ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کی بنیاد

Published by Murtaza Abbas on

milli-yekjehti-council-ka-ahya


تحریر: مرتضیٰ عباس
مارچ تا مئی2012 کچھ اہم ملاقاتیں اور ایک کانفرنس پاکستان کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ ان ملاقاتوں اور کانفرنس کے نتیجے میں تیس مذہبی جماعتوں اور اداروں کا اتحاد ملی یکجہتی کونسل دوبارہ سے فعال ہوا ۔ انہی ملاقاتوں میں سے ایک ملاقات کا احوال حسب ذیل ہے :
ملاقات میں بانی البصیرہ سید ثاقب اکبر ، البصیرہ خیبر پختونخوا کے مسئول سید محمد قاسم اور جماعت اسلامی کے رہنما صابر حسین اعوا ن اور راقم موجود تھے۔ ہم پشاور میں سابق امیر جماعت اسلامی داعی اتحاد امت قاضی حسین احمد کے گھر پر ناشتے پر مدعو تھے۔ سید ثاقب اکبر کا کچھ قدیمی تعارف قاضی صاحب مرحوم کو تھا ،باقی صابر بھائی اور قاسم بھائی نے کروادیا۔ باتوں کا سلسلہ شروع ہوا دونوں شخصیات کے دل میں امت کا درد مشترکہ طور پر موجود تھا۔سید ثاقب اکبر مرحوم نے محترم قاضی حسین احمد سے کہا کہ قبلہ محترم آپ جماعت کی امارت سے کئی سال کے بعد فراغت میں ہیں آج کل تو آئیں مل کر اب بڑا کام کرتے ہیں، قاضی صاحب نے یہ سنا تو ایک مرتبہ ثاقب صاحب کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور مسکرائے، انھوں نے آپ کے جذبہ اور نظریات کی داد دی اور اس طرح قرار پایا کہ اس کام کے لیے مزید ملاقاتیں کریں گے اور امت کے اتحاد اور وسیع تر مفاد کے لیے کام کریں گے۔
ملاقات میں پشاور کے نشتر ہال میں 27 مئی 2012 کو طے پانے والی بین الاقوامی کانفرنس "عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید” کی دعوت بھی دی گئی اور خطاب کے لیے شخصیات پر مشورہ بھی ہوا جو بعد میں البصیرہ کی میزبانی میں منعقد ہوئی۔ یہاں پر کانفرنس کا کچھ احوال بیان کرنا ضروری ہے:
پشاور میں منعقدہ ”عالم اسلام: روشن مستقبل کی نوید” کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمہ کے لیے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صوتحال میں اتحاد و وحدت ہی مسلمانوں کو مسائل و بحرانوں سے نجات دلانے کا واحد ذریعہ ہے۔
پشاور کے نشتر ہال میں منعقدہ اس بین الاقوامی کانفرنس سے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد(جنھوں نے کانفرنس کی صدارت فرمائی)، شیعہ علماء کونسل پاکستان کے قائد و سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی، مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل، جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر زبیر (موجودہ صدر ملی یکجہتی کونسل)، شیعہ علماء کونسل خیبر پختونخوا کے سربراہ علامہ رمضان توقیر، حزب اسلامی افغانستان کے ترجمان ڈاکٹر غیرت بحیر، مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید پراچہ نے خطاب کیا۔اس کے علاوہ جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلٰی ابتسام الہٰی ظہیر، آل پارٹیز حریت کانفرنس کشمیر کے کنوینئر غلام محمد فصیح، تحریک منہاج القرآن کے مرکزی رہنماء مسکین قادری، جامعہ نعیمیہ کے مہتمم راغب حسین نعیمی، وائس چانسلر جامعہ پشاور ڈاکٹر قبلہ ایاز، مرکزی متحدہ علماء محاذ کے صدر علامہ مرزا یوسف حسین، پاکستان مسلم لیگ کے رہنماء فقیر حسین بخاری، صدر رابطتہ الامہ حمید اختر نیازی، فلسطین فاؤنڈیشن کے سرپرست قاضی احمد نورانی اور مولانا محمد اصغر درس نے بھی انٹرنیشنل کانفرنس سے خطاب کیا۔اس موقع پر نشترہال شرکاء سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا، تمام مقررین نے اپنے خطاب میں امت مسلمہ کے اتحاد کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں موجود امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کے خاتمہ کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
یہ کانفرنس بھی ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا باعث بنی۔ قارئین کو تاریخ کی طرف لے جانا چاہتا ہوں۔
1995ء میں جب شیعہ و سنی فسادات اپنی انتہا تک پہنچے تھے تو اس وقت بھی علماء کے مختلف طبقات نے مل جل کر مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد اور علامہ سید ساجد علی نقوی کی قیادت میں بھی ”ملی یکجہتی کونسل “کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا تھا۔ اس اتحاد نے اپنے اختلافی مسائل اور تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک سترہ نکاتی "ضابطہٴ اخلاق” پر اتفاق کیا تھا۔ یہ اتحاد مختلف وجوہات کی بنا پر غیر فعال ہوگیااور پھر 2012 میں فرقہ وارانہ تنازعات وطن عزیز کی فضا ایک مرتبہ پھر خراب ہونا شروع ہوئی اور مذہبی اور دیگر گروہوں نے ایک دوسرے کی سرے عام جلسوں میں تکفیر کرنا شروع کردی تو ملک کے مختلف مکاتب فکر کے علماء اور مشائخ نئے سرے سے داعی وحدت امت قاضی حسین احمد اور ان کے ساتھ مخلص افراد کی دعوت پر اکٹھے ہوئے اور ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا اعلان کیا گیا۔25جماعتوں کے سربراہان اور نمائندوں نے اجلاس میں شرکت کی (جن کی موجودہ تعداد اب 30 تک جا پہنچی ہے) اور متفقہ طور پرانھوں نے اس تنظیم یا پلیٹ فارم ”ملی یکجہتی کونسل“ کے احیاء کا اعلان کیا۔
ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کے وقت یہ سوچا گیا تھا کہ اتحاد کے اس کام کو مضبوط بنیادوں پر کرنے کے لیے ایک”مرکز اسلامی“ قائم کیا جائے گا اور اس میں کام کرنے والوں کی اولین ترجیح خود ملی یکجہتی کے مقصد کا حصول ہو گا۔ اس میں کام کرنے والے افراد اپنے آپ کو سب سے پہلے مسلمان سمجھیں گے، اسی کو اپنا بنیادی تشخص قرار دیں گے اور اپنی مسلکی پہچان کو ثانوی درجے پر رکھیں گے۔
داعی اتحاد امت بانی البصیرہ علامہ سید ثاقب اکبر کا کہنا تھا کہ ملی یکجہتی کونسل تفرقہ اور تکفیر کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی رہی ہے اور آخرکار اس نے پاکستان میں تکفیریت کو شکست فاش سے دوچار کیا ہے۔ اکا دُکا شیطانی چیلے تو اب بھی مسلمانوں میں افتراق و انتشار کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور اپنی طرف سے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن جواب میں ملی یکجہتی کونسل بھی اپنا کردار ادا کرتی رہتی ہے اور عوام کو دین کے حقائق سے آگاہ کرکے اتفاق و اتحاد کا پیغام دیتی رہتی ہے۔
بانی ملی یکجہتی کونسل قاضی حسین احمد نے ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ کے حوالے سے فرمایا کہ ناموس رسالتؐ ، عظمت صحابہ ؓ، اہل بیت ؑسے بغض اور مشترکات کی تکفیر کرنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور اس پر تمام مسالک کا اتفاق ہے۔ مسالک کے درمیان اختلافات فروعی ہیں، جبکہ مشترکات کثرت سے ہیں۔ ان مشترکات پر اتحاد ممکن ہے۔ وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ "درد مشترک اور قدرے مشترک” پر سب اکٹھے ہو جائیں۔قاضی حسین احمد نے سید ثاقب اکبر کی کتاب امت اسلامیہ کی شیرازہ بندی کی تقریظ لکھتے ہوئے بیان کیا کہ
"ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم اسی لیے وجود میں لایا گیا ہے ۔ اس کونسل کا احیاء کرنے میں برادرم ثاقب اکبر صاحب کا اہم رول ہے۔ اس وقت وہ ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل ہیں اور امت کے اتحاد کے لیے ہمہ تن کوشاں ہیں۔”
قاضی حسین احمد رح اور علامہ سید ثاقب اکبر رح دونوں ہمیشہ امت کے اتحاد کے علمبردار رہے اور دونوں شخصیات کی فکر اور عمل کا مرکز بھی یہی رہا ہے کہ وطن عزیز میں مذہبی جماعتوں اور اداروں سے وابستہ افراد ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے وحدت کی لڑی میں ہمیشہ کے لیے پرویا جاسکے۔
سید ثاقب اکبر نے اتحاد امت کے لیے نہ صرف عملی کام کیا بلکہ اس حوالے سے ان کا علمی کام بھی موجود ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اتحاد امت پر ایمان رکھتے تھے، وہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں اتحاد امت پر قرآن و سنت کے حکم کے مطابق ایمان رکھتا ہوں۔ دونوں شخصیات جنھوں نے پاکستان میں اتحاد امت کی بنیاد رکھی اب ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کے نظریات اور ان کا لگایا ہوا پودا اب بھی ثمرات دے رہا ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کا پلیٹ فارم ہمارے لیے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے اور جب بھی اس ملک میں کوئی فرقہ واریت کو ہوا دینے لگتا ہے تو ہمارے قائدین فوری طور پر اسے روکنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارے لوگوں میں بھی شعور پیدا ہوچکا ہے وہ نفرتوں کا انکار کرتے ہیں اور تکفیر کرنے والے گروہوں کی نفی کرتے ہیں اور محبت بانٹنے والے افراد کے ساتھ ہیں۔