Skip to content

طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں

افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے حوالے سے مختلف ملکوں، قوموں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے مختلف انداز سے تبصرے کر رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا تناظر ہے اور اپنے اپنے مفادات۔ خود طالبان نے بھی لوگوں کو اپنے بارے میں سوچنے پر لگا رکھا ہے۔ سب یہ تو سوچ ہی رہے ہیں کہ کیا یہ پہلے والے طالبان ہیں یا کچھ نئے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ انھوں نے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے، ہیں یہ پہلے والے ہی اور بعض کا خیال ہے کہ وہ بدلے بدلے سے ہیں، اب کے ان کے خیالات کچھ مختلف ہیں، کچھ کام بھی قدرے مختلف کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ سے بھی امید رکھے ہوئے ہیں کہ وہ لوٹ آئے گا اور اب کے ان کے ساتھ تعاون کرے گا۔ انھیں یہ بھی توقع ہے کہ اب ساری دنیا انھیں تسلیم کرے گی، کیونکہ بزعم خویش وہ تبدیل ہوچکے ہیں۔ انھوں نے دوحہ میں مختلف طرح کے وعدے بھی کیے ہیں۔ طالبان کی آمد اور بھارت کی گرم سرد پھونکیں

حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان

گذشتہ دنوں شوریٰ علمائے شیعہ افغانستان کا تین روزہ اجلاس منعقد ہوا، جس کے اختتام پر ایک چودہ نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ اسی دوران میں افغانستان میں طالبان حکومت کی طرف سے عبوری کابینہ کا اعلان ہوا۔ علمائے شیعہ کے اعلامیے کو پڑھ کر واضح ہوتا ہے کہ شیعہ اس نئی حکومت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور طالبان سے ان کی توقعات اور مطالبات کیا ہیں۔ اسے سامنے رکھ کر طالبان حکومت اور شیعیان افغانستان کے مستقبل کے تعلقات کے بارے میں کچھ رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماضی میں طالبان اور شیعوں کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اسی طرح ایران کے تعلقات بھی طالبان کے ساتھ تلخ ہی رہے ہیں، دونوں کے ایک دوسرے کے بارے میں شدید قسم کے جذبات پائے جاتے تھے۔ افغانستان میں گزرنے والے بیس سالہ دور نے طالبان اور شیعہ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے تبدیل کر دیا ہے۔ حکومت طالبان اور شیعیان افغانستان