بونوں کی ریاست اور سیاست
تحریر: سید اسد عباس
اس وقت پاکستانی سیاست اور ملکی حالات جس کیفیت سے دوچار ہیں، میں نے کم از کم اپنی زندگی میں ایسے حالات کبھی نہیں دیکھے۔ میری طرح شاید بہت سے ایسے احباب ہوں گے، جن کو سیاست کے اس درجہ گرنے کی توقع نہیں ہوگی۔ چھوٹی سطح پر دھونس، دباؤ، دھمکی اور مار دھاڑ تو ملک میں دیکھنے کو ملتی ہی تھی، تاہم اتنی بڑی سطح پر یہ ڈرامہ، جس سے نہ صرف معاشرے کی اخلاقیات متاثر ہوں بلکہ اقتصادیات، ملکی ساکھ، عزت و وقار اور سالمیت ہر چیز داؤ پر لگ جائے، اس کی نظیر پہلے نہیں ملتی۔ ملک کے سیاستدانوں سے تو ایک عرصہ ہوا توقعات بالکل ہی ختم ہوچکی تھیں، تاہم ملکی اداروں کی جانب سے آئین کی پامالی حیرت انگیز ہے۔ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ جو آئین پاکستان کی پابند ہیں اور ریاست و عوام کے خادموں پر مشتمل ہیں، وہ ہی عوام دشمن ہو جائیں، انسان کس چیز کو ریاست کہے۔ ملک کے ایسے نظام کو جمہوریت کہنا تو کسی طور بھی درست نہیں ہے۔ یہ فسطائیت کی بدترین شکل ہے، جو پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے کسی طور بھی شایان شان نہیں۔
انسان کے ذہن میں بلاشبہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی مقبول ترین وفاقی پارٹی، اس کے قائدین اور ورکرز کے ساتھ اگر ایسا ظالمانہ، غیر آئینی اور جھوٹ پر مبنی رویہ رکھنا ممکن ہے تو صوبائی، لسانی، مذہبی گروہوں، جو نسبتاً چھوٹے ہیں اور عوام میں اس قدر مقبول بھی نہیں، ان کے ساتھ کیا رویہ رکھا گیا ہوگا۔ وفاق اور صوبوں میں براجمان سیاسی پارٹیاں جو جمہوریت کا دم بھرتی ہیں، ان کی جمہوریت پسندی بھی عیاں ہے۔ یہ ملک اس وقت اندھیر نگری چوپٹ راج کا منظر پیش کر رہا ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر انسان کی نظر ماضی کی ہر اس تنظیم، گروہ اور شخص کی طرف دوڑ جاتی ہے، جس کو غدار، دہشت گرد اور مجرم قرار دیا گیا۔ خواہ یہ مشرقی پاکستان کے بنگالی بھائی ہوں یا خیبر پختونخوا کے پشتون، بلوچستان کے بلوچ ہوں یا کسی اور گروہ کے افراد، جن کو دبایا گیا یا ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔ اکیسویں صدی میں 22 کروڑ آبادی والی نیوکلیئر طاقت میں ایسے مناظر انتہائی تشویشناک ہیں۔
ہمارے ہمسائے، دنیا کے ممالک کو اقتصادیات، صنعتی ترقی، پیداوار، سائنسی پیشرفت کے میدانوں میں پیچھے چھوڑنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور ہم اب تک اپنے ملک کے سیاسی نظام کا ہی تعین نہیں کر پائے۔ ہم جشن آزادی، یوم پاکستان، یوم دفاع اور ایسی ہی مناسبتیں ایسے مناتے ہیں، جیسے عالمی برادری میں عزت و وقار کے اوج ثریا پر تخت نشین ہیں اور دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہمارے درجے کا نہیں۔ ملک میں آٹا دستیاب نہیں ہے، بجلی کے بل بذات خود بجلی بن کر لوگوں کے اعصاب پر گرتے ہیں، پیٹرول اور اشیائے صرف کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ ایکسپورٹس، صنعتی پیداوار، زرعی پیداوار کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سائنسی، تعلیمی، فنی ترقی کا کسی کو دور دور تک خیال نہیں۔ محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، بابر، ہمایوں اور شیر شاہ سوری کے لشکروں کے ہمراہ آنے والے اب ایک دوسرے کو فتح کرنے کے درپے ہیں۔
اس سب کے ذمہ دار افراد کو ہم کیسے قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ محمد اقبال، لیاقت علی خان، راجہ صاحب آف محمود آباد اور تحریک پاکستان کے قائدین کا وارث قرار دے سکتے ہیں، جنھوں نے اپنا تن من دھن مسلمانوں کے حقوق کے لیے وقف کر دیا تھا۔ ہم کیسے اس پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح کا پاکستان قرار دے سکتے ہیں، جس کے لیے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے جان و مال اور عزت و ناموس کی قربانی دی تھی۔ یہ قطعاً بھی وہ پاکستان نہیں ہے، جس کا خواب مسلمانان ہند نے 23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں دیکھا تھا۔
مگر ٹھہرئیے! اس ریاست کو موجودہ صورتحال تک پہنچانے میں فقط ان کا ہی ہاتھ نہیں ہے، جن کو ہم اس کا تنہا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ ریاست عوام سے ہوتی ہے۔ اگر عوام اپنی حالت کے بدلنے کا ارادہ نہ کرے تو کسی بھی ریاست کی حالت نہیں بدل سکتی ہے۔ ہم نے سیاست کو ہمیشہ ایک شغل میلہ گردانا، علم و شعور کی کمی کے باعث ہم نے ووٹ کی پرچی کو چند سو روپوں کے عوض بیچا۔ کبھی اس بات کو نہ سوچا کہ یہ پرچی ہمارے مستقبل کا تعین کرتی ہے۔ وقتی مفادات کے حصول کے لیے اپنی رائے کا سودا کیا۔ مذہبی، لسانی اور گروہی تعصبات کو ہمیشہ فوقیت دی۔ ملک میں مہنگائی ہوئی، بدعنوانی کی گئی، آئین و قانون کو پامال کیا گیا، انصاف کا قتل ہوا، ہم اپنے روزمرہ کے امور میں سرگرم عمل رہے، جس سے امور حکومت ایسے افراد کے ہاتھوں میں آگئے، جن کو ملک و ریاست سے کوئی سروکار نہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستانی سیاست کا نازک موڑ https://albasirah.com/urdu/pak-siasat-nazuk-mor/
ہم نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کو دوسروں کے لیے اٹھا چھوڑا، جیسا کہ ہم آج بھی کر رہے ہیں، تاہم آج خوش آئند امر یہ ہے کہ ہمارے درمیان ایسا فرد موجود ہے، جو پاکستان کی حالت کو بدلنا چاہتا ہے اور اس مقصد کے لیے قربانی دینے کا آغاز اس نے اپنی ذات سے کیا ہے۔ اب تک اس پر سو کے قریب جھوٹے مقدمات درج ہوچکے ہیں، اس کے گھر کو لشکر کشی کرکے برباد کیا گیا، اس پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، وہ روزانہ قتل کیے جانے کی دھمکیوں کے باوجود باہر نکلتا ہے، تاہم اس قوم کی تقدیر بدلنے کے لیے پر عزم ہے۔ عمران خان چاہتا تو با آسانی ملک کو انارکی اور بدامنی کی جانب لے جاسکتا تھا، تاہم اس نے ہمیشہ تحمل سے کام لیا اور اپنی جدوجہد کو آئین و قانون کے دائرے میں رکھا۔ لاکھوں افراد کے اجتماعات کو ایک گملہ توڑے بغیر خالی ہاتھ واپس بھیج دیا۔
وہ لوگ جو عمران کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کو بھی نہ سراہا جائے تو غلط ہوگا۔ عمران خان کو آج ایک ایسی قوم میسر آئی ہے، جو اس کے ہم قدم اور ہم آواز ہے۔ وہ پاکستان کے بہتر کل کے لیے اپنا آج قربان کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کی ترقی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ یقیناً قوم اور آئندہ آنے والی نسلیں ان لوگوں کی احسان مند ہونگی، جیسے آج ہم قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور قیام پاکستان کے لیے قربانیاں پیش کرنے والوں کے ممنوں احسان ہیں۔
Share this content: