×

تلاوت قرآن کریم کے متعلق طرز عمل کی اصلاح

WhatsApp Image 2025 05 13 at 3.04.59 PM

تلاوت قرآن کریم کے متعلق طرز عمل کی اصلاح

تحریر:ڈاکٹر سید علی عباس نقوی

ابتدائی تعارف:

قرآن کی تلاوت کرنا  یا قرآن پڑھنا   ۔ایسے جملے ہیں جنھیں ہم سب نے بارہا سنا ہےاور ہم ان کے مفاہیم کو سمجھتے ہیں۔ اگر آپ سے یہی پوچھا جائے کہ قرآن کس طرح پڑھنا چاہیے؟ کیا فقط قرآن کریم کو بنا سمجھے پڑھ لینا کافی ہے؟ تلاوت کا بہترین طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟

یقیناًان سوالات کے جوابات معلوم ہونے کے باوجود ہمیں مزیدغور و فکراور تدبر  کی ضرورت رہتی  ہے بلکہ شاید یہ زیادہ  بہتر ہو کہ ڈھلتی عمر کے کے مختلف پڑاؤ پر ہم اپنے آپ سے مذکورہ سوال دہراتے رہیں تاکہ نئے نئے جوابات سے آشنا ہوں اور اس وادی میں ارتقاء کرسکیں۔

قرآن کریم کی بارگاہ میں حاضر ہونے سے ہی ہم اس کی تلاوت کی راہ و روش سے بہتر آشنائی حاصل کر سکتے ہیں۔ذیل میں ہم قارئین کرام کی خدمت میں تلاوت قرآن کریم کی روش کی اصلاح کے حوالے سے چند بنیادی نکات بیان کریں گے۔

۱۔ قرآن کریم پڑھنے کی ضرورت کو اُبھارنا

آخر قرآن کیوں پڑھا جائے؟

’’ضرورت‘‘ محرک ہوتی ہے۔ہر ضرورت مند اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے ۔اگر کسی شخص کی ضرورت اور احتیاج مطالعہ قرآن سے پوری ہونے والی ہوگی  تو وہ ضرور تلاوت کرے گا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ضرورت اور رحجانات اتفاقاً وجود میں نہیں آتے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ کسی رحجان کو باہر سےوارد کر دیا جائے۔اگرچہ قرآن پڑھنے کی طرف رحجان پیدا ہونے یا اس سے روگرانی کرنے میں دوسرے تمام موضوعات کی طرح بیرونی عوامل موثر ہوتے ہیں لیکن  بیرونی عوامل کبھی بھی علت تامہ کی جگہ نہیں لے سکتے۔

درحقیقت سوال یہ ہے  کہ قرآن کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہے، جس کی بنیاد پر اس کی تلاوت کی ضرورت کو ایجاد کیا جائے؟

قرآن اورہمارے درمیان موجود رابطے کی دو صورتیں  ممکن ہیں۔ایک یہ کہ ہم پہلے سے مسلمان تھےاور اللہ کی اس کتاب سے آگاہ تھےجبکہ اس کے برعکس دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ابتدا میں اس کتاب سے ہماری بالکل آشنا  ئی نہیں تھی  اور ہمارا قرآن سے کوئی تعلق  ہی نہیں تھا۔

بالفرض ہماری صورت حال پہلے والی ہے یعنی قرآن پہلے سے ہی ہماری زندگی میں موجود تھا۔ جبکہ اس حالت کی ایجاد میں ہمارا کوئی دخل نہیں ہے۔ ایسے میں ہمارا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ابھی تک ہماری زندگی میں جو قرآنی تعلیمات موجود ہیں ان کو اچھی طرح سمجھا جائےتاکہ پورا حق ادا ہوسکے اور اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کیا جاسکے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہےکہ کسی بھی نعمت کے استعمال سے پہلے اس نعمت سے بخوبی آگاہ ہونا ضروری ہے۔ ہمیں زندگی کے ان پہلوؤںمیں جہاں قرآن موجود ہے  پوری آگاہی کے ساتھ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ معاشرے میں موجود ہر شخص ان  تعلیمات کے دائرے میں آتا ہے جو پیغمبر اکرمﷺ کے وجود مبارک کی برکت اور قرآن کریم کے فیض سے ہم تک پہنچی ہیں اور جب اپنی زندگی میں موجود ان تمام تعلیمات پر آگاہی اور توجہ کے ساتھ نگاہ کرنے سے ایک نیا احساس ایجاد ہو تو ایسے میں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا قرآن سے ہمیں اپنے رابطہ کو مزید قوی کرنے کی ضرورت ہےیا نہیں ہے؟اگر جواب مثبت ہے تو فطری طور پر اور مزید بہتر طریقے سے قرآن پڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ پہلے سے زیادہ قرآن کی معرفت حاصل ہوسکےاور اگر بالفرض جواب نفی میں ہو تو بس وہیں ٹھہرنے کے علاوہ اور کیا کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہر ایک اپنی ضرورت کے اعتبار سے قرآن پڑھتا ہے۔

اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایک غیر مسلم اپنے کسی مسئلہ کے حل کی خاطر قرآن کی طرف رجوع کرتا ہے لیکن اس بنیاد پر نہیں کہ اسے قرآن سے جواب مل جانے کا یقین ہو تا ہے بلکہ صرف ایک احتمال کی بنیاد پر وہ قرآن کا مطالعہ کرتا ہے۔ یہ امید اسے مطالعہ قرآن پر آمادہ کرتی ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک نئی بات سیکھنے کی آرزو لوگوں کو مطالعہ قرآن کی طرف لے آتی ہے۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص قرآن پڑھتا ہے لیکن اپنی موجودہ طرز زندگی کا عادی ہونے کی وجہ سے اس مطالعہ کی نسبت اس میں نہ کوئی شوق ایجاد ہوتا ہے نہ کوئی بدلاؤ  آتا ہے، نہ اس کے ذہن میں کسی آیت کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لیے کوئی سوال ایجاد ہوتا ہے، نہ ہی کبھی وہ اس کلام سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانے کی فکر کرتا ہے، نہ ہی صاحب کلام کے مقصد سے باخبر ہونے کی کوئی خواہش ایجاد ہوتی ہے۔ سرے سے اس کے سامنے کوئی سوالیہ نشان ہی نہیں ابھرتا۔ ایسے شخص کے بارے میں کیسے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ قرآن پڑھنے کے بعد کے مراحل تک پہنچ سکتا ہے؟ درحالانکہ ہمیں چاہیے کسی بھی  مسئلہ پر فیصلہ اور رائے قائم کرنے سے پہلے اس کتاب زندگی کی طرف رجوع کریں اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں اپنی راہ و روش کو معین کریں۔ ہمارے اندر قرآن سے تمسک اختیار کرنے کی ضرورت کا احساس ہی ایجاد نہیں ہوتااور ہم اپنے آپ میں کسی لازمی تبدیلی کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں قرآن کریم کی اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں  ضرورت کے احساس کو ابھارنا چاہیے۔

۲۔ تلاوت قرآن کےلیے وقت کے  تعین کی ضرورت

مطالعہ قرآن، قرآن کے سمجھنے اور اس میں بیان شدہ حقائق تک رسائی کے لیے منظم عمل کا ایک  بنیادی جز ہے۔ مطالعہ قرآن کے لیےوقت مقرر اور معین کرنے کی ضرورت ایک منطقی ضرورت ہے۔ یہ توقع کرنا بے جا ہوگا کہ ہم جب بھی مطالعہ کریں گے اس وقت آیات کے معانی اور سوروں کے پیغامات سمجھ میں آجائیں گے۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں ہے۔ مفاہیم قرآن کو سمجھنے کے لیے غوروفکر اور تجزیہ و تحلیل کا عمل  لازمی ہے اور اس کام کی انجام دہی تمام دوسرے امور کی مانند وقت طلب ہوتی ہے۔  اس لیے قرآن فہمی کے  لیے وقت دینا ضروری عمل ہے۔آج کل مدارس اور یونیورسٹیوں میں ’’تندخوانی‘‘ (تیز تیز پڑھنا)کی مہارت سکھائی جاتی ہے، تاکہ طلبا دروس کو سرعت کے ساتھ پڑھ سکیں۔ شاید کچھ لوگ قرآن کے بارے میں بھی یہی طریقہ اپنانا چاہتے ہیں، جو صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید یا کوئی بھی اور علم جس کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے اس کے مطالعہ کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ یہ بات مدنظر رہے کہ فہم قرآن، قرآن کے متعلق عام و خاص کی بیان کردہ باتوں کو پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ ان باتوں اور نظریات کو سننا، سمجھنا اور قرآن کا سمجھنا دو الگ الگ باتیں ہیں۔ اگر قرآن کو سمجھنے کے لیے پڑھنا ہے تو مذکورہ اصولوں کی رعایت لازمی ہے۔ اسی لیے قرآن کے سلسلہ میں ’’قرآن سے انسیت‘‘ کے نام سے ایک مستقل عنوان ،موضوع گفتگو بنتا ہے۔

قرآن سے انسیت سے مراد اس طرح قرآن پڑھنا ہے کہ قرآن کے کسی لفظ کے معنی و مقصود، کسی آیت کے مفہوم یا کسی سورہ کے کسی پیغام کے متعلق ایک دو دن نہیں بلکہ ہفتوں غوروفکرکیا جائے۔ اس کے بارے میں ممکنہ مفاہیم اور مطالب کو ترتیب کے ساتھ دہرایا جائے، اپنے ذہن میں تجزیہ و تحلیل کے عمل کو جاری رکھا جائے اور غور کیا جائے کہ ان باتوں کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہے تاکہ آخرکار حقیقی معنی و مفاہیم تک رسائی حاصل ہوسکے۔

۳۔ تلاوت قرآن  اور انقلاب آفرین تعلیمات

جب قرآن کریم پر عمل کی بات آتی ہے تو بسا اوقات یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آخر قرآن کریم پر کیسے عمل کیا جائے ؟ لیکن کیا واقعاًیہ کوئی پیچیدہ مسئلہ ہے؟ کیا قرآن پڑھنے والا جب آیت، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ…..  کی تلاوت کرتا ہے تو کیا وہ یہ نہیں سمجھتا کہ سیدھے راستے کی تلاش اس پر لازم ہے اور اس صراط مستقیم تک رسائی کے لیے اسے خدا سے مدد طلب کرنی چاہیے۔ قرآن کریم ہماری زندگی کے واقعی پہلوؤں اور مصادیق سے جدا نہیں ہے اور نہ ہی ہماری زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اتنے پیچیدہ ہیں کہ اللہ کی کتاب میں بیان حقائق سے ان کا ربط دریافت نہ کیا جاسکے۔

ہم تھوڑی کوشش اور قرآن سے دور کرنے والی باتوں سے اپنے ذہن کو خالی کرکے اس پیوستگی اور گہرے رابطے کو درک کرسکتے ہیں، جو انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور قرآنی حقائق کے درمیان موجود ہیں۔قرآن مجید کتاب عمل ہے اس لیے قرآن ان لوگوں کو اچھا تصور نہیں کرتا جو اہل قرآن ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن اس کے احکامات پر عمل پیرا نہیں ہوتے اور بعض افرادتو کوشش ہی نہیں کرتے کہ ان کی زندگی قرآنی زندگی سے ہم آہنگ ہوجائے۔ اس کے  برعکس بعض لوگوں کے لیے قرآن کریم اپنی خاص ہدایت اور رہنمائی کا سامان فراہم کرتا ہے لیکن اس سے روگردانی کرنے والوں کو ضلالت و گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیتا ہے۔

جیسا کہ خود قرآن کا کہنا ہے کہ اس کی درس گاہ میں حاضری کے لیے طہارت لازمی ہے۔ قرآن سے قریب ہونے کے لیےظاہری اور باطنی دونوں طرح کی طہارت ضروری ہے۔ اگر ہاتھ سے صرف مس کرنا ہے تو بھی جسمانی طہارت ضروری ہے اور اگر فکروفہم کو قرآن کی وادی میں داخل ہونا ہے تو فکری اور روحانی طہارت بھی لازمی ہے۔اگر انسان اپنی زندگی میں طہارت  پیدا کرلے تو اس میں قرآن کے مزید عمیق مطالب اور پوشیدہ حقائق کو درک کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی ۔ وہ خود بھی روز بروز پہلے سے بہتر قرآن سمجھنے لگےگا اور دوسروں کو بھی تعلیمات قرآن سے آگاہ کرسکے گا۔  اس طرح مسلسل مشق کے نتیجہ میں  انسان خود بھی حقیقی اسلام کو مزید  اچھی طرح درک کرنے لگتا  ہے اوردوسروں کو بھی ان حقائق سے قریب تر کرے گا، یوں اسے قرآنی وعدے عملی ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔جسے بھی یقین ہوگا کہ اس کی زندگی کے ساتھ قرآن کا گہرا تعلق ہے وہ قرآن کو مزید سمجھنے کے لیے ہر روز قرآن مجید کا مطالعہ کرے گا اور اس کے مفاہیم و معنی  میں مسلسل غوروفکر کرنے سے کبھی نہیں تھکے گا۔ کیوں کہ ایسا انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ پروردگار کی کتاب میں بے شمار ایسے حقائق اب بھی اس کے لیے نامعلوم ہیں جن کو اس کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے۔

قرآن پر عمل پیرا ہونے کے لیے مسلسل بارگاہ قرآن میں حاضر رہنا ضروری ہے۔ جیسے جیسے قرآن سے آشنائی بڑھتی جاتی ہے مرد مومن پر یہ راز کھلتا جاتا ہے کہ اسے قرآن سے ابھی  اور بہت کچھ سیکھنا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ  یہ کتاب الہی معارف کا سمندر ہے اس لیے وہ زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کے لیے مسلسل کوشاں رہتا ہے۔ اس نے ابھی تک کی حاصل کردہ قرآنی تعلیمات میں انقلاب آفرینی کا مشاہدہ کرلیا ہے۔ اس لیے اس کی روح بے چین ہوجاتی ہے کہ ہدایت کے اس بحر بے کراں سے معرفت کے مزید گوہر حاصل کرلے۔

۴۔ استمرار، مطالعہ قرآن کی بنیادی خصوصیت

جب آپ کسی عبارت کا مطالعہ کرتے ہیں تو کیا پہلی بار میں ہی اس کے تمام معانی و مفاہیم سےا ٓگاہ ہوجاتے ہیں؟ ہر مُسَوِّدہ پر اس کی اپنی خصوصیت کے  لحاظ سے وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ کیوں کہ بعض متن اور مطالب ایسے ہوتے ہیں جن پر پہلی نظر سے ایک حد تک بات واضح ہوجاتی ہے لیکن پھر بھی کچھ معانی و مفاہیم مجمل و مبہم رہ جاتے ہیں، جن کا روشن ہونا مزید اور مکرر مطالعہ پر موقوف ہوتا ہے اور بعض متون ایسے مواد پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا سمجھنا دشوار ہوتا ہے اور مکرر مطالعہ سے بھی ان کے معانی آشکار نہیں ہوتے بلکہ ان کو درک کرنے کے لیے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہرحال متون اور عبارتیں الگ الگ نوعیت کی ہوتی ہیں۔ قرآن کریم ایسی کتاب ہے جو پہلے مطالعہ سے ہی سمجھ میں آنے لگتی ہے اور جو بھی اسے پڑھتا ہے سمجھتا ہے۔ اس قرآنی خصوصیت پر انسانی تاریخ سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں ہے،  تاریخ کے واقعات گواہ ہیں کہ بارگاہ قرآنی میں آیا ہر ہدایت کا متلاشی پہلی درخواست پر ہی بہت کچھ حاصل کرلیتا ہے اور دوسری مرتبہ رجوع کرنے پر قرآن سے اپنی وابستگی کو بخوبی محسوس کرنے لگتا ہے اور قرآن کے متعلق یہی نکتہ نگاہ  اس غلط فکر کا سد باب کرتا ہے جس کے شکار  ہوکرکچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ جب قرآن پہلے مطالعہ میں ہی سمجھ میں آجاتا ہے تو پھر بار بار اس کا پڑھنا کیا معنی رکھتا ہے اور مکرر مطالعہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لیکن اس سوال کا جواب قرآن کی دوسری خصوصیات سے مرتبط ہے۔ من جملہ قرآن کتاب حکمت ہے۔ قرآن کا حکیم ہونا نیز انسان کی اپنی کچھ خصوصیات مکرر مطالعہ کی متقاضی ہیں۔ جو شخص اپنے گزشتہ مسائل سے متعلق قرآن سے حل حاصل کرنے کے بعد نئے سوالات کے ساتھ دوبارہ قرآن سے تمسک کرتا ہے تو قدرتی بات ہے اس کی  گزشتہ معلومات اور معرفت مزید علم اور جدید معرفت کا ذریعہ بنے گی۔انسان  اپنی زندگی کے  مختلف ادوار میں صرف عقل و فکر کے اعتبار سے ہی  ترقی نہیں کرتا بلکہ اس کے حالات  زندگی ،  اس کی ضرورتیں اور  درپیش آنے والے مسائل بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اس بناء پر کسی کتاب کو اسی وقت  کتاب زندگی کہا جا سکتا ہے جب وہ انسان کی زندگی میں مسلسل پیش آنے والے نت نئے مسائل کا حل پیش کرسکے۔

۵۔ مطالعہ قرآن کی اہم رکاوٹیں

کسی شخص میں مطلوبہ کیفیات کا ایجاد ہونا موانع اور رکاوٹوں کے برطرف ہونے پر موقوف ہے۔ تلاوت قرآن کریم کے موانع میں سے ایک فکری انتشار ہےمثلاً بارہاایسا ہوتا ہے کہ تلاوت قرآن کی آواز ہمارے کانوں میں آتی ہے لیکن ہم کسی کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس آواز پر توجہ نہیں دیتےیا اکثر تلاوت کرتے وقت آیات کے معانی و مفاہیم پر ہماری توجہ بھی نہیں ہوتی اور محض عبارتیں زبان تک محدود ہوتی ہیں لہٰذا اس انداز کی تلاوت کرنا یا سننا قرآن سمجھنے کے باب  میں  بالکل مفید نہیں  ہے۔ ایسی عادت سے چھٹکارا پانا  نہایت ضروری ہے۔ تلاوت ایسی ہونی چاہیے کہ آنکھ اور کان کے ساتھ دل و دماغ بھی حاضر رہیں۔ کسی شے پر پوری طرح توجہ مرکوز کرنا اسی وقت ممکن ہے جب آنکھ کان کے ساتھ ساتھ فکروذہن کو یکسوئی کے ساتھ اس شے کے لیے مخصوص کردیا جائے۔اس طرح کے فکری انتشار سے نجات بہت ضروری ہے۔  اگر انسان قرآن سے اپنے تعلق کو واقعاً درک کرلے تو اس کی زندگی سنور سکتی ہے۔ اس کے ہدایت یافتہ ہونے کے مقدمات فراہم ہوسکتے ہیں اور اس کی زندگی ہر طرح کے بحرانوں سے محفوظ ہوسکتی ہے۔ درحالیکہ صورت حال اس کے برعکس ہے، معاشرے کے اکثر لوگ مختلف نظریات و خیالات کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے کلام الٰہی سے دور ہیں اور اس عظیم انقلاب آفرین کلام کی نسبت بے اعتباری کا ماحول کا غالب ہے اور یہ خود تلاوت قرآن کریم سے فیضیاب ہونے کی راہ میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ قرآن کریم کے سلسلہ میں ایک بڑی غلطی قرآن کو بشر کے کلام سے موازنہ کرنا ہے۔ کوئی بھی اس خطا کا مرتکب ہو سکتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر دونوں کو ایک جیسا تصور کرنا  اور بڑی غلط فہمی ہے ۔ قرآن مجید فطرت کی زبان میں حقائق پیش کرتا ہے۔ زبان قرآن کے فطری زبان ہونے کاا درک اور یقین انسان کو قرآن کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ زبان کے فطری ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آیات کریمہ کے معنی تک رسائی کے لیے عربی زبان کے ظاہری قواعد اور اصولوں کا سیکھنا ضروری نہیں ہے۔ خدا کا کلام فطرت انسان سے ہم آہنگ اور سازگار ہے اور اس بنیاد پر قرآن سے تمسک اختیار کرنا فطری طور پر واجب اور لازمی ہے۔ پس جب تک ہم قرآن کریم کو زبان فطرت نہیں سمجھیں گے اس وقت تک ہم ہرگز قرآنی معارف و مفاہیم تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم  کی طرف رجوع کرنا صرف اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم دیندار ہیں، مسلمان ہیں، بلکہ انسان ہونے کے اعتبار سے بھی اس کی بارگاہ ہدایت و معرفت میں حاضری لازمی ہےاور اس سے فائدہ حاصل کرنا عمومی  امر ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک اورالمیہ یہ ہے کہ بعض اوقات   قرآن پڑھنے والا  سماج کے دباؤ  میں  یعنی  رائج رسم و رواج کی پیروی   میں قرآن پڑھتا ہے۔چنانچہ بہت سے لوگ  ایسے ہیں جو  صرف اپنے کو سماجی ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید ہاتھ میں اٹھاتے ہیں ۔ در حقیقت یہ لوگ مطالعہ قرآن کو آلۂ کاربناتے ہیں۔ اس  طرح کی تلاوت سے نہ کچھ سمجھنا مقصود ہوتا ہے اور نہ سمجھانا نیز بسا اوقات اس انداز کی تلاوت کو علمی کام کا نام بھی دے دیا جاتا ہے اور یوں علمیت ثابت کرنے کے لیے قرآن کریم کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ محض رعب ڈالنے کے لیے  یا اپنے کام پر علمی کام ہونے کا لیبل لگانے کے لیے، قرآن کا سہارا لینا مذموم ہے۔

 

۶۔ مطالعہ قرآن کی اقسام

مذکورہ باتوں کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ قرآن پڑھنے کے جو مختلف طریقے ہیں ان پر عمل ہو۔ مطالعہ قرآن کے مختلف طریقوں میں سے ہر ایک کا تعین  ’’تلاوت کےاہداف و مقاصد، طرز زندگی اور ساتھ ساتھ کتنا   وقت اور فرصت  میسر ہے‘‘ کو پیش نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔

روزانہ یا ہفتہ وار قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنا:

اس طریقہ کا انداز مطالعہ جو معاشرے میں اکثر لوگوں کےد رمیان رائج ہے قرآن سے تعلق اور مانوسیت پیدا کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔اس کے ذریعہ انسان قرآن سے اپنے رشتہ کو جوڑے رکھ سکتا ہے۔ اگرچہ ایک آیت کی تلاوت ہی کیوں نہ ہو مگر معینہ وقت پر نظم کا خیال رکھتے ہوئے مسلسل تلاوت ہونی چاہیے۔

ایک آیت کو سمجھنا اور اس کی تعلیم کو اپنی زندگی میں عملی بنانے کی کوشش کرنا مطالعہ قرآن اور اس کے مفاہیم پر غوروفکر کرنے کی کیفیت پر گہرا مثبت اثر ڈالتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ قرآن پڑھنے والا تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی پر بھی پوری توجہ رکھے۔ یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔

قاری کی زبانی تلاوت سننا:

قرآن سے جڑنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی قاری کی زبانی تلاوت سنی جائے۔ اس سلسلہ کی ایک اہم کڑی یہ ہے کہ قوت سماعت کو اس طرح قوی بنایا جائے اور اس کی ایسی تربیت کی جائے کہ انسان تلاوت سن کر معنی و مفہوم کو سمجھنے لگے لیکن ہم میں سے اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر کہیں تلاوت ہورہی ہو اور اس کی آواز ہمارے کانوں تک پہنچ بھی رہی ہو تو ہم صرف تلاوت کی آواز ہی سنتے ہیں اور اسی پر ہماری توجہ ہوتی ہے گویا یہ کلام خدائے حکیم کا کلام ہے ہی نہیں اور نہ ہی اس کلام کے ہم مخاطب ہیں۔  حالانکہ در حقیقت قرآن میں ایسے باعظمت کرداروں کا تذکرہ ہے جو آیات الٰہی کی تلاوت سن کر سجدہ میں گرجاتے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی ایسی حالت کا تجربہ کیا ہے؟ کیا تلاوت سن کر کبھی ہمارے دلوں میں عظمت پروردگار متجلی ہوئی ہے…۔

قرآن سے استفادہ کا یہ انداز بھی گذشتہ بیان شدہ طریقہ کی مانند انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح سے اپنایا جاسکتا ہے۔

اس طرز کی تلاوت میں قرآن پڑھنے اور سننے والوں کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ پروردگار عالم کے کلام سے جڑجانا ہے۔

آیات یا سوروں کا حفظ کرنا:

حفظ قرآن کے ذریعہ یہ سہولت حاصل ہوجاتی ہے کہ جب بھی ارادہ  ہوتو قرآن حاضرِ نظر ہوتاہے۔ قرآن ہر آن حافظ کی نگاہوں کے سامنے موجود ہوتا ہے۔ حفظ قرآن، قرآن فہمی کی قدیمی روشوں میں سے ایک بڑی پراثر روش ہے۔ہر انسان اپنی صلاحیت اور توانا ئیوں کے اعتبار سے چند آیات، سورۃ یا پورا قرآن حفظ کرسکتا ہے۔ یہ کام بھی انفرادی اور اجتماعی طرز پر انجام دیا جاسکتا ہے۔

نماز میں مخصوص سورتوں کی تلاوت:

قرآن سے مانوسیت پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم کچھ سوروں کی تلاوت کے لیے یہ طے کرلیں کہ روزانہ یا ہفتہ میں بعض واجب یا مستحب نمازوں میں ایک معین سورۃ کی تلاوت کریں گے۔ اس طرح مدنظر سورہ یا سوروں کی تکرار کے ساتھ تلاوت ہوتی رہے گی۔ البتہ سوروں کے انتخاب میں نماز کے احکامات کی رعایت ضروری ہے۔

آیات اور سورتوں سے پیغام حاصل کرنا:

قرآن پڑھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایک ایک آیت اور ایک ایک سورۃ کو مدنظر رکھ کر پڑھاجائے۔ اس روش میں ہر ایک معنی و مفاہیم کو درک کرنے کی کوشش کی جائے۔ قرآن کی بارگاہ میں حاضری کا یہ طریقہ عام طور پر درس و تدریس کی شکل میں رائج ہے۔ اسے انفرادی طور پر بھی انجام دیا جاسکتا ہے۔ اس روش کے مطابق مرد مومن کسی ایک سورۃ کو درس کی شکل میں سیکھتا ہے جیسے کہ دوسرے علوم کی کلاس اور مدرسے ہوتے ہیں۔ مختلف علوم کی تحصیل کی مانند انسان منظم طریقے سے معینہ سورہ کی تعلیم حاصل کرتا ہے۔

۷۔ قرآن کی ترغیب خود قرآن میں

پروردگار عالم نے انسانوں کو اپنی کتاب کی آیات میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ یہ دعوت ہر طرح کی  آیات کے بارے میں ہے جو انسان کو تعقل و تدبر، تفکروتذکر، شکر گزاری، اور پختہ ایمان کی دولت سے مالامال اور حقیقی ہدایت تک رہنمائی کرتی ہیں۔ پس اہمیت تمام آیات الٰہی کی ہے چاہے وہ کتابِ قرآن کی آیات ہوں یا کتاب ہستی کی آیات ہوں۔

قرآن کریم وہ الٰہی کتاب ہے جس کی تلاوت انسان کی تعلیم اور اس کی روح کے تزکیہ کا سبب بنتی ہے۔

اس کے برخلاف، قرآن کو مہجور بنا دینا (سورہ مبارکہ فرقان) قرآن کو متفرق اور اس کی آیات میں فرق رکھنا امتیاز کا قائل ہونا (سورہ مبارکہ حجر) قرآن میں تدبر و تعقل نہ کرنا (سورہ مبارکہ، نساء، محمد، مومنون) اورقرآن کو غور سے نہ سننا (سورہ مبارکہ اعراف)  ایسے مذموم کام ہیں جو نہ صرف انسان کو قرآن کے بیان شدہ فوائد سے محروم کردیتے ہیں بلکہ ساتھ ہی ایسا کرنے والوں کا ایمان جاتا رہتا ہے (سورہ مبارکہ بنی اسرائیل)۔

یہاں مناسب ہوگا اگر ہم بعض ایسی آیتوں کو بھی پیش کریں جن میں قرآن پڑھنے کا طریقہ بیان کیا جاتا ہے۔ ان کو اچھے سے سمجھنا ضروری ہے۔ چنانچہ ہم کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم نے قرآن پڑھنے کا جو انداز اپنانا ہے اس کے بارے میں خود قرآن کریم کا کیا کہنا ہے۔

 

بطور مثال:

ترتیل سے قرآن پڑھنا: ترتیل سے قرآن پڑھنے سے مراد یہ ہے کہ ہم آیات کریمہ کے باہمی ربط کو ملحوظ نظر رکھیں تاکہ دقیق معانی و مطالب درک کئے جا سکیں۔ (سورہ مبارکہ مزمل)

تلاوت قرآن: تلاوت قرآن سے یہاں ہماری مراد آیات کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا ہے۔(سورہ مبارکہ جمعہ)

قرائت قرآن: آواز کے ساتھ ایسے پڑھنا کہ ہم خود سن کے سمجھیں یا اس طرح سے پڑھنا کہ دوسروں کو سنائیں اور سمجھائیں۔ (سورہ مبارکہ اسراء)

تدبر در قرآن: اس طرز کے تحت مشخص کیا جاسکے تلاوت کے ہمراہ آیات کے مفاہیم اور پیغامات پر غوروفکر کرنا مقصود نظر ہوتا ہے جس کے ذریعہ مطالب کا موازنہ اور مقائسہ کرتے ہوئے  ان میں ایک نظم ایجاد کیا جائے تاکہ مشخص کیا جاسکے کہ ان کی کس ترتیب سے زیادہ مناسب نتائج حاصل ہوسکیں  گے۔ایسی ترتیب ایک ہی صورت  میں ممکن ہے اور وہ یہ کہ انسان کی آئندہ کی زندگی کا لائحہ عمل پیش نظر ہو اور اسی کو مدنظر رکھ کر ترتیب ایجاد کی جائے۔ (سورہ مبارکہ ’’ص‘‘ اور سورہ مبارکہ نساء)

اس لیے ہم جس بھی طرز کے اندازِ تلاوت کو اپنانا چاہتے ہیں اس میں مندرجہ ذیل چار خصوصیات موجود ہونی چاہییں ۔

    ۱۔  اس میں بامقصد  نظم وترتیب ہو۔

   ۲۔   اس کے ذریعہ آیات اور سورتوں کی جلوہ نمائی  ہماری اور دوسروں سبھی کی زندگی میں نظر آئے ۔

   ۳۔   یہ علم و دانش کا سبب ہو اور خود معارف قرآن کے متعلق آگاہی میں اضافہ کا باعث بنے ۔

   ۴۔  یہ تلاوت راہ زندگی کے عملی لائحہ عمل ،تدبیراور اہداف و مقاصد کے ہمراہ ہو ۔

 

Share this content: