عاشورا ، چند اہم نکات
محرم الحرام۱۴۴۴ہجری کا عاشورا گزر گیا۔ عام طور پر اس برس یہ عشرہ ہم آہنگی، رواداری، محبت اور عقیدت کی فضا میں گزرا۔ بہت سے مقامات پر مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد کے اعلیٰ نمونے اور مظاہر دیکھنے کو ملے۔ کئی شہروں سے شیعہ سنی کی مل کر نماز پڑھتے ہوئے تصویریں دیکھ کر دل کو ایک تسلی ہوئی۔ تصویریں بتا رہی تھیں کہ مسلمانوں کے پاکستان میں بسنے والے تمام مسالک کی نمائندگی نماز کی صفوں میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی عاشورا کے حوالے سے بعض نکات قابل توجہ ہیں ہم ذیل میں کچھ کا ذکر کرتے ہیں۔
* ذاکرین و خطباء نے بالعموم ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور ایک دوسرے کے عقائد و مسلمات کے حوالے سے احتیاط کا دامن تھامے رکھا ہے۔ اس کے باوجود اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض خطباء اور ذاکرین نے بعض ایسی باتیں کی ہیں، جن سے اجتناب کیا جانا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں انھیں خود سے اتحاد امت کے حوالے سے قرآن و سنت میں دی گئی تعلیمات اور اہل بیت رسالتؑ کا تعامل پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بانیان مجالس اور مجالس و محافل میں شریک مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خطباء کو ان امور کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ زیادہ تر شیعہ سنی خطباء نے محبت و عظمت اہل بیتؑ کو بیان کیا ہے، لیکن دونوں طرف ابھی ایسے افراد موجود ہیں، جو سستی شہرت اور دیگر مادی مقاصد کے درپے ہیں۔ دین کو مادی مقاصد کے لیے استعمال کرنا نہایت افسوسناک ہے۔
* نویں اور دسویں محرم الحرام کو جس طرح بہت سے لوگوں نے سیر و سیاحت اور عیش و عشرت کے لیے استعمال کیا، وہ رنج آور ہے۔ کیا مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں کہ امام حسینؑ کی شہادت سے پہلے سیدالمرسلینؐ نے ان کی شہادت کا ذکر کرکے آنسو بہائے ہیں۔ اسی طرح سے صحیح روایات کے مطابق امام حسینؑ کے روز شہادت کے موقع پر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور ام المومنین ام سلمہؓ نے رسول اکرمؐ کو غم و اندوہ کی خاص حالت میں دیکھا اور آنحضرتؐ نے انھیں بتایا کہ وہ کربلا سے آرہے ہیں، جہاں ان کے فرزند امام حسینؑ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ایسے حقائق کو جاننے کے بعد مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ان ایام غم میں خوشی و مسرت کا اظہار کریں اور انھیں عیش و طرب میں گزاریں۔
* دہشت گردوں، تکفیریوں اور انتہاء پسندوں کی تمام تر منحوس کوششوں کے باوجود ہم اس امر کے شاہد ہیں کہ سبط رسول امام حسینؑ کی یاد کے سلسلے بڑھتے اور پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ جس انداز سے عزاداری کے جلوسوں اور پروگراموں میں شرکت کو سکیورٹی کے نام پر مشکل بنا دیا گیا ہے اور ان رسوم کی ادائیگی کے حوالے سے خوف کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے باوجود لوگوں کی ان میں شرکت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ امر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کا فیصلہ ہے کہ امام حسینؑ کے ذکر کو زندہ رکھا جائے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ تم میرا ذکر کرو، میں تمھارا ذکر کروں گا۔
امام حسینؑ نے اپنے پروردگارکی رضا کے لیے کتنی عظیم الشان قربانی پیش کی اور دشت و صحرا میں ہونے والی اس قربانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سارے عالم تک پہنچا دیا اور صدیوں سے یہ ذکر جاری و ساری ہے اور دن بدن اس کی رونقیں ہیں کہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ لوگ امام حسینؑ پر رونے کے لیے اور رسول اللہؐ کو اُن کے نواسے کا پُرسہ دینے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ عجیب طرح کے اجتماعات ہیں کہ لوگ رونے کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں، رونے کے لیے سفر کرتے ہیں اور رونے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اس راستے میں اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
* عاشورا میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ سارا سال اہل بیتؑ کی طرف اعتنا نہیں کرتے، ان میں سے بعض ’’محقق‘‘ بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو واقعہ کربلا کے حوالے سے شک و شبہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امام حسینؑ کے اقدام پر مختلف انداز سے اعتراض کرتے ہیں۔ یزید اور اس کے حامیوں اور سہولت کاروں کو بچانے کے لیے نام نہاد دلائل کا سہارا لیتے ہیں۔ کبھی وہ اپنے ’’اصول مذہب‘‘ کو ڈھال بناتے ہیں اور کبھی اپنے پیشوائوں کے جعلی تقدس کا سہارا لیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں، جو بظاہر امام حسینؑ کا احترام بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے ٹیڑھے، ترچھے اور غیر معروف راستوں کی بھول بھلیوں میں خود بھی بھٹکتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھٹکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ہم ان سے صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام حسینؑ کو سمجھنے کے لیے سیدھا راستہ اختیار کریں۔ اس کی بنیاد امام حسینؑ کے حوالے سے رسول اللہ کے فرمودات اور طرز عمل کو قرار دیں۔ امام حسینؑ کے اقدام کی ماہیت اور حقیقت کو جاننے کے لیے ان کے مقام معنوی و روحانی کو پیش نظر رکھیں۔ ہماری مراد وہی مقام ہے، جس کا تعارف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کروایا ہے۔ صحیح احادیث کا ایک بڑا سرمایہ اس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ افسوس کہ بعض لوگ اپنے مشرب و مذہب پر قائم رہنے کے لیے امام حسینؑ کے حوالے سے ان آیات قرآنی اور احادیث نبوی کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جو امام حسینؑ کی عظمت و صداقت کو بیان کرتی ہیں۔ جب ان سے تاویل نہیں ہو پاتی تو پھر وہ انکار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ انکار انھیں پرلے درجے کی گمراہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔
اگر قرآن حکیم کی ان آیات جن میں آیت تطہیر و آیت مباہلہ بھی شامل ہیں، کی شان نزول کو نظرانداز کر دیا جائے تو پھر دیگر آیات کے حوالے سے منقول شان ہائے نزول کے بارے میں وہ کیا رویہ اختیار کریں گے۔ اسی طرح سے اہل بیتؑ کے بارے میں عام طور پر اور امام حسینؑ کے بارے میں خاص طور پر جو احادیث ہم تک پہنچی ہیں، اگر ان کا انکار کر دیا جائے تو پھر احادیث کے باقی ذخیرے کے بارے میں بھی یہی اصول اختیار کرنا پڑے گا تو کیا اس صورت میں انسان پرلے درجے کی گمراہی کا شکار نہیں ہو جائے گا۔؟ ہمارا نقطہ نظر اس سلسلے میں بہت سادہ اور صاف ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنا سر قرآن و سنت کے سامنے جھکا دیں اور اس سے آگے قدم نہ رکھیں۔
* ذاکرین و خطباء نے بالعموم ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو ملحوظ خاطر رکھا ہے اور ایک دوسرے کے عقائد و مسلمات کے حوالے سے احتیاط کا دامن تھامے رکھا ہے۔ اس کے باوجود اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض خطباء اور ذاکرین نے بعض ایسی باتیں کی ہیں، جن سے اجتناب کیا جانا چاہیے تھا۔ اس سلسلے میں انھیں خود سے اتحاد امت کے حوالے سے قرآن و سنت میں دی گئی تعلیمات اور اہل بیت رسالتؑ کا تعامل پیش نظر رکھنا چاہیے۔ بانیان مجالس اور مجالس و محافل میں شریک مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے خطباء کو ان امور کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔ زیادہ تر شیعہ سنی خطباء نے محبت و عظمت اہل بیتؑ کو بیان کیا ہے، لیکن دونوں طرف ابھی ایسے افراد موجود ہیں، جو سستی شہرت اور دیگر مادی مقاصد کے درپے ہیں۔ دین کو مادی مقاصد کے لیے استعمال کرنا نہایت افسوسناک ہے۔
* نویں اور دسویں محرم الحرام کو جس طرح بہت سے لوگوں نے سیر و سیاحت اور عیش و عشرت کے لیے استعمال کیا، وہ رنج آور ہے۔ کیا مسلمانوں کو یہ معلوم نہیں کہ امام حسینؑ کی شہادت سے پہلے سیدالمرسلینؐ نے ان کی شہادت کا ذکر کرکے آنسو بہائے ہیں۔ اسی طرح سے صحیح روایات کے مطابق امام حسینؑ کے روز شہادت کے موقع پر حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور ام المومنین ام سلمہؓ نے رسول اکرمؐ کو غم و اندوہ کی خاص حالت میں دیکھا اور آنحضرتؐ نے انھیں بتایا کہ وہ کربلا سے آرہے ہیں، جہاں ان کے فرزند امام حسینؑ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ ایسے حقائق کو جاننے کے بعد مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ان ایام غم میں خوشی و مسرت کا اظہار کریں اور انھیں عیش و طرب میں گزاریں۔
* دہشت گردوں، تکفیریوں اور انتہاء پسندوں کی تمام تر منحوس کوششوں کے باوجود ہم اس امر کے شاہد ہیں کہ سبط رسول امام حسینؑ کی یاد کے سلسلے بڑھتے اور پھیلتے چلے جا رہے ہیں۔ جس انداز سے عزاداری کے جلوسوں اور پروگراموں میں شرکت کو سکیورٹی کے نام پر مشکل بنا دیا گیا ہے اور ان رسوم کی ادائیگی کے حوالے سے خوف کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کے باوجود لوگوں کی ان میں شرکت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ یہ امر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ پروردگار کا فیصلہ ہے کہ امام حسینؑ کے ذکر کو زندہ رکھا جائے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ تم میرا ذکر کرو، میں تمھارا ذکر کروں گا۔
امام حسینؑ نے اپنے پروردگارکی رضا کے لیے کتنی عظیم الشان قربانی پیش کی اور دشت و صحرا میں ہونے والی اس قربانی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سارے عالم تک پہنچا دیا اور صدیوں سے یہ ذکر جاری و ساری ہے اور دن بدن اس کی رونقیں ہیں کہ بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ لوگ امام حسینؑ پر رونے کے لیے اور رسول اللہؐ کو اُن کے نواسے کا پُرسہ دینے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں۔ یہ عجیب طرح کے اجتماعات ہیں کہ لوگ رونے کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں، رونے کے لیے سفر کرتے ہیں اور رونے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ اس راستے میں اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔
* عاشورا میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جو لوگ سارا سال اہل بیتؑ کی طرف اعتنا نہیں کرتے، ان میں سے بعض ’’محقق‘‘ بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو واقعہ کربلا کے حوالے سے شک و شبہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امام حسینؑ کے اقدام پر مختلف انداز سے اعتراض کرتے ہیں۔ یزید اور اس کے حامیوں اور سہولت کاروں کو بچانے کے لیے نام نہاد دلائل کا سہارا لیتے ہیں۔ کبھی وہ اپنے ’’اصول مذہب‘‘ کو ڈھال بناتے ہیں اور کبھی اپنے پیشوائوں کے جعلی تقدس کا سہارا لیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں، جو بظاہر امام حسینؑ کا احترام بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے ٹیڑھے، ترچھے اور غیر معروف راستوں کی بھول بھلیوں میں خود بھی بھٹکتے رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھٹکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ہم ان سے صرف اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ امام حسینؑ کو سمجھنے کے لیے سیدھا راستہ اختیار کریں۔ اس کی بنیاد امام حسینؑ کے حوالے سے رسول اللہ کے فرمودات اور طرز عمل کو قرار دیں۔ امام حسینؑ کے اقدام کی ماہیت اور حقیقت کو جاننے کے لیے ان کے مقام معنوی و روحانی کو پیش نظر رکھیں۔ ہماری مراد وہی مقام ہے، جس کا تعارف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کروایا ہے۔ صحیح احادیث کا ایک بڑا سرمایہ اس سلسلے میں ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ افسوس کہ بعض لوگ اپنے مشرب و مذہب پر قائم رہنے کے لیے امام حسینؑ کے حوالے سے ان آیات قرآنی اور احادیث نبوی کو نظر انداز کر دیتے ہیں، جو امام حسینؑ کی عظمت و صداقت کو بیان کرتی ہیں۔ جب ان سے تاویل نہیں ہو پاتی تو پھر وہ انکار کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ انکار انھیں پرلے درجے کی گمراہی کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔
اگر قرآن حکیم کی ان آیات جن میں آیت تطہیر و آیت مباہلہ بھی شامل ہیں، کی شان نزول کو نظرانداز کر دیا جائے تو پھر دیگر آیات کے حوالے سے منقول شان ہائے نزول کے بارے میں وہ کیا رویہ اختیار کریں گے۔ اسی طرح سے اہل بیتؑ کے بارے میں عام طور پر اور امام حسینؑ کے بارے میں خاص طور پر جو احادیث ہم تک پہنچی ہیں، اگر ان کا انکار کر دیا جائے تو پھر احادیث کے باقی ذخیرے کے بارے میں بھی یہی اصول اختیار کرنا پڑے گا تو کیا اس صورت میں انسان پرلے درجے کی گمراہی کا شکار نہیں ہو جائے گا۔؟ ہمارا نقطہ نظر اس سلسلے میں بہت سادہ اور صاف ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنا سر قرآن و سنت کے سامنے جھکا دیں اور اس سے آگے قدم نہ رکھیں۔
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: