طالبان کی مسلسل پیش قدمی اور افغانستان کا مستقبل
گذشتہ چند دنوں میں افغانستان میں طالبان نے پے در پے فتوحات حاصل کی ہیں۔ انھوں نے بہت سے چھوٹے بڑے قصبوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ سرکاری فوجیں پسپا ہو رہی ہیں۔ کابل میں ایک تشویش و اضطراب کا عالم ہے۔ برسراقتدار سیاستدان اپنے حامیوں میں اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں۔ انھیں کسی بھی وقت توقع ہے کہ طالبان کابل کا محاصرہ کر لیں گے۔ اگرچہ طالبان نے ابھی تک بڑے شہروں میں سے کسی پر قبضہ نہیں کیا، لیکن سرکاری فوجوں کی جو نفسیاتی کیفیت سامنے آرہی ہے، اس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بڑی جنگ کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔
وہ حکومتی عہدیدار جو پشتون قبائل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ دکھائی دیتی ہیں۔ وہ طالبان کے مقابلے میں نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتے ہیں اور آسانی سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
یکم جون 2021ء سے آج (8 جون 2021ء) تک کی خبروں کا جائزہ لیا جائے تو انسان ورطہء حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ یکم جون کو بغلان کے پولیس ہیڈ کوارٹر پر طالبان کی طرف سے خودکش حملہ کیا گیا۔ طالبان کے دعویٰ کے مطابق اس حملے میں کم از کم 200 سرکاری اہلکار مارے گئے یا زخمی ہوئے۔ اسی روز غوریان شہر میں طالبان نے پیش قدمی جاری رکھی۔ یکم جون ہی کو شہر کابل میں ایک خوفناک دھماکہ ہوا، جس میں 3 افراد مارے گئے اور 14 زخمی ہوئے۔ یکم جون کو غوریان کے علاوہ غزنی، قندوز، بدخشاں اور کابل سے جنگ اور تشدد کے واقعات کی خبریں آتی رہیں۔ 2 جون کو افغان فوج نے جلریز اور نرخ کے قصبوں کو طالبان سے واپس لینے کے لیے کارروائی شروع کی، جن پر حال ہی میں طالبان نے قبضہ کیا تھا۔ 2 جون ہی کو اچین اور فاتح آباد میں بھی طرفین میں جنگ جاری رہنے کی خبریں آرہی تھیں۔
اس دوران میں سرکاری فوج کی طرف سے طالبان پر فضائی حملوں کا سلسلہ بھی جاری رہا، چنانچہ افغان بمبار طیاروں نے لغمان، کنر، ننگرہار، غزنی، پکتیا، میدان وردک، خوست، زابل، بادغیس، ہرات، فاریاب، ہلمند اور بغلان کے صوبوں میں طالبان پر حملے کیے۔ سرکاری خبروں کے مطابق اس میں 100 طالبان مارے گئے اور 50 افراد زخمی ہوئے۔ 3 جون کو طالبان نے صوبہ سمنگان پر بھی حملہ کیا۔ 3 جون ہی کو طالبان نے صوبہ ہرات میں ادرسکن، فارسی اور گلران کے قصبوں پر شدید حملے کیے۔ 5 جون کو طالبان نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے صوبہ ہرات کے شہر فارسی، صوبہ غزنی کے قصبے دہ یک، صوبہ زابل کے قصبے شینکی اور صوبہ دایکندی کے قصبے گیزاب پر قبضہ کر لیا ہے۔ طالبان کے مطابق انھوں نے اسی روز مشرقی افغانستان میں واقع صوبہ نورستان میں دوآب اور مندول کے قصبوں پر بھی قبضہ کرلیا۔
دریں اثناء طالبان نے صوبہ زابل کے قصبے شاہ جوی کے ایک حصے پر بھی قبضہ کر لیا اور مزید پیش رفت جاری رکھی۔ 6 جون کو طالبان نے صوبہ فاریان کے شہر قیصار پر حملہ کیا اور پولیس ہیڈ کوارٹر پر قبضہ کر لیا۔ اسی روز طالبان کے خودکش بمبار نے بلخ کے پولیس ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا۔ 7 جون کو صوبہ غور کا قصبہ شہرک طالبان کے قبضے میں آگیا۔ صوبہ ارزگان کے قصبہ چوری کے بیشتر حصے پر بھی طالبان قابض ہوگئے۔ آج (8 جون) کی خبروں کے مطابق صوبہ فاریان کا شہر دولت آباد طالبان کے قبضے میں آگیا ہے۔ طالبان آب بند کے قصبے پر قبضے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں۔ اس شہر کا پولیس ہیڈ کوارٹر اور ایک چھائونی پہلے ہی طالبان کے قبضے میں آچکی ہے۔ خبروں کے مطابق رشیدان، مقر اور قرہ باغ کے قصبوں میں شدید جنگ جاری ہے۔
یہ بات بہت حیرت ناک ہے کہ پاکستان کے نشریاتی اداروں اورٹی وی چینلز کا یہ عالم ہے کہ جیسے انھیں اتنی بڑی تبدیلیوں کی کوئی خبر نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پاکستانی عوام کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بے خبر رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ ہمارے ہمسائے میں اتنی بڑی تبدیلی آرہی ہے اور عوام کو غفلت میں رکھا جا رہا ہے۔ حالانکہ پہلے بھی حکومت اور فوج نے افغانستان کے بارے میں جو پالیسی اختیار کی، اسے بالآخر پاکستان کے مظلوم عوام نے ہی بھگتا ہے۔ اب بھی خدانخواستہ کوئی مشکل آئی تو عوام ہی کو سہنا ہے۔ اس ساری صورت حال کا تجزیہ کرنا بہت ضروری ہے۔ انہی دنوں میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں خبر شائع ہوئی ہے کہ امریکی سی آئی اے افغانستان کے امور پر نظر رکھنے یا اسے کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان سے کارروائیاں جاری رکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے اس نے پاکستان سے اڈے مانگے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے اگرچہ کوئی اڈا دینے سے انکار کیا ہے، لیکن اس انکار کے ساتھ ساتھ سابقہ معاہدوں کے مطابق امریکہ سے تعاون جاری رکھنے کی بھی بات کی ہے۔
دوسری طرف کابل میں فی الحال موجود حکومت کے اہم ترین عہدیدار یہ الزام دہرا رہے ہیں کہ طالبان کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ افغانستان سے ملنے والے پاکستان کے بارڈرز کے باسیوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف واقعات سے عوام پر یہ بات آشکار ہوچکی ہے کہ افغانستان میں جنگ شدت اختیار کرچکی ہے۔ ایسے میں جبکہ کابل پر طالبان کے اقتدار کا امکان پایا جاتا ہے، وزیراعظم کا امریکہ سے یہ مطالبہ عجیب معلوم ہوتا ہے کہ وہ کابل حکومت اور طالبان کے مابین کسی سیاسی معاہدے کے بغیر افغانستان کو نہ چھوڑے۔ امریکہ کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں۔ اس کا رہنا اور چھوڑنا انہی اہداف کی روشنی میں ہونا ہے۔ پاکستان کو امریکہ کی کاسہ لیسی سے پہلے بھی کوئی فیض حاصل نہیں ہوا اور اب بھی اس کا کوئی دور دور تک امکان نہیں۔ امریکہ اپنے مفادات کے لیے سوچتا ہے اور پاکستان کو اپنے مفادات کے لیے سوچنا ہے۔
افغان عوام اور پاکستان کے عوام نے اکٹھے رہنا ہے، یہی بات ہمارے سوچنے کی بنیاد ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان اور علاقے میں داعش ان دنوں خاموش تماشائی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اگلا معرکہ طالبان اور داعش کے مابین ہو۔ البتہ داعش کا ہدف فقط افغانستان نہیں ہوسکتا۔ یہ وہ نکتہ ہے جو افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو ایک ہم آہنگ حکمت عملی اپنانے کی دعوت دیتا ہے۔ یقینی طور پر ان ممالک میں پاکستان کے علاوہ چین، روس اور ایران شامل ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ ہمارے بڑے بڑے دماغ ان معاملات پر کیا فیصلے کرتے ہیں۔ ہم آخر میں صرف یہ کہنا چاہیں گے کہ ماضی کے تجربات کو سامنے رکھ کر ہی کوئی فیصلہ کیا جائے، ایسا فیصلہ جو پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہو نہ کہ کسی بڑی طاقت کے مفاد میں۔