فتووں کے زور سے مسلک کا دفاع
ایک عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے مولوی صاحبان فتووں کے زور سے اپنے مسلک کے دفاع، اسلام کے پھیلاؤ، انحراف سے بچاؤ اور اپنے تئیں گمراہی سے روکنے کا طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یہ سوال ہمارے نزدیک بہت اہم ہے کہ کیا فتوے کے زور سے لوگوں کو نئی باتوں کے سوچنے سے روکا جا سکتا ہے، مختلف رائے اختیار کرنے سے بچایا جاسکتا ہے، اپنے تصور اسلام کا دفاع کیا جاسکتا ہے اور اسلامی معاشرے کی حفاظت کی جاسکتی ہے۔؟ اس کا جواب خارج میں موجود حقائق سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ فتویٰ باز ملاؤں نے اپنے افکار اور عقائد کے پیکیج کو پوری طور پر قبول نہ کرنے والے ہر فرد کو ہمیشہ گمراہ، منحرف اور فاسق یہاں تک کہ کافر و مرتد قرار دیا ہے۔ یہ سلسلہ پیہم جاری ہے۔
فتوے کا ایک میدان عبادی احکام ہیں، مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوۃ، وضو، طہارت، نجاست، نکاح اور طلاق وغیرہ اور اس کا دوسرا میدان عقائد، نظریات اور احکام ہیں۔ کہنے کو تو بہت سے علماء یہ کہتے ہیں کہ تقلید فقط فقہی اور عبادی احکام میں یا دوسرے لفظوں میں فروع دین میں ہوتی ہے جبکہ عقائد باالفاظ دیگر اصول دین میں نہیں ہوتی، لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ عقائد کے معاملے میں بھی فتاویٰ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر فتوے صادر ہو رہے ہوتے ہیں۔ فروع دین میں بھی گاہے ایک چھوٹے سے مسئلے پر مسلک سے نکل جانے یا منحرف ہو جانے حتیٰ مرتد ہو جانے کا فتویٰ جاری کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثالیں اور نمونے ہمارے ہاں بہتات میں ملتے ہیں۔ گاہے انتہائی چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لیے فتویٰ بازی کا سلسلہ دیکھنے میں آتا ہے۔
اس طرز عمل کا سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعاً یہ طرز عمل اسلام اور دینی فکر کی رشد کے لیے مفید ہے یا اس کے نتائج برعکس برآمد ہو رہے ہیں۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں کہ کسی ایک مسلک سے تعلق رکھنے والے فرد کی نماز جنازہ پڑھنے پر نمازیوں کے نکاح ٹوٹ جانے کا فتویٰ جاری کیا جاتا ہے اور پھر پوری بستی کے نماز جنازہ پڑھنے والے لوگوں کو لائن حاضر کیا جاتا ہے اور ان کا نئے سرے سے نکاح پڑھا جاتا ہے۔ یہ معاملہ فقط شیعہ اور سنی کے مابین ہی رونماء نہیں ہوتا بلکہ کبھی تو بریلویوں اور دیوبندیوں کے مابین بھی ظہور پذیر ہو جاتا ہے۔ ویسے تو مختلف مواقع پر شیعوں کی جانب سے بھی فتوں کا اجراء کبھی محل نظر ہوتا ہے، تاہم شیعہ عام طور پر ایسے فتوے نہیں دیتے کہ کسی شیعہ کا نکاح کسی ایسے کام پر ٹوٹ جاتا ہو۔ چلیں یہ تو اچھا ہے کہ نکاح ٹوٹ جانے کے بعد عام حالات میں جو نتائج مرتب ہوتے ہیں، وہ نماز جنازہ پڑھنے کی صورت میں مرتب نہیں ہوتے یعنی بیویوں کو حلالہ کے رائج تصور کے مطابق مصیبت اور ذلت سے نہیں گزرنا پڑتا۔ ورنہ تو بعض بستیوں میں بہت مشکل پیش آجائے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشروں میں دین سے دوری اور الحاد کے فروغ میں مولویوں کی تنگ نظری کا بہت عمل دخل ہے۔ یہ فتویٰ بازی ہی ہے، جو اسلام کا روشن چہرہ سامنے نہیں آنے دیتی۔ مولویوں کی کثرت کی کج فہمی نے اسلام کا چہرہ ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ دور حاضر کے انسانوں کے فکری، عملی اور روحانی مسائل پر سوچنے کی گویا ان ’’مذہبی راہنماوں‘‘ کو فرصت ہی نہیں ہے اور فرصت مل بھی جائے تو انھیں اسلام کے عالمی اور آفاقی حقائق کا ادراک ہی نہیں ہے۔ وہ انھیں جاننے کی آرزو بھی نہیں رکھتے۔ فکری، روحانی اور آگاہی کی سطح کے لحاظ سے یہ چھوٹے بڑے مذہبی پیشوا بالعموم انتہائی پست درجے کے لوگ ہیں۔ اعلیٰ اخلاق، انسانی دوستی، ایثار، جدوجہد، صبر، توکل جیسی اعلیٰ انسانی صفات سے یہ لوگ بالعموم محروم دکھائی دیتے ہیں۔ یہ نفرتیں بانٹتے اور انسانوں کو تقسیم کرتے ہیں۔
یہ سطحی جذباتیت اور احساسات کو شعلہ ور کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ یہ شہرت کی ہوس میں مبتلا اور دین کو پیشہ بنانے والے لوگ ہیں۔ جب تک اعلیٰ دینی بصیرت رکھنے والے خدا پرست اور بشر دوست افراد جو انبیاء کی روحانیت اور الہیٰ بصیرت کے وارث ہوں اور عالم انسانیت کے عصری مسائل پر نظر رکھتے ہوں، انھیں ہم دین کا ترجمان نہیں سمجھیں گے، پستی کے گڑھوں میں اترتے چلے جائیں گے۔ معاشروں میں ایسے لوگ ہوتے ہیں اور آج بھی ہیں۔ ہوسکتا ہے، ان میں سے بہت سے شور شرابے اور بعض رائج مذہبی عادات و علامات کے قائل نہ ہوں۔ انھیں ظواہر کی بنیاد پر تلاش کرنے کے بجائے دین کے ان اصولوں کی بنیاد پر تلاش کرنے کی ضرورت ہے، جن کی بنیاد پر ہم انبیاء کو آسمانی ہدایت کا ترجمان سمجھتے ہیں۔ ایسے پاکباز اور متقی افراد سے دنیا کبھی خالی نہیں ہوتی۔ خشیت الہیٰ کے حامل یہی لوگ انبیاء کے وارث کہلانے کا حق رکھتے ہیں۔