×

آئیے اسوۂ نبوت کے آئینے میں خود کو دیکھیں

سید ثاقب اکبر

آئیے اسوۂ نبوت کے آئینے میں خود کو دیکھیں

ربیع الاول کا مہینہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد سے مختص ہے۔ اگرچہ آپؐ کی یاد کسی خاص وقت سے بے نیاز اور بالاتر ہے، تاہم یہ آپؐ کی ولادت کا مہینہ ہونے کی وجہ سے خصوصیت رکھتا ہے۔ اس لیے آپ کے چاہنے والے اس مہینے میں آپؐ سے اظہار محبت کا طرح طرح سے اور خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے خیرالبشر کا مقام عنایت فرمایا۔ آپؐ کی ذات جلال و جمال الہیٰ کا پَرتَو اور اسمائے الہیٰ کی جلوہ گاہ ہے۔ جس کسی کو بھی کمال کی طرف ایک قدم بڑھانا ہو، دراصل اسے آپؐ ہی کی طرف ایک قدم بڑھانا ہے، کیونکہ کمال کی بلند ترین چوٹی پر آپؐ ہی کا وجود اطہر جلوہ گر ہے۔ اس لیے اس مہینے میں آپؐ کے حقیقی عاشقوں اور کمال کے طالبوں کے لیے ضروری ہے کہ آپؐ کے آئینۂ اوصاف میں نظر کریں اور اپنے آپ کو سنوارنے کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں یہی چاہا ہے کہ ہم آپؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنائیں۔

۱۔ آرام اور وقار سے چلتے تھے۔
۲۔ زمین پر پائوں گھسیٹ کر نہ چلتے تھے۔
۳۔ آپؐ کی نظر ہمیشہ زمین کی طرف رہتی تھی۔
۴۔ جس کسی کو بھی دیکھتے فوراً سلام کرتے، سلام میں کوئی آپؐ پر سبقت نہ لے جاتا۔
۵۔ کسی سے ہاتھ ملاتے تو فوراً اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتے تھے۔
۶۔ لوگوں سے یوں مل جل کر رہتے کہ ہر کوئی سمجھتا کہ وہی آپؐ کو سب سے زیادہ عزیز ہے۔
۷۔ کسی کی طرف بھی حکمرانوں کی طرح کنکھیوں سے نہ دیکھتے تھے۔
۸۔ لوگوں کو ہرگز گھور کر نہ دیکھتے تھے۔
۹۔ اشارہ کرنا ہوتا تو ہاتھ سے کرتے آنکھ اور ابرو سے نہ کرتے۔
۱۰۔ دیر تک خاموش رہتے اور جب تک ضروری نہ ہوتا بات نہ کرتے۔
۱۱۔ دوسرے کی بات پوری توجہ سے سنتے۔
۱۲۔ جب کسی سے بات کرتے تو اپنا پورا رُخ اُس کی طرف کر لیتے۔
۱۳۔ جب کسی کے ساتھ بیٹھتے، جب تک وہ اُٹھنے کا ارادہ نہ کرتا، آپؐ نہ اُٹھتے۔
۱۴۔ ہمیشہ اٹھتے بیٹھتے اللہ کو یاد کرتے۔
۱۵۔ کسی مجلس میں داخل ہوتے تو سب سے پیچھے دروازے کے پاس بیٹھ جاتے، آگےکو نہ جاتے۔
۱۶۔ کسی محفل میں اپنے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہ کرتے اور ایسا کرنے سے منع کرتے۔
۱۷۔ لوگوں کی موجودگی میں ہرگز ٹیک نہ لگاتے۔
۱۸۔ آپؐ اکثر روبہ قبلہ بیٹھتے۔
۱۹۔ آپ کی موجودگی میں کوئی ناپسندیدہ چیز ہوتی تو اسے اَن دیکھا کر دیتے۔
۲۰۔ کسی سے کوئی خطا ہو جاتی تو اسے دوسروں سے نہ کہتے۔
۲۱۔ گفتگو میں کسی کی لغزش یا خطا پر مواخذہ نہ کرتے تھے۔
۲۲۔ کسی سے ہرگز جدل و تنازعہ نہ کرتے تھے۔
۲۳۔ جب تک بات لغو اور باطل نہ ہوتی، کسی کی بات کو ہرگز قطع نہ کرتے تھے۔
۲۴۔ کسی سوال کا جواب کئی مرتبہ دہراتے، تاکہ سننے والے پر آپؐ کی بات مشتبہ نہ ہو۔
۲۵۔ کسی سے غلط بات سنتے تو نام لے کر نہ کہتے کہ فلاں نے ایسا کیوں کہا ہے، بلکہ فرماتے ’’بعض لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ یوں کہتے ہیں۔‘‘
۲۶۔ غریبوں کے ساتھ زیادہ اُٹھتے بیٹھتے اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے۔
۲۷۔ غلاموں کی دعوت قبول کرلیتے۔
۲۸۔ ہدیہ قبول کر لیتے، اگرچہ ایک گھونٹ دودھ ہوتا۔
۲۹۔ سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرتے۔
۳۰۔ دوسروں پر برتری دیے بغیر اپنے عزیزوں سے نیکی کرتے۔
۳۱۔ اچھے کام کی حوصلہ افزائی کرتے اور برے کام سے نہی کرتے۔
۳۲۔ جس امر میں لوگوں کے دین و دنیا کی بھلائی ہوتی، ان سے بیان کرتے اور بار بار یہ کہتے کہ جو حاضر ہیں، وہ مجھ سے جو سنیں اور اُن تک پہنچائیں جو غائب ہیں۔
۳۳۔ جو کوئی عذر پیش کرتا اُسے قبول کر لیتے۔
۳۴۔ کسی کو حقیر نہ جانتے۔
۳۵۔ آپؐ نے کبھی کسی کو گالی نہ دی اور نہ بُرے لقب سے بلایا۔
۳۶۔ اپنے اطرافیوں اور وابستگان پر آپؐ نے کبھی نفرین نہ کی۔
۳۷۔ ہرگز لوگوں کے عیب جاننے کی کوشش نہ کرتے۔
۳۸۔ لوگوں کے شر سے محتاط رہتے لیکن ان سے کنارہ کشی نہ کرتے اور سب سے اچھے اخلاق سے ملتے۔
۳۹۔ لوگوں کی ہرگز مذمت نہ کرتے اور بہت زیادہ تعریف بھی نہ کرتے۔
۴۰۔ دوسروں کی جسارت پر صبر کرتے اور برائی کا جواب اچھائی سے دیتے۔
۴۱۔ بیماروں کی عیادت کو جاتے، اگرچہ بیمار مدینہ کے آخری کونے میں ہوتا۔
۴۲۔ ہمیشہ اپنے ساتھیوں کا حال احوال پوچھتے رہتے۔
۴۳۔ اپنے اصحاب کو ان کے بہترین ناموں سے پکارتے۔
۴۴۔ بہت سے کاموں میں اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے اور اس امر پر تاکید فرماتے۔
۴۵۔ احباب کے ساتھ دائرے کی صورت میں بیٹھتے، یہاں تک کہ اگر کوئی اجنبی آتا تو پہچان نہ پاتا کہ اُن میں رسول اللہؐ کون ہیں۔
۴۶۔ اپنے اصحاب میں دوستی و محبت پیدا کرتے۔
۴۷۔ آپؐ عہد و پیمان کے سب سے زیادہ پابند تھے۔
۴۸۔ کسی فقیر کو کوئی چیز عطا کرنا ہوتی تو اپنے ہاتھ سے دیتے، دوسرے کے حوالے نہ کرتے۔
۴۹۔ آپؐ نماز ادا کر رہے ہوتے اور کوئی ملنے آجاتا تو نماز مختصر کر دیتے۔
۵۰۔ اگر آپؐ نماز پڑھ رہے ہوتے اور کوئی بچہ رونے لگتا تو نماز مختصر کر لیتے۔

Share this content: