افغانستان سوویت جارحیت سے امریکی انخلاء تک(1)
1978ء میں افغانستان میں سوویت افواج داخل ہوئیں اور 1992ء تک یہ افواج افغان مجاہدین سے نبرد آزما رہیں۔ 1992ء میں سوویت افواج کے جانے کے بعد مختلف افغان گروہ اقتدار کے حصول کے لیے باہم دست و گریبان رہے۔ ان متحارب گروہوں میں گلبدین حکمت یار، حزب وحدت، اتحاد اسلامی، حزب اسلامی اور محمد نجیب اللہ کے گروہ شامل تھے۔
ایک طویل عرصہ تک افغانستان میں اقتدار کی رسہ کشی جاری رہی۔ سوویت یونین کی افغانستان میں آمد سے لے کر خانہ جنگی کے اس زمانے تک پاکستان، ایران اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک کو افغان پناہ گزینوں کا بوجھ اٹھانا پڑا۔ خانہ جنگی کے اس زمانے میں افغانستان ایک ایسی سرزمین تھا، جہاں قانون کی حکمرانی نام کو نہ تھی، ایک ہی ریاست میں کئی ریاستیں قائم تھیں۔ ایسی صورتحال میں قندھار کے ایک عالم دین ملا عمر نے 1994ء میں پچاس طلبہ کے ہمراہ ایک جہادی تحریک کی بنیاد رکھی، جسے طالبان کا نام دیا گیا۔
مغربی خبر رساں اداروں کا کہنا ہے کہ اس تحریک کی تشکیل، تربیت اور ترقی میں پاکستان کا براہ راست کردار تھا۔ ان کے نزدیک پاکستان چاہتا تھا کہ افغانستان میں ایک ایسی قوت تشکیل دی جائے، جو ملک میں امن و امان قائم کرسکے نیز وہ پاکستان مخالف بھی نہ ہو۔ اس حکمت عملی کو Strategic depth کے حصول کا نام دیا گیا۔ اس حکمت عملی کا ماسٹر مائنڈ پاکستانی جرنیل جنرل حمید گل مرحوم کو قرار دیا جاتا ہے۔ طالبان کی اس تحریک کی مذہبی نوعیت کے سبب افغانستان کی اکثر قومی اقلیتوں کے افراد اس تحریک میں شامل ہونا شروع ہوئے اور آہستہ آہستہ یہ گروہ پھلنے پھولنے لگا، تاہم اس گروہ میں بڑی اکثریت پشتون بیلٹ کے دیوبندی طلبہ کی تھی۔
طالبان انتہائی متشدد اور قدامت پسندانہ نظریات کے حامل تصور کیے جاتے ہیں، جس کا اظہار افغانستان میں اسلامی امارت کے قیام کے بعد دیکھنے میں آیا۔ اس گروہ نے افغان عوام سے وعدہ کیا کہ وہ افغانستان کو جنگی سرداروں اور مجرموں سے آزادی دلوائیں گے۔ افغان عوام جس کی اکثریت دیوبندی مکتب فکر سے ہے اور وہ جنگ و جدل سے تنگ تھی، اس نے ان مذہبی طلبہ کی آواز کو روشنی کی کرن سمجھا اور بڑی تعداد میں اس تحریک کا حصہ بننے لگے۔ طالبان نے قندھار کے بعد مختلف افغان علاقوں میں کامیابیاں سمیٹنے کا آغاز کیا، کابل کی جانب طالبان کی پہلی پیشقدمی کا مقابلہ احمد شاہ مسعود کی فوج نے ڈٹ کر کیا۔ جس کے سبب طالبان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی، تاہم 1996ء میں طالبان نے کابل پر ایک بڑا حملہ کیا، جس کا مقابلہ کرنے کے لیے احمد شاہ مسعود نے کوہ ہندوکش کا انتخاب کیا۔ کابل میں داخلے کے بعد طالبان نے افغانستان میں اسلامی امارت کے قیام کا اعلان کیا۔
طالبان نے افغانستان کے ایک بڑے حصے پر 1996ء سے 2001ء تک حکومت کی، یہ دور طالبان کے سخت مذہبی قوانین کا دور تھا، جو ان کی فہم کے مطابق حقیقی اسلام تھا۔ بہرحال طالبان کی فتح کے سبب افغانستان میں خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا اور ٹکڑوں میں بٹی افغان قوم ایک مرتبہ پھر مرکزی حکومت کے تحت آگئی، تاہم افغانوں کی مشکل طالبان کے شدت پسندانہ نظریات اور افکار تھے۔ خواتین کو ایک مخصوص حجاب کے ساتھ گھر سے نکلنے کی اجازت تھی، خواتین کے اکثر تعلیمی ادارے اور مراکز بند کر دیئے گئے۔ جرائم میں ملوث افراد کو دیوبندی مسلک کے فہم کے مطابق اسلامی سزائیں سنائی گئیں۔ طالبان کی تعلیمات کے مطابق کفر و شرک کے نشانات کو مٹانے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔ افغانستان میں بسنے والی شیعہ، اسماعیلی اور دیگر اقلیتوں کے خلاف گھیرا تنگ کیا گیا، ان کے علاقوں پر قبضے کے بعد ان کے علاقوں میں خون کی ندیاں بہائی گئیں۔
جنرل عبد الرشید دوستم، احمد شاہ مسعود، ہزارہ اور بعض پشتون قائدین جو پہلے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے، وہ متحد ہوگئے اور شمالی افغانستان کے تحفظ کے لیے انھوں نے ایک مشترکہ فرنٹ تشکیل دیا، جو تقریباً 1996ء سے 2001ء تک افغانستان کے 30 فیصد حصے پر حاکم رہا۔ طالبان کے اقتدار کے سبب افغانستان، افغان جہاد کے لیے آئے ہوئے مختلف ممالک کے مجاہدین اور ان کے گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنا۔ ان مجاہدین نے طالبان حکومت کی مضبوطی کے لیے فنڈنگ اور روابط کا انتظام کیا۔ امریکہ میں نائن الیون کے واقعے کے بعد امریکی حکومت نے طالبان حکومت کے سامنے مطالبات کی ایک فہرست رکھی، جس کے مطابق انہیں القاعدہ کے تمام ممبران کو امریکی حکومت کے سپرد کرنا تھا، تمام تربیتی کیمپ بند کرنے تھے، غیر ملکی مددگار تنظیموں کے کارکنان، صحافیوں اور سفارتکاروں کی حفاظت کی یقین دہانی کروانی تھی۔
امریکہ کے بیان کردہ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں کو مناسب اتھارٹیز کے سپرد کرنا تھا، امریکا کو دہشت گردوں کے کیمپوں تک مکمل رسائی مہیا کرنا تھی۔ طالبان نے ان مطالبات کو قبول نہ کیا، جس کے نتیجے میں نائن الیون کے حملے کے فقط ایک ماہ بعد امریکہ اقوام متحدہ کی چھتری تلے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر حملہ آور ہوگیا اور طالبان کی حکومت کا عملاً خاتمہ ہوگیا۔ اگر افغانستان کی جنگی تاریخ اور اس قضیے کو گہرائی سے دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ جہاں یہ عالمی طاقتوں کے مابین بین الاقوامی سیاسیات کی جنگ تھی، وہیں خطے کے ممالک کے لیے یہ اپنے مفادات اور ملکی سالمیت کے تحفط کی جنگ بھی تھی۔ یعنی خطے کے ہر ملک کو عالمی صف بندی میں سے ایک صف کا انتخاب کرنا تھا۔ عرب اور عجم افغان مسلمانوں سے ہمدردی کے سبب فطری طور پر امریکی صف کا حصہ بنے۔ ایران اس جنگ میں اگرچہ امریکی صف کا حصہ نہ تھا، تاہم سوویت جارحیت کے مقابل افغانوں کا حامی تھا۔ اسی طرح اس جنگ نے کئی نسلی اقلیتوں اور مذہبی مکاتب پر بھی اثرات مرتب کیے۔
امریکا نے اس جنگ کے لیے سلفی اور دیوبندی فہم اسلام کا انتخاب کیا، جس کے سبب یہ مکاتب نہ فقط خطے میں بلکہ دنیا بھر میں مضبوط ہوئے۔ دیگر مسلمان مکاتب کو بجا طور پر ہمیشہ یہ خوف لاحق رہا کہ افغانستان میں مرتب ہونے والے عسکری گروہ افغان جنگ سے فراغت کے بعد ان کے لیے مسائل کا سبب بنیں گے، ہوا بھی یہی۔ افغان جنگ کے دوران اور بعد نیز خانہ جنگی کے زمانے میں جتھوں کے جتھے افغان تربیتی مراکز سے تیار ہوکر مختلف اسلامی ممالک میں آتے رہے اور انھوں نے اپنے ممالک میں تنظیم سازی اور تربیت جاری رکھی۔ اکثر اسلامی حکومتیں اپنے شہروں میں لشکر سازی کے عمل سے نظریں چراتی رہیں۔ یہ ایک پہلو ہے، امریکی اور عرب انتخاب کے سبب سلفی اور دیوبندی مکاتب فکر کے افراد نے علمی اور اداراتی شعبوں میں بھی دیگر مکاتب کے مقابل تیز تر پیش رفت کی، جو شاید اس وقت اور جنگ کی ضرورت تھی۔ جو افغان جنگ اور خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد مسلمان ریاستوں کے لیے مشکلات کا باعث بنے اور اب بھی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: