برصغیر میں غیر مسلم اہل قلم کے اردو تراجم و تفاسیر قرآنی
ڈاکٹر ساجد اسد اللہ
Abstract
Islamic literary legacy is diverse and multidimensional in Sub-continent despite its being prone to religious b and the issue of migration integral part of Islamic literary legacy is the Quranic translations & interpretations. The main aspect of these translations & interpretations are the endeavors put forward by Muslim as well as non-Muslim scholars. Keeping in view the endeavors translations & interpretations of Quran, the non-Muslims minorities of sub-continent can be divided into two groups.
The first group of part is based on the followers of Judaism, Parsee, Buddhist, Sikhism, Jainism and idols of Kalash whose translations and interpretations is not well known. Whereas, the second group endure Christians, Hindus and Qadyanis. Christians and Hidus consider Quran as non-revealed. Since the style of their interpretations is based on criticism and rejection in aggressive manner. Whereas the interpretations by Qadyanis are focused on religious polarized beliefs and ideologies taking into considerations Quran as revealed. That’s why Qadyanis interpretations are not accepted in Muslim community. The criticism by non-Muslims writers has resulted in rational approach for study of Quran instead of tendency based on esteem among Muslim. This paper represents aforementioned non-Muslims services regarding Quranic Interpretations and Translations which are distinguished in Muslims Interpreters.
تعارف:
برصغیر پاک و ہند ایک کثیر المذاہب خطہ ہے۔مذہبی تکثیریت کا نمائندہ یہ خطہ بہت وقیع علمی و مذہبی ادب کا حامل ہے جس کے تذکرہ کے بغیر عالمی ادب کی تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے ۔اس حوالے سے ان مذاہب کا مقدس مذہبی ادب خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہے جن کے سوتے برصغیرسے پھوٹے تھے۔ اس میں ہندو مت ، بدھ مت ، جین مت اور سکھ مت شامل ہیں ۔[1] ان کے علاوہ اسلام یہاں اپنی غرابت وطنی کے باوجود بہت متنوع اور وسیع اسلامی علمی تراث رکھتا ہے ۔اس کی ایک مثال برصغیر کا تفسیری ادب ہے۔دیار عرب کے بعد تراجم و تفاسیر قرآنی کا سب سے زیادہ کام برصغیر پاک و ہند میں کیا گیا ہے۔[2] علاقائی زبانوں میں قرآنیات کا سرمایہ اس سے سوا ہے۔ اسی ضمن میں ایک قابل ذکر امر یہاں کے غیر مسلم اہل قلم کے تراجم و تفاسیر قرآنی ہیں ۔ ان غیر مسلم اقلیتوں کو دو گروہوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے ۔ پہلا گروہ وہ اقلیتیں ہیں جن کا قرآنیات پر کام زیادہ معروف نہیں۔ ان میں یہودی ، پارسی ، بدھ مت، سکھ مت ، جین مت اور وادی کافرستان سے تعلق رکھنے والے کیلاش شامل ہیں[3] ۔ قرآنیات پر قلم اٹھانے والے دوسرے گروہ میں مسیحی ، ہندو اور قادیانی شامل ہیں ۔ان میں سے مسیحی اور ہندوقرآن کو غیر الہامی تصور کرتے ہیں اور ان کا تفسیری اسلوب جارحانہ انداز میں نقد و تنقیص پر مبنی ہے۔ اس گروہ کے تیسرے فریق قادیانیوں کی تفاسیرمیں قرآن کو الہامی تسلیم کرتے ہوئے مسلم علم الکلام کی روشنی میں اپنےمخصوص مذہبی عقائد و نظریات کی تاویل پرارتکاز ہے ۔ مقالہ ہذا میں مسیحی، ہندو اور قادیانی اہل قلم کےمعروف تراجم و تفاسیر قرآن کریم کا جائزہ لیا جائے گا۔
الف۔تراجم و تفاسیر قرآنی کی مسیحی کاوشیں:
برصغیر کے مذہبی ادب کا ایک نمایاں پہلو یہاں کا مسلم و مسیحی مناظراتی ادب ہے۔ جس میں مسیحی اہل قلم کی تراجم و تفاسیر قرآنی کی کاوشیں کمیت میں کم ہونے کے باوجود قابل ذکر اہمیت کی حامل ہیں ۔ مسیحی اہل قلم کی ان کاوشوں کے متعلق ڈاکٹر سفیر اختر راہی رقم طراز ہیں:’’[برصغیر میں ] عیسائیوں نے قرآن کریم کے حوالے سے جو قلمی تحریری کام کیا ہے اس کا مقصد قرآن پاک کے صحیح مترجمین و مفسرین کے مقاصد سے بہت مختلف تھا اور خاصی حد تک نازیبا اور پست مقصد تھا۔ پادریوں کی ان کاوشوں کا مرکزی نقطہ یہی تھا کہ قرآن کریم کے منزل من اللہ ، کتاب ہدایت اور خدا کے آخری پیغام ہونے کی بہر صورت (معاذ اللہ ) تردید کی جائے اس کی صداقت و تعلیمات پر یقین و عقیدہ کو مسلسل کمزور کیا جائے ۔ اس کوشش کے نتیجے میں ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا اور ان کے چھاپے ہوئے ترجموں اور تفاسیر قرآن کو مسلمانوں میں کبھی بھی پذیرائی اور قبول عام نہیں ہوا۔‘‘[4]ذیل میں برصغیر میں مسیحی اہل قلم کی قرآنیات پر بعض کاوشوں کے مقاصد، اسلوب اور علمی حیثیت کا جائزہ لیا جاتا ہے:
برصغیر میں مسیحی منادیں کی طرف سے قرآن مجید کے ترجمہ کی پہلی کاوش اردو کی بجائے پرتگیزی زبان میں ہے ۔گوا (Goa)کے علاقہ پر پرتگیزی استعمار( ۱۵۰۵۔۱۹۶۱)کے دوران ہسپانوی نژاد مبشر جیروم زیویئر (Jerome Xavier) (۱۵۴۹ء۔۱۶۱۷ء) نے ۱۶۱۵ء میں فارسی میں ترجمہ کروایا اور پھر خود ہی اسے پرتگیزی زبان میں منتقل کیا۔[5] اسے برصغیر میں مسیحی منادوں کی جانب سے قرآنیات کے ضمن میں ہونے والی اولین کوشش گردانا جا سکتاہے۔اس کے بعد منظر عام پر آنے والی قابل ذکر کاوش، اگر چہ مسیحی ترجمہ تو نہیں لیکن مسیحی ارباب اختیار کی زیر نگرانی مسلم مترجمین کا کردہ اردو ترجمہ قرآن ہے۔یہ فورٹ ولیم کالج ، کلکتہ(قیام ۱۰ جولائی ۱۸۰۰ء) کے نگران و ہندی شعبہ کے انچارج ڈاکٹر جان بارتھوک گل کرسٹ(John Borthwick Gilchrist )(۱۷۵۹ ء ۔ ۱۸۴۱ء )[6] نے مسلم مترجمین سے کروایا تھا[7]۔
بعد ازاں اس کی اشاعت روک دی گئی۔[8] اس کا ایک قلمی نسخہ ایشیاٹک سوسائٹی،کلکتہ[9] جبکہ دوسرا نسخہ آندھرا پردیش سنٹرل لائبریری(سابقہ نواب سالار جنگ میوزیم ، حیدرآباد)میں موجود ہے۔[10] بعد ازاں مسیحی حلقہ کی طرف سے امریکن پریسبٹیرین مشن لدھیانہ کی طرف سے ]مطبعہ پیغام ، دہلی[ ۱۸۴۴ ء میں ترجمہ شاہ عبدالقادر رومن رسم الخط میں شائع ہو ا جس کے مقدمہ میں اسلام پر نقد اور مسیحیت پر مسلم اعتراضات کا جواب دیا گیا تھا۔
پادری عمادالدین،ترجمہ قرآن بہ اردو زبان :
نیشنل پریس ، امرتسر ، ۱۸۹۴ ء، بار اول ،صفحات: ۳۰۴[11]۔پادری عمادی الدین(۱۸۳۳ ء ۔۱۹۰۰ء ) کے اس ترجمہ قرآن کو برصغیر کےاردو مسیحی تراجم قرآنی میں تقدم حاصل ہے۔ آغاز میں ۲صفحات کا مقدمہ جب کہ اختتام پر ۹ صفحات کا اشاریہ اور صحت نامہ ( تصحیح اغلاط ) بھی شامل ہے ۔اس حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ”مولوی”سے ملقب پادری صاحب اسلام سے ارتدادسے قبل اکبر آباد کی مسجد میں امامت کرواتے تھے[12]۔ زمانی تقدم اور مترجم کے عربی زبان پر عبور اور علوم شرعیہ میں رسوخ رکھنے کی بنا پر اس ترجمہ کو مسیحی حلقوں میں خصوصی اہمیت ہے۔اس پہلے مکمل مسیحی ترجمہ قرآن کا سبب مرزا غلام احمد قادیانی (م 1908 ء) کا نومسیحی پادری عبداللہ آتھم (م ۱۸۹۶ء ) کو مخاطب کرتے ہوئے ایک قول گردانا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آپ مسیحی لوگ کبھی انصاف کی پاک نظرکے ساتھ قرآن کریم کو نہیں دیکھتے ۔[13] اس کے ساتھ ساتھ پادری صاحب معترض ہیں کہ عام فہم ترجمہ قرآن دستیاب نہیں [14] اور مسلم علماء قصداً عام فہم ترجمہ قرآن نہیں کرتے ۔چنانچہ انہوں نے یہ بوجھ اٹھایا ہے[15]۔
پادری صاحب اس سے پہلے اردو مسیحی ترجمہ قرآن میں ترجمہ شاہ رفیع الدین صاحب (م 1818ء)،ترجمہ شاہ عبدالقادر(م 1814ء) کے ساتھ تفسیراسرار التنزیل از امام بیضاوی ( م 685ھ) ، تفسیر مدارک التنزیل از امام نسفی ( م 710ھ)، قاموس فیروز آبادی (م 817ھ)،تفسیر جلالین و اتقان فی علوم القرآن از جلال الدین سیوطی( م 911ھ)،تفسیر حسینی ملا واعظ کاشفی(م 912ھ)اور الفوزالکبیر از شاہ ولی اللہ ( م 1762ء) سے استفادہ کرنے مدعی ہیں[16]۔
ترجمہ میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ ’’اللہ رحمن رحیم کے نام سے شروع کرتا ہوں ‘‘۱۱۳ سورتوں کی بجائےسورۃتوبہ سمیت ۱۱۴ سورتوں کے شروع میں دیا گیا ہے ۔مسلم روایت کے برعکس آیات کے نمبر اختتام آیات کی بجائے (بطرز انجیل ) آغاز آیت میں دے کر شعوری طور پر بائبل کا انداز اپنانے کی سعی کی گئی ہے۔نیز آیات کے نمبرمعروف مستشرق فلوگل(Flügel) (م1870ء)کے لپزگ (Leipzig)جرمنی سے ۱۸۳۴ ء میں شائع کردہ قرآن کریم کی ترتیب کے مطابق ہیں جو کہ متداول مصاحف قرآنی سے مختلف فیہ ہے۔اس میں تعداد آیات تو یکساں لیکن آغاز و اختتام آیت میں فرق ہے۔ اسلوب ذیل کی آیات کے ترجمہ سے عیاں ہے۔’’(۱) الم اس کتاب میں کچھ شک نھیں ہے اہل خوف کے لیے ہدایت ہے (۲) جو اندیکھے ( اَن دیکھے) پر ایمان لاتے اور نماز پڑھتے اور جو کچہہ (کچھ)انکو ہم نے دیااس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘[17]قرآن کریم نے جہاں مسیحی عقائد پر تنقید کی ہے وہاں مسیحی مترجم بلانقد و تعلیق گزر جاتے ہیں ،مثلاً؛’’اے اہل کتاب اپنے دین میں مبالغہ نہ کرو اور خدا کی نسبت صرف حق بات بولو۔ مسیح ابن مریم اللہ کا رسول اور اس کا کلمہ ہے جسے اسنے مریم کی طرف ڈالا تھا اور روح ہے اس میں سے (یعنی خدا میں سے) پس تم اللہ پر اور اسکے رسولون پر ایمان لاؤ اور تین نہ کہو باز آؤ ۔‘‘[18]
آخر میں ۷صفحات پر مشتمل ایک انڈیکس بعنوان ” فہرست بعض مضامین قرآن معہ بعض اشارات بحث طلب ” کے عنوان سے مرتب کیا گیا ہے ۔ قرآن کے بارے اپنی فکر کو اس فہرست میں عیاں کیا ہے ۔ اس ترجمہ قرآن کا یہ حصہ مسیحی نقطہ نظر سے مفید مطلب ہے ۔
پادری احمد شاہ،ترجمۃ القرآن:
پی جی مشن ہمیر پور،زمانہ پریس ،کان پور ۱۹۱۵ء صفحات: ۵۰۸۔ پادری احمد شاہ کا زیر نظرترجمہ دوسرا مسیحی اردو ترجمہ قرآن ہے ۔اس کا اظہار اشاعت ہذا کے اس ابتدائی جملہ سےہوتا ہے۔’’مسیحیوں کی طرف سے اردو زبان میں یہ قرآن کا دوسرا ترجمہ ہے۔‘‘[19]مترجم پادری احمد شاہ کے نزدیک اس عہد میں مسلم تراجم قرآنی گروہی فکری چھاپ اور با محاورہ نہ ہونے کی بنا پر غیر مسلموں کے لیے باعث الجھن تھے ۔اس عمومی رویہ کو دیکھتے ہوئے پادری صاحب نےایسے بامحاورہ ترجمہ قرآن کا بیڑا اٹھایا جو مسیحی منادین کی ضروریات پورا کرسکے۔[20]ترجمہ قرآن کا اسلوب ان امور سے ظاہر ہوتا ہے جن کا مترجم نے خیال رکھنے کا دعوٰی کیا ہے۔
۱ ۔جہاں تک ممکن ہو بیرونی الفاظ نہ ملائے جائیں۔
۲۔زبان با محاورہ ہو۔
۳۔ عربی الفاظ کی ترتیب جہاں تک ممکن ہو قائم رہے۔
۴۔ جو الفاظ عربی کے زبان اردو میں رواج پا گئے ہیں ان کا ترجمہ نہ کیا جائے ۔ ان کی اصلی حالت قائم رہے۔
۵۔ شان نزول جن پر محمدی علماء کا اتفاق ہے بطور تحت حاشیہ اسباب وحی میں درج کر دیئے جائیں۔
۶۔کسی امر متنازعہ پر کسی خاص فرقہ کی تائید نہ کی جائے بلکہ ناظرین خود اس سے اپنے لیے نتیجہ نکال لیں۔
۷۔ ترجمہ میں تعصب اور ذاتی رائے سے کام نہ لیا جائے[21]۔
ایک مبسوط مقدمہ لکھنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا جسے اشاعت ہذا کے بعد الگ سے قارئین تک پہنچانے کا وعدہ تھا لیکن اس کی اشاعت یا لکھا جانا غیر معرو ف ہے۔ نیز اپنے ماخذ کا ذکر بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
’’فہرست سورتہا ئے قرآن معہ نمبر شمار و صفحہ ‘‘کے عنوان کے تحت باعتبار حروف تہجی تین کالموں میں قرآنی سورتوں کی فہرست دی گئی ہے۔پہلے کالم میں ترتیب توقیفی کے اعتبار سے سورت نمبر ، دوسرے کالم میں نام سورت اور تیسرے میں صفحہ نمبر دیا گیا ہے۔ دو صفحات پر مشتمل اس فہرست کے پہلے صفحہ پر ۶۴ جبکہ دوسرے صفحہ پر ۵۶ اندراج ہیں[22]۔آیات کے نمبر لیپزگ (Leipzig) سے شائع کردہ قرآن کریم کی ترتیب کے مطابق آغاز آیت میں دیئے گئے ہیں۔ہر سورت سے قبل بسم اللہ کا ترجمہ ’’نہایت مہربان بڑے رحم والے اللہ کے نام سے‘‘کیا گیا ہے[23]۔اس بات کا خاص اہتمام ہے کہ شان نزول یا پھر وہ آیات جن کا تعلق مسلم مفسرین نے یہود سے جوڑا ہے ان کے بارے حاشیہ آرائی کی جائے۔جب کہ مترجم قرآن کے مخاطب اہل کتاب کے بڑے گروہ یعنی عیسائیوں سے متعلقہ بیانات کا ترجمہ کر کے خاموشی سے آگے گذر جاتے ہیں اور صرف اپنے مفید مطلب مقام پرحاشیہ آرائی کرتے ہیں ۔مثلاً سورۃ مائدہ کی آیات۷۶ اور ۷۷ کا ترجمہ بنا کسی حاشیہ آرائی یا بحث و تمحیص کے یوں کیا ہے:
’’بیشک وہ کافر ہوئے جو کہتے ہین کہ اللہ وہی مسیح ابن مریم ہے مگر مسیح نے کہا اے بنی اسرائیل اللہ کی جو میرا اورتمہارا رب ہے عبادت کرو جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا اسپر اللہ نے جنت کو حرام کر دیا اوسکا ٹھکانا آگ ہے ظالمون کا مدد گار کوئی نہین (۷۷) بے شک وہ لوگ کافر ہو گئے جنہوں نے کہا کہ بیشک اللہ تین مین کا تیسرا ہے بجز ایک اللہ کے کوئی اللہ نہین اور اگر وہ اس سے جو وہ کہتے ہین باز نہ آوین تو ان لوگون کو جو انمین( ان میں ) سے کافر ہوئے بہت سخت عذاب ہو گا۔‘‘ [24]
مترجم کے عقائد کی تغلیط و تکفیر کرنے والی ان آیات کا بدون تنقید و تردید و توضیح سادہ ترجمہ اس مناظراتی عہد کی تبشیری تحریروں کے مزاج کے برعکس ہے اور پادری صاحب کی انتہائی رکیک و دشنام طرازی پر مبنی ابتدائی کتاب امہات المؤمنین(مطبوعہ ۱۸۹۴ء) کی بہ نسبت اسلوب شائستہ ہے۔ مترجم کے اس پس منظر سے آشنا قاری کو یہ رویہ ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔اس ترجمہ و حواشی کا پروف ریڈنگ میں دقت نظر سے کام نہیں لیا گیا ۔کتابت کی غلطیاں موجود ہیں جنہیں ممکن ہے مسیحی قاری معمولی خیال کرے لیکن مسلم قاری ان سے صرف نظر نہیں کر پاتا۔مثلاً؛۔ ابتداء میں سورت ابراہیم کا نمبر ۱۴ کی بجائے ۱۴۱ لکھا ہوا ہے ۔[25]
پارہ ششم میں ۹۰ تا ۱۰۷تک ہر صفحہ کے بائیں جانب مائیدہ مرقوم ہے جبکہ سورت کےآغاز پر نام مائدہ لکھا ہوا ہے۔۔ص ۲۰۹ پر سورۃحجر کا نمبر شمار ۱۵ کی بجائے ۵ مرقوم ہے۔ نیز یہاں الحجر کے معنی پتھر مرقوم ہیں اور سورۃ مریم کا شمار نمبر ۱۹ کی بجائے ۲۹ درج ہے۔۔ص ۴۰۹ پر لفظ ’’گشت ‘‘بغیر نقطوں کے، ص ۳۱۵ پر حمزہ کو ہمزہ ، ص ۴۹۸ پر کنجوسی کو کنجوشی اورص ۴۸۵ پر سورۃالنباء کو سورہ بنا لکھا ہے۔
ان اسقام سے کتابت میں بے توجہی کا رویہ سامنے آ تا ہے۔جب کہ مسلمانوں کے ہاں دینی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کلام الہی کی کتابت میں چھوٹی چھوٹی جزئیات تک کا بہت باریک بینی سے خیال رکھا جاتا ہے۔[26]
مسیحی منادین کو قرآنی محتویات سے آشنا کروانے کی غرض سے کیا گیا یہ ترجمہ قرآن مسلم افکار کی صحیح تصویر کشی نہیں کرتا۔ پادری عمادالدین اور پادری احمد شاہ کے کردہ دونوں تراجم بدون متن معرٰی ہی طبع ہوئے۔ ایسی اشاعت میں قرآنی تقدس کا احساس مفقود رہتا ہے جب کہ مسلمانوں کے ہاں قرآنی متن کو تقدس اور احترام کا درجہ حاصل ہے۔ پادری عماد الدین کے ترجمہ قرآن سے قبل مسلمانوں کے ہاں بدون متن،معرٰی ترجمہ قرآن کی اشاعت کی روایت موجود نہ تھی۔
پادری جے علی بخش،تفسیر قرآن :
مرکنٹائل پریس ، لاہور ۱۹۳۵ ء،صفحات: ۲۷۵۔یہ شان نزول اور عہد نامہ قدیم و جدید کی روشنی میں کی گئی مکی سورتوں کی تفسیر ہے ۔ جس کا سب سے اہم پہلو سور توں اور آیات کی زمانی تقسیم ہے۔پادری صاحب بحیثیت مفسر اس بات کے مدعی ہیں کہ قرآن فہمی کے لیے بائبل کا مطالعہ ازحد ضروری ہے ۔وہ کہتے ہیں:’’قرآن کی تشریح و تفسیر میں کتب سماوی کو نظر انداز کر کے احادیث نبوی کی الجھن میں پڑنے کی وجہ سےاہل اسلام قرآن کا حقیقی مطلب سمجھنے سے قاصر رہے۔‘‘[27]
چنانچہ یہ تفسیر اس امید پر کی ہے کہ’’اس کے ذریعہ اہل اسلام قرآن کو سمجھنے کی خاطر دیگر کتب سماوی کا مطالعہ زیادہ ذوق وشوق سے کرنے لگیں گے اور یوں مسلمانوں اور مسیحیوں میں جو جدائی کی خلیج ہے وہ عبور ہو سکے گی۔[28]
اس میں مکی سورتوں کو زمانی اعتبار سے تین گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ اس میں امام جلال الدین سیوطی، نولڈیکے)م 1930) ، ولیم میور ) م 1905) ،اور مولوی نذیر احمد ( م 1912ء) کی بیان کردہ ترتیب نزولی کا تقابلی جدول اور مکی سورتوں کےخواص بیان کیے گئے ہیں۔ [29]بعض جگہ عربی گرائمر کے معروف طریق سے ہٹ کر نکتہ آفرینی فرماتے ہیں جیسے’’والتین‘‘کی واؤ کو قسمیہ قرار نہیں دیتے :’’اگر یہاں بجائے قسم کھانے کے ‘‘غور کرو ترجمہ کریں بہتر ہو گا انجیر پر غور کرو[30]۔
اکثر مقامات پر قرآنی آیات کا تعلق اہل کتاب بالخصوص مسیحیت سے تعلق جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔مثلاًسورۃ نون کی تفسیر میں لکھتے ہیں :’’جب نون لفظ کے طور پر لکھا جائے گا تو اس کے معنی دوات کی سیاہی کے ہیں لیکن جب صرف “ن” لکھا جائے تو اس کے معنی سیاہی کے نہیں ۔ اس سورہ میں ذوالنون کا ذکر آیا ہے ۔ ذوالنون میں نون کے معنی مچھلی کے ہیں مسیحی ایمانداروں کا نشان مچھلی تھا۔جن دنوں میں مسیحی دین ممنوع قرار دیا گیا تو مسیحیوں نے ایک دوسرے کو پہچاننے کے لیے مچھلی کا نشان قرار دیا ۔ مچھلی کے لیے یونانی لفظ Lxus) )ہے اس کے الگ الگ حروف سے مراد یسوع مسیح ابن خدا نجات دہندہ ہیں اس زمانے کے مسیحی اس نشان کو بخوبی سمجھتے تھے لیکن بت پرست اورمشرکین اس کے معنی سے واقف نہ تھے ۔ چونکہ مسلمان مفسرین مسیحی اصطلاحوں سے نا آشنا تھے اس لئے اس لفظ کے معنی سمجھنے سے وہ عاری رہے۔‘‘[31]
بعض مقامات پر اپنے ہم مذہب مفسر ین سے اختلاف بھی کرتے ہیں۔مثلاًسورۃ العادیات کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:’’پادری احمد شاہ نے جو حدیث نقل کی ہے( پادری احمد شاہ نے منذر بن عمر انصاری کی قیادت میں بنو تمامہ کی طرف ایک دستہ بھیجے جانے کی روایت بلا ماخذ ذکر کی ہے جو کہ مدنی دور کا واقعہ ہےص ۵۰۲۔۵۰۳) ہمیں اس سے اتفاق نہیں کیونکہ اگر اس حدیث کو صحیح مانیں تو یہ سورت مدنی ٹھہرے گی نہ (کہ) مکی ۔ کیونکہ مکہ میں جب تک محمد صاحب ہجرت سے پہلے رہے وہاں ایسا رسالہ بھیجنے کی کوئی گنجائش نہ تھی ایسی ساری مہمیں مدنی زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔‘‘[32]
مولانا ثناء اللہ امرتسری( م 1948) نےاس تفسیر کا علمی تجزیہ کرتے ہوئے تبصرہ کیا ہے:’’پادری جے علی بخش صاحب کی تفسیر دوسری قبیل سے ہے۔‘‘[33]
اس میں ایک ایک سورت کو لے کر کتب سابقہ سے موافق بتایا ہے جو صورتاً تو موافق ہیں مگر معناً مضرو مخالف ہیں۔ اس سے یہ بھی غرض ہے کہ قرآن شریف ان کتب سے ماخوذ ہے۔مگر جو مسئلہ قرآن اور انجیل ( بلکہ بقول مسیحیان مناظرین بائبل) میں اختلافی ہے جہاں اس کا ذکر آیاہے یا مسیح کی الوہیت کا ابطال ہو اور مسیحیوں کے عقیدہ متضمن بہ الوہیت کی اصلاح ہو ، پادری جے علی بخش صاحب ان آیات سے بعزت و احترام گذر گئے۔نہ مسیحی عقیدے کی تائید کی نہ قرآنی فرمان کی تصدیق۔‘‘[34]بائبل و قرآن میں بظاہر تطبیق کی اس کاوش کا بین السطور مقصد قرآن کو یہودی و مسیحی نوشتوں سے ماخوذ اور بعض انجیلی عقائد کی قرآن سے تصویب کرانا نظر آتا ہے۔ اس بات کا التزام بھی ہے کہ مسلمانوں سے غیر محسوس طریقے سے بائبل کی وہ حیثیت تسلیم کروائی جائے جو مسیحیوں کے ہاں مسلمہ ہے۔
پادری سلطان محمد پال ،سلطان التفاسیر:
ایم کے خان مہاں سنگھ ، لاہور س ن،صفحات: ۱۸۴۔سورۃ فاتحہ اور سورۃ بقرہ کے چھٹے رکوع تک کی یہ تفسیر پادری صاحب کی ادارت میں جاری مسیحی جریدہ ” المائدہ” (لاہور) میں بالاقساط ۱۹۳۲ء تا ۱۹۳۴ءکے دوران چھپی، جسے بعد ازاں مجلد شائع کیا گیا ۔ بعد ازاں دوسرے مسیحی جریدہ ” النجات “(لاہور) میں اس تفسیری سلسلہ کو آگے بڑھایا گیا ، اس کی کتابی شکل میں اشاعت نہیں ہو سکی۔تفسیری اسلوب یہ اپنایا گیا ہے کہ پہلے قرآنی متن اور اس کا پادری صاحب کا کردہ ترجمہ دیا گیا ہے پھر لفظاً تفسیری پہلو ؤں پر بسیط گفتگو کی گئی ہے۔ پادری صاحب کی اس طرز تفسیر کے سوا کسی اور مسیحی اہل قلم نے تفسیر قرآن پر اس طرح قلم نہیں اٹھایا ۔ یہ بات بھی خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ مسلم علماء کی طرف سے مولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس تفسیر کا جواب “برہان التفاسیر[35]”کے نام سے لکھاہے۔دیگر ایسی کسی تفسیر کو قابل التفات خیال نہیں کیاگیا۔
طرز استدلال میں اس دور کا استشراقی رنگ جھلکتا ہے ۔ مثلاً سورۃ الفاتحہ کی تفسیر میں جاہلی شاعر امیہ بن ابی الصلت کے اشعار بیان کر کے کہتے ہیں کہ یقیناً امیہ کے اسی قسم کے اشعار نے آنحضرتؐ کواس طرف متوجہ کیا ہو گا کہ آپ کتب مقدسہ کا استقصا کریں اور امیہ کے اشعار کو قدرے تفصیل کے ساتھ الحمد کی صورت میں مرتب کریں[36]۔تطبیق کے عنوان سے دو کالموں میں سورۃ الحمد اور صحف مطہرہ کے متعلقہ بیانات کا تقابل کیا گیا ہے[37]۔اس کے ساتھ ساتھ توصیفی اندز میں سورت کی تفسیر کا اختتام پادری ویری کے درج ذیل الفاظ سے کرتے ہیں :
’’سورۃ فاتحہ کی اس کے حقیقی مقصد کے لحاظ سے کوئی مسیحی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا یہ اول سے آخر تک ایک مخلصانہ دعا ہے جس کو مسیحیانہ طور پر ادا کیا گیا ہے ۔ ہر ایک شخص اس کے جواب میں آمین کہہ سکتا ہے ” میں کہتا ہوں کہ صرف آمین نہیں بلکہ اس کو ورد کر سکتا ہے اور پڑھ سکتا ہے کیونکہ یہ بائبل مقدس کے وہ جواہر ریزے ہیں جنکو ایک نئے طرز اور نئے اسلوب کے ساتھ ایک ہی سلک میں پرو دیا گیا ہے۔‘‘[38]اسی طرح سورت بقرۃ ( آیت :۴۴ )کی تفسیر میں لفظ راکع بمعنی حنیف مراد لے کر اس کا مصداق مسیحی راہب ٹھہرا تے ہیں:’’پس ’’وارکعوا مع الراکعین‘‘کے صحیح معنی یہ ہوئے کہ (ان حنیف) راہبوں کے ساتھ خدا کے آگے جھکو‘‘[39]جب کہ پادری صاحب کے ہم مسلک پادری ٹھاکر داس صاحب اس کے برعکس حنفاء کی بابت لکھتے ہیں:’’یہ لوگ اصل میں بدعتی تھے طالمود کی رو سے حنیف کے لفظی معنی ریا کار ہیں، چار خدا کو نہ دیکھیں گے ، ٹھٹھے باز ، دروغ گو ، اور غماز۔‘‘[40]
پادری ٹھاکر داس صاحب کے مدنظر رسول اللہ ﷺ کی ذات پر حملہ آور ہونا تھا چنانچہ یہ معنی ذکر کر دیئے ۔ پادری سلطان محمد پال صاحب کے پیش نظر اہل اسلام کو مسیحی عمائدین کی پیروی کا سبق پڑھانا تھا چنانچہ حنیف کے معنی پاک باز لوگوں پر منطبق کر کے “ان راہبوں کے ساتھ خدا کے آگےجھکنے” کا مشورہ دے ڈالا۔مسیحی نقطہ نظر کی حامل مذکورہ کاوشوں ترجمۃ القرآن از پادری احمد شاہ ، ترجمہ قرآن بہ اردو زبان ، از پادری عمادالدین ،تفسیر قرآن از پادری جے علی بخش اور سلطان التفاسیر از پادری ایس ایم پال کا غالب حصہ نقد و تنقیص قرآن پر مشتمل ہے۔
سورہ فاتحہ:
( اس پر مفسر کا نام درج نہیں)[41]،کرسچین لٹریچر سوسائٹی ، لودیانہ ۱۹۰۰ء،صفحات: ۱۰۔زیر نظر صرف سورۃ فاتحہ کی متوسط تفسیر ہے جس میں دیگر مسیحی کاوشوں کے بر عکس نقد و تنقیص کی بجائے قرآنی تعلیم کی تائید و توصیف کا رنگ نمایاں ہے۔مثلاً ’’کیونکہ یہ فاتحہ جس کو آپ بار بار دھراتے ہیں بہت اچھی ہے۔‘‘[42] ’’حاصل کلام ہم تسلیم کرتے ہیں کہ سورۃ فاتحہ کی تعلیم بہت خوب ہے۔‘‘[43]اخلاقی پندو نصائح کے رنگ میں قلم اٹھانے کےبعد ’’مٰالِکِ یَومِ الدِینِ ‘‘ کی تفسیر میں تبشیری پیغام سامنے آ گیا ہے۔اس آیت کی تفسیر میں مرقوم ہے:’’اور اس سبب سے آخری دن ہر ایک آدمی کا اس کے اعمال کے مطابق انصاف کرنا ہو گا۔اس حالت میں وہ عدالت کے دن کس طرح سے رحم ظاہر کر سکتا ہے؟ اور مالک یوم الدین کیونکر رحیم ہو سکتا ہے۔یہ مشکل محض انجیل مقدس کی تعلیم سے حاصل ہو جاتی ہے۔‘‘[44]
آگے اس مشکل کا انجیلی حل بیان کیا ہے کہ:
’’ انجیل مقدس میں لکھاہے کہ سیدنا مسیح نے گنہگاروں کے لیے اپنی جان دی اور گناہ کے لیے کفارہ ادا کیا ۔ اس کفارہ کے وسیلہ سے راست باز خدا گنہگاروں پر رحیم ہو سکتا ہے۔‘‘[45]
لیکن ساتھ یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ کفارہ کے وسیلہ کے بغیر کون سی چیز صفت رحیمیت میں رکاوٹ بنتی ہےآسان اسلوب میں لکھی گئی اس میں عمومی تبشیری لٹریچر کے برعکس کوئی کلامی اور منطقی بات نہیں کی گئی ۔ سادہ الفاظ میں بدونِ دلائل دعاؤں کی تکمیل اور آخرت میں نجات کو مسیح پر ایمان لانے سے مشروط کرتے ہوئے قبول عیسائیت کی دعوت دی گئی ہے۔آخر میں قبول عیسائیت کے لیے یوں دعوت دی گئی ہے:
’’بھائیو ! اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ خدا کی رحمت میں شریک ہوئیں اور اگر آپ انصاف کے دن رہائی پانا چاہتے ہیں تو سیدنا مسیح کا شاگرد ہونا اور اپنا بوجھ اس پر ڈالنا چاہیے۔ سیدنا مسیح ہی خدا کی راہ ہے ۔ کوئی اور نجات کی راہ نہیں ہے نجات قرآن کو دھرانے سے نہیں ملتی ۔ ۔۔۔بھائیو ! سیدنا مسیح پر ایمان لاؤ ۔‘‘[46]
ان تفسیری کاوشوں کے علاوہ مسیحی ارباب کلیسا نے اپنی تقدیم کے ساتھ شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمہ قرآن کی اشاعت کا بھی اہتمام کیا۔ کیونکہ وہ خود اقراری تھے کہ یہ مسلم علماء کے نزدیک نہایت وقعت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔[47]
۱۸۴۴ ء میں پریسبٹیرین مشن کے تحت رومن رسم الخط میں مسیحی حلقہ کی جانب سے پہلا ترجمہ قرآن شائع کیا گیا جس پر مترجم کے نام کی بجائے ’پادریان پریسبتیریان ‘مرقوم تھا۔جارج سیل کے مقدمہ سے ماخوذ تنقیدی نوٹس کے ساتھ شائع شدہ اس ترجمہ کے متعلق ایک رائے یہ ہے کہ یہ شاہ عبدالقادر کا کردہ ترجمہ ہی تھا ۔ ڈاکٹر احمد خاں کے مطابق اس کا ایک نسخہ برٹش لائبریری ، برطانیہ میں نمبر ۲۔ای۔۱۴۱۰۴ پر موجود ہے۔[48]
ڈاکٹر صالحہ شرف الدین رقم طراز ہیں:
’’ یہ ترجمہ امریکی مشن کی جانب سے کیا گیا ہے۔مترجم کا نام پرسباتاریان ہے۔اس ترجمہ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمان ناقص ہیں اور ان کی غلطیوں پر بحث کی گئی ہے ۔نیز عیسائی مذہب پر مسلمان جو اعتراض کرتے ہیں اس کا جواب بھی عیسائی نظریہ کے تحت دیا گیا ہے۔‘‘[49]
برصغیر میں خدمات سرانجام دینے والے ٹی پی ہیوز Thomas Patrick Hughes (م 1911ء) اور پادری ای ایم ویریE M Wherry (م 1927ء)نے مشنریوں کی سہولت کے لیے ۱۸۷۶ ء میں شاہ عبدالقادر دہلوی کے ترجمے کو رومن رسم الخط میں چھپوایا۔اس میں حرف آغاز ، مقدمہ اور تفسیری منہج کے بارے معلومات بھی دی گئی ہیں[50] ۔
اردو کے علاوہ انگریزی میں تفسیر قرآن کا کا اہم کام مسیحی مشنریز بہت معروف ہے۔ مشہور پادری اور ہندوستان میں مسلمانوں سے مناظرہ کرنے میں ہمیشہ پہرجوش رہنے والے ای ایم ویری نے۱۸۹۴ ء میں جارج سیل کے قدیم ترجمہ و حواشی کو اصل اساس قرار دے کر ایک مستقل تفسیر چار جلدوں میں انگریزی زبان میں شائع کرائی اس تفسیر میں بیضاوی ، کشاف ، جلالین و تاریخ ابوالفداء وغیرہ کے حوالے تو جارج سیل ہی کے دیے ہوئے موجود تھے ویری نے جن جدید مآخذ کے حوالے دیئے ہیں وہ یہ ہیں۔تفسیر روفی ( معلوم نہیں کہ اس نام سے کون سی فارسی تفسیر مراد ہے) ،تفسیر حسینی( ملا حسین واعظ کاشفی)تفسیر فتح الرحمن(شاہ ولی اللہ دہلوی کے فارسی حواشی)حواشی شاہ عبدالقادر دہلوی( موضح قران مراد ہے)۔[51]
(ب)۔ہندو تراجم قرآنی:
برصغیر میں تاریخی طور پر مسلمانوں کے بڑے مذہبی پڑوسی ہندو ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ برطانوی استعمار سے قبل آبادی کے لحاظ سے اکثریتی ہندو فریق کی طرف سے سیاسی رقابت کی باوجود غالب مسلم فریق کے ساتھ علمی و مذہبی مناقشہ کی روایت بہت محدود تھی۔انگریز عہد میں مسلم مسیحی علمی مناقشہ کا اثر ہندو مسلم مناقشہ پر بھی پڑا اور اس کا رنگ ماقبل سے مختلف نظر آنے لگا۔اس ضمن میں قرآن کی تنقید و تنقیص کی سب سے زیادہ معروف کاوش سناتن دھرم روایت سے ہٹنے والے آریہ سماج کی نمائندہ تحریر’’سیتیارتھ پرکاش‘‘ کا چودھواں باب ہے۔[52] جس میں سوامی دیانند سرسوتی(م 1883ء) نےبہت سطحی اور غیر علمی نقد قرآن کا مظاہرہ کیا ۔جس میں ان کی مسلم علم الکلام اور عربی زبان میں عدم درک کا اظہار ہوتا ہے۔ مسلم حلقہ کی طرف سے اس کے کئی جوابات سامنے آئے[53]۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض ہندو مفکرین کی طرف سے مثبت سوچ کے ساتھ اس کی صداقت کا اعتراف بھی کیا ہے ۔جس کے متعلق ” ہندو علماء مفکرین کی قرآنی خدمات” کے مترجم رقم طراز ہیں : ’’ (ہندو)غیر مسلموں میں سے کام کرنے والے ، جیسا کہ میں نے عرض کیا ، دو طرح کے لوگ رہے ہیں۔ ایک وہ ہیں جنہوں نے اس میں کمی نکالنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کیا ۔ انہوں نے مختلف پہلوؤں سے اس پر بے جا اور غیر معقول اعتراضات کئے۔ اس طرح کے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مگر انہیں میں ایسے بندے بھی ہیں جنہوں نے اس کی صداقت کا اعتراف کیا ، اس سے استفادہ پر ابھارا اور اس کا دیگر آسمانی کتابوں سے منصفانہ موازنہ پیش کیا۔‘‘[54] ہندو مفکرین کی ترجمہ قرآن پر درج ذیل معروف کاوشیں ملتی ہیں.
ترجمہ قرآن،پنڈت رام چندر دہلوی ( م 1880ء): مطبع مجہول، 1943[55]
یہ قرآن کریم کے انہیں حصوں کا ترجمہ ہے جن کا تنقیدی مطالعہ سیتیارتھ پرکاش میں سوامی دیانند نے کیا تھا ۔ اس اعتراض پر کہ سوامی صاحب نے قرآن پاک کا ترجمہ صحیح نہیں کیا کے جواب میں یہ ترجمہ کیا گیا ۔پنڈت صاحب خود عربی کے عالم تھے انہوں نے سیتیارھ پرکاش کےہندی ترجمہ کی شاہ رفیع الدین کے ترجمہ کی روشنی میں الفاظ میں حک و حذف کے ذریعے درستگی کی[56]۔
ترجمہ قرآن ،پریم سرن پرنت:آگرہ ، 1940ء(اغلباً)
یہ تین حصوں میں سورۃ الانعام تک کا طبع شدہ آریا سماج لائبریری ، بنارس میں موجود ہے۔ اس ترجمہ کا اصل مقصد ہندوؤں کے درمیان قرآنی تعلیمات سے واقفیت پیدا کرنا تھا۔ مترجم کا خیال تھا کہ کہ وہ ایسا ترجمہ تیار کرے جس میں آیات دیوناگری رسم الخط میں اس طرح تحریر ہوں کہ صحیح طور پر پڑھی جا سکیں۔ ترجمہ مسلم مترجمین کے تفسیری نوٹ ، حدیث کے حوالے ، مسلم علماء کی تفاسیر ، مکمل توضیح اور اسلامی و ویدیائی افکار کے موازنہ پر شامل ہوں ۔ لیکن پنڈت رام چندر کے مشورہ پر ایسا نہ کیا گیا پنڈٹ صاحب کا مشورہ یہ تھا کہ قرآنی مشتملات پر تنقید یا تحشیہ اصل مقصد کی تکمیل نہ کر کے نا مناسب اور بے وقت ثابت ہو گا۔اس مشورہ کا لحاظ کرتے ہوئے صرف ہندی ترجمہ ہی عام ہندووں کے سامنے پیش کیا گیا تا کہ ہر ایک قرآن کے افکار سے ایک حد تک ہی واقف ہوسکے۔[57]
ترجمہ قرآن ،چلوکوری نرائن راؤ:
شاردا پریس ، بنارس 1938 ء،مترجم حکومت کالج اناتھ پورا آندھرا پردیش میں لسانیات کے پروفیسر تھے۔ ترجمہ کے مقصد کے حوالے سے مترجم کا خیال تھا کہ اگر مسلمان اور ہندو قرآن کو سمجھ جائیں اور پر امن طور پر رہنے لگ جائیں تو ان کی محنت بار آور ثابت ہوگی۔[58]
ترجمہ قرآن،رمیش لاکیش واراؤ:گاندھی ساہتیا پراچرانلایمو حیدر آباد 1974ء، ابواب و فصول میں منقسم 1065 آیات کا تیلگو زبان میں ترجمہ ہے۔
ترجمہ قرآن ، رگھوناتھ پرساد مشرا:یہ ترجمہ قرآنی و اسلامی عقائد پر تنقید کرنے کے لیے کیا گیا ہے ۔مقدمہ کافی الجھا ہوا اور جا بجا حسد بھرے نقد پر مشتمل ہے۔
ترجمہ قرآن،ستیادیو ورما:لکشمی پبلی کیشن نئی دہلی، 1990ء ۔سنسکرت میں اس ترجمہ کا نام سنسکرتم قرآنم ہے۔ مقدمہ میں مختلف موضوعات کا قرآن اور ویدوں کے بیانان کی روشنی میں تقابل کر کے مترجم اپنی رائے پیش کرتا ہے۔ خود مترجم کے مطابق یہ ہندی ترجمہ قرآن از محمد فاروق خاں اور مارما ڈیوک پکتھال کے انگریزی ترجمہ سے ماخوذ ہے۔[59]
ترجمہ قرآن ،ستیا دیوی جی :تاراینترالے ، بنارس 1914ء،یہ صرف سورۃ فاتحہ اور سورۃ البقرۃ کے کچھ حصوں پر مشتمل ہے۔
ترجمہ قرآن ،گریش چندر راسین:یہ ترجمہ قرآن تین جلدوں میں جدید بنگالی زبان میں 88 ء تا 1886 ء میں شائع ہوا۔ ترجمہ عربی متن کے بغیر ہے۔
ترجمہ قرآن ونے کمار اواستھی :مطبع دانی پریس ،لکھنؤ 1983ء۔ یہ ترجمہ اور مختصر حاشیہ تفسیر ماجدی مولانا عبدالماجد دریاآبادی سے ماخوذ ہے جس کا مقدمہ سید ابوالحسن علی ندوی( م ۱۹۹۰ء) کے رشحات قلم سے مزین ہے۔اس میں دیوناگری تلفظ کے ساتھ عربی متن دیا گیا ہے۔ ترجمہ کے متعلق کہا گیا ہے کہ کوئی ( ہندی) ترجمہ اس اہتمام ، احتیاط اور انداز سے اب تک نہیں آیا ہے[60]۔ان معروف تراجم کے علاوہ بعض ہندو مترجمین کے نام بھی ملتے ہیں[61] ۔
(ج)۔ قادیانی تراجم و تفاسیر قرآنی [62]
مرزا غلام احمد قادیانی (م 1908ء)اور ان کے پیروکاروں،جو کہ پاکستانی آئین کے تحت 1974ء میں باقاعدہ غیر مسلم ڈیکلیئر لیے گئے ہیں، بعض مخصوص مسائل و نظریات کے علاوہ وہ مسلم علم الکلام کے ہی خو گر ہیں اور انہیں اصول و ضوابط کا پاس کرتے ہیں پھر بھی ان کی ترجمہ و تفسیر قرآن کی کاوشیں مسلم حلقہ میں قبولیت اختیار نہ کر سکیں ۔ یہاں تمام قادیانی تراجم و تفاسیر کا جائزہ لینے کی بجائے منتخب کاوشوں پر طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے ۔
قادیانی تراجم و تفاسیر کا جائزہ لینے سے قبل یہ امر قابل توجہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی ( م 1908ء) نے سر سید احمد خاں (م 1898ء) کے رسالہ’’التحریر فی اصول التفسیر‘‘[63] کے جواب میں سات معیارات تفسیر بیان کیے تھے۔[64] بعد میں قادیانی مفسرین نے ان کو لازماً مد نظر رکھا ۔نیز قادیانی تفسیری آراء کے بارے جماعتِ احمدیہ میں ایک رائے یہ پائی جاتی ہے :
’’جماعت احمدیہ کے ہاں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ جماعت کے مفسرین کا تعلق اللہ تعالی سے ہوتا ہے اور اللہ تعالی ان پر قرآن مجید کے مطالب و مفہوم کو واضح کرتا ہے۔‘‘[65]
ان تفاسیر کا سب سے اہم پہلو آیات قرآنیہ سے مرزا صاحب کے دعوٰی مسیح موعود کی تصویب ہے۔
تفسیر بیان فرمودہ ،مرزا غلام احمد قادیانی:
یہ مرزا صاحب کی کی باقاعدہ تفسیری کاوش نہیں بلکہ جماعت احمدیہ نے ان کے مختلف تحریروں سے تفسیری اقوال کو یک جا کیا گیا ہے جسے دائرۃ المصنفین ربوۃ نے 8 جلد ( بعد میں ناظر نشر و اشاعت قادیان نے 3 جلد) میں شائع کیا ہے۔ اس نامکمل مختلف تحریوں سے منتخب ہونے کی بنا پر اس میں ربط و تسلسل نہیں بلکہ تکرار پایا جاتا ہےیہ کہنا بے جا نہیں کہ یہ تاویلات کا مجموعہ ہے جس کی بنیاد مرزا صاحب کے بیان کردہ معیارات تفسیر پر ہے خصوصا ً ساتواں معیار جس کے مطابق:
’’ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفاتِ محدثین ہیں اور یہ معیار گویا تمام معیاروں پر حاوی ہے کیونکہ صاحب وحی محدثیت اپنے نبی متبوع کا پورا ہمرنگ ہوتاہے اور بغیر نبوّت اور تجدید احکام کے وہ سب باتیں اُس کو دی جاتی ہیں جو نبی کو دی جاتی ہیں اور اُس پر یقینی طور پر سچی تعلیم ظاہر کی جاتی ہے۔‘‘[66]
مرزا صاحب کی تفسیر میں اس معیار کا خود اپنی ذات پر انطباق جا بجا نظر آتا ہے۔ مثلا ” مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ( الفاتحہ 1: 3)” کی تشریح میں مرقوم ہے:
’’اللہ تعالی نے یہ مقدر کر رکھا ہے کہ وہ حقیقی یوم جزا سے پہلے لوگوں کو اس کا نمونہ دکھائے اور تقوی کے مر جانے کے بعد لوگوں کو نئی زندگی بخشے اور یہی مسیح موعود کا زمانہ ہے۔اور وہ اس عاجز کا زمانہ ہے اور اس کی طرف آیت ’ یوم الدین‘ میں اشارہ کیا ہے۔‘‘[67]
سورۃ مومنون کی آیت “وَاِنَّا عَلٰى ذَهَابٍ بِه لَقَادِرُوْنَ ” کی تشریح میں ہے یہ وہ زمانہ ہے جو اس عاجز پر کشفی طور پر ظاہر ہوا جو کمال طغیان اس کا اس میں ہجری شروع ہو گا جو آیت “وَاِنَّا عَلٰى ذَهَابٍ بِه لَقَادِرُوْنَ “میں بحساب جمل مخفی ہے یعنی 1274ھ۔[68] سورۃ آل عمران آیت 123 کی تفسیر میں دعوی بعثت کرتے ہوئے لکھتےہیں:
’’ایک بدرتو وہ تھا جب کہ رسول للہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مخالفوں پر فتح پائی تھی اس وقت بھی آپ کی جماعت قلیل تھی اور ایک بدر یہ ہے اس میں چودہویں صدی کی طرف اشارہ ہے سو ان سارے وعدوں کے موافق اللہ تعالی نے مجھے مبعوث کیا ہے۔‘‘[69]
الصف کی آیت کی تشریح کسی طور بھی مسلم قاری کے لیے قابل قبول نہیں جب وہ ان کا اطلاق اپنی ذات پر کرتے ہیں:
’’اس آیت ’’وَ مُبَشِّراً بِرَسُولٍ یَأْتی مِنْ بَعْدِی اسْمُه أَحْمَدُ ‘(الصف۶۱: ۶) میں یہ اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ و سلم کا آخری زمانہ میں ایک مظہر ظاہر ہو گا کہ گویا وہ اس کا ایک ہاتھ ہو گا جس کا نام آسمان پر احمد ہو گا اور وہ حضرت مسیح کے رنگ میں جمالی طور پر دین کو پھیلائے گا۔‘‘[70]
یہ قرآن کریم مکمل تفسیر نہیں ہے ۔ اس پرروایتی مسلم تفسیری رنگ کی بجائے منا ظرہ اسلوب میں مخالفین کے رد کا اسلوب غالب ہے۔ اس میں جمہور مسلم عقیدہ کے برعکس پچپن(55) ایسی تشریحات ہیں جو تحریف کے زمرے میں آتی ہیں۔ [71]
حقائق الفرقان حکیم نور الدین (م 1914ء) :
کتاب گھر ، قادیان 1932 ،صفحات : 716۔یہ جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ حکیم نور الدین بھیروی کے دروس قرآن ہیں، جو ان کی وفات کے بعد اکٹھے کیے گئے ہیں۔ اسے جماعت احمدیہ میں خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ بانی جماعت خود موصوف کی قرآن فہمی کے قائل تھے ۔شاید اسی لیے اسے آسمانی تفسیر بھی کہا گیا ہے ۔اور قرآنی منہج کے لحاظ سے قادیانی مدرسہ کی بنیاد حکیم نورالدین کی مرہون منت قرار دیا گیا ہے[72] ۔اس میں مرزا صاحب کے نئے مذہبی دعوی کی تصدیق پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ۔ مثلا :’’اس امت میں ’’ انعمت علیھم ، مغضوب اور الضالین‘‘ تینوں قسم کے لوگ موجود ہیں پس وہ مسیح موعود علیہ السلام بھی موجود ہے جس نے ہم میں نازل ہونا تھا ۔وہ مہدی موعود اس وقت کا امام بھی ہے اور انہی میں موجودہے وہ اختلافوں میں حکم ہے۔ ہم نے اس کی آیات بینات کو دیکھا۔‘‘[73]
اس تفسیر کا خاصہ مرزا صاحب کی پیروی میں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا اظہار ہے۔ مرزا صاحب کے تتبع میں معجزات کا انکار کیا گیاہے بلکہ جہاں حضرت عیسی علیہ السلام کےمعجزات مذکور ہیں ان کی دور از کار تاویلات کی گئی ہے۔ [74]
بیان القرآن ،محمد علی لاہوری( م 1951ء):
احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور،24-1922 ء۔پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نورالدین بھیروی کے1914ء میں انتقال پر مرزا بشیر الدین محمود احمد کے بطور خلیفہ چناؤ پر مولوی محمد احمد لاہوری جو کہ خلافت کے مضبوط امیدوارتھے ناراض ہو کر لاہور آ گئے اور انجمن احمدیہ اشاعت اسلام کے نام سے لاہوری گروپ تشکیل دیا۔ اب اس لاہوری گروپ کے نزدیک مرزا غلام احمد قادیانی جو کہ پہلے نبی تسلیم کیے جاتے تھے، نبی تو نہیں لیکن مجدد ، مصلح اور مسیح موعود ہی ٹھہرے۔ تفسیر ی اسلوب یہ اپنایا گیا ہے کہ پہلے بامحاورہ ترجمہ قرآن اور پھر تفصیلی تشریحات و تاویلات کا اہتمام کیا گیا ہے بیان القرآن میں مولوی محمد علی لاہوری نے مرزا صاحب کو مجدد و مصلح قرار دیا ۔ اس تفسیر میں انہوں نے معجزات کا انکار اور ان کی دوراز کار تاویلات کی ہیں اور عیسی ؑ کی وفات پر کھل کر کلام کیا ہے:
’’حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے نام پر بعض لوگ باوجود اس تصریح کے جو قرآن شریف میں موجود ہے بہت گھبراتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ کوئی نیا عقیدہ ہے جو اسلام میں داخل کیا جا رہا ہے اور سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف اور احادیث میں حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ آسمان پر جانے کا ذکر ہے یہ نہ صرف قرآن شریف و حدیث میں حیات مسیح کا مطلق کوئی ذکر نہیں بلکہ دونوں جگہ آپ کی وفات کا ذکر ہے۔‘‘[75]
اس تفسیر کی اہمیت خود مرزا غلام احمد قادیانی کی زبانی یوں بیان ہوئی ہے :
’’پھر بعد اس کے ایک کتاب مجھ کو دی گئی جس کی نسبت یہ بتایا گیا کہ یہ تفسیر قرآن ہے جس کو علی نے تالیف کیا اور اب علی وہ تفسیر تجھ کو دیتا ہے۔‘‘[76]
تفسیر کبیرمرزا بشیر الدین محمود:
قادیان ، 1940ء ، 11 جلد۔یہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ ثانی مرزا بشیر الدین محمود (م 1965ء) کی طرف منسوب تفسیر ہے جو مکمل نہیں بلکہ جزوی تفسیر ہے۔[77]یہ قادیانی فکر کی نمائندہ جامع تفسیر ہے۔ جس میں عربی متن کے نیچے ترجمہ اور اس کے نیچے دو کالم میں تفسیر کی گئی ہے ۔ پہلے حل اللغات کے تحت عربی لغوی بحث کی گئی ہے اور پھر تفسیر کی سرخی کے تحت تشریح کی گئی ہے۔ اس کا عمومی اسلوب دفاع اسلام اور جماعت احمدیہ کی نظریاتی دعوت ہے۔خصوصا اس وقت کے مقامی مسیحی پادری صاحبان اور مستشرقین کی تنقیدی آراء کا جواب قادیانی نقطہ نظر سے دیا گیا ہے۔ ایک مقام پر لکھتے ہیں:
’’ہندوستان میں تبشیری خدمات انجام دینے والے پادری( Wherry) وہیری ایک عیسائی مفسر ہے وہ اعتراض کرتا ہے کہ اس آیت ( البقرہ 134( میں محمد ( صلی اللہ علیہ و سلم) نے دعوی کیا ہے کہ پہلے لوگ بھی میرے دین کے تابع تھے چنانچہ نحن لہ مسلمون سے وہ استنباط کرتا ہے کہ یعقوب علیہ السلام کی اولاد نے کہا کہ وہ محمد ﷺ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر بہت سے دلائل سے اس بات کو رد کرتا ہے۔اور کہتا ہے یہ بالکل غلط ہے مگر دراصل وہیری کو دھوکا لگا ہے اسلام یہ نہیں کہتا کہ وہ ان تفاصیل کے پابند تھے جو اسلام میں پائی جاتی ہیں بلکہ صرف یہ کہتا ہے کہ وہ اپنے اپنے وقت میں سچے دین کے پیروکار تھے اور اس سے کوئی سلیم الفطرت انسان انکار نہیں کر سکتا ورنہ نام کے طور پر یہ لفظ صرف امت محمدیہ کو ملا ہے اور کسی کو نہیں۔‘‘[78]
تفسیر میں جا بجا مرزا غلام احمد قادیانی کو ماننے کی دعوت گئی ہے ۔مثلاً:
’’میں اس موقع پر مسلمانوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ خدا تعالی فرماتا ہے جو سب نبیوں کو مانے وہی مسلمان ہے اور آنحضرت ﷺ آنے والے مسیح کو نبی اللہ قرار دیتے ہیں اور اس زمانہ میں مسیحیت موعود کا وعدہ بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود کے پورا ہو چکا ہے پس ہر وہ شخص جو اسلام سے اپنے آپ کو وابستہ کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ ہوشیار ہو جائے اور بے توجہی سے آپ کو دعوی کو نہ دیکھے۔‘‘[79]
ایک دعویٰ یہ ہے کہ اس کاوش میں جامعہ احمدیہ قادیان کے شعبہ تفسیر کے استاد مولوی نور الحق کی تیس چالیس سالہ محنت شامل ہے جسے خلیفہ ثانی کے نام سے شائع کیا گیا ہے ۔[80]
قرآ ن کریم اردو ترجمہ مختصر تشریحی نوٹس مرزا طاہر احمد(م 2003ء):
Bath Press Limited Bath, UK 2000
برطانیہ سے طبع شدہ یہ ترجمہ قرآن احمدیہ جامعہ کے چوتھے خلیفہ مرزا طاہر احمد نے کیا ہے جس میں ترجمہ قرآن کے ساتھ ان مقامات قرآنیہ کے مختصر حواشی درج کیے گئے ہیں جہاں عموماً قادیانی نقطہ نظر جمہور مسلم فکر سے متغایرہے ۔ان میں معجزات اور عیسی ؑکے تذکرہ کے مقامات قابل ذکر ہیں۔ مثلا’’إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ ‘‘( آل عمران3:65) پر حاشیہ آراء ہیں :
’’متوفیک پہلے آیا ہے اگرچہ رافعک سے مراد درجہ کی بلندی ہوتی ہے لیکن جو اصرار کرتے ہیں کہ اس سے جسمانی رفع مراد ہے ا س کے خلاف یہ محکم دلیل ہے کہ پہلے وفات ہوئی بعد میں اٹھائے گئے یہاں روحانی رفعت ہی مراد ہے۔‘‘[81]
ہر سورت کے شروع میں تعارف و مضامین کا سرسری جائزہ ہے ۔ اور اس میں جماعتی فکر کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً سورت الزمر کے آغاز میں واضح کیا گیا ہے۔ اسی سورت میں آیت کریمہ ’’ أَلَیْسَ اللَّهُ بِکَافٍ عَبْدَهُ ‘‘(الزمر 39:36)ہے مرزا صاحب کو(ان کے بقول )الہام ہوئی اور انہوں نے انگوٹھی کے نگینہ میں اسے کندہ کرایا تھا۔
’’اسی مناسبت سے احمدی ایسی انگوٹھیاں تبرکا اور نیک فال کے طور پر اپنی انگلیوں میں پہنتے ہیں۔‘‘[82]
یہ جدید ترجمہ احمدی جماعت میں بہت معروف ہے۔The Holy Quran by Moulavi Sher Ali (1947)
قادیان ، 1935 ، 5 حصے، یہ جماعت احمدیہ ربوہ کی طرف سے سب سے پہلا انگریزی ترجمہ قرآن ہے۔ جب محمد علی لاہوری جماعت سے الگ ہو کر لاہور آئے تو وہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ و تفسیر پر کام کر رہے تھے ۔ جماعت احمدیہ نے خیال کیا کہ ان کے انگریزی ترجمہ سے قبل جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک انگریزی ترجمہ سامنے آ جائے چنانچہ بورڈ بنایا گیا جس کے چیف ایڈیٹر مولوی شیر علی صاحب تھے۔ انہوں نے پانچ حصوں میں اس ترجمہ و تفسیر کا کام کیا ۔
قرآن مجید ترجمہ مع تفسیر ،پیر صلاح الدین (1993ء):
قرآن پبلی کیشنز ، اسلام آباد 1974 ، 4 جلد، یہ بشیر الدین محمود کے داماد پیر معین الدین کے بڑے بھائی تھے ۔ جمہور اصولوں کے مطابق تفسیر کی گئی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت محتاط انداز میں قادیانی عقائد کا اظہار بھی ہے۔’’وَاذْكُرْ فِى الْكِتَابِ مَرْيَـمَ ‘‘کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’قصہ مریم کو دوبار بیان کر کے مریم اور مسیح کی دو بعثتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔‘‘[83]
حسن بیان ،غلام حسن نیازی پشاوری (م1943 ء) :
برانچ کیپیٹل کواپریٹو پریس،لاہور ،مفسر نے پہلے خواجہ کمال الدین (م 1936ء) کے کہنے پر ترجمہ قرآن کیا پھر مختصر تفسیر لکھی۔ مفسر کے حوالے سے خاص بات یہ ہے کہ پہلے 1914 ء میں لاہوری گروپ کے ہم خیال تھے تو تفسیر میں لاہوری گروپ کے عقائد کی تصویب پر قلم اٹھایا تھا۔ بعد ازاں 1940 ء میں قادیان میں مرزا بشیر الدین محمود کی بیعت کر لی اور 1943ء میں قادیان میں ہی آنجہانی ہو گئے ۔ یہ علم نہیں کہ انہوں نے تفسیر میں پیش کردہ لاہوری گروپ کی تصویبی آراء سے رجوع پر قلم اٹھایا یا نہیں۔ان معروف قادیانی تفاسیر میں عموما جن موضوعات کو خصوصی طور پر زیر بحث لایا گیا ہے ان میں بعض درج ذیل ہیں:عقیدہ ختم نبوت : ختم نبوت کی ایسی تشریح و تعبیر جس میں’’ہندوستانی نبوت‘‘کی گنجائش نکالی جاتی ہے۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ جو ہستی ’قادیان میں نبی‘ٹھہری، ان کے ہی لاہوری پیروکار نبی کی بجائے “مجدد دین” تسلیم کرتے ہیں ۔ چنانچہ دونوں گروہ اپنی اپنی تفسیر میں ایک ہی ہستی کو دو الگ حیثیتیں منوانے کے دلائل پیش کرتےہیں۔
وفات مسیح علیہ السلام : حضرت عیسی علیہ السلام کے زندہ آسمانوں اٹھائے جانے اور قیامت سے قبل نزول مسیح کے جمہور مسلم عقیدہ کے برعکس قادیانی تفاسیر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی کشمیر آمد اور یہاں ان کی طبعی وفات پر بحث کی گئی ہے ۔جسمانی معراج کا انکار: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے جسمانی معراج کی تردید کی گئی ہے۔
معجزات کی شاذتفسیر: قادیانی تفاسیر میں معجزات کا انکار کیا گیا ہے۔
جہاد بالسیف کا انکار: برطانوی ہند کے معروضی حالات کے تحت جہاد بالسیف کا انکار کیا گیا ہے ۔
ناسخ و منسوخ کا انکار: قرآنی آیات کی ناسخ و منسوخ کی نفی ہے ۔
علامات قیامت : علامات قیامت کا مرزا صاحب کی نبوت پر اطلاق کیا گیا ہے۔
ان امور کے علاوہ زیادہ تر قادیانی تفسیری ادب مسلم علم الکلام پر ہی مبنی ہے ۔
خلاصہ بحث و نتائجِ تحقیق :
مذہبی مقدس ادب کے بارے مسلم،مسیحی اور ہندو رویے مختلف ہیں۔ مسیحی تفاسیر و تراجم کے حوالے سے قابل توجہ امر یہ ہے کہ بائبل کی ثقاہت پر معترض ہونے کے باوجود مسلم علماء نے کلیسیا کے ہاں رائج بائبل سوسائٹیوں کے کردہ تراجم پر اعتماد کیا ، جب کہ اس کے بر عکس مسیحی منادین فرقہ بندی اور عدم فصاحت کی آڑ لے کر مسلم تراجم پر اعتماد نہیں کرتے[84]۔ اسی طرح مسلم علماء نے ہندو مقدس ادب پر بھی ہندو مفکرین کی کردہ کاوشوں پر ہی اعتماد کیا گیا۔ ہندو ومسیحی انتقادات کے برصغیر کے تفسیری ادب پر براہ راست دو طرح کے اثرات مرتب ہوئے :
ایک طرف تو تعقّل پرست متجددین کی طرف سےایجابی اثرات کی حامل تفسیر ی آراء سامنے آئیں، جب کہ دوسر ی طرف راسخ العقیدہ علماء کی طرف سے تردیدی تفسیری ادب لکھا گیا۔فریقین میں سے سر سید احمد خاں کی تفسیر پہلے فریق کی ، جب کہ تبجیل التنزیل از سید ابولمنصور دہلوی ،تفسیر حقانی ازمولانا عبدالحق حقانی ،تفسیر ثنائی ازمولانا ثناء اللہ امرتسری اور تفسیر ماجدی از مولانا عبدالماجد دریا آبادی کو فریق ثانی کی نمائندہ تفاسیر گردانا جا سکتا ہے۔مسلم علماء اور ہندو مفکرین عمومی طور پر انفرادی جب کہ مسیحی گروہ اجتماعی اداروں کی سرپرستی میں مصروف کار رہے۔ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ برصغیر میں ہندو ومسیحی اہل قلم کے قرآن کریم کے تراجم و تفسیر منصئہ شہود ہوئے لیکن اس کے مقابلہ میں مسلم علماء نے ویدوں اور بائبل کے تراجم اور ان کی تفسیر پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ مسلم علماء نےبائبل کے داخلی اور خارجی پہلو پرثقاہت کے حوالے سے قلم اٹھایا لیکن ترجمہ و تفسیر بائبل پر مسلم کام نہ ہونے کے برابر ہے۔مسیحی نقطہ نظر سے غیر معتبر انجیل برنباس کے اردو ترجمہ ازمولوی محمد حلیم انصاری [85] اور جزوی تفسیر بائبل “تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ والانجیل علی ملۃ الاسلام از سر سید احمد خاں ( ۱۸۹۸ ء)[86]کےسوا اور کوئی مسلم کاوش معروف نہیں ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہےکہ مسلم علماءکی اکثریب بائیبل میں تحریف لفظی کےقائل تھی،اس لیےانہوں نےاسےدرخور اعتناءہی نہیں سمجھا۔ اسی طرح ہندو ،مسیحی اور مسلم کشمکش کا برصغیر کے تفسیری ادب پر ایک عمومی اثر یہ بھی ہوا کہ غیر مسلم تراجم و تفاسیر میں کردہ اعتراضات کے جواب میں ایک مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں میں عقیدت کی دنیا سے نکل کر حقائق پر مبنی معقولی مطالعہ قرآن کا رجحان پیدا ہوا۔
حوالہ جات
1۔ 1 ارب 21 کروڑ کی آبادی کے حامل بھارت میں 79.8 اکثریتی ہندو آبادی کے ساتھ 14.23 مسلمان ، 2.3 ٪مسیحی ، 1.72 سکھ ، 0.7 بدھ مت ، 0.37 جین مت اور 0.66 دیگر اقلیتیں ( یہودی ، پارسی ، بہائی ، احمدی و دیگر مقامی مذاہب ) آباد ہیں ملاحظہ ہو : https://www.census2011.co.in/religion.php جب کہ پاکستان کی 20 کروڑ 77 لاکھ کی آبادی کا مذہبی جائزہ لیا جائے تو 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق 96.28مسلم اکثریت کے ساتھ3.72 مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنےوالے 1.6 ہندو، 1.59 مسیحی ، 0.22 قادیانی ، اور 0.07 دیگر اقلیتیں(یہودی، سکھ ، پارسی ، بہائی ، کیلاش کے کافر اور بدھ مت کے پیروکار)سکونت پذیر ہیں، ملاحظہ ہو:
http://www.pbs.gov.pk/sites/default/files//tables/POPULATION%20BY%20RELIGION.pdf
2۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو : اکرم ، ڈاکٹر اعجاز فاروق ، برصغیر میں مطالعہ قرآن۔ تراجم و تفاسیر ،سہ ماہی فکر و نظر اسلام آباد :خصوصی اشاعت (اسلام آباد :ادارہ تحقیقات اسلامی ،۱۹۹۹ء) ص:۹۲-۹۶
3- ان میں سے صرف سکھ مت کے پیرو کار سنت ویدیا گردتّ سنگھ المہتری کا پنجابی ترجمہ قرآن معروف ہے ۔ المہتری ، ویدیا گردت سنگھ ، سنت ، قرآن دا پراتن پنجابی (گورمکھی) ترجمہ گرمت پریس ، امرتسر ، ۱۹۱۱ ء، صفحات ۷۸۴ ، اس ضمن میں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس گروہ کے ایک فریق اہل کیلاش کے ہاں مذہبی مقدس متون کو ضبط تحریر میں لانے کی روایت نہیں۔ ان کے ہاں مقدس مذہبی ادب سینہ بہ سینہ زبانی روایت کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ جب وہ اپنا مقدس ادب خود ضبط تحریر میں لاتے تو دیگر مذاہب کے مقدس متون پر کیسے قلم اٹھا سکتے ہیں۔ یہ بات کیلاش میوزیم کی ڈائریکٹر نے راقم کو خود بتائی ۔
4۔ راہی ،ڈاکٹر سفیراختر، مسیحی اہل قلم کے اردو تراجم و تفاسیر ،سہ ماہی :عالم اسلام اور عیسائیت ، ج ۳ ، ش ۱۲ ( اسلام آباد:، ۱۹۹۳ء) ،ص: ۴
5۔ برکت اللہ ، آرچ ڈیکن ،مغلیہ سلطنت اور مسیحیت (لاہور، پنجاب ریلجیس بک سوسائٹی،۱۹۸۸ء)،ص: ۲۵۷
6۔ دیکھیے :گلکرسٹ ، اردو کا کلاسیکی ادب ، قواعد زبان اردو ( ناشر، سید امتیاز علی تاج)،( لاہور :مجلس ترقی ادب ،۱۹۶۲ ء) ، ص: ۱۱ ۔ ۳۵
7۔ ان میں مولوی امانت علی شیدا( سن وفات ندارد)،میر بہادر علی ( سن وفات ندارد)،، مولوی فضل علی( سن وفات ندارد)، ، حافظ غوث علی( سن وفات ندارد)، اور کاظم علی جوان(م ۱۸۱۶ء ) کے اسمائے گرامی شمار کیے جاتے ہیں۔ ابتدائی پانچ چھ سیپاروں کا ترجمہ مولوی امانت علی اور میر بہادر علی نے کیا ۔ چھ سے اکیس پاروں تک مولوی فضل اللہ کے ساتھ حافظ غوث شریک ہوئے۔جبکہ بائیس سے آخری پارہ تک صرف مولوی فضل اللہ نے ترجمہ کیا جبکہ کاظم علی شروع سے آخر تک زبان کی اصلاح اور محاورے کی درستگی کے لیے شامل رہے،دیکھیے: شطاری ، ڈاکٹر سید حمید ، قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ ۱۹۱۴ ء تک ( حیدرآباد : دی نظامس اردو ٹرسٹ ، ۱۹۸۲ ء )، ص: ۱۹۵ ۔۱۹۶
8۔ کچھ سیاسی و انتظامی وجوہات اور ذاتی نا پسندیدگی کی بناء پر یہ کام گورنمنٹ کی نظر میں قابل اعتراض ٹھہرا۔۱۹ مارچ ۱۸۰۷ ء کو گورنر جنرل نےکالج کونسل کو مراسلہ لکھا کہ گورنر جنرل قرآن کے ترجمہ کی اشاعت کو، جسے گل کرسٹ نے تیار کروایا تھا ، قابل اعتراض سمجھتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت کے کارپرداز اور متعلقہ ذمہ دار ڈاکٹر ہنٹر کو سیکریٹری کالج کونسل نے ہدایت کی کہ قرآن کے ترجمہ کے جتنے اجزاء چھپ چکے ہیں ان کے تمام مطبوعہ نسخے سیکریٹری گورنمنٹ کے حوالے کر دیجئے اور ساتھ یہ اقرار نامہ بھی داخل کیجئے کہ آپ نے یا ناشر نے اس کا کوئی نسخہ اپنے پاس نہیں رکھا۔ Proceedings of the College of Fort William (1801-1807), p:298. بحوالہ : رخشندہ گل،اردو ادب میں عیسائیوں کی خدمات ، پی ایچ ڈی مقالہ (لاہور : پنجاب یونیورسٹی، غیر مطبوع)، ص: ۱۸۶
9۔ خاکوانی ،ڈاکٹر محمد باقر خاں ،پاکستان میں قرآن مجید کے تراجم و تفاسیر (اسلام آباد :علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ، ۲۰۰۷ء) ،ص: ۲۶
10۔ حیدر آباد والا نسخہ خط نستعلیق ،سائز۵. ۹ x ۸ سطر ۱۶ اور ۴۸۶ صفحات پر معرٰی ترجمہ ہے۔اس میں دیباچہ ، خاتمہ یا ترقیمہ وغیرہ کسی تحریر کا اہتمام نہیں کیا گیا اس نسخہ میں پارہ الم سے سورۃ انفال (پارہ ۱۰) کے نو رکوع تک سورتوں کی ترتیب درست ہے مگر اس کے بعد سولہ صفحات سورۃ حجر کی آیات۸۹ سے لے کر سورۃ نحل اور سورۃ بنی اسرائیل کی آیت ۵۶ تک کے اوراق ہیں۔ اس کے بعد باقی سورۃ انفال اور ما بعد کا ترجمہ ہےاور سورۃ بنی اسرائیل کا بقیہ ترجمہ چونسٹھ صفحات کے بعد شروع ہوتا ہے ۔یہ بے ترتیبی غالباً جلد سازی کے وقت ہوئی ہے ، تا ہم اس کی حتمی وجہ کا تعین نہیں کیا جا سکا۔بحوالہ:شطاری ، قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ ،ص: ۱۸۶
11۔ بقول ڈاکٹر حمید اللہ صاحب (م ۲۰۰۲ء) اس کا ایک اور ایڈیشن رومن رسم خط میں کلکتہ سے ۱۹۰۰ءمیں شائع ہوا۔ حمیداللہ ،ڈاکٹر ،القرآن فی کل اللسان( حیدر آباد دکن :ادارہ عالمگیر تحریک قرآن ، ۱۳۶۶ھ )، ص: ۵۔۶
12۔ عمادالدین ، واقعات عمادیہ (لاہور :پنجاب ریلجس بک سوسائٹی ، س ن)، ص: ۴ پادری صاحب سوانح عمری میں اپنے سفر ارتداد کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’(کالج پڑھائی کے )ان ایام میں کئی عیسائیوں کی صحبت کےسبب مجھے دین محمدی پر شک پڑ گیا‘‘۔’’میری روح نے آرام نہ پایا بلکہ دن بدن خود بخود (چلّوں اور وظائف کے ) تجربہ کاری کے سبب شریعت محمدی سے متنفر ہونے لگا‘‘(ص ۱۰) پادری صاحب کے مذکورہ ان تجربوں میں قصیدہ غوثیہ ، چہل کاف ، حزب البحر ، کشف قبور ، مراقبہ ، وجد کی محفلیں ، باعتقادصوفیوں کا تکنا ، گیروے کپڑے پہن کر فقیر کا روپ سدھار نا ، پیادہ بے سروسامان دوہزار کوس کا سفر شامل تھا۔ ایک بار بارہ روز بے سلا کپڑا پہن ، ایک زانو پر برلب جاری نہر بآواز بلند ورد کرنا ، جَو کا آٹا ، بے نمک حلال کھانا ، نہ کسی آدمی کو چھونا نہ بے وقت بات کرنا ، سوا لاکھ بار لفظ اللہ لکھ کر آٹے کی گولیوں میں لپیٹ مچھلیوں کو کھلانا بھی شامل تھا۔ (ص : ۶ ۔ ۹)
13۔ قادیانی ، مرزا غلام احمد ، جنگ مقدس (امرتسر، ریاض ہند پریس،۱۸۹۳ ء) ،ص:۱۵۱
14۔ پادری صاحب کا یہ دعوٰی تاریخی حقائق کے خلاف ہے کیونکہ اس وقت تک قرآن پاک کے کئی ایک تراجم ہو چکے تھے مگر منظر عام پر کم آئےتھے اس کی ایک وجہ اس دور تک جاری مسلم علماء کے ہاں یہ ایک نزاعی بحث تھی کہ قرآن کریم کا ترجمہ جائز بھی ہے یا نہیں۔عام طور پر قیاس کیا جاتا ہے کہ علمائے دین کی مخالفت ترجمہ و تفسیر کے کام میں مانع رہی فورٹ ولیم کالج میں ڈاکٹر گل کرسٹ کی نگرانی میں مسلم علماء نے جو ترجمہ قرآن کیا اس کے بارے مرقوم ہے ’’شروع ترجمہ میں خلقت نے اس بات میں بہت سی شورش کی تھی کہ بنا اس ترجمے کی ہوتی ہے جو نہایت دین و آئین سے برخلاف ہے کہ قرآن شریف کا ترجمہ ہندی میں ہوتا ہے آخرش جو اہل علم تھے انھوں نے جواب دیا کہ اگر فارسی میں ترجمہ ہوا ہے تو ہندی میں کیا کفر ہے ۔‘‘بحوالہ: شطاری ، قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ،ص: ۱۹۴
15۔ عمادالدین ، ترجمہ قرآن بہ اردو زبان ،ص: ۱
16۔ عمادالدین ، ترجمہ قرآن بہ اردو زبان ،ص :۲
17۔ پال ، سلطان محمد ، سلطان التفاسیر (لاہور :ایم کے خاں مہان سنگھ ، س ن ) ، ص: ۲۲
18۔ عمادالدین ، ترجمہ قرآن بہ اردو زبان ،ص: ۶۰
19۔ احمد شاہ، پادری ، ترجمۃ القرآن (کانپور :زمانہ پریس ، ۱۹۱۵ء) بدون شمار صفحہ، زیر عنوان ’’التماس‘‘
20۔ احمد شاہ، ترجمۃ القرآن ، بدون شمار صفحہ، زیر عنوان ’’التماس‘‘ (محمدی علماء کے ترجمے میں ایک بھاری نقص یہ ہے کہ ہر مترجم اپنے فریق کی رائے کا پابند ہو کر ترجمہ کو اسی پہلو سے ڈھالتا ہے ۔۔۔ پس غیر محمدی کے لیے یہ ترجمے نہ صرف بے کار بلکہ الجھن میں ڈالنے والے ہیں۔مجھ کو مسیحی منادوں کے لیے خاص طور سے محسوس ہوا کہ ایک ایسے ترجمے کی ضرورت ہے جو اردو میں عربی قرآن کو لفظ بہ لفظ اور حتی الامکان بامحاورہ ادا کرے)
21۔ احمد شاہ، ترجمۃ القرآن ، بدون شمار صفحہ، زیر عنوان ’’التماس‘‘
22۔ ایضاً
23۔ ایضاً،ص :۱
24۔ احمد شاہ، ترجمۃ القرآن،ص: ۱
25- ایضاً
26۔ مثلاً سرسیداحمد خاں نے اپنی تفسیر بائبل ’’تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ ولانجیل علی ملۃ الاسلام‘‘میں عبرانی متن نقل کرنےمیں اسلامی روایت کی پیروی کرتے ہوئے بہت احتیاط سے کام لیا۔عبرانی ٹائپ کے حروف خصوصی طور پر منگوائے گئے، نیزعبرانی زبان کے ماہر مولانا عنایت رسول چریا کوٹی کے ساتھ ایک یہودی عالم کی خدمات حاصل کیں تاکہ کتابت کی کوئی معمولی سی غلطی بھی باقی نہ رہے ،دیکھیے:سر سید احمد خاں ،تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ والانجیل علی ملۃ الاسلام ( لاہور:مکتبہ اخوت ، س ن ) ، بدون شمار صفحہ ، حرف اول
27۔ پادری ،جے علی بخش ، تفسیر قرآن ( لاہور :مرکنٹائل پریس ، ۱۹۳۵ء)، ص: ۱۔۲
28۔ ایضاً
29۔ ایضاً
30۔ ایضاً ،ص : ۸۱
31۔ جے علی بخش ، تفسیر قرآن ،ص :۱۶۔ ۱۷
32۔ ایضاً ،ص : ۵۵
33۔ مولانا نے مسیحی منادین کی طرف سے کیے جانے والے تفسیر و ترجمہ قرآن مجید کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔پہلے دور کو فانڈر سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل تک محیط قرار دیا ہے۔اور اس دور میں لکھی جانے والی تفسیروں کو صورتاً و معنا مخالف اسلام بتلایا ہے۔اور دوسرا دور نو مسیحی دیسی پادریوں کا شمار کیا ہے۔ جس میں ان کی تفسیروں کو صورتًا تو موافق مگر معنوی طور پر مضر و مخالف گردانا ہے۔پہلی روش کی مثال میں کتاب ’ عدم ضرورت قرآن ‘ از جی ایل ٹھاکر داس کا نام لیا ہے (اس کے رد میں مولانا نے تقابل ثلاثہ رقم کی) دوسرے دور کا آغاز سلطان محمد پال کی تصنیف’’ ہمارا قرآن‘‘ سے شروع ہوتا ہے ۔ بحوالہ: سہ ماہی :عالم اسلام اور عیسائیت (اسلام آباد،مئی ۱۹۹۲ء )، ص: ۱۳
34۔ سہ ماہی ،عالم اسلام اور عیسائیت ، ص: ۱۳
35۔ پہلے یہ مولانا کے رسالہ ’’ اہل حدیث ‘‘ امرتسر میں شائع ہوئی۔ جس کا طریق یہ تھا کہ ایک ہفتہ پادری صاحب کے رسالہ میں اس کی قسط شائع ہوتی اور مولانا اپنے رسالہ کی آمدہ اشاعت میں اس کا جواب لکھتے ۔ یوں تفسیر اور اس کا تعاقب چلتا رہا۔ اب یہ کتابی صورت میں شائع ہو گئی ہے،دیکھیے: برہان ا لتفاسیر (گوجرانوالہ : ام القری پبلی کیشنز ، ۲۰۱۱ء) ، صفحات ۴۳۱
36۔ پال ، سلطان التفاسیر ، ’’امیہ کے ان سحر افگن اور روح افزا اشعار کو سن کر آپ کو یقین ہوا ہو گا کہ ان سب کی اصل اور ماخذ کتب مقدسہ ہی ہیں ۔ اس لیے بلا تاخیر کتب مقدسہ کی طرف آپ نے رجوع کیا ہو گا۔اور انہی کتابوں میں سے دیگر قرآنی امور کی طرح الحمد کو منتخب فرمایا ہو گا۔‘‘
37۔ پال ، سلطان التفاسیر ،ص : ۱۸ ۔ ۲۰
38۔ ایضاً،ص : ۲۱
39۔ پال ، سلطان التفاسیر ،ص : ۱۴۹
40۔ ٹھاکر داس ، جی ایل ،انجیل یا قرآن (لدھیانہ :کرسچین لٹریچر سوسائٹی ، ۱۹۱۰ ء)، ص: ۳۵
41۔ رخشندہ گل ،اردو میں عیسائیت پر لکھی گئی کتب،پی ایچ ڈی مقالہ ، غیر مطبوع (لاہور :پنجاب یونیورسٹی) میں بغیر وضاحت کیے بطور مصنف پادری رؤوس کا نام درج ہے۔
42۔ مترجم مجہول الاسم ،سورۃ فاتحہ (لودیانہ :کرسچین لٹریچر سوسائٹی ، ۱۹۰۰ ء(، ص: ۲
43۔ ایضاً،ص :۵
44۔ مترجم مجہول الاسم ،سورۃ فاتحہ ،ص :۷
45۔ ایضاً،ص :۷
46۔ ایضاً ، ص :۱۰
47۔ ا ۔و۔ نسیم ، رسالہ ’’ اردو‘‘،ماہ جولائی ۱۹۵۴ ء،ص: ۵۷ ۔۵۸؛شطاری ، قرآن مجید کے اردو تراجم و تفاسیر کا تنقیدی مطالعہ ۱۹۱۴ ء تک،ص : ۱۵۹
48۔ ڈاکٹر احمد خاں ،قرآن کریم کے اردو تراجم(اسلام آباد :مقتدرہ قومی زبان ، ۱۹۸۷ء ، بار اول ) ، ص: ۱۳۴
49۔ مطبعۃ پیغام دہلی ، ۱۲۶۰ ھ/ ۱۸۴۴ءبحوالہ : صالحہ ،عبدالحکیم شرف الدین ، ڈاکٹر ، قرآن حکیم کے اردو تراجم (کراچی:قدیمی کتب خانہ ،۱۹۸۸ء)،۹۸ (یہاں فاضل محققہ کو سہو ہوا ہے کہ اس کے مترجم پرسبتاریان(Presbetarian) ہیں ۔ یہ دراصل پریسبٹیرین مشن لدھیانہ کی طرف شاہ عبدالقادر دہلوی کا ترجمہ رومن رسم الخط میں شائع ہوا تھا ۔)
50۔ یہ ترجمہ لدھیانہ مشن پریس ،لدھیانہ سے۱۸۷۶ء میں شائع ہوا تھا۔
51۔ سہ ماہی :عالم اسلام اور عیسائیت( اسلام آباد)، جلد ۴ شمارہ ۱ ، جنوری ۱۹۹۴ء ؛دریا آبادی ، عبدالماجد ، قرآن پاک کے انگریزی تراجم،ص ۷۔۸
52۔ سرسوتی ، دیانند سوامی ، سیتیارتھ پرکاش (لاہور :مطبع کشن چند کمپنی ، ۱۸۹۹ء)، ص: ۶۷۸
53۔ مثلا مولانا ثناء اللہ امرتسری کی حق پرکاش بجواب سیتیارتھ پرکاش بہت معروف ہیں۔
54۔ وزیر حسن ، ہندو علماء و مفکرین کی قرآنی خدمات ،مترجم: اورنگ زیب اعظمی(لاہور :دارالنوادر ، ۲۰۰۵ء)،مقدمہ، ص: ۸
55۔ ایضا :۱۴، لوح کتاب مفقود ہے ،ناشر و مطبع ندارد
56۔ وزیر حسن ، ہندو علماء و مفکرین کی قرآنی خدمات،ص:۱۴
57۔ ایضاً ،ص :۱۴۔۱۵
58۔ وزیر حسن ، ہندو علماء و مفکرین کی قرآنی خدمات ،ص :۱۸
59۔ ایضاً ،ص :۱۶
60۔ ایضاً ،ص:۱۲
61۔ اس درج ذیل ہندو مترجمین کے نام ملتے ہیں سیتا دیو جی ،سیتا دیوورما ،ونیکاتا، س ن کرشنا راؤ، کوینوررگہون نیر ، گریش چندرا سین ، رام چندرناتھ مشرا، دیونا ، راچرن بنر جی، فلپ بسواس، ڈویجداس دتا ، اسنتا کمار بنر جی تفصیلات کے لیے: وزیر حسن ، ہندو علماء و مفکرین کی قرآنی خدمات (لاہور،دارالنوادر)۔
62۔ راقم نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالہ کے لیے خلافت لائبریری ربوہ سے بہت زیادہ استفادہ کیا تھااور وہیں قادیانی تراجم و تفاسیر کے بارے معلومات حاصل کی تھیں اس لیے ارباب خلافت لائبریری کا شکریہ لازم سمجھتا ہوں ۔
63۔ سر سیداحمد خاں ، تفسیر القرآن کریم ( علی گڑھ :انسٹی ٹیوٹ پریس ،۱۸۸۰ء )،مقدمہ
64۔ مرزا صاحب کے بیان کردہ سات معیارات تفسیر یہ ہیں۔ سب سے اوّلؔ معیارتفسیر صحیح کا شواہد قرآنی ہیں ۔ دوسرا معیار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کی تفسیر ہے ۔ تیسرا معیار صحابہ کی تفسیر ہے چوتھا معیار خود اپنا نفسِ مطہر لے کر قرآن کریم میں غور کرنا ہے۔کیونکہ نفسِ مطہرہ سے قرآن کریم کو مناسبت ہے۔ پانچواں معیار لغت عرب بھی ہے ۔ چھٹا معیار روحانی سلسلہ کے سمجھنے کے لئے سلسلہ جسمانی ہے۔ ساتواں معیار وحی ولایت اور مکاشفاتِ محدثین ہیں۔ مرزا ، غلام احمد قادیانی ، برکات الدعا ء ( قادیان: انوار احمدیہ پریس ،۱۸۹۳ء)، ص: ۱۶۔۱۸
65۔ ڈاکٹر محمد عمران ، قادیانی تفاسیر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (ملتان :عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ، س ن )، ص: ۸۶
66۔ ڈاکٹر محمد عمران ، قادیانی تفاسیر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ،ص :۱۸
67۔ مرزا، غلام احمد ، تفسیر ،۱: ۲۳۳
68۔ ایضا ً:۱: ۴۱۵
69۔ غلام احمد ، تفسیر ،۳: ۱۴۹ا
70۔ ایضاً ،ص، ۴: ۳۴۹
71۔ محمد عمران ،قادیانی تفاسیر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ، مقدمہ ( بدون صفحہ نمبر)
72۔ ایضاً، ص :۱۵۴۔۱۵۵
73۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ مرزا صاحب کو دعوی مسیح موعود پر ابھارنے والے حکیم نورالدین صاحب ہی تھے ،اس مشورہ پر مرزا صاحب رقم طراز ہیں:’’جو کچھ آنمخدوم نے تحریر فرمایا ہے اگر دمشقی حدیث کے مصداق کو علیحدہ چھوڑ کر الگ مسیح مثیل مسیح کا دعوی ظاہر کیا جائے تو اس میں ہرج کیا ہے۔ درحقیقت اس عاجز کو مثیل مسیح بننے کی کچھ حاجت نہیں۔‘‘دیکھیے: مرزا ، غلام احمد قادیانی ، مکتوبات احمدیہ (قادیان:انوار احمدیہ پریس ،۱۹۰۸ء)،۵: ۸۵
74۔ بھیروی ، نورالدین ، حقائق الفرقان (لاہور: ضیاء الاسلام پریس ، س ن)،۱: ۴۸۵
75۔ لاہوری ، احمد علی ، بیان القرآن (لاہور :احمدیہ انجمن اشاعت اسلام ،س ن )،۱: ۲۲۵
76۔ مرزا ، غلام احمد ، تذکرہ (قادیان : انوار احمدیہ پریس)، ص: ۲۱۔۲۲
77۔ اس جزوی تفسیر کی تفصیل یہ ہے: جلد اول سورۃ فاتحہ تا بقرہ ، جلد دوم سورۃ بقرہ ، جلد سوم سورۃ یونس تا ابراہیم جلد چہارم سورۃ حجر تا الکہف ، جلد پنجم سورۃ مریم تا انبیاء ، جلد ششم سورۃ حج تا فرقان ، جلد ہفتم سورۃ شعراء تا عنکبوت ، جلد ہشتم سورۃ نباء تا البلد ، جلد نہم سورۃ شمس تا الہمزہ ، جلد دہم سورۃ فیل تا الناس
78۔ محمود ، بشیر الدین ، تفسیر کبیر ( قادیان : انوار احمدیہ پریس ،۱۹۴۰ء)،۲: ۲۰۶
79۔ محمود ، بشیر الدین ، تفسیر کبیر ،ص :۲۱۱
80۔ منیر الدین ، احمد ، ڈھلتے سائے ( لاہور :۲۰۰۶ء)،۵۲؛’’مولوی ابولمنیر نورالحق ( جن کو ربوہ میں ان کے چھوٹے قد اور موٹی توند کے سبب مولوی پاوا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ) تفسیر القرآن کے استاد تھے۔ وہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے ساتھ سالہا سال منسلک رہے جو ’’تفسیر کبیر ‘‘کے عنوان کے تحت تیس جلدوں میں چھپنے والی قرآن کریم کی سب سے بڑی تفسیر لکھ رہے تھے مگر اسے تکمیل تک نہ پہنچا سکے تھے۔چونکہ مرزا محمود احمد کو عربی واجبی سی آتی تھی اس لیے ان کو مولوی ابوالمنیر جیسے عالم کی ضرورت تھی ۔۔۔ چنانچہ مولوی موصوف تیس چالیس سال تک اس کام میں لگے رہے۔ انہوں نے کہیں کہہ دیا کہ ’’تفسیر کبیر‘‘کی تصنیف میں ان کا بھی حصہ ہے اس لیے مرزا طاہر احمد اور سید محمود احمد دو سال انگلستان میں قیام کے بعد پاکستان لوٹے تو اسٹیشن پر استقبال کرنے والوں کے سامنے مرزا طاہر احمد نے (طنزاً) کہا تھا کہ ’’تفسیر کبیر کے اصل مصنف مولوی نورالحق صاحب کہاں ہیں۔“
81۔ طاہر احمد ، مرزا ، ترجمہ قرآن (یوکے :باتھ پریس لمیٹڈ،۲۰۰۰ء)، ص: ۹۲
82۔ طاہر احمد ، مرزا ، ترجمہ قرآن ،ص :۸۱۴
83۔ صلاح الدین ، پیر ، قرآن مجید ترجمہ مع تفسیر(اسلام آباد: قرآن پبلی کیشنز ، ۱۹۷۴ء)،۳: ۱۴۷۳
84۔ مثلاً پادری ای ایم ویری شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے ترجمہ کی نسبت منادین کے لیے عمادالدین کے کردہ ترجمہ کو بہتر گردانتے ہیں: Wherry, E. M , The Muslim Controversy , (London: Christian Literature Society, 1905), p:vi ( Preface)
85۔ انصاری ، محمد حلیم ، مولوی ، انجیل برنباس ( اردو) ( کشمیر بک ڈپو ، لاہور ، ۱۹۱۶ء) ، صفحات ۳۶۹
86۔ سر سید احمدخاں ، تبیین الکلام فی تفسیر التوراۃ و الانجیل علی ملۃ الاسلام ( غازی پور) یہ جزوی تفسیر بائبل تین جلدوں میں شائع ہوئی ۔دس مقدموں پر مشتمل پہلی جلد۱۸۶۲ ء اور توریت کی کتاب پیدائش کی تفسیر پر محتوی جلد دوم ۱۸۵۶ ء میں طبع ہوئی جب کہ۱۸۸۷ء میں سامنے ہونے والی تیسری جلد انجیل متی باب اول تا باب پنجم کی تفسیر پر مشتمل ہے۔
Share this content: