دعا و مناجات اور امام خمینیؒ(1)
امام خمینیؒ اپنی نوجوانی ہی میں اہل دعا و مناجات تھے۔ عبادت و دعا و مناجات کی طرف ان کی رغبت بہت زیادہ تھی۔ جوں جوں آپ کی عمر میں اضافہ ہوتا چلا گیا، یہ رغبت بڑھتی چلی گئی۔ آپ ایک بلند مرتبہ عارف کے مقام پر جا پہنچے۔ عرفا کی جو نمایاں خصوصیات ہوتی ہیں، وہ ان کی زندگی میں جھلکتی تھیں۔ ان کے پاس اور اردگرد رہنے والے بہت سے افراد نے ان کے بارے میں حیران کن گواہیاں دی ہیں۔ ہم نے خود ۱۹۷۹ء کے انقلاب کے بعد جب ان کی تقاریر سننا شروع کیں، ان کے مکتوبات کا مطالعہ کیا اور ان کی بعض کتب کو دیکھا تو دعا و مناجات کا ان سب میں خاص طور پر ذکر اور اثر ملاحظہ کیا۔ اس سے ان کی دعائوں اور خاص طور پر ائمہ اہل بیتؑ کی دعائوں کی طرف رغبت بہت واضح ہوتی ہے۔
امام خمینیؒ کے اس پہلو کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ مضامین و مقالات کے علاوہ کتب بھی تحریر کی گئی ہیں۔ اردو میں آپ کی بعض دعائوں کا ترجمہ تو موجود ہے، لیکن زیر نظر موضوع پر باقاعدہ کوئی کتاب ابھی تک نہیں لکھی گئی اور نہ اس موضوع پر کسی کتاب کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ امام خمینیؒ نے تیس سال کی عمر میں جب کہ آپ بھرپور جوان تھے، دعائے سحر کی شرح و تفسیر لکھی۔ اس کے بعد آپ کی متعدد کتب اس حوالے سے ذکر کی جاسکتی ہیں۔ بعض دعائوں کی طرف آپ کا میلان بہت زیادہ تھا۔ خود اہل دعا و مناجات تھے، چنانچہ سید رحیم میریان جو امام خمینیؒ کے ذاتی اسٹاف میں سے تھے، کہتے ہیں: ’’امام خمینیؒ تمام مہینوں میں خصوصی مناجات پڑھتے تھے۔ اللہ سے مناجات کرتے رہتے، تاہم رجب، شعبان اور رمضان کے مہینوں میں ان کے احوال کچھ اور ہی ہو جاتے۔ آپ کی حالت عجیب اور غیر معمولی ہو جاتی۔ ماہ رجب میں دعائے رجبیہ کی تلاوت کرتے۔ آپ فرماتے تھے کہ ماہ رجب کے بہت سے اعمال اور دعائیں ہیں، جنھیں انجام دینا چاہیے۔ آپ خود بھی اس کی پابندی کرتے تھے۔ ہر جمعہ ظہر سے پہلے آٹھ رکعت نماز مستحب ادا کیا کرتے تھے۔ یہ عمل سال بھر جاری رہتا تھا۔ ماہ رمضان میں بھی یہ نوافل ادا کرتے تھے۔ مستحبات کی بہت پابندی کرتے تھے۔‘‘
سید رحیم میران مزید کہتےہیں: ’’آپ کے پاس مفاتیح کا ایک نسخہ ہوتا تھا، چونکہ اسے زیادہ پڑھتے تھے، اس لیے اسے دو مرتبہ تبدیل کیا گیا۔ ایک دن مجھ سے فرمایا: جائو میرے لیے الٰہی قمشہ ای کے خط کا مفاتیح کا نسخہ خرید لائو۔ پہلے والی مفاتیح کی کئی مرتبہ نئے سرے سے جلد بندی کی جا چکی تھی۔ بعض کہا کرتے تھے کہ حضرت امام ’’عارف مفاتیحی‘‘ ہی ہیں، یعنی ایک ایسے عارف ہیں جو باقاعدہ مفاتیح کی دعائیں پڑھتے ہیں۔ آپ شعبان کی دعائیں پڑھا کرتے تھے۔ [کہتے تھے] جو کوئی بھی دعائے شعبانیہ کو جان لے گا، متوجہ ہوگا کہ اس میں کس قدر سوز و گداز ہے۔‘‘
امام خمینیؒ کی دعا و مناجات کے دوران میں رقت کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں: ’’میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ جب امام دعا پڑھ رہے ہوتے، آپ کے ساتھ تولیہ رکھ دیا جاتا۔ آپ اپنے آنسو اس تولیے سے پونچھا کرتے تھے۔ آپ چونکہ بہت زار و قطار روتے تھے، اس لیے رومال جلد گیلا ہو جاتا تھا۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ میں آپ کا رومال تبدیل کر دیتا۔ نصف شب کبھی میں امام کے گریہ کی آواز سے بیدار ہو جاتا تھا۔ پھر میں بھی وضو کرتا اور اسی کمرے میں بیٹھ جاتا اور امام کی دعا و مناجات اور گریہ نیم شب کو دیکھتا اور سنتا رہتا۔‘‘ (خاطرات خادمان و پاسداران امام خمینی ؒ، خاطرات سید رحیم میریان)
بعض کج فہموں کا نظریہ، دعا چھوڑیں اور قرآن پڑھیں
ہمارے ہاں بھی بعض لوگ دعا و مناجات کے خلاف طرح طرح کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے اپنی بات کرنے کے لیے قرآن کے نام سے سوئے استفادہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب قرآن موجود ہے تو ماثور اور منقول دعائوں کی کیا ضرورت ہے۔ ہمیں قرآن ہی پڑھنا چاہیے۔ قرآن کا نام لے کر بہت سے گروہوں نے ماضی میں بھی قرآن ہی کے مقاصد کے خلاف کام کیا ہے۔ ایسے افراد ایران میں بھی موجود ہیں، ایسے ہی لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے امام خمینیؒ فرماتے ہیں: ’’بعض لوگوں میں ایک کج فہمی پائی جاتی ہے، جو گاہے بہت زیادہ ہو جاتی ہے۔ یہ لوگ دعا کو نہیں سمجھتے کہ یہ کیا ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہم صرف قرآن کو پڑھتے ہیں، دعا کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ دعا اصلاً ہے کیا۔ انھوں نے دعائوں کے مضامین کو نہیں دیکھا کہ وہ کیا ہیں اور یہ دعائیں لوگوں سے کیا کہتی ہیں اور کیا کرنے کا کہتی ہیں۔‘‘(شکست طرح کودتا در ایران اسلامی، وظیفۂ مسلمین در ماہ مبارک رمضان،۱۳۵۹/۰۴/۲۱)
سورہ حمد کی تفسیر کرتے ہوئے امام خمینیؒ کہتے ہیں: ’’لوگوں کو دعا سے محروم نہیں کرنا چاہیے اور ہمارے جوانوں کو دعا سے منصرف نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات درست نہیں کہ قرآن کا نام لیا جائے اور کہا جائے کہ قرآن کو سامنے آنا چاہیے۔ یہ شیطانی وسوسے ہیں کہ کہا جائے کہ قرآن پڑھنا چاہیے اور دعا و حدیث کو ایک طرف کر دینا چاہیے، اگر ہم دعا و احادیث کو ایک طرف کر دیں تو قرآن بھی چلا جائے گا۔ جو قرآن کو چاہتے ہیں کہ اسے سامنے لائیں، وہ حدیث کو بھی اس کے پہلو میں رکھیں۔ یہ لوگ قرآن کو بھی سامنے نہیں لا سکتے۔‘‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دعا و ذکر انسان کو عملی زندگی سے کاٹ دیتے ہیں۔ وہ دعائوں اور عبادات میں ہی پڑے رہتے ہیں۔ اس لیے ان لوگوں کا کہنا ہے کہ عوام کو دعا و ذکر کی تلقین نہیں کرنا چاہیے۔
ایسے لوگوں کا جواب دیتے ہوئے امام خمینیؒ مزید کہتے ہیں: ’’یہ خیال ایک اشتباہ ہے کہ یہ علومِ معنوی لوگوں کو فعالیت اور کام سے روکتے ہیں۔ یہی شخص (امام علیؑ) جو لوگوں کو علومِ معنوی کی تعلیم دیتے تھے اور رسول اللہؐ کے بعد حقائق کی معرفت رکھنے والا ان جیسا کوئی اور نہ تھا، اسی روز جب لوگوں نے آپ کی بیعت کی، بیعت کے بعد انھوں نے اپنی کدال اٹھائی اور اپنے کام پر روانہ ہوگئے، یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں۔ یہ لوگ جو لوگوں کو دعا و ذکر وغیرہ سے پرہیز کا کہتے ہیں اور اپنے تئیں چاہتے ہیں کہ وہ امور دنیا میں لگ جائیں، یہ نہیں جانتے کہ اصلاً قصہ کیا ہے؟ یہ نہیں جانتے کہ یہ دعا اور معنوی امور انسان کی تعمیر کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ دنیا کو بھی یوں برتتے ہیں جیسے اسے برتنا چاہیے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔