Skip to content
saqib akhbar

انصاراللہ کے متحدہ عرب امارات پر تازہ حملوں کا پس منظر اور پیغام

یمن میں سابق صدر علی عبد اللہ صالح کے حکومت سے علیحدہ ہونے کے بعد عبوری حکومت قائم ہوئی، جس کے ذمہ تھا کہ وہ نئے انتخابات کروا کر نئی… انصاراللہ کے متحدہ عرب امارات پر تازہ حملوں کا پس منظر اور پیغام

دو برادر ادارے، ملی یکجہتی کونسل اور مجمع تقریب مذاہب اسلامی

ملی یکجہتی کونسل کی دعوت پر ان دنوں مجمع تقریب مذاہب اسلامی کا وفد پاکستان کے دورے پر ہے۔ وفد کی سربراہی مجمع کے سیکرٹری جنرل آیت اللہ ڈاکٹر حمید… دو برادر ادارے، ملی یکجہتی کونسل اور مجمع تقریب مذاہب اسلامی

ولادیمیر پیوٹن کی سالانہ پریس کانفرنس کے اہم نکات کا خلاصہ

سید اسد عباس روس کے صدر ولادمیر پیوٹن نے آج یعنی 23 دسمبر کو کچھ دیر قبل ایک روایتی کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہ کانفرنس سال کے اختتام پر منعقد… ولادیمیر پیوٹن کی سالانہ پریس کانفرنس کے اہم نکات کا خلاصہ

او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس اور افغان بحران

ایک ایسا وقت جب پاکستانی عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، روپے کی قیمت مسلسل تنزلی سے دوچار ہے۔ پیٹرول اور اشیائے ضرورت بشمول زندگی بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو رہا ہے۔ بے روزگاری اپنے عروج پر ہے۔ ملک میں گیس کا بحران ہے، ایسے میں حکومت پاکستان افغان ہمسایوں کے غم میں ہلکان ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ بات اکثر پاکستانیوں کے لیے حیران کن ہوسکتی ہے۔ پاکستانی شہریوں اور ہمارے کشمیری بھائیوں کو سوال کرنے کا حق ہے کہ پاکستان نے آج تک کشمیر کے مسئلے کے حل کے لیے او آئی سی کا اجلاس طلب نہیں کیا، اس اہم اجلاس کی کیا وجوہات ہیں اور یہ اجلاس اس قدر اہم کیوں تھا۔؟ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں او آئی سی کے اس غیر معمولی اجلاس میں ستر کے قریب غیر ملکی وفود نے شرکت کی۔ 57 ممبر ممالک میں سے بیس ممالک کے وزرائے خارجہ شریک ہوئے جبکہ دس ممالک کے وزرائے مملکت نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ اسی طرح مندوبین اور مبصرین جس میں یورپی یونین، اقوام متحدہ کے عہدیدار شامل ہیں، اس اجلاس میں شریک ہوئے۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس اور افغان بحران

ریاض کا موسم اور ہماری بے چینی

سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہونے والا ’’موسم ریاض‘‘ نامی میگا ایونٹ آج کل خبروں کی زینت ہے۔ اس میلے میں دنیا بھر کے مختلف فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی شہریوں کی تفریح طبع کے لیے کھیلوں کی سرگرمیوں کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اس ایونٹ کا ایک اہم پروگرام رقص و سرود کی محافل ہیں، جس میں گذشتہ دنوں بالی وڈ سٹار سلمان خان نے ساتھی فنکاروں کے ہمراہ شرکت کی اور سامعین کے دلوں کو گرمایا۔ سلمان خان کے ہمراہ بھارتی فنکار شلپا سیٹھی، جیکولین فرنینڈس اور دیگر شامل تھے۔ سلمان خان سے قبل معروف گلوکار جسٹن بیبر نے بھی چھ دسمبر کو ریاض میں ایک کنسرٹ کیا تھا، جس میں تقریباً 70 ہزار افراد نے شرکت کی تھی۔ سلمان خان کے ریاض میں کنسرٹ سے قبل انھیں اعزاز دینے کے لیے ان کے ہاتھوں کا نقش بھی لیا گیا، جو ریاض کی مصروف ترین شاہراہ پر نصب کیا جائے گا۔

ریاض کا موسم اور ہماری بے چینی

اس شہر خرابی میں۔۔۔۔۔

غم ہے کہ کم ہونے کو نہیں آتا۔ درد ہے کہ سوا ہوا جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے میری ہڈیاں توڑ دی گئی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ میرا بدن چور چور کر دیا گیا ہے۔ جیسے مجھے بھڑکتی آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ ہڈیوں سے چٹخنے کی آوازیں آرہی ہیں۔ لیکن یہ پہلی بار تو نہیں ہوا۔ مجھے تو کئی مرتبہ قتل کیا گیا ہے۔ کبھی ہتھوڑوں سے میرے سر کو پھوڑا گیا ہے۔ کبھی بارود سے اُڑا دیا گیا ہے۔ کبھی آری سے آڑا ترچھا کاٹا گیا ہے۔ میں تو کب سے اپنی لاش کندھے پر لیے پھرتا ہوں۔ سیالکوٹ کے مظلوم مقتول کو تو وارث مل گئے ہیں۔ یہ نصیب ہر مقتول کا تو نہیں ہوتا۔ بیرون ملک سے، کسی اور ملک کے صدر کا، مقتول کے لیے فون آئے یا ہمارے وزیراعظم کا مظلوم کی حمایت میں فون جائے۔ چلیں کوئی مرہم رکھنے والا ہاتھ مل گیا۔ غم تو غم ہے، سانجھا ہے۔ درد انسانیت کا ہو تو پھر سارے انسانوں کا ہے لیکن وہ بھی تو انسان ہی تھے، جو مارے گئے، خبر آئی، کچھ شور ہوا، کچھ پوسٹیں لگیں مگر چیف آف آرمی اسٹاف بھی اظہار رنج و غم کرے اور وزیراعظم بھی سانحے کو المناک قرار دے کر مظلوم کے خون کا پہرے دار ہو جائے، یہ تو بہت کم ہوتا ہے، شاذ ہی کسی کی قسمت میں اس درجے کی شنوائی ہوتی ہے۔ اس شہر خرابی میں۔۔۔۔۔

شدت پسندی ہر مذہب اور ہر شعبے میں

مولویوں پر تنقید کا سبب
سانحہ سیالکوٹ کا غم تو ہے اور غم بھی بہت گہرا، راتوں کی نیندیں اچاٹ کر دینے والا۔ اس پر مختلف انداز سے اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ وحشت آور ویڈیوز نے غصے، غم اور مختلف انداز کا ردعمل پیدا کیا ہے۔ گاہے محسوس ہوتا ہے کہ ایک شدت پسندی کے ردعمل میں دوسری شدت پسندی جنم لے رہی ہے۔ بہت سے لوگوں نے مولوی صاحبان کو نشانہ تنقید بنایا ہے۔ تجزیہ کاروں نے پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کے بہت سے حوالے دیے ہیں۔ اس کی فوری وجہ تو یہ ہے کہ سیالکوٹ کے سانحے کی روح میں بھی مذہبی شدت پسندی دکھائی دیتی ہے، لیکن اس موضوع پر کچھ مزید سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ اس کے پس منظر کا ذرا ٹھہر کر جائزہ لینا ضروری ہے۔ ملک کے اندر اور باہر شدت پسندی کے مظاہر پر نظر ڈالے بغیر حقیقت تک رسائی حاصل نہیں ہوسکتی۔
شدت پسندی ہر مذہب اور ہر شعبے میں