آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی
پاکستان میں جبری لاپتہ افراد کا مسئلہ برس ہا برس سے چلا آرہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی مرتبہ تحریکیں چلیں، لوگوں نے مارچ کیے، دھرنے دیے، ٹی وی چینلز پر پروگرامز ہوئے، سوشل میڈیا نے آواز اٹھائی، مظاہرے کیے گئے، سیاسی جماعتوں نے احتجاج کیے، وعدے وعید ہوئے لیکن مسئلہ ختم ہونے کو نہیں آتا۔ اصولی طور پر پاکستان میں رائج قانون اور آئینی دفعات کے مطابق کسی ریاستی یا حکومتی ادارے کی جانب سے کسی فرد کو زبردستی اغوا کر لینے یا غائب کر دینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
کسی متعلقہ ادارے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مطلوب کسی شخص کے خلاف عدالتی ذریعے سے اقدام کرے، ملزم کے خلاف پولیس کے ذریعے سے کارروائی عمل میں آئے یا اسے عدالت کے روبرو پیش کیا جائے، وگرنہ کسی بھی ریاستی یا حکومتی ادارے کا ایسا اقدام غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ اسے یوں کہا جاسکتا ہے کہ قانون اور آئین کے محافظوں نے، قانون اور آئین کو پامال کیا ہے۔ اگر کوئی فرد قانون اور آئین کو پامال کرے تو بھی اس کے جواب میں ریاستی یا حکومتی ادارے کو قانون شکنی کا جواز نہیں مل جاتا۔
ان دنوں پاکستان کے اہل تشیع میں جبری گم شدگیوں کے خلاف شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ ویسے تو شیعوں کے جوانوں بلکہ بعض اوقات ادھیڑ عمر افراد کی گم شدگیوں کا سلسلہ نیا نہیں ہے، لیکن ان دنوں ایک تازہ لہر دیکھنے میں آرہی ہے۔
جبری طور پر گم کیے گئے افراد کے حوالے سے عام طور پر کوئی ادارہ تسلیم نہیں کرتا کہ فلاں فرد اس کی تحویل میں ہے۔ جب کسی فرد کی طرف سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تو یہ سلسلہ بھی طولانی سے طولانی تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ عدالتیں لمبی لمبی تاریخیں دیتی ہیں، متعلقہ اداروں کو تحقیق کرنے کا حکم بھی جاری کرتی ہیں۔ وہ ادارے مہلت پر مہلت مانگتے چلے جاتے ہیں۔ گم شدگان کے گھر والوں پر بھی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ خاموشی اختیار کریں۔ بہت سے افراد کو چھوڑ بھی دیا جاتا ہے لیکن انھیں زبان بندی کا حکم دے کر چھوڑا جاتا ہے، پھر ان کے پاس کوئی ثبوت بھی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے خلاف شکایت کریں۔
بعض اوقات اس ظلم و جبر اور قانون شکنی کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر بھی تشدد کیا جاتا ہے۔ پرامن دھرنا دینے والوں کے خیمے اکھاڑ دیے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کو عام طور پر وطن دشمن اور غدار ظاہر کیا جاتا ہے۔ کئی افراد تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں اور بہت سے افراد کی لاشیں ملیں۔ ان کے گھر والوں کو معلوم نہیں کہ ان کے پیاروں کا قاتل کون ہے، بچوں کو معلوم نہیں کہ ان کے باپ کو کس جرم میں مارا گیا ہے۔
4 اپریل 2021ء کو اسلام آباد میں مسنگ پرسنز کی رہائی کے لیے پرامن احتجاج کرنے والوں کی گرفتاری کے واقعے کو ایک سانحہ ہی قرار دیا جانا چاہیے۔ تھوڑے سے لوگ چھٹی کے روز جب اسلام آباد میں آمد و رفت بہت کم تھی، نیشنل پریس کلب کے سامنے کورونا کی وجہ سے ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے علامتی دھرنا دیے بیٹھے تھے۔ یہ لوگ کراچی میں مسنگ پرسنز کی فیملیز کی طرف سے بابائے قوم کے مزار کے سامنے دیے گئے دھرنے کی تائید و حمایت کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ مناسب فاصلے کے ساتھ ماسک پہنے بیٹھے تھے۔ ان میں چند ایک خواتین بھی تھیں۔ کچھ بچے اور بچیاں بھی موجود تھیں۔ یہ بچے دراصل ان بچوں کی نمائندگی کر رہے تھے، جو اپنے بابا کے انتظار میں ایک عرصے سے فریاد کناں ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بابا کہاں ہیں!
کیا بچوں کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ پوچھیں کہ ہمارے بابا کہاں ہیں، انھیں کون لے گیا ہے؟ انھیں کس جرم میں غائب کر دیا گیا ہے؟ وہ کس حالت میں ہیں؟ وہ کب واپس آئیں گے؟ یہ بچے اپنی مائوں سے پوچھتے ہیں کہ ماما! ہمارے بابا کہاں ہیں؟ ان کی مائیں انھیں کیا جواب دیں! ریاستی طاقت کے اندھا دھند استعمال کرنے کے پہلے بھی کچھ اچھے نتائج نہیں نکلے، اب بھی نہیں نکلیں گے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پولیس نے وحشیانہ کارروائی کرتے ہوئے اس مختصر سے اجتماع کے تمام افراد کو گرفتار کرلیا۔ ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ یہ کورونا ایس اوپیز کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ جو افراد کئی کئی فٹ کے فاصلے پر بیٹھے تھے، انھیں ایک ساتھ پولیس کی گاڑیوں میں ٹھونس دیا گیا، تاکہ ایس اوپیز کی خلاف ورزی نہ ہوسکے۔ انھیں تھانوں میں بھی اسی طرح رکھا گیا۔ مردوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں کو بھی اسیر کر لیا گیا۔ ان اسیروں میں ایک چار سال کا بچہ بھی شامل تھا، جس کے بارے میں ایک چشم دید شخص نے یوں لکھا ہے:
’’یہ وہ ننھا مجاہد ہے، جو مسنگ پرسنز کی رہائی کے لیے اپنی والدہ کے ہمراہ اسلام آباد دھرنے میں پہنچا تھا اور پولیس نے اس کی والدہ کو پولیس وین میں بٹھا دیا، جبکہ بچے سید محمد قاسم کو مردوں کی وین میں بٹھایا اور کوہسار تھانے لے جانے لگے تو مردوں اور لڑکوں نے احتجاج کیا، اس پر چار سالہ بچے کو اس کی ماں کے حوالے کیا گیا، جب اے ایس آئی صاحب سے کہا گیا کہ بچے نے قانون کی کیا خلاف ورزی کی تھی تو وہ بڑبڑانے لگا اور کہنے لگا کہ تم سب نے وائی لیشن کی ہے۔‘‘ بہرحال اس بچے کی بہنیں بھی اپنی ماں کے ساتھ تھیں اور ایک بھائی، لڑکوں کے ساتھ گرفتار تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ نہتے بچے، عورتیں اور نوجوان نیز علماء دہشت گرد نہ تھے بلکہ دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے، آئین اور قانون کی دہائی دے رہے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں پاکستان کے پرچم بھی تھے۔
تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر پورے ملک میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی، جو قانون کے محافظوں کی خفت و رسوائی کا سبب بنی اور ہر طرف سے لعنت و پھٹکار کے ڈونگرے برسنے لگے۔ اس بے لذت گناہ کو جلد ہی متعلقہ اداروں نے محسوس کر لیا اور چند ساعتوں بعد ہی ان سب کی رہائی عمل میں آگئی۔ حقیقت یہ ہے کہ جبری طور پر ملک کے شہریوں کو گم کرنا، اٹھا لینا اور اس کے نتیجے میں قانون اور آئین کو پامال کرنا بھی باعث رسوائی ہے اور اس ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے والوں پر تشدد بھی باعث رسوائی ہے۔ لہٰذا استاد صوفی تبسم کے معروف شعر میں ہمیں کچھ معمولی سی تبدیلی کرنا پڑ رہی ہے:
دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے ’’حکومت‘‘ کے
آغاز بھی رسوائی، انجام بھی رسوائی