بنی ہاشم کا خاتم المرسلینؐ سے عشق
تحریر: سید اسد عباس
ہم تاریخ کی کتب میں پڑھتے آئے ہیں کہ رسالت ماب ؐ بچپن سے ہی صادق و امین معروف تھے۔ اہل مکہ آپ کی سچائی اور امانت داری کی گواہی دیتے تھے۔ مبعوث ہونے کے بعد بھی آپ کی صداقت اور ایمانداری پر کسی کو شک و شبہ نہ تھا، حتی کہ اہل مکہ اپنی قیمتی امانتیں آپ کے سپرد کر دیا کرتے تھے۔ ہجرت مدینہ کے دوران اس صادق و امین نے اپنے بھائی علی کو ان امانتوں کی واپسی کی ذمہ داری سونپی، تاکہ کسی کی امانت ضائع نہ ہو۔ تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ حضرت عبد المطلب کو اپنا یہ پوتا نہایت عزیز تھا اور رحلت کے وقت انھوں نے خاص اہتمام کے ساتھ اس پوتے کی کفالت کی ذمہ داری اپنے بیٹے ابو طالب کے سپرد کی۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ حضرت ابو طالب نے اپنے والد سے کیے ہوئے وعدے کو نبھایا اور اپنی اولاد سے زیادہ رسالت ماب ؐ کی حفاظت کی۔
سرداران قریش اور کفار مکہ جب رسالت ماب ؐ کی تبلیغ سے تنگ آتے تو شکایت لے کر حضرت ابو طالب کے پاس جاتے کہ آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ ہمارے خداؤوں کو برا بھلا نہ کہے۔ یہ بھی کہا جاتا کہ آپ درمیان سے اپنا ہاتھ کھینچ لیں، ہم اس کے ساتھ معاملہ کرلیں گے۔ تاریخ کہتی ہے کہ حضرت ابو طالب کبھی بھی اپنے بھتیجے کی سرپرستی سے دست کش نہ ہوئے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بنی ہاشم سے سماجی، معاشی اور خاندانی روابط قطع کر دیئے گئے۔ بنی ہاشم تین برس شعب ابی طالب میں رہا۔ بھوک، پیاس، بیماری، گرمی اور سردی کی شدت میں حضرت ابو طالب اور بنی ہاشم کے دیگر بزرگ پہاڑ کی مانند اپنی جگہ قائم رہے، حتی کہ سرداران قریش اور کفار مکہ کا معاہدہ از خود ختم ہوگیا اور بنی ہاشم واپس اپنے گھروں کو لوٹے۔
بدقسمتی کہا جائے یا حالات کی ستم ظریفی، ان چند ایک واقعات کے علاوہ عموماً خاندان رسالت کی رسول اللہ ؐ سے محبت کا تذکرہ کم ہی سننے میں آتا ہے۔ ابو لہب کا واقعہ قرآن نے ذکر کیا ہے، اس لیے زبان زد عام ہوگیا، ورنہ وہ اثرات جو اس خاندان سے متعلق ہیں، ان کو اول تو بیان نہیں کیا جاتا، اگر بیان کیا بھی جائے تو یوں توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے کہ جس سے کوئی مثبت تاثر نہیں ابھرتا۔ حضرت ابو طالب کی ذات گرامی کو ہی لے لیں، آج تک مسلمان اسی شش و پنج میں ہیں کہ ابو طالب نے اسلام قبول کیا تھا یا نہیں۔ ابو طالب کو نبی کریم سے بہت محبت تھی، انھوں نے اپنی اور اپنی ذات سے بڑھ کر رسول اللہ ؐ کا خیال رکھا، ہر سرد و گرم سے ان کی حفاظت کی، تاہم چونکہ کلمہ کی روایت نہیں ملی، اس لیے ان کا ایمان اہل اسلام کی نظر میں مشکوک ہوگیا اور کئی ایسوں کا ایمان ثابت ہوگیا، جو اپنی پوری زندگی نبی کریم ؐ کو ایذائیں پہنچاتے رہے، جنگیں کیں، خون بہایا، لیکن چونکہ ان کے کلمہ پڑھنے کی روایت کتب تاریخ سے نکل آئی ہے، اس لیے وہ مسلمان اور رضی اللہ عنہ ہوگئے ہیں۔
تاریخ نے بنی ہاشم کی بعض شخصیات کے کچھ ایسے اثرات کو محفوظ کیا ہے، جس سے اس خاندان کے افراد کی نہ فقط رسول اللہ ؐ سے محبت و وارفتگی کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ اثرات اس امر کا بھی اظہار ہیں کہ بنی ہاشم کس عقیدے کے حامل تھے، ان کا اخلاق اور معیار کیا تھا، ان کی فصاحت و بلاغت اس کلام سے عیاں ہے۔ گذشتہ دنوں نعت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر کام کرتے ہوئے میرے سامنے یہ کلام آیا۔ جسے پڑھ کر روحانی کیف کے ساتھ ساتھ افسوس کی ملی جلی کیفیات سے دوچار ہوا۔ شاید یہ اس کلام کا فقط ایک حصہ ہے، ممکن ہے کہ اس سے بہت زیادہ کلام موجود ہو، تاہم چونکہ یہ بنی ہاشم کی مدح سرائی ہے، لہذا اسے وہ توجہ نہ دی گئی، جو دینی چاہیئے تھی۔ ذیل میں اسی کلام کے کچھ اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
ان میں پہلا کلام سید بنی ہاشم حضرت عبد المطلب کا وصیت پر مبنی کلام ہے، جسے سیرہ ابن اسحاق السیر والمغازی میں قلمبند کیا گیا ہے۔ کلام حسب ذیل ہے: اوصیک یا عبد مناف بعدی بموحد بعد ابیہ فرد فارقہ وھو ضجیح المھد وکنت کالام لہ فی الوجد تدنیہ من احشانھا والکبد حتی اذا خفت مدادا الوعد اوصیت ارجی اھلنا للتوفد بابن الذی غیبتہ فی اللحد بالکرہ منی ثم لا بالعمد فقال لی والقول ذو مرد ما ابن اخی ماعثت فی معد الاکادنی ولدی فی العود عندی اری ذلک باب الرشد بل احمد قد یرتجی للرشد وکل امر فی الامور ود قد علمت علام اھل العھد ان ابنی سید اھل النجد یعلو علی ذی البدن الاشد (حوالہ: سیرہ ابن اسحاق السیر والمغازی ص۷۳)
ترجمہ: ۱۔ اے عبد مناف (ابو طالب) میں اپنے بعد اس موحد کے بارے میں تمھیں وصیت کرتا ہوں، جو اپنے والد کی کی وفات کے بعد اکیلا رہ گیا ہے۔ ۲۔ اس کا باپ اس حال میں اسے داغ مفارقت دے گیا کہ وہ ابھی گہوارے میں سونے والا تھا، میں اس حال میں اس کے لیے بمنزلہ ماں کے تھا۔ ۳۔ جو اپنے جسم و جان سے زیادہ بچے کو عزیز رکھتی ہے، یہاں تک کہ میں اجل کے وعدہ کی سیاہی سے خائف اور بے بس ہوگیا۔ ۴۔ اور میں نے اس بارے میں اپنے اہل بیت کو وصیت کی، اس بیٹے کی وجہ سے جو مجھ سے قبل ہی قبر میں چھپ گیا ہے۔ ۵۔ میں نے ایسا عمداً نہیں کیا بلکہ مجبوری کی بنا پر کیا ہے۔ عبد مناف نے اس وصیت کو قبول کیا اور قول و قرار پختہ ہی ہوا کرتا ہے۔ ۶۔ اس نے کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں، میرے بھائی کے بیٹے کو کوئی اچک کر نہیں لے جاسکے گا بلکہ میں اس کے ساتھ بیٹے کی طرح محبت کروں گا۔ ۷۔ میں اسے اپنے پاس رشد و ہدایت کا دروازہ سمجھتا ہوں بلکہ ہدایت و راہنمائی حاصل کرنے کے لیے احمدؐ سے امیدیں واستہ کی جائیں گی۔ ۸۔ عہد و پیمان کرنے والے جانتے ہیں کہ محبت تو سب امور میں سے بہترین ہے۔
رسول اکرم ؐ کی مدح میں کہے گئے اشعار کی جمع آوری کا کام مسلسل جاری ہے۔ اس سلسلے میں برصغیر پاک و ہند میں کئی ایک اداروں کی جانب سے نعت نمبر شائع کیے گئے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی اس عنوان سے ایک کاوش ’’سہ ماہی ادبیات شمارہ نمبر ۱۰۱جنوری تا جون‘‘ 2014ء میں شائع ہوچکی ہے، جس میں خاندان رسالت کے چند شعراء کے علاوہ اصحاب رسول ؐ ، امہات المومنین ؓ ، فارسی کے بزرگ شعراء، قبل از پاکستان شعراء، بعد از تقسیم شعراء، تازہ کلام، پاکستانی زبانوں میں نعتیہ کلام شامل ہے۔ اسی طرح ایک کاوش ہندوستان میں بھی انجام دی گئی ہےـ ’’مدینہ سخن” کے عنوان سے حمد، نعت اور منقبت کا یہ مجموعہ خانہ فرہنگ اسلامی جمہوریہ ایران، دلی نے شائع کیا ہے۔ یہ مجموعہ ڈاکٹر سید حمید اللہ ضیائی کی زیر نظارت 2008ء میں شائع ہوا۔ مدینہ سخن تقریباً 600 صفحات کی ایک ضخیم کتاب ہے، جس میں فقط برصغیر کے 389 شعراء کا کلام موجود ہے۔ ان میں دیگر مذاہب کے شعراء بھی شامل ہیں۔
دیگر اداروں اور مجلات کی جانب سے بھی اس سلسلے میں کام کیا گیا ہے، اسی طرح کا ایک نعت نمبر ماہنامہ پیام بھی شائع کرنے جا رہا ہے، جس میں فقط سادات کے شعراء کے کلام کو جمع کیا گیا ہے۔ اس میں عربی، فارسی، اردو اور دیگر پاکستانی زبانوں سے نعتیہ کلام کا ایک انتخاب شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ نعت کائنات کے حوالے سے ایک سائٹ نعتوں کی جمع آوری میں اہم خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس پر جدید و قدیم شعراء کا کلام موجود ہے، تاہم تاحال کسی بھی کام کو مکمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نعت رسول ؐ ایک ایسا بحربیکراں ہے، جس کی ابتداء تو خود قرآن کریم سے کی گئی، پھر رسالت مآب ؐ کے خانوادے نے نعتیں کہیں، اس سلسلے میں عرب شعراء، فارسی شعراء، ترک شعراء غرضیکہ اسلام جہاں جہاں پھیلا وہاں وہاں سے نعتیہ کلام سامنے آنے لگا۔
اپنی گذشتہ تحریر میں راقم نے بنی ہاشم کے جد حضرت ابو طالب ؑ کا کلام آپ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ ختمی مرتبت پر بنی ہاشم میں سے متعدد شخصیات نے شعر کہے، جن میں آپ کے چچا حضرت ابو طالب، حضرت عباس بن عبد المطلب، آپ کی پھو پھو عاتکہ بنت عبد المطلب، اروی بنت عبد المطلب، صفیہ بنت عبد المطلب کے کلام اور سب سے بڑھ کر حضرت آمنہ کا کلام بھی موجود ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے عربی نعتیہ شاعری پر تحقیق ڈاکٹر اسحاق قریشی نے انجام دی، جن کا تھیسس 1988ء میں شائع ہوا۔ ڈاکٹر اسحاق نے ان سب نعتوں کو اپنے تھیسس میں حوالوں سے تحریر کیا ہے۔ حضرت ابو طالب کے کلام پر مشتمل دیوان اردو زبان میں سید رضی جعفر نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ دیوان ڈاکٹر محمد التونجی نے مرتب کیا اور اس کی شرح لکھی، جو بیروت سے شائع ہوا۔ اس دیوان سے ایک انتخاب پیش قارئین ہے۔ الم تعلموا أنَّا وجدنا محمدًا رسولا کموسیٰ خُطّ فی اول الکتب و أَنَّ علیہ فی العباد مَحبَّةً ولا حیف فیمن خَصَّہ اللہُ بالحبّ (حوالہ: سیرہ ابن ہشام ج ۱،ص ۳۷۳) ترجمہ: کیا تمہیں اب بھی یقین نہیں آتا کہ ہم نے محمد کو ویسا ہی نبی پایا ہے، جیسے موسیٰ تھے اور یہ کہ ان کا تذکرہ قدیم کتابوں میں موجود ہے اور یہ کہ خدا نے صرف محمد پر اپنی محبت نازل کی، پس اس سے بہتر کون ہوسکتا ہے، جسے اپنی محبت سے مخصوص کرے۔
حضرت ابو طالب ؑ کا ایک کلام نہایت معروف ہے۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں جلہم بن عرفطہ سے نقل کیا ہے: “مکہ میں قحط پڑا، قریش نے ابو طالب سے کہا کہ وادیاں سوکھ گئی ہیں، ہم ایک ایک لقمہ نان کے محتاج ہوگئے ہیں۔ ہمارے ساتھ آیئے، تاکہ بارش کی دعا کریں۔ ابو طالب اپنے ساتھ ایک بچے کو لئے ہوئے باہر آئے، جو سورج کی طرح درخشاں تھا۔ آپ کے گرد کئی بچے تھے، ابو طالب نے اس بچے کو گود میں لے کر اس کی پیٹھ کعبہ سے چسپاں کر دی، بچے نے آپ کی انگلی تھام لی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا کہیں پتہ نشان نہ تھا، اچانک اس قدر بارش ہوئی کہ تمام جوار اور وادیاں جل تھل ہوگئیں۔” ایسے میں ابو طالب نے یہ اشعار کہے: وابیض یستسقی الغمام بوجھہ ثمالُ الیتامیٰ عصمة الارامل یلوذبہ الہلاّک من آل ہاشم فہم عندہ من نعمة فواضلِ و میزان عدل لا یخیس شعیرةً ووزان صدقٍ وزنہ غیر ہائلٍ ترجمہ: وہ نورانی چہرہ جس کا واسطہ دے کر پانی طلب کیا جاتا ہے، وہ یتیموں کے فریاد رس اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہیں، بنی ہاشم کے فقراء انھیں کی پناہ حاصل کرتے ہیں اور ان کے پاس ناز و نعمت کے لئے زیادہ جاتے ہیں، وہ عدالت کی ایسی میزان ہیں، جس کا وزن ایک بال کے برابر بھی خطا نہیں کرتا اور اس کا وزن سچا وزن ہے، جس میں جھوٹا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/qiyam-ul-hussain-as/
سیدہ آمنہ سلام اللہ علیہھا سیدہ آمنہ سلام اللہ علیھا کا یہ کلام ڈاکٹر اسحاق قریشی نے اپنے تحقیقی مقالے ’’برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری‘‘ میں خصائص الکبریٰ کے حوالے کے ساتھ نقل کیا ہے ـ: بارک فيک الله من غلام يا ابن الذي من حومۃ الحمام نجا بعون الملک المنعام فودي غداۃ الضرب بالسھام بمائۃ من إبل سوام إن صح ما أبصرت في منامي فأنت مبعوث إلی الأنام من عند ذي الجلال والاکرام تبعث في الحل وفي الحرام تبعث بالتحقيق والإسلام دين أبيک البر إبراھام تبعث بالتخفيف والإسلام أن لا تواليھا مع الأقوام فالله أنھاک عن الأصنام (حوالہ: بحوالہ الخصائص الکبری، ص: 79/1) ترجمہ: اللہ تمہیں بابرکت لڑکا بنائے، اے اس باپ کے بیٹے جو جنگ کی سختی کے مقام سے نہیں گھبراتا۔ نعمت دینے والے بادشاہ کی مدد سے بچ گیا، جس دن قرعہ اندازی ہوئی، تو اس کی دیت، سو اونٹ ٹھہری، اگر وہ بات صحیح ہےو جو میں نے خواب میں دیکھا، تو تم ذی الجلال والاکرام کی طرف سے تمام لوگوں کے لئے بھیجے گئے ہو۔ ارض حل و حرم کے طرف، حق اور اسلام کے ساتھ۔ تمہارے نیک باپ ابراہیم کے دین کے ساتھ، جو اسلام ہے اور آسانی والا دین ہے۔ تمہیں وصیت کرتی ہوں کہ خدا کے لئے قوم کے ساتھ بتوں سے محبت نہ کرنا۔
اروی بنت عبد المطلب اروی بنت عبد المطلب رسول اللہ ؐ کے والد عبد اللہ کی حقیقی بہن تھیں، آپ کی رحلت 15 ہجری میں ہوئی۔ آپ کا رسول اللہ ؐ کی مدح میں کہا گیا یہ کلام بھی ڈاکٹر اسحاق قریشی نے اپنے تحقیقی مقالہ میں حوالہ جات کے ہمراہ نقل کیا ہے: الا یا رسول اللہ کنت رجاءنا و کنت بنا برا ولم تک جافیا لیبک علیک الیوم من کان باکیا افاطم صلی اللہ رب محمد علی جدث امسی بیثرب ثاویا فداء لرسول اللہ امی و خالتی و عمی و نفسی قصرہ ثم خالیا (حوالہ: ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، محکمہ اوقاف، پنجاب، 2002ء، ص 349) ترجمہ: بے شک یارسول اللہ آپ ہماری امید تھے۔ ہم پر مہربان تھے اور جفا کار نہیں تھے۔ اے ہمارے نبی آپ ہم پر مہربان اور رحم کرنے والے تھے۔ آج جس نے بھی آپ پر رونا ہےو رو لے۔ اے فاطمہ، اللہ رب محمد درود بھیجے۔ اس قبر پر جو یثرب میں آرام فرما ہے۔ رسول اللہ پر میری ماں، خالہ اور چچا قربان اور میری جان اس محل پر جو اب خالی ہوگیا ہےو قربان ہو۔
صفیہ بنت عبد المطلب: صفیہ حضرت حمزہ کی حقیقی بہن تھیں اور حضرت آمنہ کی خالہ زاد بہن تھیں۔ آپ زبیر بن عوام کی والدہ ہیں۔ سیدہ صفیہ نے بعثت کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا، غزوہ خندق کے دوران خواتین اور بچوں کو ایک پرانے قلعے میں رکھا گیا تھاو جہاں ایک یہودی دیوار پھاند کر داخل ہوگیا۔ سیدہ صفیہ نے لکڑی کا ٹکڑا اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا، جس سے یہودی مر گیا۔ جنگ احد میں جب لشکر اسلام تتر بتر ہوا تو سیدہ صفیہ تنہا نیزہ چلاتی رہیں۔ سیدہ صفیہ کا انتقال 20 ھ میں ہوا۔ آپ کا رسول خدا کی شان میں کہا گیا یہ مرثیہ معروف ہے: لیت شعری، و کیف امسی صحیحا بعد ان بین بالرسول القریب اعظم الناس فی البریہ حقا سید الناس حبہ فی القلوب فا وحشت الارض من فقدہ و ای البریتہ لا ینکب و تبکی الاباطح من فقدہ و تبکیہ مکتہ والاخشب اعینی جودا بدمع سجم یبادر غربا بما منھدم علی صفوہ اللہ رب العباد و رب السماءِ و باری النسم (حوالہ: ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، محکمہ اوقاف، پنجاب، 2002ء، ص 350 بحوالہ طبقات ابن سعد ص 328/2) ترجمہ: کاش میں جان سکوں، کیسے ٹھیک ہوگیا، رسول اللہ کے پاس رہنے والا ان سے دور ہونے کے بعد۔ جو کہ ساری خلقت میں عظیم ترین ہیں، ان کی محبت دلوں پر حکومت کرتی ہے۔ زمین اداس ہوگئی ہے، ان کو کھونے کے بعد اور کون ہے روئے زمین پر، جس پر مصیبت نہ آتی ہو۔ میدان ان کو کھونے پر روتے ہیں۔ مکہ ان پر رو رہا ہے اور الأخشاب پہاڑ بھی۔۔۔۔ اے میری آنکھو، خوب آنسو بہاؤ، اتنے کہ مغرب کی طرف سب کچھ ڈھاتے جائیں، ان پر جو اللہ تعالٰی کے بہترین بندے ہیں، جو تمام بندوں کا رب ہے۔ وہ آسمان کا رب ہے اور بہترین ہوا چلانے والا ہے۔
عاتکہ بنت عبد المطلب یہ بنی ہاشم کے ان افراد سے ہیں، جن کے اسلام کے حوالے سے مسلمان شش و پنج میں رہے۔ تاہم اکثر علماء نے سیدہ عاتکہ کے اشعار میں رسول اللہ کی ثناء اور ان کو اللہ کا نبی کہنے کو قبول کرتے ہوئے انھیں مسلمان شمار کیا ہے۔ ان علماء میں ایک امام دارقطنی بھی ہیں۔ ابن سعد نے بھی آپ کا اسلام قبول کرنا لکھا ہے۔ سیدہ عاتکہ کا رسول اکرم ؐ کی ثناء میں بہت سا کلام ہے، اس سے ایک انتخاب پیش قارئین ہے: یا عین فانھملی بالدمع و اجتھدی للمصطفی ، دون خلق اللہ بالنور من فقد ازھر ضافی الخلق ذی فخر صاف من العیب والعاھات والزور انی لک الویلات مثل محمد فی کل نائبتہ تنوب و مشہد ام من لو جی اللہ یترک بیننا فی کل ممسی لیلتہ او فی غد (حوالہ: ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، برصغیر پاک و ہند میں عربی نعتیہ شاعری، محکمہ اوقاف، پنجاب، 2002ء، ص 350 بحوالہ طبقات ابن سعد ص 326/2) ترجمہ: اے آنکھ آنسو جاری کر دے اور اس کام میں محنت کر۔ مصطفیٰ کے لیے، جن کو خلقت سے الگ نور سے تخلیق کیا گیا۔ روشن رنگت والے، مکمل اخلاق حسنہ کے مالک، قابل فخر، تمام عیوب، نقائص اور جھوٹ سے پاک۔ تجھے محمد کے فراق جیسی مصیبتیں کہاں آئیں گی۔ ہر آنے والی مصیبت اور موقعے پر۔ کون ہے جسے اللہ کی خاطر ہمارے درمیان چھوڑا جاتا۔؟ ہر شام، ہر رات اور ہر صبح۔
یہ کلام بنی ہاشم کے شعراء اور فصحاء کے کلام سے فقط ایک اقتباس ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ بنی ہاشم نے رسول اللہ ؐ کی ثناء میں شعر و نثر کی صورت میں جو علمی آثار چھوڑے ہیں، ان کو جمع کیا جائے، تاکہ عاشقان رسول ؐ اس کلام سے مستفید ہوسکیں۔ فی الحال انہی گذارشات پر اکتفاء کرتا ہوں، ابھی امیر المومنین علیہ السلام، حضرت فاطمہ الزھراء سلام اللہ علیھا کا کلام ، امام زین العابدین علیہ السلام کا کلام جو میری نظر سے گزرا ہے، موجود ہے۔ تلاش کی ضرورت ہے کہ ائمہ اہل بیت علیھم السلام، سادات میں دیگر شخصیات نے مدح رسول ؐ میں جو کچھ کہا ہے، اس کو جمع کیا جائے، تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک سرمایہ ہو اور اہل اسلام نبی کریم ؐ کی ذات والا صفات کو قرآن حکیم کے بعد اس کلام کی روشنی میں سمجھنے اور جاننے کی کوشش کریں۔
بشکریہ اسلام ٹائمز
Share this content: