×

عدالت در نہج البلاغہ

عدالت در نہج البلاغہ

عامر حسین شہانی
جامعۃ الکوثر اسلام آباد

مقدمہ:
نہج البلاغہ ایک ایسی منفرد کتاب ہے جو علم و حکمت کا بحر بیکراں ہے۔ یہ کتاب وارث منبر سلونی کی حکمت و دانائی سے پر کلام کا مجموعہ ہے۔نہج البلاغہ میں جن موضوعات پربہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے اورجنہیں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے ان میں سے ایک اہم موضوع عدالت ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر عدل و عدالت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہاں تک کہ ایک چھوٹے سے جسم سے لے کر کائنات کی بلندیوں تک اور ایک چھوٹے خاندان سے لے کر دنیا کی حکومت و بادشاہت تک ہر جگہ عدالت کی ضرورت و اہمیت برقرار رہتی ہے۔تاریخ انسانی شاہد ہے کہ جس معاشرے میں عدالت نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔
نہج البلاغہ کے امیر سخن امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام خود امام عادل ہیں اور عدالت کے معاملے میں اس قدر حساس ہیں کہ کبھی کسی موقع پر بھی عدالت سے پس و پیش برداشت نہیں کرتے۔آپ عدل و عدالت کا مجسم نمونہ تھے. اس لیے عدالت کے بارے میں آپ کا کلام اور آپ کے اقدامات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ نہج البلاغہ میں عدل کی تعریف سے لے کر نفاذ عدالت کے عملی نمونےسبھی کچھ موجود ہے۔ زیرِ نظر مقالہ میں نہج البلاغہ کی روشنی میں عدل و عدالت کے معنی و مفہوم اور اپنے اصحاب و حکومتی کارندوں کو عدالت کے حوالے سے کی گئی نصیحتیں اور امام عدل کے نفاذ عدالت کے لیے کئے گئے اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے۔
عدالت کے لغوی معنیٰ:
عربی گرامر میں کلمہ عدل کا مادہ اصلی ‘ع د ل’ ہے ۔مشہور و معروف لغت ” لسان العرب” میں عدل کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے:
العَدل ما قامَ فی النُّفوسِ أنَّہ مُستَقیمٌ وہو ضِدَّ الجور
عدل وہ ہے جو نفس میں قائم ہو ،مستقیم ہو اوریہ ظلم و جور کا متضاد ہے۔
اسی طرح فیروزاللغات میں عدالت کا معنی انصاف اور برابری بیان کیا گیا ہے۔
عدالت کے اصطلاحی معنیٰ:
کلمہ عدالت علم کلام،فقہ اور علم اخلاق میں استعمال ہوتا ہےاور ہر ایک شعبہ میں عدل کا معنی و مفہوم تقریبا ایک دوسرے کے قریب قریب ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام عدل کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عدل کے معنی یہ ہیں کہ تم خدا کی طرف کسی ایسی چیز کی نسبت نہ دو کہ اگر وہی چیز تم سے سرزد ہوتی تو باعث ملامت ہوتی۔
آیت اللہ شہید مرتضیٰ مطہری عدل کے معنی یوں بیان فرماتے ہیں:
عدل کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنا فیض اور رحمت اور نیز مصیبت اور نعمت، ذاتی اور سابقہ استحقاق کے مطابق دیتا ہے اور نظامِ خلقت میں اللہ کے فیض اور رحمت اور مصیبت اور نعمت اور اجر اور سزا کے لحاظ سے خاص نظم برقرار ہے۔
اسی طرح علامہ شیخ محمد رضا مظفر نے عقائد کی کتاب میں عدل کے اصطلاحی معنی یوں بیان فرمائےہیں:
علماء شیعہ کے ہاں عدل، اللہ تعالی کی صفاتِ ثبوتیہ کمالیہ میں سے ہے، اس طرح سے کہ وہ اپنے فیصلوں اور احکام میں ظلم نہیں کرتا، نیک لوگوں کو اجر دیتا ہے اور گنہگاروں کو سزا دے سکتا ہے، اور اپنے بندوں کو ان کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں دیتا اور جتنے وہ مستحق ہیں اس سے زیادہ ان کو سزا نہیں دیتا۔
قرآن کریم کے عظیم الشان مفسر، صاحب تفسیر المیزان علامہ طباطبائی نے عدالت کے بارے میں بہت ہی عمدہ اور مفید وضاحت کی ہے اور وہ یوں کہ:
عدالت زندگی کے کسی ایک پہلو تک محدود نہیں ہے بلکہ انسانی زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں پر محیط ہے۔عدالت کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام اشیاء اور اشخاص کے درمیان برابر ی اور مساوات کا برتاؤ کیا جائے جو ایک مرتبہ اور منزلت رکھتے ہوں۔
عدالت کا مفہوم امیرالمومنین ؑ کی نظر میں اسلامی تعلیمات میں لفظ عدالت کاتین مقامات پراستعمال ہوتا ہے :
(۱) عدالت الہی
(۲) عدالت ذاتی، جو کہ قضاوت ،نماز جمعہ و جماعت کی امامت وغیرہ کی شرط ہے۔
(۳) عدالت اجتماعی، جو کہ سماج اور معاشرہ کے تمام شعبوں کو اپنے اندر شامل کرلیتی ہے۔
نہج البلاغہ چونکہ اس ہستی کا کلام ہے کہ جو سراپا عدل تھی اس لیے نہج لبلاغہ میں مختلف مقامات پہ عدل و عدالت کا تذکرہ ملتا ہے۔
قرآن مجید کی آیۃ مجیدہ: ان اللہ یامر بالعل والاحسان کے بارے میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا:
الْعَدْلُ الإِنْصَافُ والإِحْسَانُ التَّفَضُّلُ
یعنی عدل ، انصاف ہے اور احسان لطف و کرم ہے۔
پس یہاں پر جس طرح آیت مجیدہ میں عدل کو بغیر کسی قید و شرط کے بیان کیا گیا ہے اسی طرح کلام امام ؑ میں بھی عدل کو انصاف قرار دیا گیا ہے۔
حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ عدل اور سخاوت میں سے کیا بہتر ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا:
العَدْلُ یَضَعُ الْاُمُورَ مَوَاضِعَہَا وَ الْجُودُ یُخْرِجُہَا مِنْ جِہَتِہَا وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ وَ الْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ فَالْعَدْلُ اَشْرَفُہُمَا وَ اَفْضَلُہُمَا
عدل ہر چیز کو اس کے موقع محل پر رکھتا ہے اور سخاوت ہر چیز کو اس کی حد سے باہر کر دیتی ہے۔ عدل ایک اجتماعی نظام سے عبارت ہے جب کہ سخاوت ایک خصوصی مسئلہ ہے۔ لہذا عدل سخاوت سے اشرف و افضل ہے۔
حضرت رسالتمآب ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
بالعدل قامت السمٰوات و الارض
زمین و آسمان عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم ہیں۔
جب بیت المال کی تقسیم میں سب کے ساتھ مساویانہ سلوک اختیار فرمایا تو لوگوں کے اعتراض پر آپ علیہ السلام نے فرمایا:
لَو کَانَ الْمَالُ لِی لَسَوَّیْتُ بَیْنَہُمْ فَکَیْفَ وَ اِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللہِ
اگر یہ مال میرا ذاتی ہوتا تو بھی میں اس کی مساویانہ تقسیم کر تا۔ اب میں کس طرح مساویانہ تقسیم نہ کروں جب کہ یہ مال اللہ کا ہے۔
عدل کی اہمیت کلام امیر المومنین ؑ میں
عدالت وہ عظیم حقیقت ہے جسے نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء اور مرسلین بھیجے۔حضرت علی عدالت کو ہرچیز پر ترجیح دیتے تھے۔
چنانچہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا: عدالت افضل ہے یا جود و سخاوت۔توآپ نے فرمایا : عدالت افضل ہے۔
جب کہ ایک سادہ لوح انسان کی نظر میں جود و سخاوت عدالت سے بالاترہے۔
اور پھر حضرت علیؑ نے دلیل یہ دی کہ عدل اس لئے افضل ہے کہ زندگی کے امور اور مسائل کو اپنی جگہوں پر قرار دیتا ہے، جب کہ سخاوت انھیں اپنی جگہوں سے ہٹا دیتی ہے۔
چونکہ عدالت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج پر چل رہا ہے اور ہر چیز اپنی صحیح جگہ پر ہے لیکن جودو سخاوت کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ اپنے طبیعی مزاج سے ہٹ گیا ہے ، جس کی وجہ سے یہ ضرورت پیش آئی کہ معاشرہ کے کسی ایک فرد کو اس کے حق سے زیادہ دے کر اس کی ضرورت پوری کی جائے۔
آپ نے عدل کی برتری پر دوسر ی دلیل یہ دی :
العدل سائس عام والجود عارض خاص
عدالت ایک عام قانون اور عمومی مدیر ہے جو پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے جبکہ سخاوت ایک استثنائی صورت حال ہے‘‘نتیجۃً عدل بر تر اور افضل ہے۔
آپ عدالت کو ہمیشہ اور ہر حال میں فوقیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
عدل میں وسعت اور لا محدود گنجائش ہے اور جو کوئی عدالت کی وسیع فضا میں بھی تنگی محسوس کرے تو وہ ظلم و نا انصافی کی تنگ فضا میں بدرجہ اولی تنگی گھٹن اور محسوس کرے گا۔
حضرت علی علیہ السلام عدالت کو ایک فریضہ الہی بلکہ ناموس الہی سمجھتے ہیں اور اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ انسان کے سامنے ظلم و ستم ہو اور وہ خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہے بلکہ اس کا فرض ہے کہ حتی الامکان ظلم و ستم کو ختم کرنے اور عدل و انصاف کو عام کرنے کی سعی و کوشش کرے چنانچہ آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں:
آگاہ ہو جاؤ ، قسم ہے اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا ، اگر حاضرین کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کی وجہ سے مجھ پر حجت قائم نہ ہو گئی ہوتی اور اللہ نے علماء سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی رسی کو اس کی گردن پر ڈال کر آج بھی ہنکا دیتا… ۔
عام لوگوں کی نظر میں حکومت کا مقصد اقتدار ، عیش و عشرت اور لذت طلبی ہے لیکن نمائندگان پروردگار کی نظر میں حکومت کا مقصد، معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام،ظلم و جور کا خاتمہ اور دنیا و آخرت میں نوع انسانی کی کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنا ہے۔
ایک مرتبہ ابن عباس ،حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ علیہ السلام اپنا پھٹا پرانا جوتا سی رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے ابن عباس سے پوچھا:
اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی؟انھوں نے کہا :کچھ نہیں!
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میری نظر میں اس حکومت و ریاست کی قدر و قیمت اس جوتے سے بھی کمتر ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں عدالت کو نافذ کرسکوں ،حق کو قائم کر سکوں اور باطل کومٹا سکوں۔
حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کو اتنی اہمیت دی اور اس طرح عدالت کو اپنی زندگی میں سمو لیا کہ عدالت آپ کی شخصیت کا ایسا حصہ بن گئی کہ جب بھی آپ علیہ السلام کا تذکرہ ہوتا ہے، بلا فاصلہ ذہن ،عدالت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح جب کبھی عدالت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ عادل امام علیہ السلام بے ساختہ یاد آجاتا ہے ، جس نے اعلان بھی کیا تھا اور اپنے عمل سے ثابت بھی کیا تھا کہ:
واللہ !اگر مجھے سات اقلیم اس شرط پر دیے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے جَو کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں انہیں ٹھوکرمار سکتا ہوں، لیکن اس حد تک بھی بے عدالتی اور ظلم نہیں کر سکتا۔
آپ کی عدالت اتنی مشہور ہوئی کہ دین و مذہب کی حدوں سے گزر کر ہمہ گیر شکل اختیار کر گیا اور آج دنیا کا ہر مفکر اور دانشور ، خواہ وہ کسی بھی ملت و مذہب سے تعلق رکھتا ہو ،آپ کی عدالت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو اپنا شرف سمجھتا ہے۔چنانچہ جا رج جرداق نام کے ایک مسیحی دانشور نے آپ کی عدالت کے موضوع پر 5جلدوںپر مشتمل’’ صوت العدالۃ الانسانیہ‘‘ نام کی کتاب بھی تالیف کردی جو دنیا کی مختلف مشہور زبانوں میں ترجمہ بھی ہوچکی ہے۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی ذا تی ز ندگی سے لے کر اجتماعی،سماجی اور حکومتی زندگی کے ہر پہلو میں مکمل طور پر عدالت کو نافذ کیا۔
نہج البلاغہ میں عدالت:
نہج البلاغہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے کلام کے ایک بڑے حصے پر مشتمل کتاب ہے۔نہج البلاغہ میں ہمیں عدالت کی اہمیت جاننے کے لیے یہی کافی ہے کہ امام عادل کے کلام پر مشتمل اس کتاب میں عدل ان موضوعات میں سے ہے کہ جن پر کافی گفتگو ہوئی ہے۔نہج البلاغہ میں کلام علی علیہ السلام سے اور آپ ؑ کی زندگی اور آپؑ کا عمل عدالت پر سختی سے کاربند رہنے کے حوالے سے اس قدر مشہور ہے کہ ناصرف اسلام میں بلکہ غیر مسلم مفکرین میں بھی آپ کی عدالت کے چرچے نظر آتے ہیں۔چنانچہ مشہور عیسائی مفکر جارج جرداق نے نہج البلاغہ اور امام علی علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد پانچ جلدوں پر مشتمل اپنی ایک کتاب صوت العدالۃ الانسانیۃتحریر کی جو اس قدر مشہور ہوئی کہ اب تک کئی زبانوں میں اس کے تراجم سامنے آچکے ہیں۔نہج البلاغہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کے نزدیک عدالت ایک الٰہی فریضہ ہے کہ جس سے ذرہ برابر بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام ذراہ برابر بھی ظلم برداشت نہیں کرتے تھے۔اسی چیز کی اہمیت آپ نے مختلف مقامات سے اپنے قول و فعل سے واضح فرمائی۔
ایک طرف امام علی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جن سے اس دنیا کی مذمت میں بہت سے اقوال مذکور ہیں اور خود اپنے عمل سے بھی آپ نے دکھایا کہ یہ دنیا اور اس کی چیزیں علی علیہ السلام کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ آپ کی نظر میں دنیا ایک بکری کی چھینک سے بھی کم اہمیت کی حامل ہے:
دُنْیاكُمْ ہذِہ أَزْہدَ عِنْدِی مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ
تمہاری دنیا میرے نزدیک بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے وقعت ہے۔
جبکہ آپ کے نزدیک عدالت کی اس قدر اہمیت ہے کہ دنیا کی حکومت و خلافت کی ذمہ داری فقط قیام حق اور نفاذ عدالت کی خاطر اپنے کندھوں پر اٹھا تے دکھائی دیتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام نے ہر موقع پر عدالت کو اہمیت دی۔آپ عدالت کو میزانِ الٰہی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
ان العدل میزان اللہ الذی وضعہ للخلق و نصبہ لاقامة الحق
نہج البلاغہ کی رو سے امام علی علیہ السلام کی زندگی میں عدل و عدالت کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مختلف فرامین ملتےہیں۔یہاں تک کہ امام علی علیہ السلام نے عدل و عدالت کو اس قدر اہمیت دی کہ جب بھی آپؑ کا تذکرہ ہوتا ہے تو انسان کا ذہن بے ساختہ ایک ایسے عادل انسان کا تصور کرتا ہے کہ جو سراپا عدل ہے۔
کلامِ امام علی علیہ السلام میں عدالت کی اقسام:
حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے کلام میں عدالت کی ضرورت و اہمیت پر مختلف مقامات پہ گفتگو کی گئی ہے۔ ان موارد کو دیکھتے ہوئے اگر کلام امیر المومنین علیہ السلام میں عدالت کی اقسام مرتب کی جائیں تو مندرجہ ذیل تین اقسام سامنے آتی ہیں:
1-عدالتِ اجتماعی:
نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کے مختلف اقوال ملتے ہیں جن میں عدالت ِ اجتماعی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کے نفاذ پر زور دیا گیا ہے۔آپؑ نے خصوصی طور پر اپنی ظاہری خلافت کی زندگی میں عملی طور عدالت اجتماعی کے نفاذ کے لیے مختلف اقدامات کیے۔آپ ؑ نےمسلمانوں میں پہلے اسلام لانے والوں اور تازہ اسلام لانے والوں میں کسی قسم کے فرق کو روا نہ رکھا، اسی طرح مہاجرین و انصار امیر و غریب الغرض ہر لحاظ سے کسی کو بھی بطور انسان کسی دوسرے پر فوقیت نہ دی اور تمام کو برابر کے حقوق دیئے۔یہ حقیقت ہے کہ آپؑ عدل سے کسی بھی صورت پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کرتے تھے۔چنانچہ ایک مقام پہ ارشاد فرماتے ہیں:
وﷲِ لان ابیت علی حسک السعدان مسہّداً او اجّر فی الاغلال مصفدًا احبّ الیّ من ان القی اﷲ و رسولہ یوم القیامة ظالما لبعض العباد وغاسباً لشیئٍ من الحطام و کیف اظلم احداً لنفس الی البلیٰ قفولہا ویطول فی الثریٰ حلولہا
خدا کی قسم! اگر مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنی پڑے اور مجھے زنجیر وںمیں جکڑ کر کھینچا جائے تو یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں خدا اور اس کے پیغمبرﷺسے اس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے خدا کے بندوں پر ظلم کیا ہو یا مالِ دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو اور میں اس نفس کی آسودگی کے لیے بھلا کسی پرکیونکر ظلم کر سکتا ہوں جو کہ فنا کی طرف پلٹنے والا ہے اور مدتوں مٹی کی تہوں میں پڑا رہے گا۔
نوٹ :سعدان کے بارے میں علامہ مفتی جعفر حسین نہج البلاغہ کے حاشیہ میں وضاحت کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں:
سعدان:ایک خار دار جھاڑی ہے جسے اونٹ چرتا ہے۔
نہج البلاغہ میں عدل کا دائرہ کار فقط انسانوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دیگر جانداروں کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہےچنانچہ آپ ؑ فرماتے ہیں:
واتّقوا اﷲ فی عبادہ و بلادہ فاِنّکم مسئولونَ حتّٰی عن البقاع و البہائم۔
اے لوگو! خدا کے بندوں اور اس کی بستیوں کے معاملے میں تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تم سے زمین کے قطعات اور جانورو ں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا ۔
2-سیاست میں عدالت:
عدالت سیاسی یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر عائد سیاسی حقوق صحیح طریقے سے ادا کرے۔ حقوق سیاسی سے مراد وہ حقوق ہیں جو ایک حاکم اور سلطان پر اس کی رعایا کی نسبت اور رعایا پر حاکم کی نسبت عائد ہوتے ہیں۔نہج البلاغہ میں ان سیاسی حقوق کو انسان پر اللہ کی طرف سے عائد حقوق میں سے اہم ترین حقوق میں شمار کیا گیا ہے۔اس ضمن میں آپ علیہ السلام ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:
اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیّت پراور رعیّت کا حکمران پر ہے کہ جسے اللہ نے والی و رعیّت میں سے ہر ایک کے لئے فریضہ بنا کر عائد کیا ہے او راسے ان میں رابطہ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قراردیا ہے ۔چنانچہ رعیّت اسی وقت خوشحال رہ سکتی ہے جب حاکم کے طور طریقے درست ہوں اور حاکم بھی اسی وقت صلاح و درستگی سے آراستہ ہو سکتا ہے، جب رعیّت اس کے احکام کی انجام دہی کے لئے آماد ہ ہو ۔جب رعیّت فرمان روا کے حقوق پورے کرے اور فرمانروا رعیّت کے حقوق سے عہدہ برآہو تو ان کے اس عمل سے حق باوقار ،دین کی راہیں ا ستوار اور عدل و انصاف کے نشانات قائم ہو جائیں گے اور پیغمبر ﷺکی سنتیں اپنے دھارے پر چل نکلیں گی اور زمانہ سدھر جائے گا ۔بقائے سلطنت کی توقعات پید ا ہوجائیں گی اور دشمنوں کاحرص و طمع یاس و ناامیدی میں بدل جا ئے گا¬اورجب رعیّت حاکم پر مسلّط ہوجائے یا حاکم رعیّت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقعہ پر ہر بات میں اختلاف ہوگا ۔ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے ۔دین میں مفسد ے بڑھ جائیں گے ،شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی ،خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا ،شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے ،نفسانی بیماریاں بڑھ جا ئیں گی او ر بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کو ئی نہ گھبرائے گا ۔ایسے موقع پر نیکو کا ر ذلیل اور بد کردارباعزت ہوجاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں ۔
3-قضاوت میں عدالت:
قضاوت میں عدل کے نفاذ کے بارے میں امام علی علیہ السلا م کی کوشش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔قضاوت کے لحاظ سے امام علی علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی نہیں تھا جو ان کی طرح حق کا فیصلہ کرتا اور عدل و انصاف کو عملی جامہ پہناتا۔آپ کی قضاوت پر مکمل دسترس کے حوالے سے حضرت نبی اکرم ﷺ کا یہ مبارک فرمان مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف ہے کہ:
أَقْضَاكُمْ‏ عَلِی
کہ تم میں سب سے بڑے قاضی علی علیہ السلام ہیں۔ ‏
یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں بہت سے ایسے فیصلے ملتے ہیں جن میں امام علی علیہ السلام نے عدل و انصاف کا بول بالاکرتے ہوئے مبنی برحق فیصلے انجام دیے اور ایسے فیصلے کیے کہ جو تاریخ میں آپ ؑ کی عدالت و قضاوت میں مثال ہیں۔آپ نے اپنی خلافت کے ایام میں قاضی شریح کو قاضی کا منصب عطاء کرنے کے بعداسے تاکید کرتےہوئے فرمایا:
ثُمَّ وَاسِ بَینَ الْمُسْلِمِینَ بِوجہكَ‏ وَ مَنْطِقِكَ‏ وَ مَجْلِسِكَ حَتَّى لَا یطْمَعَ قَرِیبُكَ فِی حَیفِكَ وَ لَا ییأَسَ عَدُوُّكَ مِنْ عَدْلِكَ وَ رُدَّ الْیمِینَ عَلَى الْمُدَّعِی مَعَ بَینَة ٍ
مسلمانوں (مدعی وملزم)کی طرف نظر کرنے ،بات کرنے ، بٹھانے (یا اپنے بیٹھنے ) کی جگہ میں مساوات برقرار رکھو تاکہ تمہارے اقرباء دوسروں پرظلم کرنے اور اپنوں کو زیادہ دینے کا لالچ نہ رکھیں اور تمہارے دشمن تمہارے عدل وانصاف سے مایوس نہ ہوجائیں اور مدعی کے خلاف اٹھائی گئی قسم کو بینۃ(گواہی) کے ذریعے رد کرو۔
اسی طرح آپ ؑ کے قضاوت میں عدالت کے نفاذ کے لیے کیے گئے اقدامات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ اپنی زرہ کے حوالے سے ایک یہودی یا نصرانی کے مقابل مقدمہ ہار جانا قبول کر لیتے ہیں لیکن عدالت کے تقاضوں کو پامال نہیں ہونے دیتے۔
سیرت امیر المومنین علیہ السلام میں نفاذ عدالت کے نمونے:
اگر ہم امام عادل امام علی علیہ السلام کی زندگی کے مختلف گوشوں کا مطالعہ کریں اور بالخصوص ان کے زمانہ خلافت کے حالات اور اس وقت ان کے اقدامات کا جائزہ لیں تو ہمیں نفاذ عدالت کے سلسلے میں آپ کی طرف سے انجام دیئے گئے مختلف اقدامات نظر آتے ہیں۔ذیل میں امیر المومنین ؑ کے نفاذ عدالت کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔
1-ذاتی زندگی میں عدالت:
امیر المومنین علیہ السلام خود اپنی ذاتی وشخصی زندگی میں عدالت کو اہمیت دیتے اور اسے بلند مقام عطا کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی زندگی میں بھی ہر مقام پر عدالت کو مقدم رکھتے تھے۔آپ ؑ کی سیرت و زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ جب تک کوئی حکمران یا کسی مملکت کا سربراہ اپنے آپ کو، اپنے رہن سہن کو اور کھانے پینے کو اپنی رعایا کے عام افراد کی سطح پر نہ رکھے تب تک وہ بہترین حکمران اور بہترین سربراہ قرار نہیں پا سکتا۔چنانچہ ہمیں نہج البلاغہ کے خطبہ 208 میں اس کا بہترین نمونہ ملتا ہے جب امیر المومنین کے صحابی علاء بن زیادہ اپنے بھائی عاصم بن زیادہ کی آپ سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ دنیا سے بالکل بیگانہ ہوگیا ہے تو امیر المومنین ؑ اسے بلاتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے استفادہ کرو تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ آپ کا پہناوا بھی تو چھوٹا موٹا اور کھانا روکھا سوکھا ہوتا ہے. تو امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
تم پر حیف ہے میں تمہاری مانند نہیں ہوں، خدا نے آئمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔”
یوں نہج البلاغہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قیامِ عدالت کے لیے ایک حکمران کی ذمہ داری کہیں زیادہ سخت ہے کہ وہ اپنی مملکت میں عدالت کے نفاذ سے قبل خود اپنی ذاتی زندگی پر عدل نافذ کرے اور اپنا رہن سہن رعایا کے عام افراد سے بلند نہ رکھے۔
یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین نے ہمیشہ معاشرے کے کم تر اور غریب افراد کی سطح پہ رہتے ہوئے جو کی خشک روٹی پہ تکیہ کرکے زندگی گزاری۔ایسے میں جب آپ کو خبر ملی کہ بصرہ کے والی عثمان ابن حنیف نے وہاں کے بڑے لوگوں کی جانب سے کھانے کی پرتکلف دعوت قبول کی ہے تو آپ نے خط لکھ کر اس کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:
دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازو سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ۔ لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری ،سعی و کوشش ،پاک دامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو ۔ خداکی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا اور نہ اس کی مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلہ میں ( جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے ۔
2-قیام عدالت بحیثیت حاکم:
امام علی علیہ السلام کی نظر میں کسی بھی حکمران کی حکومت کا سب سے اولین اور بنیادی مقصد حق کا دفاع اور عدالت کا قیام ہونا چاہیے۔ اگرحکومت کا مقصد عدالت کا قیام نہیں ہے تو امام علی علیہ السلام کی نظر میں ایسی حکومت ایک بکری کی چھینک یا ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کم حیثیت قرار پاتی ہے۔ اسی لیے خطبہ شقشقیہ میں ارشاد ہوتا ہے:
دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں، اگر بیعت کرنےوالوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے۔ کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی بھوک پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتناءپاتے۔
درحقیقت امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت میں دیکھا جائے تو انہوں نے عدالت اور عدالت کے نفاذ میں ایک حاکم کی ذمہ داریوں کے حوالے سے جو کچھ فرمایا تھا اسے عملی طور پر انجام دے کر بھی دکھایا اور اپنی حکومت کے ایام میں آپ ناصرف خود عدالت پر سختی سے کاربند رہے بلکہ اپنی حکومت کے والیوں، گورنروں اور قاضیوں کی عدالت کے معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی کو بھی برداشت نہیں کیا۔چنانچہ آپ نے اپنی حکومت کے دوران ابو الاسود دوئلی کو محض اس وجہ سے منصب قضاوت سے معزول کر دیا کہ مقدمہ سننے کے دوران ان کی آواز مدعی اور مدعیٰ علیہ کی آواز سے بلند ہوگئی تھی فرمایا:
إِنِّی رَأَیتُ كَلَامَكَ یعْلُو كَلَامَ خَصْمِكَ‘‘؛
میں نے دیکھا کہ تمہاری آواز مخالف کی آواز سے بلند ہوگئی تھی۔
اس لیے کہ اگر قاضی اس انداز سے مقدمہ سنے گا تو ہو سکتا ہے کہ حق دار اپنے حق کا صحیح طرح دفاع نہ کر پائے اور یوں عدالتی فیصلہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پائے گا۔
3-قانون سازی میں قیام عدالت:
حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے لئے جو قوانین مرتب کئے تھے وہ من و عن وہی قوانین تھے جو رسول اللہﷺنے اسلامی حکومت کے لئے معین فرمائے تھے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کے بارے میں پیغمبر اسلامﷺ کا ارشادہے:
کفّی و کفّ علی فی العدل سواء
یعنی عدالت میں میرا اور علی ؑکا ہاتھ بالکل برابر ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام مالی اور دیگر مادی حتی معنوی مسائل میں سارے انسانوں کو ایک ہی خانہ میں جگہ نہیں دیتا اور اس مسئلہ میں اسلام مارکسزم کا شدید مخالف ہےلیکن جہاں قانون کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں اسلام، عالم وجاہل،غریب و امیر،دوست و دشمن سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں:
علیک بالعدل فی الصدیق والعدو
دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش آؤ۔
آپ علیہ السلام نے ایک نافرمان عامل کی تنبیہ کرتے ہوئے ایک خط میں فرمایا:
واللّہ لو ان الحسن والحسین…
واللہ اگر حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام نے بھی یہ کام کیا ہوتا، تو ان کے لئے بھی میرے پاس کسی نرمی کا امکان نہیں تھا اور نہ وہ میرے ارادہ پر قابو پاسکتے تھے جب تک کہ ان سے حق کو حاصل نہ کر لیتا اور ان کے ظلم کے آثار کو مٹا نہ دیتا۔
جب خلافت کی باگ ڈورحضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں میں تھی۔ اس وقت بیت المال کی کثیر تعداد آپ کے اختیار میں تھی،ایک دن عقیل حضرت علی علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے میں مقروض ہوں اور اس کی ادائیگی میرے لئے سنگین ہے میرا قرض ادا کر دیجئے ۔جب حضرت نے انکا قرض ادا کرنا چاہا جو ایک ہزار درہم تھا تو آپ نے فرمایا:
قسم بخدا! اس قدر قرض ادا کرنے کی طاقت مجھ میں نہیں ہے تم صبر کرو بیت المال سے مجھے میرا حصہ مل جائے تو میں اپنی آخری حد تک تمہاری مدد کروں گا ۔عقیل نے کہا: بیت المال کا اختیار تو آپ کے پاس ہے اس سے دے دو ۔حضرت نے اس سے امتناع کیا ۔ دہکتا لوہا عقیل کے پاس کیا کہ جو اسوقت نابینا تھے، وہ سمجھا کہ حضرت علی اسے درہم دینے لگے ہیں انھوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو اسے دہکتے لوہے کی حرارت محسوس ہوئی، حضرت علی نے فرمایا : تم اس آگ کی حرارت سہنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے میں کس طرح جہنم کی آگ تحمل کروں۔
آج کی حکو متوں کو حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کو اپنا کر ایسے قوانین بنانا چاہیں جن میں صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا فائدہ ہو اور دنیا کو چاہئے کہ ملکی اور عدالتی قوانین کے نفاذ میں تفریق کی قائل نہ ہو ۔
4-حکومتی عہدوں کی تقسیم میں عدالت:
آج کی دنیا میں حکومت کے نمائندوں اور اراکین کے انتخاب، نیز عہدوںاور منصبوں کی تقسیم میں مکر و فریب ،رشوت ،چرب زبانی ، ما ل و دولت کی فراوانی ، تعلقا ت اور سب سے بڑھ، کر اپنے ذاتی منافع کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، مگر جس چیز پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی وہ انسان کی معنویت ،صداقت،عدالت اور لیاقت و صلاحیت ہےلیکن علوی حکو مت میں معاملہ بالکل برعکس تھا۔ وہاں کسی بھی چیز پر توجہ نہیں دی جاتی تھی سوائے عدالت ،معنویت اور لیاقت و صلاحیت کے ۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اور پرائے کے امتیاز کو ختم کرکے جو شخص جس عہدہ کی صلاحیت رکھتا تھا وہ عہدہ اس کے سپرد کردیاچنانچہ آپ کے۵۱گورنروں کی فہرست پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو اس میں مہاجر و انصار،یمنی،نزاری ،ہاشمی ، غیرہاشمی،عراقی،حجازی اور پیر وجوان سب نظر آتے ہیں جو چیز آپ سے پہلے کی حکومتوں میں بے نام و نشان تھی۔
اس کے برعکس آپ کی نگاہ ولید ،مروان ،عمر وعاص اور طلحہ و زبیر جیسے مشہور اور سرکردہ افراد پر نہیں ٹکتی ، چونکہ ان کے اندر وہ تقوی اور صلاحیت موجود نہیں تھی جو ایک اسلامی مملکت کے حاکم اور عامل میں ہونا چاہئیے اگرچہ فقط طلحہ اور زبیر کو ان کی خواہش کے مطابق کوفہ اور بصرہ کاحاکم نہ بنانے کی وجہ سے آپ کو طرح طرح کی مشکلات ،منجملہ جنگ جمل اور اس سے پہلے جنگ بصرہ(جمل صغری) کا سامنا کرنا پڑا۔
آپ علیہ السلام نے دنیاوی سیاست دانوں کے برعکس، کسی بھی حال میں بڑی سے بڑی مادی منفعت اور سیاست کے بدلے عدالت کا سودا نہیں کیا ،اور خلافت ملتے ہی تمام ظالم اور نا اہل گورنروں منجملہ معاویہ جیسے طاقتور اور بانفوذ ،گورنر کو معزول کر دیا کیونکہ جب آپ سے لوگوں نے کہا فی الحال معاویہ کو معزول نہ کیجئے ،ابھی آپ کی حکومت مستحکم نہیں ہوئی ہےاور وہ بغاوت کرکے آپ کی حکومت کے لئے خطرہ بن جائے گا. جب حکومت کے ستون مستحکم ہو جائیں تو آپ بآسانی اس کو معزول کر دیجئے گا تو آ پ نے یہ کہ کر لوگوں کو خاموش کردیا کہ:
میں ایک لمحہ کے لئے بھی ظلم و ستم کو برداشت نہیں کر سکتا
اور تقریباً اسی سے مشابہ ایک دوسرے موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :
اتامرونی ان اطلب النصر بالجور…
کیا تم لوگ مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ میں ظلم و جور کے سہارے فتح و کا میابی حاصل کروں اور اس جملہ کے ذریعے آپ نے اس نظریہ پر خط بطلان کھینچ دیا جو کہتا ہے کی بلند اور نیک مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے اچھے برے ہر قسم کے وسائل کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔
5-مالی وسائل کی تقسیم میں عدالت:
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب و عجم اور سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر سارے مسلمانوں کو بیت المال سے برابر کا حق دیا کرتے تھے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کی حکومتوں نے آپ کی سیرت کے بر خلاف بیت المال اور مال غنیمت کی تقسیم میں رنگ و نسل اور ذات پات کو معیار بنا لیالیکن حکومت ملتے ہی حضرت علی علیہ السلام نے اس غلط اور غیر اسلامی سیرت کی مخالفت کی اور دوبارہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احیاء فرمایا اور عرب و عجم ، سیاہ و سفید اور مہاجر و انصار کی تفریق ختم کر دی جس کے نتیجے میں اہل باطل کی ایک بڑی تعداد آپ کی مخالف ہو گئی ۔
جب آپ علیہ السلام نے خلیفہ سوم کی بد عنوانیوں کی مخالفت کی تو کچھ لوگوں نے کہا جو ہو گیا سو ہو گیا تو اما م علیہ السلام نے فرمایا :
واللہ لو وجد تہ قد تزوج بہ النساء …
خدا کی قسم !اگر میں مسلمانوں کے عمومی اموال اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو اسے بھی واپس کرا دیتا …
آپ علیہ السلام بیت المال کومال خدا اور مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے .آپ نے کبھی بھی بیت المال کو اپنے ذاتی منافع کے لئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنے کسی عامل کی طرف سے بیت المال میں خیانت اور اسراف کو برداشت کیا ۔
نہج البلاغہ کے مختلف خطبات اور مکتوبات اس بات پر گواہ ہیں کہ امیر المومنین علیہ السلام نے بیت المال میں معمولی خیانت کرنے والوں کی شدیدتنبیہ و سرزنش کی ہے اور بہت سے گورنروں کو اس خطا پر معزول بھی کیا ہے۔
6-قضاوت میں عدالت:
آپ کی عدالت اس سلسلے میں شہرہ آفاق ہے اور اس موضوع پر بہت سی مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ہم ذیل کی سطروں میں فقط دو تین نمونوں کے ذکر کرنے پر اکتفاء کر رہے ہیں:
الف: ایک مرتبہ ایک شخص نے خلیفہ دوم کے دربار میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شکایت کی ، حضرت علی علیہ السلام اس شخص کے ساتھ خلیفہ دوم کے دربار میں پہنچے تو خلیفہ نے کہا: اے ابو الحسن! آپ اپنے مدّعی کے ساتھ بیٹھ گئے جب مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا تو خلیفہ نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھ کر اس کا سبب پوچھا ، آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم نے گفتگو کے دوران میرے مدّعی کو نام لے کر بلایا مگر مجھے کنیت کے ساتھ بلایا حالانکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کی تم مجھے بھی نام لے کر بلاتے۔
ب: حضرت علی علیہ السلام نے اپنے مشہور صحابی ابو الاسود دوئلی کو ایک جگہ قاضی بنایا اور پھر کچھ ہی عرصے کے بعد معزول کر دیا تو انہوں نے پوچھا :
یا امیر المومنین میں نے نہ تو کوئی خیانت کی اور نہ ہی کسی طرح کی نا انصافی اور ظلم ، پھر آپ نے مجھے کیوں معزول کر دیا؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
میں نے دیکھا کی تمہاری آواز مدعی کی آواز سے بلند ہو جاتی ہے۔لہذا تمہیں معزول کر دیا۔
حضرت علی علیہ السلام نے فیصلہ، قضاوت اور حدودالہی کے نفاذ میں اپنے پرائے، دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا۔ چنانچہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حکم الہی کی مخالفت اور جرم کے مرتکب ہونے کی صورت میں اپنے قریبی ترین چاہنے والوں پر بھی حدود الہی کو جاری کیا ۔ چنانچہ نجاشی نام کے آپ کے ایک قریبی چاہنے والے نے ،جو بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ آپ کی حمایت میں اشعار کہا کرتے تھے، شراب پی لی. تو آپ نے اس پر بھی شراب پینے کی حد جاری کردی اور جب اس کے قبیلہ والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: اے بنی نہد کے بھائیو!نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے۔لہذا ہم نے کفارہ کے طور پر اس پر بھی شریعت کی حد جاری کی ہے ۔۔۔۔
7-قیدیوں اور مجرموں کے ساتھ عدالت:
آج عدالت کے علمبردار اور حقوق انسانی کاڈھنڈورا پیٹنے والے کس طرح سے عدالت اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، یہ کسی بھی صاحب عقل و شعور سے پوشیدہ نہیں ہے ۔آج امریکہ ،یورپ اور دیگر ممالک میں اسیروں اور مجرموں کے ساتھ جو برتاو کیا جاتا ہے اس کی معمولی مثالیں گوانٹا نامو اور عراق میں ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں سے ملنے والی کچھ سنسنی خیز خبریں ہیں جنہیں سن کر ہر انسان کا بدن لرز جاتا ہے اور دل دہل جاتا ہے. ایک طرف قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسری طرف حضرت امام علی علیہ السلام اپنے قاتل کے سامنے دودھ کا پیالہ پیش کر رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ عدالت کے تشنہ انسان کو صرف اسلام ہی کے چشمہ زلال اور سر چشمہ حیات سے سیرابی حاصل ہو سکتی ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے بارے میں جو وصیتیں کی ہیں وہ در حقیقت منشور انسانیت ہیں. آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :
دیکھو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا تو میرے قاتل کو ایک ہی ضربت لگانااس لئے کہ ایک ضربت کی سزا اور قصاص ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنا کیونکہ میں نے سرکار دوعالم سے سنا ہے کہ خبر دار! کاٹنے والے کتے کو بھی مثلہ نہ کرنا (اس کے بدن کے اعضاء نہ کاٹنا) ۔
3-غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق میں عدالت:
ایک حکمران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی حکومت میں عدل و عدالت کا بلا تفریق نفاذ کرےاور اس سلسلے میں مسلم و غیر مسلم اور اکثریت و اقلیت کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز نہ برتا جائے بلکہ بطور رعایا سب کو برابر کا انصاف فراہم کیا جائے۔
تاریخ شاہد ہے کہ مذہبی اقلیتوں، مثلا اسلامی مملکت میں رہنے والے عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ان کی پوری تاریخ کا سب سے سنہرا اور پر امن دور ہے۔ اور ا ن کے علماء اور مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنروں کو غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے احترام کے بارے میں خصوصی تاکید کیا کرتے تھے. جس کی ایک مثال مالک اشتر کا عہدنامہ ہے۔بطور مثال ،صرف ایک جملہ ملاحظہ ہو:
سارے لوگ تمہار ے بھائی ہیں ، کچھ دینی اور کچھ انسانی اعتبار سے ، لہذا تمہیں سب کے حقوق کالحاظ رکھنا ہو گا …
امیر المومنین علیہ السلام کی زندگی کا مشہور واقعہ ہے کہ آپ اپنی زرہ کے معاملے میں ایک یہودی سے مقدمہ ہار جاتے ہیں حالانکہ آپ جانتے بھی ہیں کہ یہ زرہ آپ کی ہی ہے لیکن عدالت کے تقاضوں کے مطابق آپ اسے اپنا مال ثابت نہیں کر پاتے تو اس مقدمہ میں اپنی ہار قبول کر لیتے ہیں مگر عدالت پر حرف نہیں آنے دیتے۔
اسی طرح آپ اپنی حکومت کے دوران بھی مسلم و غیر مسلم کو ان کے حقوق دینے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتےبلکہ کے نزدیک بحیثیت انسان مسلم و غیر مسلم کو بلاتفریق برابرکے حقوق دیے جانا ضروری ہیں۔روایت میں ملتا ہے کہ جب ایک عیسائی بوڑھے کو بھیک مانگتے دیکھا تو فرمایا:
اِسْتَعْمَلْتُمُوہ حَتَّی إِذَا کَبِرَ وَ عَجَزَ مَنَعْتُمُوہ أَنْفِقُوا عَلَیْہ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ
تم لوگوں نے اس سے کام لیا اور جب یہ بوڑھا ہو گیا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے اسےبیت المال سے نفقہ دیا جائے۔
اسی طرح جب حضرتؑ کو خبر ملی کہ اسلامی حکومت میں دشمن کے حملے کی وجہ سے کسی غیرمسلم خاتون کے جواہرات چوری ہو گئے ہیں تو آپؑ کے نزدیک اگر اِس تلخ حادثے کی اطلاع ملنے پر کوئی مسلمان رنج سے مر جائے تو وہ اِس کا حق رکھتا ہے۔چنانچہ آپ ؑ نے ارشادفرمایا:
فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ ہذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِہ مَلُوماً بَلْ کَانَ بِہ عِنْدِی جَدِیراً
اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا سزاوار ہے۔
نتیجہ بحث:
پس اس گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کے عظیم کلام پر مشتمل کتاب نہج البلاغۃ میں عدالت ان موضوعات میں سے ایک ہے جن پر بہت زیادہ گفتگو کی گئی ہے۔نہج البلاغۃ ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کا راز عدالت کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ انسان کو اپنی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کے ہر شعبے میں عدل و انصاف کی یقینی فراہمی کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔ اس سلسلے میں امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت اور نہج البلاغۃ میں ان کے عدالت کے بارے بیان کیے گئے کلمات پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم عدل و عدالت کا صحیح مفہوم سمجھ کر اس کے نفاذ کی کوششیں کر سکیں۔نہج البلاغۃ میں ہمیں انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بحیثیت حاکم اور بحیثیت قاضی نفاذِ عدالت و انصاف کے عملی نمونے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح نہج البلاغۃ میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق میں عدالت اور حتیٰ کہ جانوروں کے بارے میں بھی عدالت قائم کرنے کی مثالیں ملتی ہیں۔ لہذا ہر وہ شخص جو اپنی ذات، اپنے خاندان اور معاشرے میں عدل و انصاف کا عملی پرچار کرنا چاہتا ہے،اسے نہج البلاغۃ سے امامِ عدل کے کلام اور ان کی سیرت سے عملی طور پر نفاذِ عدالت کا سبق لینا چاہیے۔کیونکہ امیر المومنین علیہ السلام عدل و انصاف کی فراہمی پر اس قدر سختی سے کاربند رہے کہ کہا گیا کہ امیر المومنین کو شدتِ عدل کی وجہ سے قتل کیا گیا۔خداوند متعال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی میں اور اپنے معاشرے میں عدل و انصاف کا عملی نفاذ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین
مصادر و منابع
لسان العرب،علامہ ابن منظور الافریقی المصری،ناشر دارالاحیاءالتراث العربی طبعۃالاولیٰ1408ھ بیروت لبنان
فیروز اللغات اردو، مولوی فیروز الدین،ناشر فیروز سننر لیمیٹد،لاہور پاکستان
کفایۃ الموحدین فی عقائد الدین،شیخ اسماعیل بن احمد الطبرسی النوری،ناشر کارخانہ کربلائی تہران،ایران
مجموعہ آثار شہید مطہری،شہید مرتضیٰ مطہری،ناشر انتشارات صدراچاپ ششم 1422ھ،قم،ایران
عقائد الامامیہ،شیخ محمد رضا مظفر،ناشر ادارہ پاسبان اسلام،اشاعت 2007ء
نہج البلاغہ ،مترجم مفتی جعفر حسین،ناشر معراج کمپنی لاہور،2003ء
عوالی اللئالی العزیزیہ فی الاحادیث الدینیہ،ابن ابی جمہور الاحسائی،ناشر انتشارات سیدالشہداء،طبع اولی1403ھ
غررالحکم و دررالکلم ،قاضی ناصح الدین ابو الفتح آمدی،ناشر دارالکتب الاسلامی، قم ایران
الاحتجاج،ابو منصور احمد بن علی الطبرسی،مؤسسۃ الاعلمی مؤسسہ اہلبیتؑ ،بیروت،لبنان
الکافی،شیخ محمد ابن یعقوب الکلینی،ناشر دارالاضواء،طبعۃ الاولیٰ1413ھ،بیروت،لبنان
المناقب آل ابی طالبؑ،محمد بن علی ابن شہر آشوب،ناشر مؤسسۃ انتشارات علامہ،قم ایران
مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل،مرزا حسین محدث نوری،ناشر مؤسسۃ آل البیت،1412ھ،بیروت
وسائل الشیعہ،محدث شیخ حر عاملی، ناشر مؤسسۃ آل البیت،قم ایران1414ھ

Share this content: