دنیا میں کیا چل رہا ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
ویسے تو خدا کی بنائی ہوئی اس کائنات میں ہر وقت کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے، تاہم بعض واقعات ہماری زیادہ توجہ حاصل کر لیتے ہیں اور ان کے متعلق ہماری دلچسپی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ایران اور امریکہ کے مابین ہفتے کو مذاکرات ہونے جا رہے ہیں۔ اب یہ مذاکرات بلواسطہ ہیں یا بلا واسطہ اس بارے میں ابھی تک کوئی درست معلومات موجود نہیں ہیں۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات بلاواسطہ ہیں، یعنی ایران اور امریکا ایک دوسرے سے بات کریں گے جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ عمان کو بطور ثالث رکھا گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں خوش آئند بات یہ ہے کہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ اپنی حلف برداری کی تقریب کے دن سے ایران پر دباؤ کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ انھوں نے ایران پر اقتصادی پابندیاں لگائیں، مشرق وسطیٰ میں ایران کے خلاف فوجی گھیرا تنگ کیا، اپنے جنگی وسائل کو ایران کے اردگرد جمع کرکے یہ تاثر دیا کہ اگر سفارتکاری اور سیاست میں ناکامی ہوئی تو فوجی کارروائی بدیہی ہے۔
امریکا کا واضح موقف ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں۔ ایران متعدد مواقع پر وضاحت کرچکا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار نہیں بنانا چاہتا، اس کی ایٹمی ٹیکنالوجی پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ ایران سمجھتا ہے کہ امریکا کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی ملک کی سائنسی اور علمی پیشرفت میں رکاوٹ پیدا کرے۔ عالمی ایٹمی ایجنسی کے سربراہ گروسی بھی کہہ چکے ہیں کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں ہیں، تاہم ایران نے یورینیم کو اس حد تک افزودہ کر لیا ہے کہ ایٹمی ہتھیار بنانا اس کے لیے مشکل نہیں۔ ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے علاوہ اس کی میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی مغربی قوتوں بالخصوص اسرائیل کے لیے ایک ڈروانا خواب ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے امور میں ایران کی حیثیت، لبنان، یمن، عراق اور فلسطین میں ایران کا اثر ورسوخ بھی درج بالا ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
ایران فقط دعووں تک محدود نہیں ہے۔ اس نے گذشتہ برس اسرائیل پر دو مرتبہ میزائل اور ڈرونز کے ذریعے حملے بھی کیے، امریکہ کے اڈے عین الاسد پر ایرانی میزائل گر چکے ہیں۔ اسرائیل کے گرد آگ کا گولہ ایرانی کاوششوں کا ہی حصہ ہے۔ اگرچہ اب اس گولے کی حدت پہلے جیسی نہیں رہی، تاہم اب بھی گولہ موجود ہے۔ لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی اور عراق میں حشد الشعبی موجود ہیں، جو اسرائیل کے وجود کے لیے ایک مسلسل خطرہ ہیں۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ حزب اللہ اور حشد الشعبی سے ہتھیار لے لیے جائیں، وہ حوثیوں پر حملہ آور ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے دنیا میں ایک اقتصادی جنگ کا سا ماحول پید کر دیا ہے۔ روسی نشریاتی ادارے آر ٹی کے پروگرام کراس ٹاک میں موجود تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کا دنیا پر ٹیرف کا اطلاق گلوبلائزیشن کا خاتمہ ہے، گذشتہ سو سال میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔
مشرق سے مغرب تک تمام سٹاک مارکیٹیں مندی کا شکار ہیں۔ سرمایہ کار اپنے کاروبار کو از سر نو مرتب کر رہے ہیں۔ معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ اس معاشی اقدام کے سب سے برے اثرات چین پر ہوں گے۔ چین نے اگرچہ جوابی ٹیرف کا اطلاق کیا ہے، تاہم اس سے تناؤ میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوگا۔ دنیا بھر کے سرمایہ کار متبادل منڈیوں کی تلاش میں ہیں۔ کئی ایک ممالک نے ٹیرف پر مذاکرات کے لیے امریکی حکام سے رابطہ کیا ہے۔ ٹرمپ کے اس اقدام کے جہاں معاشی اثرات ہیں، وہیں اس کے سیاسی اثرات بھی ہیں۔ ٹرمپ کا یہ اقدام ایک تیر سے کئی اہداف حاصل کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، امریکہ دنیا بھر سے آنے والی مصنوعات کی ایک مستحکم منڈی تھی، جہاں حکومتی ٹیرف کم ہونے کے سبب سرمایہ کاروں کو کم لاگت پر بنی ہوئی اشیاء پر زیادہ زر مبادلہ حاصل ہوتا تھا۔ اب ٹیرف میں اضافہ کے ساتھ اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگا۔ سرمایہ کاروں کا منافع بھی کم ہوگا۔ اشیاء کی لاگت بڑھنے سے ان کی مانگ میں بھی کمی آئے گی۔ امریکی مصنوعات جو نسبتاً سستے داموں دستیاب ہوں گی، ان کی فروخت میں اضافہ ہوگا۔ امریکہ میں نوکریوں، سرمایہ کاری میں اضافہ ہوگا اور اکثر کمپنیاں کوشش کریں گی کہ وہ سستی اشیاء بنانے کے لیے امریکہ میں ہی اپنے پیداواری پلانٹس لگائیں۔ وہ اشیاء جن کے پلانٹس امریکہ میں لگانے ممکن نہیں، مذاکرات کے ذریعے ٹیرف کی مد میں امریکہ سے چھوٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکہ معاشی مراعات کے بدلے سیاسی اہداف کو حاصل کرے گا۔ وہ اپنی معاشی طاقت کو سیاسی مقاصد کے لیے بروئے کار لائے گا۔ امریکا دنیا سے 3.2 ٹرلین ڈالر کی مصنوعات ایکسپورٹ کرتا ہے۔ چین کی امپورٹس 16.5 فیصد ہیں، جن کی لاگت تقریباً 536.3 بلین ڈالر بنتی ہے۔ میکسیکو 454.8 بلین ڈالر، کینیڈا 436.6 بلین ڈالر، جاپان 148.1 بلین ڈالر اور جرمنی 146.6 بلین ڈالر۔ سروسز کی مد میں امریکا تقریباً 680.3 بلین ڈالر کی مصنوعات خریدتا ہے۔ اگر ان تمام امپورٹس پر ٹیرف یا ٹیکس وصول کیا جائے تو امریکی حکومت کے وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ فوری طور پر دنیا کے پاس امریکی منڈی کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے، حل یہی ہے کہ امریکی حکام سے بات کی جائے اور ان سے ٹیرف کی مد میں چھوٹ حاصل کی جائے۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں امریکہ از سر نو دنیا میں اپنی طاقت کو منوا سکتا ہے اور اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرسکتا ہے۔
Share this content: