افغانستان میں شرح افلاس اور بے رحم دنیا
افغانستان خطے کے لحاظ سے دنیا کا 41واں بڑا ملک ہے، جس کی آبادی افغانستان کے محکمہ شماریات کے مطابق تقریباً 32.9 ملین ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ آبادی 38 ملین نفوس پر مشتمل ہے۔ ملک کی زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں آباد ہے۔ افغانستان کئی قومیتوں پر مشتمل ایک سرزمین ہے، جس میں پشتون 42 فیصد، تاجک 27 فیصد، ہزارہ 9 فیصد، ازبک 9 فیصد، ایمک 4 فیصد، ترکمان 3 فیصد، بلوچ 2 فیصد جبکہ دیگر اقوام تقریباً 4 فیصد ہیں۔ افغان قوم گذشتہ کئی دہائیوں سے مشکلات کا شکار ہے۔ سنگلاخ پہاڑوں کی اس سرزمین میں مقامی آبادی کا وسائل زندگی کے لیے زیادہ انحصار بیرونی درآمدات پر ہے۔
اس صورتحال میں خارجی حملوں نے مقامی آبادی کی اکثریت کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ سوویت حملہ، اس کے مقابل ایک طویل جدوجہد، پھر امریکی قبضہ اور اس کے خاتمے کے لیے ایک طویل سفر نے افغان عوام کی اکثریت کو غربت و افلاس کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ افغان آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں آباد ہے اور اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ افغان شہروں اور دیہاتوں میں غربت یکساں ہے، تاہم دیہاتوں میں ہر پانچ میں سے چار افراد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق اوسط افغانی کی قوت خرید ایک ڈالر سے کم ہے۔
ستمبر 2021ء میں اقوام متحدہ کے ادارے UNDP نے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں بتایا گیا کہ افغانستان میں کرونا، خشک سالی اور سیاسی عدم استحکام کے سبب 2022ء کے وسط تک افغانستان کی 97 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے جا سکتی ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ اس وقت بھی ملک کی آدھی آبادی کو مدد کی ضرورت ہے۔ سوویت جنگ سے لے کر گذشتہ برس تک ملکی معیشت اور اس کی آبادی کا انحصار بیرونی امداد پر تھا۔ طالبان کے قبضے کے بعد اس بیرونی امداد کا سلسلہ تقریباً بند ہوگیا۔ امریکہ نے افغان شخصیات پر پابندیاں لگائیں، ان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو منجمد کر دیا، جس کے سبب ملک کا بینکاری نظام، صحت کا شعبہ، توانائی کا شعبہ بدحالی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس غربت کے متعدد اثرات ممکن ہیں، جن میں اندرونی ہجرت، افغانستان سے نقل مکانی، جرائم میں اضافہ شامل ہیں۔
بی بی سی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اور ایران پہلے ہی لاکھوں افغانیوں کو پناہ دے چکے ہیں، ایسے میں مزید افغان باشندوں کی دیکھ بھال کرنا ان حکومتوں کے مطابق ممکن نہ ہوگا۔ یہی حال دیگر ہمسایوں کا بھی ہے۔ تاجکستان، ترکمانستان، ترکی، ازبکستان نے پناہ گزینوں کو وقتی طور پر کیمپوں میں رکھنے کا کہا ہے۔ یورپی ممالک، کینیڈا اور امریکہ نے تعداد کا اعلان کیا ہے کہ ہم اتنے افغانیوں کو ہجرت میں مدد کریں گے۔ جس سے یقیناً ایک مرتبہ پھر زیادہ بوجھ پاکستان، ایران اور دیگر ہمسایہ ممالک پر پڑنے کا امکان ہے۔ گذشتہ برس کے آخری مہینے میں افغانستان کی تشویش ناک معاشی صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان نے اسلامی ممالک کے اتحاد او آئی سی کا ایک ہنگامی اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا، تاہم حسب روایت یہ ادارہ انگریزی مخفف OIC کی عملی تصویر بن چکا ہے، یعنی بری سے بری صورتحال پر اس ادارے سے فقط Oh I see کی ہی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
یمن کے عوام گذشتہ آٹھ برسوں سے غربت، افلاس، بنیادی انسانی وسائل کی عدم دستیابی جیسے مسائل سے دوچار ہیں، اس پر مستزاد ان کا انفراسٹرکچر آئے روز کے جارحانہ حملوں کی زد پر ہے، تاہم یہ ادارہ اس مسئلے پر اپنی مجرمانہ خاموشی توڑنے پر راضی نہیں۔ امت مسلمہ کے دیگر سیاسی مسائل منجملہ مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر عالمی برادری کی سرد مہری کا شکار تو ہیں ہی، مسلمانوں بالخصوص ان کے واحد اتحاد OIC کی جانب سے ردعمل آنے میں ہفتوں لگ جاتے ہیں۔ کسی اور سے کیا گلہ کیا جائے، ایک خدا، ایک رسول ؐ ، ایک کتاب، ایک قبلہ اور یکساں دینی و اخلاقی تعلیمات رکھنے والی امت جس کے پاس وسائل، ذخائر اور انسانی اذہان کی بہتات ہے، آج چند نااہلوں کی وجہ سے ٹکڑوں میں تقسیم ہے اور اس کے ممالک اور عوام خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ حالت یہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں مسلمان قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت کرکے مزے سے سوتے ہیں اور پھر بھی مسلمان ہیں: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾
بشکریہ : اسلام ٹائمز