آذربائیجان مسلمان سیکولر ریاست

Published by Murtaza Abbas on

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

جمہوریہ آذربائیجان مشرقی یورپ کی سرحد پر واقع ایک ملک ہے، جو عہد قدیم میں فارس کی ریاست کا حصہ تھا۔ آذربائیجان کے مشرق میں روس، شمال میں جارجیا، شمال مغرب میں آرمینیا، مغرب میں ترکی اور جنوب میں ایران واقع ہیں۔ باکو آذربائیجان کا سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت ہے۔ 1920ء میں آذربائیجان سوویت یونین کا حصہ بنا، موجودہ آذربائیجان 1991ء میں ایک آزاد ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین نگارنو کاراباخ کا مسئلہ متعدد دہائیوں سے وجہ نزاع بنا ہوا ہے، جس پر دونوں ملک متعدد جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ آذربائیجان کی 97 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے، تاہم ملک کا آئین سیکولر ہے۔ ملک میں نیو آذربائجان پارٹی 1993ء سے برسر اقتدار ہے اور انسانی حقوق، شہری حقوق، پریس کی آزادی کے حوالے سے اس حکومت پر بہت سے الزامات عائد کیے جاتے ہیں۔

قدیم زمانے میں آذربائیجان کے علاقے ساسانیوں کے زیر تسلط رہے۔ طلوع اسلام کے بعد آذربائیجان کا کچھ علاقہ امویوں کے بھی زیر تسلط رہا۔ عباسیوں کے دور حکومت کے بعد آذربائیجان کے علاقوں پر اوغوز ترکوں نے حکومت قائم کی اور یہ خطہ سلجوقیوں کے زیر اثر رہا۔ نظامی گنجوی نے سلجوق دور میں آذربائیجان میں فارسی ادب کو فروغ دیا۔ آذربائیجان تیمور کی حکومت کا بھی حصہ رہا اور اس کے انتقال کے بعد یہاں دو مخالف ریاستیں وجود میں آئیں۔ اس دور کے بعد صفویوں نے آذربائیجان پر قبضہ کیا اور مقامی حکمرانوں شروان شاہوں کو آذربائیجان میں بر سر اقتدار رہنے دیا۔ اسی دور میں آذربائیجان میں مکتب تشیع کی ترویج کی گئی۔ 1538ء میں شاہ طہماسب نے آذربائیجان کو فارس کے صوبہ شیروان کا حصہ بنا دیا اور شروانشاہی دور کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا۔

آذربائیجان پر صفویوں کا اقتدار انیسویں صدی عیسویں تک کسی نہ کسی صورت میں قائم رہا۔ صفویوں کے بعد آذربائیجان پر ترک نسل کے افشاریوں کی حکومت قائم ہوئی، جو نادر شاہ کے انتقال کے بعد متعدد چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی۔ قاجار دور میں آذربائیجان روسی بادشاہت کا حصہ بنا۔ جنگ عظیم اول میں روسی بادشاہت کے خاتمے کے بعد جارجیا، آرمینیا اور آذربائیجان پر مشتمل ایک فیڈریشن تشکیل دی گئی۔ 1918ء میں آذربائیجان نے خود کو فیڈریشن سے الگ کر لیا اور آزاد ریاست کا اعلان کر دیا گیا۔ 1920ء میں لینن نے اعلان کیا کہ سوویت یونین کا وجود باکو کے تیل کے بغیر ممکن نہیں، لہذا سوویت یونین نے آذربائیجان پر چڑھائی کرکے اس پر قبضہ کر لیا اور آذربائیجان سوویت یونین کا مقبوضہ علاقہ قرار پایا۔

جنگ عظیم دوم میں سوویت یونین کے مشرقی محاذ پر 80 فیصد تیل باکو نے مہیا کیا اور یوں سوویت یونین کی توانائی کی ضروریات کو پورا کیا، جس پر اس انڈسٹری سے متعلق لوگوں کو انعامات سے نوازا گیا۔ جنگ عظیم دوئم میں آذربائیجانی عوام سوویت افواج کا اہم حصہ تھی، اس کی آبادی فقط 3.4 ملین تھی اور محاذ پر جانے والے افراد کی کل تعداد آٹھ لاکھ تھی، جن میں سے اڑھائی لاکھ افراد جاں بحق ہوئے۔ 1991ء میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد آذربائیجان ایک آزاد ریاست کے طور پر معرض وجود میں آیا۔ اسی زمانے میں نگارنو کاراباخ کا مسئلہ ابھرا، جب اس علاقے کے آرمینیائی باشندوں نے اپنے علاقوں کو آرمینیا سے ملحق کر دیا۔ اس مسئلے پر آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین متعدد خون ریز جنگیں ہوئیں۔ آخری جنگ 2020ء میں لڑی گئی، جس کے نتیجے میں نکارنو کاراباخ کے بڑے حصے کا کنٹرول آذربائیجان کو لوٹا دیا گیا۔

1993ء میں آذربائیجان میں ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں منتخب حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا اور سوویت دور کے ایک راہنماء حیدر علی اوف برسر اقتدار آیا۔ 2003ء میں حیدر علی اوف کے انتقال کے بعد ان کا بیٹا الہام علی اوف آذربائیجان پارٹی کا چیئرمین منتخب ہوا اور اس وقت اپنے والد کے بعد حکومت پر براجمان ہے۔ آذربائیجان میں صدارتی نظام نافذ ہے، صدر مملکت وزراء اور اہم عہدیداروں کا تعین کرتا ہے۔ الہام علی اوف مسلسل چوتھی مرتبہ سات سال کی مدت کے لیے 2018ء میں منتخب ہوا۔ آذربائیجان اپنے توانائی کے وسائل نیز معدنیات کے حوالے سے کافی زرخیز خطہ ہے۔ تیل و معدنیات کے علاوہ زراعت اور سیاحت بھی آذربائیجان کی معیشت کے اہم ستون ہیں۔ آذربائیجان کی آبادی متعدد قومیتوں پر مشتمل ہے، جن میں آذر، ترک، آرمینین، لیزگنز، تاتار، یوکرینین، جارجین، یہودی اور کرد قابل ذکر ہیں۔

یہاں آذری زبان جو دراصل ترک الاصل زبان ہے، کے علاوہ متعدد دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق آذربائیجان میں 65 فیصد سے زائد آبادی شیعہ مسلک سے ہے، اہل سنت اور عیسائی بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں، تاہم جیسا کہ قبل ازیں ذکر کیا گیا کہ آذربائیجان کی زیادہ تر آبادی سیکولر اور لبرل مسلمانوں پر مشتمل ہے، ایک سروے کے مطابق ملک کی آبادی کا کل 21 فیصد مذہب کو ضروری گردانتا ہے۔ اسرائیل اور آذربائیجان کے سیاسی، سفارتی اور تزویراتی تعلقات کا آغاز 1992ء میں ہوا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے شیعہ مکتب فکر سے ہونے کے سبب آذربائیجان میں براجمان حکومت ہمسایہ ممالک میں موجود اسلامی تحریکوں نیز حکومتوں کو اپنے لیے ایک ممکنہ خطرے کے طور پر دیکھتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایران اور عراق کے موقف کے برعکس آذربائیجان کی حکومت کے اسرائیل سے گہرے تزویراتی روابط ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتیں اسلامی حکومتوں کو اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہیں۔ انٹیلیجنس شیئرنگ کے علاوہ دونوں ممالک نے ڈرون ٹیکنالوجی اور ائیر ڈیفنس سسٹم کے بڑے تجارتی معاہدے کر رکھے ہیں۔ اسرائیل آذربائیجان کا پانچواں بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اسرائیل کا چالیس فیصد تیل آذربائیجان سے آتا ہے، اسی طرح آذربائیجان کا 69 فیصد اسلحہ اسرائیل مہیا کر رہا ہے۔ اسرائیلی اخبار ہارتز کے مطابق آذربائیجان نے اسرائیل کو اپنے ہوائی اڈوں اور ائیر بیس تک رسائی دے رکھی ہے۔ ایران بھی آذربائیجان میں موساد کی سرگرمیوں کے حوالے سے متعدد مواقع پر آذربائیجانی حکومت سے شکایت کرچکا ہے۔