عالمی پابندیوں میں ایران کی پیشرفت(1)
تحریر: سید اسد عباس
بعثت رسول اکرم ؐ کے ساتھ ہی مسلمانوں پر طرح طرح کی پابندیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ کلمہ توحید کو زبان پر نہ لانے کی پابندی، عبادت انجام نہ دینے کی پابندی، نبی کریم ؐ کا وعظ و نصیحت نہ سننے کی پابندی، غلاموں کو رسول اکرم ؐ کی پاس نہ جانے دینے کی پابندی، صاحب حیثیت مسلمانوں سے رابطہ نہ رکھنے کی پابندی اور اس کے بعد حامیان پیغمبر اکرم ؐپر سیاسی، سماجی و معاشی پابندیاں۔ شعب ابی طالب کا واقعہ تاریخ اسلام کا ایک اندوہناک باب ہے، جس میں مشرکین مکہ نے رسول اکرم ؐ کے حامی قبائل پر درج ذیل پابندیاں لگائیں۔ اس معاہدے کی شرائط درج ذیل تھیں: “محمدؐ کے حامیوں کے ساتھ ہر قسم کے لین دین پر پابندی ہوگی؛ ان کے ساتھ تعلق اور معاشرت سختی کے ساتھ ممنوع ہوگی؛ ہر قسم کا ازدواجی رشتہ اور ہر قسم کا پیوند، منع ہے؛ تمام تر واقعات میں محمدؐ کے مخالفین کی حمایت کی جائے گی۔”
شعب ابی طالب کی ناکہ بندی تین سال تک جاری رہی اور قریش کا رویہ شدت اختیار کر گیا، یہاں تک کہ فرزندان بنی ہاشم کے کراہنے کی صدائیں مکہ کے سنگ دلوں کے کانوں تک پہنچتی تھیں۔ ان پابندیوں کا بنیادی مقصد رسول اکرم ؐ کو اپنی تبلیغ و تعلیم سے روکنا اور اسلام کی اشاعت کے سلسلے کو بند کرنا تھا۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے امیر شام کو لکھے گئے ایک خط میں شعب ابی طالب کے محاصرے کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا: ترجمہ: “پس ہماری قوم (قریش) نے ہمارے نبیؐ کے قتل اور ہماری نسل کے خاتمے کا ارادہ کیا؛ ہمارے بارے میں بارہا بیٹھ کر منصوبے بنائے اور ہمارے ساتھ مختلف قسم کے مظالم روا رکھے۔ ہمیں میٹھی زندگی سے محروم کیا اور خوف و ہراس کے مقام پر بٹھایا؛ ہمیں ناہموار پہاڑی میں پناہ لینے پر مجبور کیا اور (اس کو کافی نہیں سمجھا بلکہ) ہمارے خلاف جنگ کی آگ بھڑکا دی، لیکن خدا نے چاہا تھا کہ آپؐ کے دین برحق کی حفاظت کریں اور کسی کو آپؐ کی حرمت کے حرمت تک ہاتھ نہ بڑھانے دیں۔
ہمارے درمیان جو لوگ ایمان لائے تھے، وہ اللہ کے اخروی اجر کی امید سے اور جو کافر تھے، وہ اصل و نسب کے تحفظ کی خاطر حریم رسالت کا تحفظ کرتے تھے۔ قریش میں ایمان لانے والے اس اذیت و آزار سے محفوظ تھے، جس سے ہم دوچار تھے؛ کیونکہ یا تو ان کا کوئی حلیف ان کی حمایت کرتا تھا یا اس کا خاندان اس کی مدد کے لئے اقدام کرتا تھا؛ بہر صورت وہ محفوظ تھے۔” (نہج البلاغہ مکتوب ۹) آج کی دنیا میں اگر ہم اپنے اردگرد کے عالمی حالات کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مکہ کی وادی میں انجام پانے والا سیاسی، معاشی اور معاشرتی استحصال اب عالمی شکل اختیار کرچکا ہے۔دنیا میں کچھ صاحب اقتدار قوتیں دنیا کے جس ملک کو بھی سزا دینا چاہتی ہیں، مشرکین مکہ کی مانند وہ ان پر اقتصادی، معاشی اور معاشرتی پابندیاں لاگو کر دیتی ہیں۔
دنیا میں بہت سے ایسے ممالک ہیں، جو عالمی، علاقائی، یورپی اور امریکی پابندیوں کا شکار ہیں۔ ان پابندیوں کا مقصد کسی بھی ملک کی سیاسی، معاشی، اقتصادی، معاشرتی پیشرفت کو روکنا ہے، تاکہ اس ملک کو عالم جبر کے سامنے تسلیم ہونے پر مجبور کر دیا جائے۔ ان پابندیوں کا ایک اور مقصد ممالک کو خوفزدہ رکھنا بھی ہے، تاکہ کوئی بھی عالمی جابروں کے سامنے قیام کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ آج پابندیوں کو مختلف عنوان دیئے گئے ہیں، کھیلوں پر پابندی، عسکری پابندیاں، ماحولیاتی پابندیاں، انفرادی پابندیاں، سفارتی پابندیاں، معاشی پابندیاں وغیرہ۔۔۔ وینیزویلا، کیوبا، شمالی کوریا، لیبیا، شام، روس، افغانستان، یمن، ایران اور ایسے ہی بہت سی ممالک ان پابندیوں کا شکار ہیں، تاہم سخت ترین پابندیاں شمالی کوریا اور ایران پر لاگو کی گئی ہیں۔
امریکہ کی جانب سے ایران پر پہلی پابندی 1979ء میں آرڈر 12170 کے عنوان سے لگائی گئی، جس کے تحت ایران کے 8.1 بلین کے اثاثے منجمد کر دیئے گئے، جو تاحال بحال نہیں ہوئے۔ گذشتہ برس امید پیدا ہوئی کہ یہ اثاثے قطر منتقل کر دیئے جائیں گے، لیکن حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے بعد معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ 1984ء میں ایران پر لگنے والی پابندیوں میں ایران کو ہتھیاروں کی فروخت اور امریکی امداد کے حوالے سے پابندی لگائی گئی، جو تاحال جاری ہے۔ 1995ء میں حماس اور حزب اللہ کی حمایت کے جرم میں ایگزیکٹو آرڈر 12957 کے تحت ایران پر پابندی لگی، جس کے تحت امریکہ ایران میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا۔ 2018ء میں امریکی صدر نے ایران کے ساتھ ہونے والی نیوکلئیر ڈیل کو کالعدم قرار دیا۔ 2019ء میں ایران پر تیل کے حوالے سے پابندیاں لگائی گئیں۔
2006ء میں اقوام متحدہ نے کونسل ریزولوشن 1696 کے مطابق ایران کو یورینیم کی افزودگی روکنے کا کہا، دسمبر 2006ء میں سکیورٹی کونسل ریزولوشن 1737 کے مطابق ایران پر نیوکلیائی آلات کی فروخت، اہم افراد کے اثاثوں کا انجماد اور نیوکلیائی پروگرام سے متعلق اداروں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ریزولوشن 1774 کے مطابق ہتھیاروں کی ترسیل کے حوالے سے پابندیاں لگائی گئیں اور مزید افراد کے اثاثوں کو منجمد کیا گیا۔ ریزولوشن 1803 کے مطابق ایرانی بینکوں، کشتی رانی کے اداروں اور بحری جہازوں پر پابندیاں عائد کی گئیں۔ ریزولوشن نمبر 1835، ریزولوشن نمبر 1929، ریزولوشن نمبر 2231 ایران کی اقتصادی پیشرفت اور معاشی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے ہیں جو دنیا کے کسی بھی ملک کو ایران کے ساتھ روابط رکھنے سے روکتی ہیں۔
یورپی یونین نے 2012ء میں کسی بھی ملک کے خلاف لگائی جانے والی پابندیوں میں سے سخت ترین پابندیاں ایران کے خلاف لگائیں، جس میں بین الاقوامی تجارت، زر کی سہولیات، توانائی کے شعبے اور ایرانی کمپنیوں پر پابندیاں شامل ہیں۔ 2021ء میں یورپی یونین نے ایران کے آٹھ فوجی کمانڈروں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر پابندیاں لگائیں، 2023ء میں نیوکلیئر ڈیل کے نتیجے میں ہٹنے والی پابندیوں کو دوبارہ لگا دیا گیا۔ ان پابندیوں کے سبب ایران کی تیل پر انحصار کرنے والی معشیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایران کے مرکزی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق ان پابندیوں کے سبب اس کی تیل کی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ کمی آئی۔ انہی پابندیوں کے سبب ایران اپنا تیل سستے داموں پر دینے کے لیے مجبور ہے۔ یہ پابندیاں ملک میں ادیات کی قلت، آلات جراحی کی قلت، افراط زر میں اضافے اور مہنگائی کا سبب بنتی ہیں، جو ملک میں معاشی اور سیاسی عدم استحکام لاتی ہیں۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنی ترقی اور پیشرفت کے سفر کو روکا نہیں ہے اور یہ ملک مختلف شعبہ جات میں معجزے دکھا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Share this content: