افغانستان عالمی طاقتوں کا قبرستان کیوں ہے؟

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

دنیا کی کوئی بھی طاقت افغانستان میں امن و استحکام نہیں لا سکتی، جو کہ تاریخ میں عالمی قوتوں کے قبرستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ الفاظ ہیں عالمی طاقت امریکہ کے صدر کے، جن کی ریاست بیس برس افغانستان میں خرچ کرکے یہاں سے چلتی بنی ہے۔ پاکستان کے لکھاری عدنان خان کاکٹر اس نظریئے کے خلاف ہیں، وہ کہتے ہیں کہ تاریخ انسانی کی پہلی بڑی سلطنت ایرانی بادشاہ سائرس (کوروش اعظم) کی تھی۔ اڑھائی ہزار سال پہلے وہ پہلا بادشاہ تھا، جس نے شہنشاہ کا لقب اختیار کیا یعنی شاہوں کا شاہ۔ افغانستان سائرس کی ہخامنشی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ اسی طرح سکندر اور اس کے بعد اس کے مشرقی جانشین سلیوکس اور دیگر یونانی بادشاہوں نے طویل عرصے تک افغانستان پر حکومت کی۔ چندر گپت موریہ اور اس کے جانشین موجودہ افغانستان ٹیکسلا اور پاٹلی پتر کے موریہ پر حاکم تھے۔ ساسانی بادشاہ بھی افغانستان پر قابض رہے۔ اموی دور حکومت میں افغانستان کا علاقہ خراسان میں شامل تھا۔ سمرقند اور بخارا کے سامانی بادشاہ افغانستان پر قابض رہے، ان کا ترک گورنر الپتگین اس وقت غزنی کا حاکم تھا، جو خود مختاری کا اعلان کر دیتا ہے۔ یوں غزنوی سلطنت قائم ہوئی۔

اسی اثناء میں پچاس برس کے مختصر عرصے کے لئے دور افتادہ افغان علاقے غور سے غوری سلطنت ابھرتی ہے، جس نے 1163ء میں سلطان غیاث الدین غوری کے بادشاہ بننے کے بعد عروج پایا اور باقی ماندہ غزنوی سلطنت پر قبضہ کیا، لیکن 1215ء میں اس کا خاتمہ ہوگیا۔ غوریوں کے متعلق افغان نیشنسلٹ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ پشتون تھے، مگر محققین کا عمومی اتفاق ہے کہ وہ تاجک النسل تھے اور ان کا ایران سے تعلق تھا۔ وہ خود کو شنسبانی کہتے تھے۔ مورخین کا خیال ہے کہ یہ ساسانی نام وشنسپ سے بگڑ کر عربی میں آل شنسب کہلایا اور فارسی میں شنسبانی یعنی یہ بھی مقامی افغان خاندان نہیں تھا۔ اس کے بعد سمرقند سے امیر تیمور نامی تاتاری اٹھا اور افغانستان اس کی سلطنت کا صوبہ بن گیا۔ ازبک سلطان شیبانی خان بھی اس پر قابض رہا۔ پھر کابل کا علاقہ فرغانہ کے حکمران ظہیر الدین بابر نے فتح کر لیا اور یوں یہ مغل سلطنت کا حصہ بنا۔ بابر سے اورنگ زیب تک مغل اس پر حکمران رہے۔

مغلوں کے کمزور پڑنے پر ایرانی بادشاہ نادر شاہ افشار نے افغانستان پر تسلط جمایا۔ نادر شاہ افشار کے قتل ہونے کے بعد افغانستان نامی ملک پہلی مرتبہ وجود میں آیا، جب نادر شاہ افشار کے سردار احمد شاہ ابدالی نے 1747ء میں افغان علاقوں پر حکمرانی کا دعویٰ کر دیا۔ اس سے پہلے کابل اور قندھار عام طور پر ہندوستانی تخت کا حصہ رہتے تھے، ہرات وغیرہ ایرانی سلطنتوں کا اور مزار شریف وغیرہ کے علاقے وسطی ایشیائی سلطنتوں وغیرہ کے صوبے ہوا کرتے تھے۔ احمد شاہ ابدالی کی سلطنت میں ایرانی شہر نیشا پور، موجودہ افغانستان، موجودہ پاکستان اور راجھستان کے کچھ علاقے شامل تھے۔ برطانیہ نے بھی افغانستان سے وسیع علاقے لئے، پہلی اینگلو افغان جنگ میں کابل میں موجود برطانوی گیریژن نے امن معاہدہ کیا۔ واپسی پر اس پر حملہ کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ سمجھا گیا کہ صرف ایک سپاہی ڈاکٹر ولیم برائیڈن ہی پندرہ ہزار افراد میں سے زندہ بچ سکا ہے۔ اس پر لیڈی بٹلر نے ایک مشہور پینٹنگ بنائی۔ اس جنگ کے بعد افغانستان کی سلطنتوں کا قبرستان ہونے کی غلط فہمی پھیل گئی۔

1878ء سے 1880ء تک ہونے والی دوسری اینگلو افغان جنگ میں افغانستان کو شکست ہوئی۔ پورے افغانستان پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا۔ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ بھی سوچا گیا کہ اس کے حصے بخرے کر دیئے جائیں اور ہر حصے پر الگ حکمران بنا دیا جائے۔ مگر پھر امیر عبدالرحمان کو حکمران بنا دیا گیا۔ معاہدے کے تحت کوئٹہ، کرم اور پشین کی وادیاں، سبی، درہ خیبر سمیت بہت سے علاقے برطانوی راج کو دے دیئے گئے۔ افغانستان کے امور خارجہ بھی برطانیہ کے حوالے کر دیئے گئے۔ بدلے میں برطانیہ نے کسی غیر ملکی حملے کی صورت میں افغانستان کی مدد کرنے کی ذمہ داری لی۔ افغانستان کو صرف ایک چیز نے بچایا۔ انگریز اپنی ہندوستانی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان افغانستان کو ایک بفر زون کے طور پر رکھنا چاہتے تھے۔ اس تحریر میں ابھی سفید ہنوں، کشان، منگولوں کا ذکر نہیں کیا گیا جو اس علاقے پر قابض رہے۔

وہ لوگ جو افغانستان کو سلطنتوں کا قبرستان قرار دیتے ہیں، وہ اپنی تاریخ کا آغاز برطانیہ اور روس کی شکست سے کرتے ہیں۔ اس میں برطانوی مورخین کا اہم کردار ہے۔ سیتھ جونز کی کتاب ”In The Graveyard Of Empires“ میں جونز لکھتا ہے کہ افغانستان ایسی بے رحم دھرتی ہے کہ جن بادشاہتوں نے اسے زیر کرنا چاہا، وہ ناکام رہیں بلکہ بربادی تک پہنچ گئی۔ سمتھ جونز نے ان ناکام کوششوں میں سوویت یونین کی بربادی کا اور ناکام امریکی مہم کا ذکر کیا ہے۔ عدنان کاکٹر کے پیش کردہ حقائق کو دیکھا جائے تو انسان کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ افغانستان پر طول تاریخ میں کوئی افغانی حاکم نہیں رہا بلکہ ہمیشہ خارجی حکمران اس سرزمین پر مسلط رہے ہیں، تاہم اگر برطانیہ، روس اور اب امریکہ کی شکست کو دیکھا جائے تو انسان یہ باور کرتا ہے کہ واقعی افغانستان کئی سلطنتوں کو کھا گیا۔ بہرحال یہ ایک معمہ ہے، جو اب تک مورخین کے لیے قابل حل نہیں۔

میرے خیال میں افغانستان پر قبضہ کرنا شاید اتنا مشکل نہیں ہے بلکہ یہاں حکومت کرنا، امن و امان بحال رکھنا اور خوشحالی لانا ایک مشکل امر ہے، جس کے لیے بے پناہ وسائل اور حوصلہ درکار ہیں۔ فی الحال افغانستان میں وسائل کا ایسا کوئی قابل ذکر ذریعہ موجود نہیں ہے، جس سے استفادہ کرکے افغانستان کے امور کو چلایا جاسکے اور حاکم ریاست بھی اس تسلط سے کوئی فائدہ اٹھا سکے۔ شاید یہی سبب ہے کہ افغانستان پر قبضہ کرنے والے جلد ہی اس علاقے کو چھوڑ گئے یا اس خطے کے امور کو چلاتے چلاتے تاریخ کے اوراق میں غرق ہوگئے۔ امریکہ کو بھی یہ حقیقت جلد ہی سمجھ آگئی ہے، لہذا اس نے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ بائیڈن نے یہی کہا کہ افغانستان سے نکلنے کا یہ مناسب ترین وقت ہے، یعنی اگر امریکہ مزید اس علاقے میں اپنے وسائل کو خرچ کرتا ہے تو اس کا حال سوویت یونین سے مختلف نہیں ہوگا۔

بشکریہ: اسلام ٹائمز