کیا طوفان الاقصیٰ کی ہمہ جہت منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
اسرائیل میں گذشتہ دو برس سے نیتن یاہو کی حکومت کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور یہ مظاہرے اسرائیلی تاریخ میں سب سے بڑے مظاہرے ہوئے، جن میں لاکھوں کے قریب شہریوں نے شرکت کی۔ ان مظاہروں کی وجہ نیتن یاہو کی کرپشن اور ملکی آئین و عدلیہ کو کنڑول کرنے کی کوشش ہے۔ نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کے مختلف الزامات ہیں، جن میں اس کو نچلی سطح کی ملکی عدالتیں مجرم قرار دے چکی ہیں۔ اس وقت معاملہ اعلیٰ ترین عدالت میں موجود ہے۔ نیتن یاہو کو انہی مظاہروں کی وجہ سے وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا، لیکن اسرائیل میں سیاسی مشکل یہ ہے کہ ان کے پاس دوسری جماعتوں میں ایسی کوئی شخصیت موجود نہیں ہے، جو اسرائیل کو درپیش چیلنجز سے نمٹ سکے۔
یروشلم پوسٹ کی آج کی خبر کے مطابق طوفان الاقصیٰ کے بعد ہونے والے سروے کے اعداد و شمار انتہائی تعجب انگیز ہیں۔ پانچ اسرائیلی شہریوں میں سے چار کا خیال ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیئے، 86 فیصد شہریوں نے نیتن یاہو حکومت کو حماس کے حملے کا ذمہ دار قرار دیا، جس میں 79 فیصد اتحادی شراکت دار بھی شامل ہیں۔ 92 فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ جنگ مایوسی کو جنم دے رہی ہے۔ یروشلم پوسٹ کے اس سروے کے مطابق 56 فیصد شہری چاہتے ہیں کہ جنگ کے بعد نیتن یاہو کو استعفیٰ دے دینا چاہیئے، جس میں 26 فیصد اتحادی شراکت دار بھی شامل ہیں۔ 52 فیصد یہودی شہریوں کا خیال ہے کہ وزیر دفاع کو بھی استعفیٰ دینا چاہیئے۔ اکثر سروے کے شرکاء نے کہا کہ جنگ کی قیادت کے لیے ہمیں موجودہ حکومت پر یقین نہیں ہے۔ ان مسائل سے نمنٹنے کے لیے نیتن یاہو نے ایک اتحادی حکومت تشکیل دی ہے، جس میں متعدد پارٹیوں کے افراد شامل ہیں۔
درج بالا اعداد و شمار واضح طور پر اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اسرائیل سیاسی طور پر تقسیم ہے۔ طوفان الاقصیٰ جو فلسطینیوں کی جانب سے ایک بڑی کارروائی تھی، اس کے جواب میں تادم تحریر پندرہ سو کے قریب فلسطینی شہری قتل کیے جاچکے ہیں، جن میں پانچ سو کے قریب بچے، اڑھائی سو سے زائد خواتین صحافی، طبی اداروں کے رضاکار اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اراکین شامل ہیں۔ اسرائیل نے اب تک غزہ پر جو حملے کیے ہیں، اس میں تقریباً سات ہزار کے قریب لوگ زخمی ہیں، پانی، بجلی، پیٹرول، خوراک اور ادویات کا سلسلہ مکمل طور پر بند ہے۔ ان حملوں کے نتیجے میں تقریباً سولہ سو سے زائد مکانات مسمار ہوچکے ہیں جبکہ چودہ ہزار سے زائد مکانات کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
ان حملوں کے نتیجے میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد شہری نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ تباہ شدہ عمارات میں 49 میڈیا ہیڈکوارٹرز، 57 سکول اور 15 مساجد بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی حکومت نے ملک میں ایمرجنسی صورتحال نافذ کی ہے۔ ملک کے پینتالیس لاکھ ریزروز کو ڈیوٹی پر بلا لیا گیا ہے اور شہریوں کو ہتھیاروں کے ساتھ پبلک مقامات پر گھومنے کی اجازت دے دی ہے۔ فوجی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں اس وقت غزہ کے بارڈر کے پاس تعینات ہیں۔ مصر کی جانب سے آئل ٹینکرز کی آمد پر اسرائیل نے دھمکی دی ہے کہ اگر انھوں نے بارڈر کراس کیا تو ان کو اڑا دیا جائے گا۔ لبنانی سرحد کے ساتھ ہلکی پھلکی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فلسطینی شہریوں کے مطابق ان کے پاس زندگی کے وسائل بہت کم رہ گئے ہیں، ممکن ہے کہ ان کے روابط باقی دنیا سے جلد ہی ختم ہو جائیں، پانی اور خوراک دستیاب نہیں۔
اگرچہ دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ طوفان الاقصیٰ کو اسرائیل نے مغربی دنیا میں اس انداز سے پیش کیا ہے کہ اس وقت دنیا اسرائیل کو دفاع کا حق دیتے ہوئے اس کے خلاف کوئی بیان دینے کی بھی روادار نہیں ہے۔ مسلم دنیا فقط اتنا کہہ سکتی ہے کہ اسرائیل عام انسانوں پر حملے نہ کرے، بچوں اور خواتین کو قتل نہ کرے۔ انسانی امداد کو غزہ میں پہنچنے دیا جائے۔ بجلی، پانی، خوراک اور پیڑول کو بند نہ کیا جائے، تاکہ عام شہریوں کی زندگی کم سے کم متاثر ہو۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ایران کے منجمند شدہ اثاثے جو کہ قطر کے بینک میں شفٹ کر دیئے گئے تھے، ان کو روک دیا گیا ہے، تاکہ جب تک طوفان الاقصیٰ کی تحقیقات مکمل نہیں ہوتیں، ان کو ایران کے حوالے نہ کیا جائے۔ یہ واشنگٹن پوسٹ کی خبر ہے، اگرچہ ابھی اس کی کسی امریکی ذمہ دار کی جانب سے تصدیق نہیں ہوئی۔
امریکی وزیر خارجہ بلینکن ایک اہم دورے پر آج اردن اور قطر جا رہے ہیں۔ اسی طرح ایرانی وزیر خارجہ بھی خطے کے اہم ممالک کے ذمہ دار حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے عراق میں دیئے گئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ خطے میں کوئی بھی شخص ہم سے اجازت لے کر نیا محاذ نہیں کھولتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ طوفان الاقصیٰ خود جوش اور مکمل طور پر ایک فلسطینی کارروائی ہے، جو فلسطین پر ہونے والے ستر سالہ مظالم اور بیت المقدس کی بے حرمتی کا نتیجہ ہے۔ یقیناً طوفان الاقصیٰ فلسطینیوں پر جاری گذشتہ ستر برس کے مظالم اور بیت المقدس کی بے حرمتی کے واقعات کا نتیجہ ہے، اس میں دوسری رائے نہیں ہوسکتی، تاہم درج بالا حقائق بالخصوص مغربی اور مسلم دنیا میں اسرائیلی ردعمل کے حوالے سے بیانیہ، غزہ میں سات اکتوبر سے تیرہ اکتوبر تک ہونے والے نقصانات، جو کچھ آئندہ متوقع ہے اور سب سے بڑھ کر اسرائیل میں موجود سیاسی تقسیم کو اتحاد کا موقع فراہم کرنا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔
جنگیں فقط ایک بھرپور حملہ کرنے کا نام نہیں ہوتیں بلکہ گہری منصوبہ بندی سے لڑی جاتی ہیں اور اس میں تمام حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ اس وقت غزہ کی صورتحال سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ طوفان الاقصیٰ کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ شاید بعض جذباتی احباب میری ان باتوں سے اختلاف کریں، تاہم مجھے تو حالات اسی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ میں غلط ہوں، تاہم آج حماس سے کسی بہت بڑے سرپرائز کی توقع رکھنا درست نہیں ہے، کیونکہ جو سرپرائز انھوں نے دینا تھا، وہ دے چکے ہیں اور اب اسرائیل کے جواب دینے کی باری ہے۔
بہرحال اس سب کے باوجود کوئی بھی شخص اسرائیل کی جانب سے سویلینز پر حملوں، بچوں، خواتین، صحافیوں، طبی عملے، انسانی حقوق کے اداروں پر حملوں، بڑے پیمانے پر بمباری، پانی، بجلی اور خوراک کے تعطل، لوگوں کو محفوظ مقامات پر جانے سے روکنے جیسے اقدامات کو درست نہیں کہہ سکتا۔ یہ اقدامات عالمی انسانی حقوق، انسانیت اور مذہبی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ جنگ میں عام شہریوں پر حملے کرنا اسرائیلی حکومت کا پرانا وطیرہ ہے، جس کے حوالے سے کم از کم عالمی اداروں کو اقدام کرنا چاہیئے۔
یہ بھی پڑھیں: سو سنار کی ایک لوہار کی، طوفان الاقصیٰ
https://albasirah.com/urdu/so-sonar-ki-alaqsa/