قرآن فہمی کےحوالےسےاصلاحی نقطہ نظر
تحریر : ڈاکٹر علی عباس نقوی
قرآن کریم میں تدبرو تفکرکی راہ میں ایک مسئلہ یہ پیش آتاہےکہ ہم قرآن کریم سےجوسمجھیں گےاسےکس حدتک اپنی زندگی میں لاگو کر سکتےہیں؟کیابنیادی طورپرایساممکن بھی ہے؟یاقرآن سےسروکاربس انہی افرادکوہےجنہوں نےاس کاترجمہ یاتفسیرکی ہے؟بطورمثال آپ سےپوچھاجاتاہےکہ مندرجہ ذیل آیت میں وضو کےفقہی احکام کےعلاوہ ایسےکونسے نکات پائےجاتےہیں اورحاصل کئےجاسکتےہیں جن کاتعلق ہماری زندگی سےہوسکتاہے؟
’’يَاأَيُّهَاالَّذِينَ آمَنُواإِذَاقُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُواوُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًافَاطَّهَّرُواوَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرأَوْ جَاءَ أَحَدمِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوامَاءً فَتَيَمَّمُواصَعِيدًاطَيِّبًافَامْسَحُوابِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ مَايُرِيداللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدلِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ‘‘
اےایمان والو! جب تم نماز کےلیےاٹھو تو اپنےچہروں اوراپنےہاتھوں کوکہنیوں سمیت دھو لیاکرو نیز اپنےسروں کااورٹخنوں تک پاؤں کامسح کرو،اگرتم حالت جنابت میں ہوتو پاک ہوجاؤ اوراگرتم بیمارہویاسفرمیں ہویاتم میں سےکوئی رفع حاجت کرکےآیاہویاتم نےعورتوں کوہاتھ لگایا(ہمبستری کی) ہوپھرتمہیں پانی میسرنہ آئےتو پاک مٹی سےتیمم کرو پھراس سےتم اپنےچہروں اورہاتھوں کامسح کرو،اللہ تمہیں مشقت میں ڈالنانہیں چاہتابلکہ وہ تمہیں پاک اورتم پراپنی نعمت مکمل کرناچاہتاہےشاید تم شکرکرو۔(سورہ مبارکہ مائدہ۔۶)
اگرآپ اس کایہ جواب دیں :اس آیت میں نماز کےلیےوضو کاطریقہ بتایاگیاہےجس کی تفصیل فقہی کتابوں میں آئی ہےاورہمیں ضرورت نہیں ہےکہ ہم اس کے بارےمیں مزیدکوئی غورو فکرکریں اوراس سےکوئی دوسراقانون حاصل کریں۔
اس جواب کامطلب یہ ہےکہ آپ کی نظرمیں قرآن کریم کی زندگی میں بس اسی حدتک مداخلت ہےجتنافقہی مسائل کےطورپربیان کیاگیا ہےاوران کی تفصیلات توضیح المسائل میں بیان کی گئی ہیں،آپ اس سےزیادہ زندگی میں قرآن کی مداخلت کےقائل نہیں ہیں۔لیکن بظاہرجو صحیح معلوم ہوتاہےوہ یہی ہےکہ اس آیت میں وضوغسل اورتیمم کےفقہی احکام کےعلاوہ بھی بہت کچھ ہے،جس کےلیےہرمسلمان کافرض بنتاہےکہ اس میں غورو فکرکرے۔قرآن پرعمل کی جب بات آتی ہےتو اس سےمرادصرف ان آیتوں پرعمل نہیں ہےجن میں فقہی احکام بیان کئےگئےہیں۔کتاب خدامیں تحقیق و تفکرکاتعلق صرف فقہی مسائل سےنہیں ہے۔
یہاں ہم یہ بات کریں گےکہ قرآن نےزندگی کاجودستورپیش کیاہےاسےقرآن سےحاصل کرنےکی ضرورت ہے۔
۱۔ زندگی میں قرآن سےاستفادہ کی وسعت
بعض لوگ جن کایہ مانناہےکہ’’قرآن کوزندگی کادستورالعمل نہیں بنایاجاسکتا‘‘،’’قرآن کےتقدس کواپنےروزمرہ کےمسائل کی بھینٹ نہیں چڑھاناچاہیے‘‘،’’ہرایک قرآن کوہاتھ میں اٹھاکراسےسمجھنےکی جسارت نہیں کرسکتا‘‘،اگران افرادکونظرانداز کیاجائےتو ہمارےسامنےیہ سوال اُبھرناہوتاہےکہ قرآن کوکس حدتک اپنی انفرادی اورمعاشرتی زندگی میں لاگوکیاجاسکتاہے؟
یہ بات بالکل صحیح ہےکہ قرآن سمجھنےکےلیےجن اصولوں کوبیان کیاگیاہےان کےمطابق،قرآن کوسمجھنےکےلیےوقت دئےبغیراوراس میں غورو فکرکئےبغیر،اس سےکچھ حاصل نہیں کیاجاسکتا،لیکن اس کامطلب یہ نہیں ہےکہ انسان قرآنی تعلیمات کوزندگی میں لاگو کرنےاورزندگی کوقرآنی بنانےکےلیےکوشش نہیں کرسکتاْ۔یہ بھی ایک واضح اصول ہےکہ قرآن ایسےافرادکےلیےنہیں ہےجواسےسمجھنےکی کوشش نہیں کرتےیاوہ افرادجوعلم و عمل کی راہ میں خشیت اورتوجہ نہیں رکھتےہیں۔
مسلمان جتناقرآنی تعلیمات سےقریب ہواہے،اس نےاتنااس بات کومحسوس کیاہےکہ قرآن کوزندگی سےالگ نہیں کیاجاسکتااورحقیقی مسلمان بھی اسی وقت ہواجاسکتاہےجب قرآن کوزندگی میں شامل کیاجائے،اورساتھ ہی اس نےیہ بھی درک کیاہےکہ قران کوسالم اورسعاتمندانہ زندگی کےلیےمحوربناناچاہیےیعنی جب بھی زندگی میں کوئی مسئلہ درپیش آئےتو قرآن کی طرف رجوع کیاجائے،لیکن جب ہم جائزہ لیتےہیں تو معلوم ہوتاہےکہ مسلمانوں کاطرزعمل ایسانہیں رہاہےاوراگراسلام کےبتائےہوئےطریقےپرعمل ہوتاتو یہ مشکل پیش نہ آتی۔
قرآن سےاستفادہ کےعنوان سےبعض لوگ پراکندہ یاجزئی طورپراس کی تعلیمات سےاستفادہ کرتےہیں یایوں کہاجائےکہ قرآن سےشرعی اور اخلاقی مسائل کےلیےفائدہ اُٹھایاجاتاہے۔لیکن اس نقطہ نظرمیں ایک عیب ہےاوروہ یہ ہےکہ اگرزندگی کی عمومی جہت اوراوامرو نواہی کاسرچشمہ قرآن کےعلاوہ کچھ اورہوگا،تو ایک شخص چاہتےہوئےبھی عملی طورپرحقیقی مسلمان نہیں ہوپائےگا۔اس لیےدوسرےبہت سےافراد کامانناہےکہ زندگی کےتمام شعبوں میں اسلام کےعمومی پروگرام کوقرآن سےحاصل کرناچاہیے۔
اس بناپرآیات و سورتوں کوسمجھنےکےلیےجملہ نگاری اورپیغام نگاری(گزارہ نویسی)کےمقصدکی دو جہتیں ہوسکتی ہیں۔ایک تو یہ کہ آیتوں اور سورتوں میں جوبھی آیاہےاسےکسی موضوع کومتعین کیے بغیرجانااورسمجھاجائےاوردوسری یہ ہےکہ آیات و سورتوں کےمضامین کوکسی خاص موضوع کومدنظررکھتےہوئےجانااورپرکھاجائے۔
زندگی کےمختلف موضوعات سےمتعلق قرآنی لائحہ عمل کےحصول کےلیےانسان کےاندردوسری جہت اورصلاحیت کاہوناضروری ہے۔اور اس صلاحیت کاتعلق اس بات سےہےکہ قرآن کوایک دستورکی حیثیت سےدیکھے(ان تمام صلاحیتوں کےساتھ جنہیں ہم نےاس سےقبل کتابوں میں بیان کیاہے۔)
۲۔ قرآن،دستورزندگی کوپیش کرتاہے
خدانےانسان کواس طرح خلق کیاہےکہ وہ ہدایت کےسفرمیں متعددکمالات کوحاصل کرتاہےاورانحراف کی شکل میں ان سےدورہوتا جاتاہے۔ تفکر، عقل، شکر، ذکر وغیرہ کافعال ہونااورکامیابی اورفوز و سلام تک رسائی ان میں سےکچھ کمالات ہیں۔ہدایت کےاس سفرمیں آگے بڑھنےکےلیےانسان کوایک ایسےجامع پروگرام کی ضرورت ہےجواس کی صلاحیتوں کوکارآمدبنائےاوراسےمقصدکمال تک نچائے۔
قرآن کامطالعہ کرنےکےبعدانسان اس نتیجہ تک نچ سکتاہےکہ یہ کتاب ایک ایساہی جامع پروگرام پیش کرتی ہےاورانسان کےاندراسےبنانے کاجذبہ بھی پیداکرتی ہے۔
قرآن کی ضرورت کوجتنازیادہ محسوس کیاجائےگا،اتناہی اس سےحقائق کوحاصل کیاجاسکےگا۔قرآن کےدستورزندگی ہونےکوسمجھنےکےلیے ایسےہی احساس کی ضرورت ہے۔اس احساس کی بنیادپراگرہم قرآن سےزندگی کادستورحاصل کرناچاہیں اوروہ ہماری حقیقی اورحیاتی ضرورت ہو،تو قرآن یقیناًاس سلسلےمیں ہماری راہنمائی کرےگا۔
۳۔ قرآن میں دستورزندگی پیش کرنےکاطریقہ
عام طورسےہم کسی بھی دستورکومقصد،طریقہ کاراورمراحل وغیرہ کی شکل میں دیکھناچاہتےہیں لیکن قرآنی دستورکایہ طریقہ نہیں ہےکہ اس کےایک حصےمیں مقصدبیان کیاگیاہو،دوسرےمیں مراحل پیش کئےگئےہوں اورتیسرےمیں طریقہ کار کاذکرکیاگیاہو۔
بلکہ جوشخص بھی قرآنی دستورزندگی حاصل کرناچاہتاہے،وہ اپنےمقصدکےمطابق قرآن کامطالعہ کرکےاسےحاصل کرسکتاہے۔
زندگی کےپروگراموں کوپیش کرنےکاراستہ چونکہ پائیدارحقائق کےبیان سےگزرتاہے،اس بناپرافراداپنےبدلتے ہوئےحالات کےمطابق، منظورنظرمواد کو قرآن سےحاصل کرسکتےہیں۔
مختصریہ کہ انہیں بہرصورت تمام حالات میں خودکواس کتاب سےہم آہنگ کرناہوگا۔دین کےحقائق پائیدارہیں اورحالات کوان مستقل امور سےہم آہنگ کرکے، زمان و مکان اورحالات کےساتھ مطابقت دےکر انہیں انجام دیاجاسکتاہے۔
۴۔ قرآن سےدستورالعمل حاصل کرنےکاطریقہ
انسان کی زندگی کےشعبےہرآن متعدداورمختلف ہوتےجاتےہیں،اس لیےقرآن کی طرف رجوع بھی اسی لحاظ سےزیادہ ہوناچاہیے۔ایسےمیں وہ افرادجوقرآن سےاپنی زندگی کادستورالعمل حاصل کرناچاہتےہیں،ان کےلیےیہ سوال نہایت اہم ہےکہ قرآن کریم سےدستورزندگی کیسے حاصل کیاجائے؟
ہمارےخیال سےزندگی کےجس میدان میں ہمیں جس علم کی ضرورت ہوتی ہے،اگراسی کوہم تھوڑاواضح کریں اورمزیدکھول کربیان کریں تو قرآن کی طرف رجوع کےابواب ہمارےلیےواضح ہوجائیں گے۔
یہ ابواب وہی اعمال،ضروری اعتقادات،کلی اورجزئی اہداف،اقداراورمعیارات ہیں جنہیں اگرجامع طورپراس طرح حاصل کیاجائےکہ زندگی کےہرمیدان میں بطورمعین قابل نفاذ ہوں تو اسے’’مکتب قرآن‘‘کانام دیاجائےگایااسےزندگی کےمختلف موضوعات میں قرآنی نقطہ نگاہ سےبھی یادکیاجاتاہے،بطورخلاصہ اس سےکسی بھی موضوع کےبارےمیں یہ واضح ہوتاہےکہ وہ کیاہے؟ کیوں ہے؟ اورکیسےہے؟
قرآن کریم سےان ابواب کےحصول کالازمہ یہ ہےکہ قرآنی موضوعات کوایک منظومہ کی نگاہ سےدیکھناچاہیے،کیونکہ قرآنی پروگرام متعدد موضوعات سےمل کروجودمیں آتاہے۔
مکتب چونکہ کتاب سےحاصل کیاگیاہےاس لیےقابل اعتمادہےاوراس کی طرف رجوع بھی کیاجاسکتاہے،اوربعدکی تفصیلات اورمعاملات بھی اس سےحاصل کئےجاسکتےہیں(جبکہ کسی بھی پروگرام میں صرف ایک عنصرپرتکیہ نہیں کیاجاسکتا۔)
اس بناپرقرآن کی ہرآیت سےمندرجہ بالاباتوں کےحصول کےلیےان میں غوردفکرکرتےہوئےان کاجائزہ لیاجاسکتاہےاورمنظورنظرمضامین کوحاصل کیاجاسکتاہے۔
ان سطوح کی طرف توجہ دیتےہوئے،شرعی احکام کی پابندی کےعلاوہ،ہماری زندگی میں پیش آنےوالےاوربھی سوالات ہیں جن کےجواب دینےکاقرآن عہدیدارہے۔بطورمثال قرآن مختلف معاملات کی انجام دہی کاانسان کےاندرجذبہ پیداکرتاہےاوران کےسلسلےمیں فکرو عقیدے کوارتقابخشتاہے۔اس بناپروہ آیات جواحکام شرعیہ کوپیش کرتی ہیں انہیں بھی فکرو عقیدےکوارتقادینےکی نگاہ سےدیکھناچاہیےاوران آیتوں و دیگرآیات کےتئیں بےتوجہی اورغفلت نہیں برتنی چاہیے۔
قرآن کےحوالے سےیہ نقطہ نگاہ ہمیں ایک ایسےمتعلم میں تبدیل کردےگاجوقرآن کی تمام آیات کواپنی زندگی اورزمانےسےمتعلق دیکھتاہے۔
اس بناپرقرآن کریم کی آیات میں مندرجہ بالاہرسطح کےمطابق غورو فکرکیاجاسکتاہےاورہرسطح کےمطابق،آیات سےپیغامات کوحاصل کیا جاسکتاہے۔
قرآن کےمطالعہ سےروگردانی کرنےسےہم مقصدیت،جہت داری اورحقیقی دینداری سےمحروم ہوسکتےہیں کیونکہ ایساانسان دین کے دستور کےصرف بعض اجزاکوحاصل کرکےاوراس کےکلی دستورکوچھوڑ کر،اصلی چیز سےغافل ہوجاتاہے۔
اگران ضرورتوں کومدنظررکھتےہوئےہم قرآن میں غورکریں،تو ہم زندگی کےمختلف شعبوں میں قرآن کےنقطہ نگاہ کوحاصل کرنےکی ضرورت کوسمجھ سکتےہیں۔
اس طرح قرآن کامطالعہ ایک مہارت ہے،یہ سرسری قرآن پڑھنےیاماحول سےمتاثرہوکرقرآن کی تلاوت سےمیسرنہیں آتا؛بلکہ یہ ایک علمی کام ہےجس کےلیےوقت دینےاورمحنت کرنےکی ضرورت ہے۔
قرآن کامہارت کےساتھ مطالعہ کرنےکامطلب ہرگز یہ نہیں ہےکہ قرآن کوایک خاص طبقےسےمخصوص کردیاجائے،بلکہ اس کامطلب یہ ہےکہ جب انسان کی ضروریات پیچیدہ،مختلف اورخاص ہوجاتی ہیں تو قرآن کامطالعہ بھی خصوصیت کےساتھ اورضرورتوں کےمیدان کونظرمیں رکھتےہوئے،خاص تمرکز کےساتھ انجام دینےکی ضرورت ہے۔
۵۔ قرآنی نقطہ نگاہ کےحصول کےلیےغلط تصورات سےدوری ضروری
جیساکہ ذکرہواقرآنی نقطہ ہائےنگاہ کوحاصل کرنےکامطلب،الٰہی مقصدکےمطابق زندگی کومنظم کرنےکی غرض سےمختلف دستورات کا حصول ہے۔
یہ نقطہ نگاہ،ان افرادکی نظریےسےسازگارنہیں ہےجوقرآن کےنقطہ نگاہ کوحاصل کرنےسےیہ مرادلیتےہیں کہ مختلف انسانی علوم اور موضوعات میں پیش آنے والے سوالات کےجوابات کوقرآن میں تلاش کیاجائےجبکہ یہ معلوم نہیں کہ ان سوالات کامقصدکیاہےاور کس مقصدکےتحت انہیں پیش کیاگیاہے۔
اسی لیےاگرکوئی قرآن مجیدسےکمسٹری،فزکس اوراس طرح کےموضوعات کوحاصل کرناچاہتاہےتو اس کےلیےبہتریہی ہےکہ وہ یہ کام کرنےکےبجائےان طریقوں اوراصولوں کوحاصل کرنےکی کوشش کرےجنہیں قرآن مجیدنےانسان کی شخصیت،فکر،عقل اورایمان کی اصلاح کےلیےپیش کیاہے،پھرانہی کےمطابق زندگی بسرکرےاوراپنی زندگی کی راہ و روش کوبھی قرآن کےمطلوب انسان کےمطابق قراردے۔اس مبارک اقدام کےنتیجےمیں انسان مختلف مسائل سےروبرو ہونےکی صورت میں اپنی پریشانیاں اورضرورتوں کےمطابق فزکس اورکمسٹری کےمسائل میں بھی خدائی الہام تک نچ جائےگااورعالم غیب کےحقائق اس کی ضرورت اورظرفیت اورالٰہی مصلحتوں کےمطابق،اس کےلیےواضح ہوجائیں گےاوروہ اپنی کھلی اورفعال عقل کےذریعہ مسائل کاجائزہ لینےاورانکی چارہ جوئی میں کامیاب ہوسکےگا۔
اس سلسلےمیں ایک مشکل یہ بھی ہےکہ اسلام کےسب سےاہم سرچشمےکےعنوان سےقرآن مجیدکےنقطہ نگاہ کوجاننےکےلیے،لےانسانی نقطہ نگاہ (چاہےمغربی ہویامغربی نہ ہو،البتہ آج کل چونکہ علم کاعلمبردارمغرب کوسمجھاجاتاہےاس لیےاکثرمغربی نقطہ نگاہ کوپیش کیاجاتاہے) کوسامنےرکھاجاتاہےاورقرآن کریم کی آیات اورائمہ معصومین کی احادیث میں اسی کی تائیدکےلیےمختلف قرائن اوردلائل تلاش کئےجاتے ہیں۔لیکن اس کی اس تحقیق کوزندگی کےمسائل سمجھنےکاعمل نہیں کہاجاسکتا۔ایسےکاموں میں قرآن کریم یااحادیث معصومین انسانی نقطہ نگاہ کی تائیدکریں یانہ کریں،کبھی بھی قرآن کریم یاکلام معصوم پرمبنی نقطہ نگاہ کوپیش نہیں کیاجاتا۔یہاں ہمیں اس بات کی طرف توجہ دیناہوگی کہ ہم زندگی کےمسائل میں کس طرح قرآن کریم اورکلام معصومین کی بنیادپرعلمی نظریات اورلائحہ عمل کوپیش کرنےکےعلمبرداربن سکتےہیں،جبکہ ہم دیکھ رہےہیں کہ مختلف نظریات اورافکارکوقرآن و احادیث کی روشنی میں پیش کیاجارہاہے۔
۶۔ تدبرقرآن کی کتابوں میں قرآن کریم سےدستورالعمل حاصل کرنےکی تربیت
مندرجہ بالااہداف کےحصول کی خاطرقرآن میں تدبرکےطریقےنامی مجموعہ کی تالیف میں مندرجہ ذیل توانائیوں کالحاظ کیاگیاہےجن میں سےکمترین سطح کی توانائی یعنی قرآن سےظاہری مفاہیم کوسمجھنےسےلےکراعلیٰ ترین سطح یعنی حاصل شدہ مفاہیم کونظام مندکرنےکی توانائی شامل ہے:
۱۔ آیات اورسورتوں کوسمجھنےکی صلاحیت اوران سےخلاصہ نویسی کی قابلیت: اس توانائی کےسلسلےمیں کلی طورپرقرآن میں تدبرکےطریقےنامی دس جلدی مجموعہ میں کام ہواہے۔اس میں ہرجملہ زندگی کےکسی حقیقی معیارکوبیان کرتاہےاوراس میں کسی نہ کسی الٰہی سنت کی خبردی گئی ہے۔
۲۔ آیات اورسورتوں کےتجزیہ و تحلیل کی صلاحیت:یہ توانائی قرآن میں تدبرکےطریقےنامی دس جلدی مجموعہ میں سورتوں کےمطالعہ اور اپنائے گئے طریقوں سےحاصل ہوگی۔اس توانائی کومندرجہ ذیل تین محورمیں خلاصہ کیاجاسکتاہے:
ژ سورتوں اورآیتوں میں موضوعات کوبیان کرنےکےلیےقرآن کےقالب سےآگاہی
ژ سورہ کےتمام موضوعات سےآشنائی حاصل کرتےہوئےاوران کےباہمی تعلق کوجانتےہوئے،سورہ سےکسی موضوع کوحاصل کرنےکی صلاحیت۔
ژ آیتوں کےمقصدکوسمجھنااوران کامتعلقِ بحث موضوع سےرابطہ جاننا،جواس بات کاباعث بنےگاکہ اس موضوع سےمتعلق جوبھی لو بیان کیاگیاہےوہ واضح ہوجائےگا۔
ژ موضوع کےبارےمیں جومطالب حاصل کئےگئےہیں ان کی گہرائی کےساتھ تحلیل و تجزیہ کرنا،جوموردنظرتحقیق کےبارےمیں قرآنی نقطہ نگاہ واضح طورپرمعلوم ہوگا۔
۳۔ کسی بھی موضوع کےبارےمیں تحقیق کاطریقہ: قرآن کےکسی بھی سورہ میں کسی موضوع کوسمجھنےکاعمومی طریقہ کیاہوگااسےقرآن میں تدبرکےطریقےنامی مجموعہ کےذریعہ سیکھاجاسکتاہے۔
۴۔ قرآن میں تدبرکےدو طریقوں کی شناخت:اس بارےمیں’’کلام کوعملی جامہ پہنانا‘‘نام کی کتاب کےلےاوردوسرےحصوں کےلےدو اسباق میں بحث کی گئی ہے۔اسی طرح دوسری کتابوں میں کسی حدتک اس بحث کوچھیڑاگیاہے۔جیسے’’علم کےحصول کاطریقہ‘‘نامی کتاب۔
۵۔ مسئلہ کی بنیادپرقرآن کی طرف رجوع کاطریقہ:ایک کتاب’’حصول یقین کےلیےکتاب کی طرف رجوع کاطریقہ‘‘بھی ہےجس کی طرف اس تعلیمی پروگرام میں توجہ ضروری ہےتاکہ سوال کی بنیادپرکتاب خداکی طرف رجوع کرنےاورقرآن میں اس سوال کےجواب کوتلاش کرنےکاطریقہ سمجھ میں آسکے۔یہ کتاب قرآنی مضامین کےاستخراج میں کافی مددگارہے۔
۶۔ زندگی کےمختلف شعبوں اورقرآن کےمتن میں رابطہ اورحاصل شدہ مضامین کونظام مندکرنےکی صلاحیت : وہ چیزیں جوقرآن کوزندگی میں عملی جامہ نانےکےلیےضروری ہیں،’’متن سےجامہ عمل نانےتک‘‘نام کےمجموعہ نیز’’عملی جامہ نانےکےطریقے‘‘نامی مجموعہ میں بیان کی گئی ہیں،اس مقصدکی تکمیل کرتی ہیں۔ان کتابوں میں زندگی کےمیدان سےقرآن کریم کی طرف رجوع کےطریقوں اورقرآنی اہداف کوزندگی میں عملی جامہ نانےکےطریقوں پرگفتگوکی گئی ہے۔
۷۔ زندگی کےموضوعات کےبارےمیں قرآنی نقطہ نگاہ جاننےکواہمیت دینا: اسی مجموعہ کی موضوعاتی کتابیں جوسورتوں میں عملی کام کانتیجہ ہیں، اس میں کافی مددگارثابت ہوسکتی ہیں۔
Share this content: