چینی صدر کا دورہ سعودیہ اور خلیج کانفرنس میں شرکت
تحریر: سید اسد عباس
چینی صدر شی جن پنگ خلیجی ممالک کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب پہنچ رہے ہیں۔ یہ اسی طرح کا اجلاس ہے، جس میں چند برس قبل امریکا کے صدر ٹرمپ نے شرکت کی تھی۔ مبصرین کی مطابق یہ واقعہ سعودی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ ہے۔ سعودیہ اور امریکا کے تعلقات دہائیوں سے قائم ہیں۔ سعودیہ امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا امپورٹر ہے، تاہم اب یہ دوستی پہلے جیسی نہیں رہی۔ اس دوستی کے کمزور پڑنے میں کئی ایک عوامل شامل ہیں۔ 2011ء میں کئی ایک عرب ممالک میں انقلابات کا آنا اور امریکہ کا ان ممالک کے حکمرانوں سے اچھے تعلقات کے باوجود ان کے اقتدار کے تحفظ کے لیے کوئی خاطر خواہ کردار نہ ادا کرنا، یمن کی جانب سے سعودیہ پر ہونے والے حملے نیز امریکہ کا ان حملوں سے بچاؤ کے لیے کچھ نہ کر پانا، افغانستان سے امریکہ کا انخلاء، سعودی صحافی جمال خاشقچی کا قتل اور اس کے حوالے سے امریکہ کا آمرانہ رویہ ایسے عوامل ہیں، جنھوں نے سعودیہ کو امریکہ اور مغرب سے ماوراء سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
چھ برس بعد اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران شی جن پنگ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور شہزادہ محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کریں گے۔ شی جن پنگ نے سنہ 2016ء میں سعودی عرب، ایران اور مصر کا دورہ کیا اور ان کے درمیان سفارتی معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے۔ اطلاعات کے مطابق چین نے اب تک عرب ممالک اور عرب لیگ کے ساتھ 12 سفارتی معاہدے کیے ہیں۔ 20 عرب ممالک، عرب لیگ اور چین کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کو مشترکہ طور پر تیار کرنے کا معاہدہ بھی کیا گیا ہے۔ توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبے میں 200 منصوبے مکمل کیے گئے ہیں۔ 2021ء میں چین اور عرب ممالک کے درمیان 330 ارب ڈالر کی مشترکہ تجارت ہوئی، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 37 فیصد زیادہ ہے۔ گذشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سب سے زیادہ خام تیل چین کو فراہم کیا۔ چین، سعودی عرب کو اس بات پر بھی قائل کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کچھ تجارت کے لیے ادائیگی کی کرنسی ڈالر کی بجائے چینی کرنسی یوآن میں ہونی چاہیئے۔
اس کے ساتھ ساتھ شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب کو موجودہ بین الاقوامی منظر نامے میں بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ اور تیل کی قیمتوں پر ہونے والی تبدیلی کے حوالے سے چین کے صدر شی جن پنگ کے دورہ سعودی عرب سے تیل کے بحران سے دوچار امریکہ کی تشویش بڑھ سکتی ہے۔ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تیل کے تحفظ پر مبنی تقریباً سات دہائیوں پرانے تعلقات حالیہ دنوں میں یوکرائن میں جنگ اور خام تیل کی سپلائی پر انتہائی کشیدہ ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے چند ماہ قبل یہاں تک کہا تھا کہ سعودی عرب کو تیل میں کٹوتی کے نتائج بھگتنا ہوں گے، لیکن اس کے باوجود تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس نے سپلائی کم کرنے کے اپنے فیصلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ تیل کی کم سپلائی کے باعث عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور اس کا اثر مغربی ممالک پر پڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے روس پر اقتصادی پابندیوں کے باوجود خریداری جاری ہے، جس کی وجہ سے اسے یوکرائن میں جنگ جاری رکھنے کے لیے پیسے مل رہے ہیں۔
درج بالا اعداد و شمار اور حقائق اس امر کا عندیہ دے رہے ہیں کہ سعودیہ اور عرب ریاستیں اب امریکا اور مغرب پر انحصار سے ماوراء سوچ رہی ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سعودیہ اور ایران کے مابین مذاکرات کا سلسلہ عراق کی ثالثی میں ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور اب اعلیٰ سطحی مذاکرات کا آغاز ہونے والا ہے۔ نومنتخب عراقی وزیراعظم محمد شیاع سوڈانی کے مطابق ایران اور سعودیہ کے مابین روابط کی بحالی سے خطے میں امن و امان قائم ہوگا اور استحکام آئے گا۔ سعودی عرب کا چینی صدر کو خلیجی ممالک کے اجلاس میں بلانا اس امر کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ سعودیہ اب اپنی معیشت کے تیل پر انحصار کو کم کرنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ چین، انڈیا، جاپان جیسے ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چین کے خلاف امریکہ کے جارحانہ اقدامات https://albasirah.com/urdu/china-k-khilaf-america-k-jarehana/
اطلاعات کے مطابق عرب چین سربراہی اجلاس کے لیے خلیجی اور شمالی افریقہ کے راہنماؤں کو پہلے ہی دعوت نامے بھیجے جا چکے ہیں۔ اس سربراہی اجلاس کی صدارت شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کریں گے اور اقتصادی تعاون اور ترقی کو مضبوط بنانے کے امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے چینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین اس دورے کو عرب ممالک کے ساتھ روایتی تعلقات کو آگے بڑھانے، تمام شعبوں میں تعلقات کو مضبوط اور گہرا کرنے، دونوں ثقافتوں کے درمیان تبادلوں کو فروغ دینے اور چین کے دورے کو ایک موقع کے طور پر استعمال کرے گا۔ امید کی جانی چاہیئے کہ چین اور سعودیہ کے تعلقات میں بہتری ایران، سعودیہ تعلقات اور خطے کے دیگر مسائل پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گی۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
Share this content: