×

دیگر نظریات سے قرآن کے مقایسہ کی روش کی اصلاح

WhatsApp Image 2025 05 13 at 3.04.59 PM

دیگر نظریات سے قرآن کے مقایسہ کی روش کی اصلاح

دیگر نظریات سے قرآن کے مقایسہ کی روش کی اصلاح

تحریر: ڈاکٹر علی عباس نقوی

سورتوں اورآیتوں کےسلسلہ میں تجزیہ و تحلیل کےدوران ایک مشکل جوپیش آتی ہےاوریہ ممکن ہےکہ انسان اس مشکل کواچھی طرح محسوس بھی نہ کرسکےاوراس سےدوچاربھی رہےوہ قرآن سےاس کےفکری نظام کی تطبیق ہے۔
مثلاً: انسان کےبارےمیں سورہ بلدکی اس آیت سےکیاسمجھتےہیں؟
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ:ہم نےانسان کومحنت و مشقت میں رہنےوالابنایاہے۔
اگرجواب یہ ہو:
* میں نےاسلامی مدارس کی ایک بہت بڑی شخصیت سےسناہےان کی کتاب میں پڑھاہےکہ سختیاں اٹھاناانسان کی
طبیعت میں نہیں ہے۔اس لیےآیت کامطلب سختی اٹھاناتو ہرگز نہیں ہوسکتا۔
* انسان سختیاں اٹھانےکےلیےپیداکیاگیاہےجیساکہ دوسرےمکاتب فکربھی اس کی طرف اشارہ کرتےہیں
(جب کہ آیت رنج اٹھانےکےبارےمیں نہیں ہے)
ان مثالوں سےہم محسوس کرسکتےہیں کہ یہاں پرقرآن پڑھنےوالاقرآن کی بیان کردہ بات اورجوکچھ اس نےپہلےسےجان رکھا ہے سن رکھاہےیاپڑھ رکھاہےکےدرمیان موازنہ کررہاہےاوراسی موازنہ کی بنیادپرطےکررہاہےکہ کیاغلط ہےکیاصحیح ہے۔
جبکہ ہمیں چاہیےکہ جب ہم قرآن میں تدبرکریں اس کی آیات میں غورو فکرکریں تو سب سےپہلےمرحلہ میں ہم خودقرآن کی بات کو سمجھیں۔اس سےکسی دوسری بات جوسن رکھی ہےیاپڑھ رکھی ہےسےمقایسہ نہ کریں۔جب ہم قرآن کریم کامقصودسمجھ لیں تو پھراس کےبعداگرضرورت محسوس ہوتو دوسروں کےکلام کااس قرآن کریم سےمقایسہ کریں۔
اگرکوئی قرآن کوسننےسمجھنےسےپہلےہی دوسروں کےکلام کاقرآن سےمقایسہ کرےیااس سےارتباط کی راہیں تلاش کرےتو وہ بہت بڑی فکری غلطی کررہاہے۔
قرآن اورتفکرقرآن کی بارگاہ میں طہارت ذہنی کےساتھ کچھ حاصل کرنےکےلیےآنابےانتہاضروری ہےاس لیےذہن کاتزکیہ اوراس کی مکمل صفائی ضروری ہےاورجب انسان صحیح راہ سےبارگاہ قرآن میں آئےگاتو تفکرکےدروازےاس پرکھلیں گےاوراعجاز قرآن کےنئےنئےدریچہ اس کےذہن پر واہوں گے۔

 

قرآن سیکھنےمیں سب سےبڑی اوراہم رکاوٹ جلدبازی ہے۔جلدبازی کی خرابیوں میں سےایک خرابی یہ ہےکہ انسان کلام خدااورکلام غیرخداکوبغیرسمجھےہی آپس میں
مرتبط کرنےلگتاہے۔
بعض لوگ جیسےہی کسی آیت کامطالعہ کرتےہیں اس کےکسی ایک جملہ یالفظ یاکسی عبارت کودیکھتےہیں فوراً دوسرےنظریات کی طرف ان کاذہن منتقل ہوجاتا ہے جس کووہ اپنےگمان میں قرآن جیساسمجھتےہیں اورپھروہ اس آیت کواس نظریےسےجوڑنےلگتےہیں۔نتیجتاً میں پروردگار کےاصلی مقصدسےدورہوتےچلے جاتےہیں۔ یہ خطاکبھی سیکھتےوقت کبھی استنباط شدہ مطالب کولکھتےوقت تو کبھی مجموعی پیغام کی تنظیم و ترتیب کےوقت نظرآتی ہے۔
آیات اورسورہ کےمطالعہ کےوقت توجہ صرف قرآنی مطالب کی طرف مرکوز رہنی چاہیےاوراپنی فکری ہدایت کےلیےصرف قرآن کواپنا ہادی اوررہنمابنانا چاہیے اور خودقرآن سےہی استخراج مطالب کی کوشش کرنی چاہیے۔
انسان اس طرح سےخلق ہواہےکہ اس کےاختیاری اعمال اس کےمجموعی افکارکاحاصل ہوتےہیں اوراس لیےانسان کےافکارہی اس کےاعمال کامقدمہ بنتےہیں اگرافکارمیں ذرہ برابربھی نقص ہواتو اعمال میں اس نقص کی جھلک دیکھنےکوملےگی،اس لیےاعمال صالحہ کےلیےافکارصالحہ کی ضرورت ہے۔
اورافکارکی صحت کےلیےقرآن مجیدبہترین مرجع ہے،اس لیےقرآن کی طرف رجوع کرنےسےپہلےذہن کاادھرادھرکی بڑی چھوٹی تمام باتوں سےخالی ہونا ضروری ہےاورخانہ ذہن میں صرف قرآن کریم کی آیات کاچراغ جلانالازمی ہے۔
ان باتوں سےفکری تصفیہ کی اہمیت سمجھ میں آتی ہے۔ذہن کومذکورہ مقایسہ سےمحفوظ رکھنےکی ضرورت واضح ہوتی ہے۔ذہن کواس بےجاموازنہ کی آفت سےمحفوظ رکھنےکے لیے ہمیں دو کام کرناہوں گے۔
ایک : دامن ذہن کوآیات کےسلسلہ میں تمام سنےسنائےفریضہ سےپاک و صاف کرنا۔
دوسرا: ہرروز خودکوزیادہ سےزیادہ قرآن کےمخصوص لہجےاورانوکھےانداز بیان سےنزدیک کریں۔
۱۔ غیرمناسب مفروضوں سےذہن کو خالی کرنا
جب انسان اپنےذہن کوپہلےسےہی دوسرےبہت سے مفروضوں کی آماجگاہ بناکےقرآن کی بارگاہ میں آتاہےتو اکثرایساہوتاہےکہ وہ اپنی سمجھ اوران مفروضوں کوقرآن کانام دےدیتاہے۔
اس آفت سےبچنےکےلیےقرآن کےحضورخالص ہوکرآناہوگاتدبرکےلیےہمیں اپنےذہن کوہرطرح کی تقاریر،نظریات، مفروضوں اورکتابوں وغیرہ سےخالی کرکےقرآن کےمفاہیم کےحوالےکردیناہوگا۔
ہمیں قرآن پراطمینان اوریقین ہوناچاہیےاوریہ چیز ہمیں کلام خداکوسمجھنےمیں مدددیتی ہے۔اس یقین اوراطمینان کےسبب انسان غلطی سےبھی دوسرےنظریات کو قرآن پرترجیح دینےسےبچ جاتاہے۔اس موضوع پرہم گزشتہ فصل میں گفتگو کرچکےہیں۔
۲۔ کلمات قرآن کریم کےحروف سےآشنائی
ہرمتن کچھ کلمات سےتشکیل پاتاہےاوراس متن کولکھنےوالاان کلمات کواپنی علمی سطح کےاعتبارسےانتخاب کرتاہے۔متکلم یامصنف اپنےعلم کےاعتبارسےجتنا جتنا بلند ہوتاجائےگااس کےکلمات کےانتخاب میں پختگی آتی جائےگی۔
واضح ہےکہ قرآنی متن کےبارےمیں یہ بات اپناکامل ترین مصداق رکھتی ہے۔چنانچہ قرآنی عبارتوں کاموجدلامتناہی علم و حکمت والا ہے۔اس کےمنتخب کردہ کلمے اور جملے کاکوئی متبادل قابل تصورنہیں۔دوسراکوئی بھی متن اس سےموازنہ کےلائق نہیں ہے۔اس بنیادپرقرآن کاہرکلمہ اپناممتاز انداز رکھتاہےاورقرآن مخصوص ہےجس کوسمجھناپہچانناضروری ہے۔اس راہ میں خودقرآن ہی اپنےالفاظ کی بہترین وضاحت وتشریح کرنےوالاہے۔قرآن کااپنایہ خاص طریقہ عربی لغت،خودقرآن کریم اورکبھی کبھی روایات کی روشنی میں سمجھاجاتاہے۔اس لیےلازم ہےکہ لغت سےرجوع کےساتھ ساتھ قرآن کامسلسل مطالعہ کیاجائےتاکہ قرآن میں اس لفظ کےزیادہ غالب معنی کوحاصل کیاجاسکے۔اس سلسلہ میں کسی استاد سےمددلی جاسکتی ہے۔
کلمات کےمخصوص معنی کی طرف توجہ،انسان کوکلمات کی ترکیب کےذریعہ پیداہونےوالےخاص معنی اورتعبیرتک پہنچاسکتی ہےاور ان تعبیرات اوراصطلاحات کاعلم آیات میں مسلسل تفکراورباربارقرآن کریم کی طرف رجوع سےحاصل ہوتاہے۔
۳۔ قرآنی موضوعات کےباطنی رابطہ پرتوجہ

قرآن میں متعددموضوعات بیان ہوئےہیں اوران کےدرمیان باہمی رابطہ وتعلق کاایک وسیع سلسلہ ہےان تک رسائی صرف اور صرف ایک ہی صورت میں ممکن ہےاوروہ ہےقرآن کریم سےانس و لگاؤ۔قرآن سےمانوس ہونےکےبعدہی انسان موضوعات قرآن کےدرمیان موجودنظم کاعرفان حاصل کرسکتاہے۔
موضوعات کےدرمیان پایاجانےوالایہ نظم کوئی پیچیدہ یامبہم چیز نہیں ہےبلکہ اس نظم کواس لیےرکھاگیاہےتاکہ موضوعات کے بارےمیں ایساصحیح اورکامل علم حاصل کیاجاسکےجس کومیدان عمل میں بھی اپنایاجاسکے۔اگرایسانہ ہوتو زندگی کےمسائل ان موضوعات سےمتعلق نہیں ہوسکیں گے اورنہ ہی کسی مسئلہ کےسلسلہ میں کوکامل بات کہی جاسکتی ہےاورنہ ہی بہترطریقہ سےعمل کیاجاسکتاہے۔
۴ ۔ ایک سورہ اوردوسری تمام سورتوں میں کسی ایک موضوع پرتوجہ
بعض لوگوں کامانناہےکہ قرآن کاکوئی بھی چھوٹاساحصہ پڑھناانسان کی زندگی کی اصلاح کےلیےکافی ہے۔یہ بات اگرچہ عظمت قرآن پرنگاہ کرتےہوئےصحیح ہےاوربہت سےلوگ ایسے ہیںجنھوں نےاس طرح سےہدایت پائی بھی ہےاورسعادت ابدی تک رسائی بھی حاصل کی ہےلیکن اگراس کےمعنی یہ ہیں کہ انسان قرآن کےدیگرتمام حصوں سےبےنیاز ہوجاتاہےتو یہ بات بالکل غلط ہےکیونکہ ایساانسان جس نےقرآن کےایک حصہ کوپڑھااورہدایت حاصل کی ابھی بھی دوسری ان تمام ہدایات و کمالات سےمحروم ہےجس کوپروردگارنےقرآن کریم کےدوسرےتمام حصوں میں رکھاہے۔پروردگارعالم نےقرآن کوایک مکمل کتاب کی شکل میں بھیجاہےاس کی تمام آیتیں،ساری سورتیں مجموعاًایسےعلم کی حامل ہیں جس پرعمل سےانسانی زندگی سنورتی ہے۔اس لیےقرآن کریم کی کسی ایک آیت،کسی ایک سورہ میں یاکسی ایک موضوع پرغورو فکرکرنےاوربقیہ سےبےتوجہ رہ کرانسان اپنی حقیقی ضرورتوں،ان تک رسائی کے راستوں بلکہ کسی ایک موضوع کی بھی کامل معرفت حاصل نہیں کرسکتاہے۔
خداوندعالم نےبعض موضوعات کومختلف سورتوں میں الگ الگ انداز بیان میں واضح کیاہےاوراس طرح وہ موضوع کامل طور پر دقیق اورگہرائی سےبیان کیاگیاہے۔اس لیےکسی ایک سورہ میں کسی ایک موضوع پرغورو فکرکرنااوربقیہ سورتوں سےخودکوبےنیاز سمجھناانحراف کاسبب بھی بن سکتاہے۔
۵۔ موازنہ سےنئےموضوع کومکمل سمجھنا
کبھی کبھی علمی گفتگو اورخاص طورپرنظری بحثوں میں اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہےکہ کسی موضوع کےمتعلق جوکچھ قرآن نےبیان کیاہےاسےکسی ایک خاص مکتب فکریاکسی شخص کےتناظرمیں دیکھاجائےاورموازنہ کیاجائےلیکن یہ موازنہ اسی وقت انجام دیناچاہیےجب اس موضوع کوپورےقرآن سےاچھی طرح سمجھ لیاجائے۔
۶۔ قرآن کےمخصوص اسلوب بیان کوسمجھنےکےلیےایک مجوزہ لائحہ عمل
قرآن سےدائمی انس،قرآن میں باربارتدبرکرنےسےحاصل ہوسکتاہے،مطالعات قرآنی کےعمیق مطالعہ کےلیےایک معین اور مسلسل لائحہ عمل کاہوناضروری ہے۔
تدبرقرآن کی تعلیم دینےوالی کتابوں کےمطالعہ کےدوران مندرجہ ذیل طریقوں کواپناکرانسان اپنی زندگی کےمختلف موضوعات کےمتعلق قرآنی نظریہ کواخذ کرسکتاہےاوراچھی طرح سمجھ سکتاہے۔
۱۔ اپنی زندگی میں مطالعہ قرآن کی عادت:ہرمسلمان کوچاہیےکہ وہ قرآن سےانس کواپنی زندگی کاجزء قراردے،مطالعہ قرآن کی ابتدائی کتاب میں اس کی صحیح راہ و روش بیان کی گئی ہیں۔
۲۔ سورہ کےمطالب ومضمون کوسمجھنےاوراس کےپس منظرکے صحیح تجزیہ نیز اپنےذہنی مفروضوں سےبچنےکاطریقہ : اس موضوع کےمتعلق جلددوم کی پانچویں اورچھٹےسبق میں تفکرکی صحیح راہ و روش کوبیان کیاگیاہے۔
۳۔ مفردات اورالفاظ قرآن کاگہرامطالعہ تاکہ قرآن کےمطالب پرگہرائی سےنظرکی جاسکےبالخصوص سورتوں میں انکاخاص معنی اور استعمال۔
۴۔ قرآنی موضوعات کی خصوصیات اورباریکیوں کوسمجھنےکےلیےسورتوں کاتفصیلی مطالعہ: تدبرکی راہ و روش سکھانے والی کتب کےمطالعہ کےدوران بہت سےسورتوں کاگہرامطالعہ انجام پاجاتاہے،جس کےنتیجہ میں دوسری سورتوں کےصحیح اوردقیق مطالعہ کی روش سمجھ میں آجاتی ہے۔
۵۔ قرآنی سورتوں کےذریعہ اسلامی عقائدتک رسائی: تدبرکی راہ و روش سکھانے والی کتب کےمطالعہ کےدوران سورتوں میں بیان شدہ موضوعات کی بنیادپرقرآن و عترت کی بتائی ہوئی توحید،ہستی شناسی،انسان شناسی،اورجامعہ شناسی کےمبانی کامطالعہ بھی ہوجاتاہے۔بہت سےلوگوں کودیکھا گیا ہے کہ وہ
ان موضوعات کی تعریف کہیں اورسےبیان کرتےہیں اوران کواسلامی عقائدکاعنوان دےدیتےہیں حالانکہ قرآن ان بنیادی عقائدکو بیان کرنےکاحقیقی اورسب سےبہترین منبع و مصدرہے۔قرآن کاہرسورہ اپنےموضوعات کی تشریح و توضیح کےساتھ ہم کوان صحیح عقائدسے آشنا کرتا جاتا ہے جن پرایمان لاناہرمسلمان پرلازم ہے۔
۶۔ قرآنی ابواب کاتفسیری مطالعہ :آیات کےبارےمیں صحیح اورغلط نتیجہ کی تفہیم و تشخیص اورقرآن کاایک جامع تجزیاتی نقطہ نظرحاصل کرنےکےلیے تفسیر المیزان کا مطالعہ کافی مفیدثابت ہوسکتاہے۔
حضرت علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نےتفسیری گفتگو کےدوران اسلام کےبنیادی نظریات کےبارےمیں قرآنی نقطہ نظرسےبحث کی ہے۔اگرکوئی اس کاعمیق مطالعہ کرےتو قرآن اوردین شناسی کےمیدان میں تحلیل و تجزیہ کی زبردست صلاحیت حاصل کر سکتاہے۔ تدبرقرآن کےطریقوں کی کتب میں مطالعہ کرنےوالےان موضوعات سےواقف ہوتےجاتےہیں جن پرعلامہ نےاپنی تفسیرمیں گفتگو کی ہے۔وقت گزرنےکےساتھ ان مطالب پرعبورحاصل ہوتاجاتاہے۔ان موضوعات پرتسلط کےلیےمسلسل اورمنظم مطالعہ کی ضرورت ہے۔

 

Share this content: