مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک خصوصی نشست(3)

Published by سید اسد عباس تقوی on

سید اسد عباس

مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے متعدد سوالات ایسے ہیں، جن پر ہمارے معاشرے میں مخمصے یا شبہات پائے جاتے ہیں، بلکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس سلسلے میں بھارتی پراپیگنڈہ زیادہ تاثیر رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں ایک عمومی تاثر ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر ہمیشہ پاکستان کو مات دیتا رہا ہے، یعنی میدان جنگ میں شہداء کی قربانیوں سے حاصل کی ہوئی کامیابیاں ہمارے سیاستدانوں ںے مذاکرات کی میز پر شکست سے بدل دیں۔ مسئلہ کشمیر کے سلسلے مٰیں منظور ہونے والی قراردادوں کو اس سلسلے میں خاص طور پر بطور مثال پیش کیا جاتا ہے۔ کشمیری راہنماء شیخ تجمل الاسلام کا کہنا ہے کہ:

’’یہ تاثر درست نہیں ہے، ہم بعض اوقات خود انتہائی غیر سنجیدہ ہوتے ہیں، مطالعہ نہیں کرتے، نہ سوچتے ہیں اور بھارتی مذموم پراپیگنڈہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے  یکم جنوری 1948ء کو بھارت اقوام متحدہ جاتا ہے، وہ قراردادوں کے حصول کے لیے نہیں جاتا۔ نہ ہی اس کا مقصد رائے شماری کے حق کو قبول کرنا تھا۔ بھارت کا کہنا تھا کہ کشمیر پر باہر سے حملہ ہوا ہے، پاکستان سے کہو کہ وہ اپنے حملہ آوروں کو واپس بلائے۔ بات تو یہاں تک نہ رہی۔ اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے سر ظفر اللہ خان نے جوابی درخواست دی۔ جس کے بعد یہ طے ہوگیا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔’’

شیخ صاحب کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہندوستان اقوام متحدہ میں کیا لے کر گیا تھا اور اسے جواب کیا ملا۔ یہاں سفارتکاری کس کی کامیاب ہوئی؟ بھارت اقوام متحدہ میں موقف اختیار کرتا ہے کہ ہم نے کشمیر میں انتخابات کروائے ہیں، پاکستان نے 1951ء اور 1957ء میں دو قراردادیں منظور کروائیں، جن میں کہا گیا کہ کشمیر کے انتخابات رائے شماری کا متبادل نہیں ہیں۔ سفارتکاری کس کی کامیاب رہی؟ 5 اگست 2019ء میں ہندوستان نے کہا کہ کشمیر ہمارا حصہ ہے، اسے قبول کرلو، کس نے دنیا میں اس دعویٰ کو مانا ہے؟ ٹھیک ہے قرارداد پاس نہیں ہوئی، لیکن سکیورٹی کونسل کا اجلاس تو ہوا۔ یہاں سفارتکاری کس کی کامیاب ہوئی۔؟‘‘ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے مقتدر حلقے یہ توقع رکھتے ہیں کہ امریکہ پاکستان اور بھارت کے مابین مسئلہ کشمیر پر مصالحت کروائے۔ جس کے جواب میں اکثر امریکی صدور کی جانب سے بیان بھی داغے جاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان یہ تقاضا ان مسلمان ممالک سے کیون نہیں کرتا، جو دونوں ممالک کے ساتھ روابط رکھتے ہیں اور دونوں ممالک کے مابین بہتر انداز سے مصالحت کروا سکتے ہیں۔

شیخ صاحب کا اس امر میں کہنا تھا کہ ’’ہندوستان ایک اسٹیٹس کو پاور ہے، وہ نہیں چاہتا کہ کشمیر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی ہو، جبکہ پاکستان اور کشمیری چاہتے ہیں کہ حالات بدلیں۔ اسی لیے پاکستان مطالبہ کرتا ہے کہ کشمیر سے افواج کو نکالو، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرو، اگر وہ بھی نہیں کرتے تو سہولت کاری کی جانب بڑھو۔ بھارت اس کو نہیں مانتا۔ پاکستان اور کشمیریوں کی مصالحت کی خواہش دنیا کے سب ممالک سے ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا امریکہ۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو دیکھا جائے تو وہ پاکستان اور بھارت دونوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی افواج کو مقبوضہ اور آزاد کشمیر نیز گلگت بلتستان سے نکالیں یا کم سے کم سطح پر لائیں، ساتھ ساتھ یہ قراردادیں دونوں ممالک پر لازم قرار دیتی ہیں کہ وہ ان دونوں علاقوں میں جو انتظامی امور انجام دیں، وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اور ان کے زیر انتظام ہوں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بھارت نے روز اول سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا۔

اسی طرح پاکستان نے بھی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو خالی نہیں کیا بلکہ اب تو بھارت نے کشمیر کے حوالے سے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا ہے اور پاکستان نے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کا عبوری صوبہ قرار دے دیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہونا بدیہی ہے کہ ان اقدامات سے مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں کیا پاکستان کا اقدام بھی درست تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں شیخ تجمل الاسلام کا کہنا تھا کہ ’’اگر پاکستان گلگت پاکستان کو عبوری صوبہ بناتا ہے تو نئے سوالات اٹھیں گے، نئے چیلنجز سامنے آئیں گے۔ ہندوستان خاموش نہیں بیٹھے گا، کچھ اور حلقے بھی ہیں، جو نہ جاننے کی وجہ سے یا جان بوجھ کر سوالات کھڑے کریں گے، لیکن چیلنجز سے خوفزدہ ہوکر اچھے اقدام کو روکا نہیں جا سکتا۔ گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ قرار دیئے جانے کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس سے اقوام متحدہ کی کشمیر کے حوالے سے قراردادیں متاثر ہوں گی۔ یہ بات کہنے والوں سے ہم سوال کریں گے کہ کیسے متاثر ہوں گی؟ ہندوستان نے مقبوضہ وادی کا الحاق کیا اور 1954ء میں آئینی طور پر یہ اعلان کیا کہ Kashmir will remain Integral part of India  ہندوستان اس وقت سے یہ اعلان کر رہا ہے۔ 5 اگست 2019ء کو ہندوستان نے مقبوضہ وادی کو بھارت میں شامل کیا ہے، کیا اس سے اقوام متحدہ کی قراردادیں ختم ہوگئی ہیں کہ عبوری صوبہ بننے سے ختم ہو جائیں گی۔

عبوری صوبہ بنے گا تو کیا سکیورٹی کونسل کی ویٹو پاورز بیٹھیں گی کہ چونکہ پاکستان نے عبوری صوبہ بنایا ہے، لہذا کشمیر سے متعلق قراردادیں کالعدم ہوگئی ہیں۔ ایسا نہیں ہوگا۔ ان قراردادوں کی ایک عالمی حیثیت ہے۔ یہ قراردادیں پاکستان اور گلگت بلتستان کے لوگوں کے داخلی انتظام سے متاثر نہیں ہوں گی، بلکہ اس عمل سے قراردادیں مضبوط ہوں گی، کیونکہ پاکستان اپنے آئین میں دوبارہ کہے گا کہ میں گلگت بلتستان کو اس وقت تک صوبہ بنا رہا ہوں، جب تک رائے شماری کے ذریعے پورے مقبوضہ کشمیر کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ گویا پاکستان کی جانب سے رائے شماری کے فیصلہ کا اعادہ ہوگا۔ دوسری بات جو کہی جا رہی ہے، وہ یہ ہے کہ کشمیر کی وحدت پر اثر پڑے گا۔ گلگت بلتستان کے انتظام کے حوالے سے 1949ء کے کراچی معاہدے میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو دو الگ انتظامات میں دیا گیا، جس سے کشمیر کی وحدت کو فرق نہیں پڑا تو اب کیا فرق پڑ سکتا ہے۔؟ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کی حد ریاست جموں کشمیر وہی ہے، جو ڈوگرہ راج کے وقت تھی، لیکن اگر آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ ایک کشمیری باشندے کی حیثیت سے تو میں کہوں گا کہ اجتماعیت کی بنیادیں 1947ء میں طے ہوگئی تھیں۔

وحدت کا معاملہ ہوتا تو پنجاب تقسیم کیوں ہوا جبکہ ان کی زبان ایک تھی۔ ہماری تو زبان بھی ایک نہیں ہے۔ وادی کشمیر کا بندہ جب پنجاب پہنچتا ہے تو گویا وہ پنجاب پہنچ گیا ہے۔ گلگت بلتستان جائیں تو وہ بلتی اور گلگت کی زبان بولتے ہیں، نہ وہ ہماری بات سمجھتے ہیں، نہ ہم ان کی بات سمجھتے ہیں۔ اردو نہ ہو تو ہم اپنی بات دوسرے کو سمجھا ہی نہیں سکتے۔ ایسے ہی ہماری ثقافت بھی ایک جیسی نہیں ہے، موسم مختلف ہیں۔ اس اعتبار سے یکسانیت کیا ہے ہمارے درمیان۔ گلگت بلتستان نے باقاعدہ بغاوت کی ہے کہ ہم کشمیریوں کے تحت نہیں رہیں گے۔ اب بھی فرض کریں کہ جموں کشمیر ایک ریاست بنتی ہے تو گلگت بلتستان کے لوگ اس ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائیں گے کہ ہمیں آپ کے ساتھ نہیں رہنا ہے۔ لہذا وحدت کی بنیاد کیا ہے، ماسوائے اس کے کچھ علاقہ ڈوگرہ خاندان کو مل گیا اور کچھ انھوں نے فتح کیا۔ یہ کوئی ایسا مقدس معاملہ نہیں ہے کہ کشمیر کی وحدت متاثر ہو رہی ہے۔ رائے شماری سب کی ہوگی۔‘‘ بحث تو طولانی رہی، تاہم اسی پر اکتفا کرتا ہوں، امید ہے یہ معروضات مسئلہ کشمیر کو سمجھنے اور سمجھانے میں ممد و معاون ہوں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔