یوکرائن تنازع کیا رخ اختیار کرے گا

Published by ثاقب اکبر on

سید ثاقب اکبر

بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرائن تنازع کے مسئلے پر دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ روس ایک لاکھ سے زیادہ فوجی یوکرائن کی سرحدوں پر پہنچا چکا ہے، مشقیں کی جا چکی ہیں، تعیناتی کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ بالکل ایسی فضا ہے کہ کسی وقت بھی صدر پیوٹن حکم دیں گے اور روسی فوجیں یوکرائن میں داخل ہو جائیں گی۔ روس کے لیے یہ موضوع بالکل واضح ہے، کیونکہ یوکرائن سوویت یونین کا حصہ رہا ہے اور سوویت یونین کے امریکہ اور یورپ کا فوجی اتحاد یعنی نیٹو مسلسل روس سے ہر طرح کی محاذ آرائی میں مصروف رہا ہے۔ سوویت یونین سے جو ریاستیں آزاد ہوئیں، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ان میں مداخلت کا عمل شروع کر دیا، تاہم بیشتر ممالک میں اب بھی روس کا اثر و رسوخ اور عمل دخل باقی ہے۔ سوویت یونین سے الگ ہو کر ایک عرصے تک یوکرائن میں بھی روس کی حامی حکومت موجود رہی، لیکن امریکا نے رفتہ رفتہ وہاں ایسی فضا پیدا کی کہ سیاسی طور پر روس کی حامی حکومت شکست کھا گئی اور امریکا کی حامی حکومت برسر اقتدار آگئی۔

یوکرائن تنازع

بہت سے مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرائن کے مسئلے پر دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ روس ایک لاکھ سے زیادہ فوجی یوکرائن کی سرحدوں پر پہنچا چکا ہے، مشقیں کی جا چکی ہیں، تعیناتی کا عمل مکمل ہوچکا ہے۔ بالکل ایسی فضا ہے کہ کسی وقت بھی صدر پیوٹن حکم دیں گے اور روسی فوجیں یوکرائن میں داخل ہو جائیں گی۔ روس کے لیے یہ موضوع بالکل واضح ہے، کیونکہ یوکرائن سوویت یونین کا حصہ رہا ہے اور سوویت یونین کے امریکہ اور یورپ کا فوجی اتحاد یعنی نیٹو مسلسل روس سے ہر طرح کی محاذ آرائی میں مصروف رہا ہے۔ سوویت یونین سے جو ریاستیں آزاد ہوئیں، امریکا اور اس کے اتحادیوں نے ان میں مداخلت کا عمل شروع کر دیا، تاہم بیشتر ممالک میں اب بھی روس کا اثر و رسوخ اور عمل دخل باقی ہے۔ سوویت یونین سے الگ ہو کر ایک عرصے تک یوکرائن میں بھی روس کی حامی حکومت موجود رہی، لیکن امریکا نے رفتہ رفتہ وہاں ایسی فضا پیدا کی کہ سیاسی طور پر روس کی حامی حکومت شکست کھا گئی اور امریکا کی حامی حکومت برسر اقتدار آگئی۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکا اور اس کے فوجی اتحادیوں نے فیصلہ کیا کہ یوکرائن کو بھی نیٹو کا ممبر بنایا جائے۔ روس کے نزدیک یہ عمل اس کی ریڈ لائن کراس کرنے کے مترادف ہوگا، کیونکہ اس طرح نیٹو افواج روس کی سرحد پر تعینات ہو جائیں گی۔ روس یہ کسی صورت برداشت نہیں کرے گا، لہذا یا تو نیٹو کو اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہے یا پھر روس کو اپنی افواج اپنے سابقہ مقبوضہ ملک یوکرائن میں داخل کرنی ہیں۔ امریکا اور اس کے حواریوں نے عارضی طور پر تو روس کا مطالبہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے، لیکن روس یہ چاہتا ہے کہ گو مگو کی صورتحال ختم کرکے نیٹو واضح طور پر اعلان کرے کہ وہ یوکرائن کو نیٹو میں ہرگز شامل نہیں کرے گا۔

دنیا میں تمام تر شور شرابے، پیش گوئیوں، دھمکیوں، سفارتی عملے کی واپسی، امریکا اور اس کے حواریوں کا اپنے شہریوں کو یوکرائن نہ جانے اور موجود شہریوں کو فوراً یوکرائن کو ترک کرنے کی ہدایت، یہ سب باتیں ہمارے نزدیک شور شرابے کا حصہ ہیں۔ جنگی بیانات میں صرف امریکا اور برطانیہ پیش پیش ہیں۔ فرانس، جرمنی اور کئی دیگر ممالک نے پہلے بھی کئی عالمی مہموں یا نیٹو کے فوجی معرکوں میں اس طرح سے جوش و خروش سے حصہ نہیں لیا، جس طرح سے برطانیہ نے امریکا کے ساتھ مل کر حصہ لیا ہے۔ یہ ممالک یوکرائن کے مسئلے میں بھی زبانی جمع خرچ میں تو کسی حد تک ساتھ ہیں، لیکن فوجی معرکہ آرائی کی صورت میں پوری سرگرمی سے امریکا کا ساتھ دینے کا ارادہ نہیں رکھتے۔

امریکا کو دنیا میں کئی اور محاذوں پر بھی مسائل کا سامنا ہے۔ ابھی حال ہی میں نیٹو افواج امریکا کی قیادت میں بہت بڑی رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکل چکی ہیں۔ مشرق وسطی کے فوجی محاذ بھی امریکی ہاتھوں سے سرکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ عراق میں امریکی کاروانوں اور تنصیبات پر ہر روز حملے ہو رہے ہیں۔ امریکا کئی فوجی اڈے عراق کے حوالے کر چکا ہے اور بظاہر اپنی تمام تر افواج کو عراق سے نکالنے کا اعلان بھی کرچکا ہے۔ اگرچہ عملی طور پر اس کے ارادے اس کے اعلانات سے ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتے۔ شام میں بھی امریکا کو ایک بھرپور ہزیمت کا سامنا ہے۔ وہ جنگ کے لیے اپنا بوجھ اپنے نیٹو اتحادی ترکی کے کندھوں پر ڈال چکا ہے اور کچھ کام وہ اپنے لے پالک دہشت گرد گروہوں سے لے رہا ہے، تاہم مجموعی طور پر اس کی شکست دنیا پر آشکار ہوچکی ہے۔

یمن کی سات سالہ جنگ میں بھی امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھ فی الحال رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا، تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکا اور اس کے اتحادی روس جیسی ایک بڑی طاقت سے دو بدو جنگ چھیڑنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اگر ایک طرف امریکا اور اس کے اتحادی روس پر نئی پابندیوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو دوسری جانب یورپ کو یہ بھی خطرہ ہے کہ کسی فوجی معرکے کی صورت میں روس سے آنے والی تیل اور گیس کی سپلائی بھی بند ہوسکتی ہے۔ دنیا اس وقت بھی تیل کی قیمتوں کے حوالے سے ایک شدید بحران کا شکار ہے، بعض امریکی کمانڈر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر نیٹو روس سے معرکہ آرائی میں مصروف ہوگیا تو چین تائیوان سمیت اپنے دعووں کے مطابق اپنے علاقوں کی طرف فوجی پیش قدمی کرسکتا ہے۔ وہ اپنی حکومت کو خبردار کر رہے ہیں کہ روس کے ساتھ معرکہ آرائی میں اس مسئلے سے غفلت اختیار نہ کریں۔

کیا امریکہ اس قابل ہے کہ بیک وقت دنیا کی دو عظیم طاقتوں سے جنگ چھیڑ سکے۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اس وقت تمام پہلوان ایک دوسرے کو اپنے مسلز دکھانے میں مصروف ہیں۔ ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھنے کا کسی کا ارادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے مذاکرات بھی جاری ہیں اور دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں۔ فوجی نقل و حرکت بھی کی جا رہی ہے اور سفارتی آمد و رفت کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ عارضی طور پر یوکرائن کو نیٹو کا حصہ نہ بنانے کا اعلان بھی ظاہر کرتا ہے کہ نیٹو احتیاطی تدابیر بھی پیش نظر رکھے ہوئے ہے۔

بشکریہ : اسلام تائمز