجمہ اسد الفابہ جلد ۵ ص ۲۸۲ )
جناب شاہ ولی اللہ صاحب و علامہ محب چبری وغیرہ نے حضر ت ابو بکر کے اسلام قبول کرنے کی دوسری وجہ لکھی ہے ۔
’’حضرت ابو بکر شام میں تجار ت کیا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ انہوں نے کوئی خواب دیکھا تو اس کو وہاں کے بحیرا ء راہب سے بیان کیا ۔ اس نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو انہوں نے کہا مکہ کے اس نے پوچھا کس قبیلہ سے ہو ؟ قریش سے پوچھا تم کیا کرتے ہو کہا تاجر ہوں تب اس نے کہا اگر خدا تمہارے خواب کو سچا کر دے تو بہت جلد تمہاری قوم سے ایک پیغمبر مبعوث ہو گا تم ان کی زندگی میں اس کے وزیر اور مرنے کے بعد ان کے خلیفہ ہو جائوگے حضرت نے یہ تعبیر سنی تو اس بات کو مثل بھید کے اپنے دل میں چھپائے رکھا یہاں تک کہ حضرت مبعو ث ہو گئے اس وقت فوراً آپ حضرت کی خدمت میں پہنچے (ریاض نفرہ جلد ۱ ص ۵۲ وازالہ الخامقعد ا ص ۳۴ سیرت جلیہ ج ا ص ۲۷۴ ) غالباً یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ حضرت ابو بکر تو حضرت رسول خدا کے نبی ہونے سے پہلے ہی حضرت پر ایمان لا چکے تھے ۔ چنانچہ علامہ حلیبی لکھتے ہیں کہ ’’ ابو نعیم نے بعض صحابہ سے بیان کیا کہ حضرت ابو بکر حضرت رسول خدا کے نبی ہونے سے پہلے ہی حضرت پر ایما ن لاچکے تھے ۔ یعنی جانتے تھے آپ ہی وہ نبی ہیں جن کا انتظار ہے کیونکہ بحیرہ ء راہب نے ان سے کہ دیا تھا اور یمن کے اذوی شیخ عالم سے بھی آپ حضرت کی نبو ت کے متعلق سن چکے تھے (سیرت جلیہ ج ا ص ۲۷۴)۔
حضرت رسول خدا نے حضر ت ابو بکر سے فرمایا ’’ اے ابو بکر کاش میں اپنے بھائیوں سے ملتا اس پر حضرت ابو بکر نے کہا یا حضرت ہم لو گ تو آپ کے بھائی ہیں حضرت نے فرمایا نہیں (تم میر ے بھائی نہیں ) بلکہ میرے اصحاب ہو ( صواعق محرقہ ص ۱۲۸)
اسی قسم کی روایتیں علامہ علی متقی و علامہ محب بطری وغیرہ نے لکھی ہیں ۔ دیکھو (کنزل الاعمال جلد ۶ ص ۲۳۶ و ریاض نفرہ جلد ا ص ۱۴۱) ۔
حضرت رسول خدا نے احدکے شہیدوں کے بارے میں فرمایا کہ ان لوگوں کے اسلام کی میں گواہی دیتا ہوں ۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو بکر نے کہا اے رسول اللہ کیا ہم لو گ اس کے بھائی نہیں ہیں ؟ جس طرح انہوں نے اسلام قبول کیا ہم بھی مسلمان ہوئے اور ان کی طرح ہم نے بھی جہاد کیا اس پر رسول اللہ نے فرمایا ہاں مگر میں نہیں جانتا کہ تم لو گ میر ے بعد کیا کیا احداث کروگے یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر رونے لگے اور پھر روتے ہوئے کہا کیا ہم لوگ آپ کے بعد رہیں گے (کتاب موطا ء مطبوعہ دہلی ص ۱۷۴)
قرآن مجید میں خدا نے مومنین کا معیار یہ قرار دیا ہے ۔
انما المومنون الذین اسنوبااللہ ورلولہ واذا کوفومعہ علی امر جامع لم یذھبو احتے لیستا ذنونک واولئک الذین یومنون باللہ ورسولہ
(پ ۱۸ سو ر ہ نور آیہ ۴۲)
مومین تو صرف وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب کسی ایسی بات کے لئے جن میںلوگوں کے جمع رہنے کی ضرورت ہوتی ہے رسول کے پاس ہوتے ہیں تو جب تک رسول سے اجازت نہیں لے لیتے ہٹتے نہیں (اے رسول ) جو لو گ ( ایسے موقع پر ) تم سے اجازت لے کر جاتے ہیں حقیقت میں وہی لو گ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں ۔
اور یہ واضح ہے کہ جہاد ایسا کام تھا جس میں مسلمانوں کو حضرت رسول خدا کے ساتھ جمع رہنے کی ضرور ت تھی چنانچہ امام فخر الدین رازی وغیر ہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’ فی الحر ب وغیر ہ (تفسیر کبیر جلد ۶ ص ۴۳۹ و در منشور جلد ۵ ص ۶۰ خازن ج ۳ ص ۳۴۱ و کشاف جلد ۲ ص ۳۱۹ وغیر ہ ۔
پس جو لو گ جہاد میں رسول اللہ کے پاس سے اجازت لیے بغیر چلے جاتے تھے وہ اس آیت کے مطابق مومن کیسے رہ سکتے ہیں اور حضرت ابو بکر وغیر ہ جہاد غزوات سے بغیر اجازت چلے جانا متعدد دفعہ دیکھا گیا اور اسلامی تاریخ کا مشہو ر واقعہ ہے ۔ ایک ہی جنگ نہیں بلکہ متعدد غزوات میں ان کا یہ طر ز عمل یہی رہا ہے غزو ہ حین تک میں جو حضرت کی زندگی کے آخر ی حصے کا مشہور جہاد تھا اس اسول میں تغیر واقع نہیں ہوا (ملاحظہ ہو مدار ج النبوۃ جلد ۲ ص ۱۴۹ و تفسیفر کبیر ج ۳ ص ۷۴ و تاریخ طبی ج ۳ ص ۲۱ وغیر ہ )
علامہ علی مفتی ۔ علامہ سیوطی ۔ شاہ ولی صاحب دہلوی وغیرہ نے لکھا ہے ۔
’’خدیفہ سیمانی نے حضرت ابو بکر سے روایت کی ہے خواہ ان سے حضرت ابو بکر نے خو د بیان کیا ہو خواہ حضرت ابو بکر کے ساتھ خدیفہ آنحضرت کے پاس موجود ہوں اور حضرت سے خود ہی اس بات کو سنا ہو کہ آنحضرت نے فرمایا ابو بکر سے ’’ شرک تم لوگوں میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ چھپا ہو ا ہے ’’حضرت ابو بکر نے پوچھا یا رسول اللہ شرک اس کے علاوہ بھی کچھ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کی جائے یا اللہ کے ساتھ کسی اور سے دعا کی جائے حضرت نے فرمایا تمہاری ماں تمہارے ماتم میں ساگ نشین ہو شرک تم میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی ہے (اس کے چند ہی سطروں بعد معقل بن سیاد جو ابو بکر کے ساتھ آنحضرت کے پاس گئے یہی روایت آنحضرت سے بیان کرتے ہیں )
(ازالہ اتخفاء مقعد ا ص ۱۹۹ و تفسیر در منشو ر ج ۴ ص ۵۴ و منتخب کنزل اعمال ج ا ص ۲۷۱ وغیر ہ )
ذکر اسمہ الصدیق ۔
واختلف فیلای مضے ۔ فقیل کا ن ہذا الطقب قد غلب علیہ فی الجاہلیۃ لانہ کان فی الجاہلیۃ و جیھار یسا من روئسا قریشی ۔ (ریاض نفرہ ص ۴۸)
حضرت ابو بکر لقب صدیق کا بیان:۔
اور اس میں اختلاف ہے کہ کسی وجہ سے آپ کا یہ لقب مقرر ہوا کچھ لوگوں نے کہا کہ زمانہ جاہلت میں آپ کا یہ لقب تھا کیونکہ اُ اس عہد میں وجیہ اور روئسا قریش سے ایک رئیس تھے ۔
دوسری وجہ ۔
وقیل سمعے صدیق النبی خبر الاسرا ء (ریاض نفرہ ص ۴۸) بعد ارہ اے تصدیق رسول اللہ فی کل ماجا ء بہ عموماری (ریاض نفرہ ص ۴۸) ۔
اور کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ کا نام صدیق اس سبب سے رکھا گیا کہ آپ نے قصہ معراج کے متعلق رسول کی تصدیق کی چونکہ آپ نے حضرت رسول خدا کی ہر ایسی بات میں جس کا حضرت نے دعوی کیا تصدیق کرنے میں سبقت کی اس وجہ سے صدیق کہے گئے ۔
حضرت ابو بکر کے دل میں رسو ل اللہ کی اور اسلام کی عزت و محبت ۔
کفار اسی طرح جمع تھے کہ اتنے میں حضرت رسول خدا تشریف لائے تو سب کے سب ایک مرتبہ حضرت پر ٹوٹ پڑے اور کہتے تھے کیوں جی تم ہی وہ ہو جو ایسا ویسا کہتے ہو ۔ آنحضرت نے فرمایا ہاں میں ہی ہوں جو ایسی باتیں کہتا ہوں ۔ اس پر عقبہ بن ابی معیط نے حضرت کی روا پکڑ لی اور حضرت ابو بکر صدیق حضرت کے پاس الگ کھڑے ہوئے روتے اور کہتے تھے کہ تم ایسے شخص کو قتل کر ڈالو گے جو کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے پھر سب کفار حضرت کے پاس سے چلے گئے یہ حضرت پر سخت ترین ظلم تھا ۔ میں نے سا (تاریخ کامل جلد ۲ ص ۲۹ تاریخ طبر ی جلد ۲ ص ۳۳۲ ) (صحیح بخار ی مع شرح فتح البار ی پ ۱۵ ص ۴۳۷ مطبوعہ دہلی ) (ازالہ اتخفاء مقعد ۲ ص ۱۱۰ و منتخب کنزلا عمال ج ۴ ص ۲۵۰) ( استعیاب جلد ۱ ص ۳۴۲) ۔
ظاہر حرف زبان سے کہنا حضر ت کو کوئی نفع نہیں دے سکتا تھا جب تک حضرت کو بچایا نہ جاتا دوسرا سخت وقت شعب ابی طالب میں حضرت کے مبحوث ہونے کا تھا مولوی شبلی صاحب نے لکھا ہے ’’ ابو طالب مجبو ر ہو کر تمام خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں پنا ہ گزین ہوئے تین سال تک بنو ہاشم نے اس حسار میں سیر کی ۔ یہ زمانہ ایسا سخت گزر ا کہ طلح کے پتے کھا کھا کر رہتے تھے حدیثوں میں جو صحابہ کی زبان سے مذکور ہے کہ ہم طلح کی پتیاں کھا کھا کر بسر کر تے تھے یہ اسی زمانہ کا واقع ہے (سیر ۃ النبی جلد ا ص ۱۷۹) معلوم ہوا کہ ابو مکر نے حضرت کا ساتھ نہ دیا نہ حضرت کی کسی طرح مدد کی کسی تاب نہیں معلوم ہو سکا کہ ابو بکر نے آنحضرت کے ساتھ جانے کی زحمت گوارہ کی ہو حالانکہ خاندان بنی ہاشم کے علاوہ بھی بہت سے اصھابہ اسی شعب میں آنحضرت کے ساتھ تھے ۔ تیسر ا موقہ طائف کا سفر تھا جب حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کا انتقال ہو گیا اس وقت کفار قریش کا ظلم اور بڑھ گیا علامہ طبر ی و ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے
’’اس وقت حضرت کی مصیبت بہت سخت ہوگئی جب ابو طالب کی وفات پر آپ کی اذیتیں شدید ہو گئیں تو آپ قبیلہ ثقیف کی طرف تشریف لے گئے اور حضرت کے ساتھ زید بن حارثہ بھی تھے ‘‘(تاریخ کامل جلد ۲ ص ۳۴ طبر ی جلد ۲ ص ۲۲۹ وغیر ہ )
حضرت آئشہ فرماتی ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں: قرآن امیر المومنین حضرت علی ؑ کی نظر میں
https://albasirah.com/urdu/quran-hazrat-ali-ki/
Share this content: