کیا ویکسین لگوانے والے دو سال میں مر جائیں گے؟
میرا یہ آرٹیکل کرونا ویکسین کے بارے ایک الگ نظریہ سے متعلق ہے، تاہم میں کہنا چاہوں گا کہ اس آرٹیکل کو فقط اپنی معلومات میں اضافے کے لیے مطالعہ کریں اور مزید تحقیقات کریں یا اپنے ڈاکٹر سے اس سلسلے میں رائے لیں اور اسی کی رائے پر عمل کریں۔ گذشتہ دنوں فرانس کے ایک نوبل انعام یافتہ وائرالو جسٹ یعنی وائرس سے پھیلنے والی بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر لک مانٹینئیر کی ایک خبر سوشل میڈیا اور پھر پرنٹ میڈیا پر بہت وائرل ہوئی، جس میں لک مانٹینئیر کا کہنا تھا کہ ’’بڑے پیمانے پر ویکسین لگوانا ایک بڑی غلطی ہے، خبر میں کہا گیا کہ وہ لوگ جو اب تک ویکسین لگوا چکے ہیں، وہ اگلے دو برسوں میں مر جائیں گے۔‘‘
یہ خبر بہت تیزی سے دنیا میں پھیلی اور اس پر طرح طرح تبصرے شروع ہوگئے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کرونا ویکسین کے حوالے سے پہلے ہی بہت سی افواہیں گردش کر رہی ہیں، جس میں سب سے معروف یہ ہے کہ اس ویکسین کے ذریعے کوئی چپ بنا کر انسانی جسم میں داخل کی جا رہی ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس لیبارٹی میں تیار کیا گیا ہے اور دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔ ویکسین میں دی جانی والی چپ کو پکڑنے کے لیے مقناطیس کے انسانی جسم پر چپکنے کی ویڈیوز بھی عام ہیں۔
سازشی تھیوریاں انسانی تاریخ کا حصہ ہیں اور ہر ایسے واقعہ جس کے بارے میں ہماری عقل و فہم جواب دے جاتی ہے، ہم سازشی تھیوری کا ہی سہارا لیتے ہیں اور تو اور امریکہ سمیت کئی ایک ملکوں کے سربراہان کا یہ نظریہ تھا کہ کرونا کو لیبارٹی میں تیار کیا گیا ہے۔ میرے پاس چونکہ اس سازشی تھیوری کے کوئی قانع کنندہ دلائل موجود نہ تھے، لہذا میں نے اس تھیوری پر کبھی کان نہ دھرے بلکہ ہمیشہ لوگوں کو ان سے بچنے کا ہی کہتا رہا، تاہم لک مانٹینئیر کوئی عام انسان نہیں ہے۔ وائرس سے ہونے والی بیماریوں کا یہ ماہر ایچ آئی وی یعنی ایڈز وائرس کی دریافت کے سبب نوبل انعام جیت چکا ہے۔ لک مانٹینئیر کو یہ انعام دیئے جانے کے بعد ان کے اکثر نظریات پر کم ہی لوگ کان دھرتے ہیں بلکہ انھیں ایک خبطی سے سائنسدان کے طور پر معروف کر دیا گیا ہے۔ لک مانٹینئیر کے انٹرویو کے حوالے سے میں نے تحقیق کی تو جانا کہ انھوں نے اس سے قبل کرونا کے حوالے سے مختلف باتیں کی ہیں۔
جو باتیں اخباری سائٹس پر شائع کی گئیں، وہ شائد توجہ حاصل کرنے کے لیے تھیں، تاہم جو انٹرویو میں نے سنا، اس کے انگریزی ترجمے کے مطابق لک مانٹینئیر کی کوئی بات مجھے غیر منطقی نہ لگی۔ لک کا کہنا ہے کہ اس وائرس کی آر این اے پر ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس میں ایچ آئی وی اور ملیریا وائرس کے کچھ حصے موجود ہیں، جس سے کہا جاسکتا ہے کہ کرونا وائرس لیبارٹی میں تشکیل پایا، کیونکہ قدرتی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ لک کا کہنا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ کرونا کو جان بوجھ کر بنایا گیا بلکہ ممکن ہے کہ ایڈز کی ویکسین کی تیاری کے دوران میں یہ وائرس تشکیل پا گیا ہو اور یہیں سے پھیلا ہو۔ لک کا مزید کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر ویکسین لگانا ایک غلط اقدام ہے اور طبی ماہرین جاننے کے باوجود خاموش ہیں۔ لک نے کہا کہ وائرس اپنی ساخت بدلتا ہے، بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے سے وائرس کو اپنی شکل بدلنے نیز زیادہ خطرناک ہونے کے زیادہ مواقع میسر آسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار سے مجھ پر یہ ظاہر ہے کہ جن ممالک میں کرونا ویکسین لگائی گئی، وہاں اموات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ لک کی خبر جس تیزی سے پھیلی، اسی تیزی سے اس کا جواب بھی دیا گیا۔ فیس بک نے لک کی خبر کے ساتھ فیکٹ چیک لگا دیا، اسی طرح متعدد ڈاکٹرز اور سائنسدانوں کے لک کے بارے مذمتی بیانات بھی سامنے آگئے۔
ویکسین کے بڑے پیمانے پر استعمال کے حوالے سے لک اکیلے نہیں ہیں، امریکہ کے ایک تحقیقی ادارے Rath foundation نیز ڈاکٹرز الائینس کے بھی نظریات موجود ہیں۔ ریتھ فاونڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ریتھ بڑے پیمانے پر ویکسین کے استعمال کے خلاف ہیں، ان کی 45 منٹ کی ویڈیو یوٹیوب پر دستیاب ہے۔ ڈاکٹر ریتھ نے اس ویڈیو میں وائرس کے تعارف کے ساتھ ساتھ اس کے پھیلاؤ پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اپنی اس ویڈیو میں وائرس سے نمٹنے کے لیے اقدامات بھی تجویز کیے ہیں۔ ڈاکٹر ریتھ کا کہنا ہے کہ وائرس جو کہ ہماری دنیا میں ہر طرف موجود ہیں، دو وجہ سے وبائی امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ایک وجہ وائرس کی ساخت میں تبدیلی جسے میوٹیشن کہا جاتا ہے اور دوسری وجہ انسان کے دفاعی نظام کی کمزوری ہے۔ وائرس کی ساخت میں تبدیلی کو اگرچہ ہم کنڑول نہیں کرسکتے، تاہم اگر پروفیسر لک کے نظریئے کو مانا جائے تو ہم ایسا ہونے کا سدباب بھی کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر ریتھ کے مطابق دوسری چیز انسان کی قوت مدافعت کی کمزوری ہے، ریتھ کہتے ہیں کہ اگر ہم قوت مدافعت کو مضبوط کر دیں تو وہ فقط کرونا وائرس سے نہیں بلکہ ہر طرح کے جراثیم سے محفوظ رہ سکتا ہے۔
ریتھ بھی ویکسین کے خلاف ہیں اور اس کے مقابل وہ Multi Nutrients کے ذریعے دفاعی قوت کے بڑھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ دسمبر 2020ء میں معروف کمپنی Pfizer کے سانس سے متعلق بیماریوں کے سابق سربراہ ڈاکٹر مائیکل اور پھیپڑوں کی امراض کے ماہر ڈاکٹر وولف گینگ نے بھی یورپی میڈیسن ایجنسی میں ایک اپیل دائر کی کہ کرونا ویکسین کی تیاری کو روکا جائے۔ یاد رہے کہ یورپی میڈیسن ایجنسی ادویات کی منظوری کا ادارہ ہے۔ ان دونوں ڈاکٹروں نے مطالبہ کیا کہ کرونا ویکسین کے حوالے سے متعدد معروف سائنسدانوں کے تحفظات اور ویکسین کے مطالعہ کے ڈیزائن کی عدم موجودگی میں یہ کام خطرناک ہو سکتا ہے۔ ڈاکڑوں کے عالمی اتحاد کی ویب سائٹ پر آج بھی ایک کھلا خط موجود ہے، جس میں کرونا وائرس کے حوالے سے حقائق درج ہیں، ساتھ ساتھ ویکسین کی تیاری پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ کرونا ویکسین کے استعمال کے بعض دیگر مضر اثرات بھی سامنے آرہے ہیں۔ طبی ماہرین اور سائنسدان ویکسین کے استعمال کے حوالے سے دو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ایسے میں ایک نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر کی رائے نے دنیا میں ایک کھلبلی مچا دی ہے۔
اس بحث سے میں نے تو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہمیں ڈاکٹر ریتھ کی بات پر عمل کرنا چاہیئے۔ یعنی اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنا چاہیئے، ویکسین کا استعمال اس صورت میں کیا جائے جب وائرس کی مکمل تفصیلات واضح ہوچکی ہوں اور ویکسین ہی واحد حل رہ جائے۔ آج دنیا میں کویڈ 19 کی متعدد ساختیں سامنے آچکی ہیں۔ برطانوی کووڈ، ہندوستانی کوویڈ، برازیلی کوویڈ وغیرہ وغیرہ اگر پروفیسر لک کی بات کو مانا جائے تو بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے سے وائرس کی مزید شکلیں بھی سامنے آسکتی ہیں، جو ابتدائی کوویڈ سے مختلف اور طاقتور ہوسکتی ہیں۔ ریتھ کہتے ہیں کہ ویکسین کی تیاری ایک بہت بڑی اور طاقتور انڈسٹری ہے، یہ متبادل ذریعہ علاج کو پنپنے نہیں دیتی، اسی طرح متبادل نظریات کے خلاف سخت اقدامات بھی کرتی ہے۔ فیس بک کا لک کی خبر پر از خود فیکٹ چیک لگانا فکر انگیز ہے۔ میرا مقصد کسی قاری کو ویکسین لگوانے سے روکنا ہرگز نہیں ہے، فقط متبادل نظریات کا اظہار ہے، حتمی رائے آپ کا طبی ماہر ہی دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر ریتھ کی وائرس سے متعلق ویڈیو:
https://www.youtube.com/watch?v=wIdX0N-c1eQ&t=144s
Share this content: