×

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔

ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم۔۔۔

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

اس دنیا میں کسی بھی شخص کا قیام ابدی نہیں ہے۔ بقول شاعر “احمدؐ مرسل نہ رہے تو کون رہے گا” تاہم بعض لوگوں کا جانا، دنیا میں ایسا خلا پیدا کرتا ہے، جس کا پر کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے۔ سید ثاقب اکبر جن کو میں آقا صاحب کے نام سے بلاتا تھا، ان سے میرا تعلق تقریباً تیرہ سال پر محیط ہے۔ ان تیرہ برسوں میں جہاں میں نے ان کے ادارے میں ملازمت کی، وہیں انھوں نے ایک شفیق استاد کی طرح میری تربیت بھی کی۔ آقا صاحب کا وطیرہ تھا کہ وہ اپنے ساتھ آنے والے کی فکری و نظریاتی پرورش ضرور کرتے تھے یا ازخود ہوتی رہتی تھی۔ اس تربیت و پرورش کا طریقہ کار درسی نہیں بلکہ عملی تھا۔ سید ثاقب اکبر سے میرا پہلا تعارف زمانہ طالب علمی کے ایک لیکچر کے دوران ہوا، جہاں انھوں نے علامہ محمد اقبال کے چند شعر پڑھے۔ ان کی باقی کی گفتگو تو مجھے یاد نہیں، تاہم ان کے اشعار جیسے میرے اندر اتر گئے۔ وہ اشعار یہ تھے:

تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اَسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
موت کے آئینے میں تجھ کو دکھا کر رُخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دُشوار کرے
دے کے احساسِ زیاں تیرا لہُو گرما دے
فقر کی سان چڑھا کر تجھے تلوار کرے
فتنۂ ملّتِ بیضا ہے امامت اُس کی
جو مسلماں کو سلاطیں کا پرستار کرے!

سید ثاقب اکبر انسانوں کے اس گروہ سے تھے، جو نظریہ کی بنیاد پر انتہائی فعال اور متحرک زندگی گزارتے ہیں۔ ہم نظریہ کی بنیاد پر فعال اور متحرک زندگیاں گزارنے والے افراد کے بارے میں سنتے ہیں، میں نے نہ فقط ایسا انسان دیکھا بلکہ اپنے لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس کے ہمراہ رہنے کی کوشش بھی کی۔ انھوں نے کبھی یہ احساس نہ دلایا کہ تمھاری رفتار بہت کم ہے، بس شفقت سے آگے بڑھاتے رہے۔ جب میں ثاقب صاحب کے دفتر کا حصہ بنا تو میرے پاس کمپیوٹر نیٹ ورکنگ اور کچھ ویب ڈویلپنٹ کا تجربہ تھا۔ قبلہ سید ثاقب اکبر نے کچھ عرصہ تو مجھے نہ چھیڑا اور اپنے کام میں مصروف رہنے دیا، پھر آہستہ آہستہ مجھے تحریر و تجزیہ کی جانب آنے کے لیے اکسانے لگے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سید ثاقب اکبر نقوی اسلام آباد میں ایک سیکٹر میں ایک چھوٹا سا دفتر چلا رہے تھے۔

ایک روز قبلہ نے مجھے کہا کہ تم کسی موضوع پر کچھ لکھو۔ نہیں معلوم ان کو کہاں سے نظر آیا کہ میں لکھ سکتا ہوں۔ ان کے کہنے پر میں نے ایک آرٹیکل تحریر کیا، جس کی انھوں نے نہ فقط اصلاح کی بلکہ ایک لوکل خبری سائٹ پر بھی شائع کروا دیا۔ ان کی عادت تھی کہ جب بھی ان کے احباب میں سے کوئی شخص کچھ ہٹ کر کام کرتا تھا تو وہ اسے انعام بھی دیتے تھے، شاید اس وقت انھوں نے مجھے پانچ سو روپے انعام بھی دیا۔ اس دن کے بعد سے میری جانب سے مختلف موضوعات پر تحریروں کا سلسلہ شروع ہوگیا، جس کی وہ مسلسل اصلاح کرتے رہے اور مجھے بتاتے تھے کہ املاء اور مطالب میں یہ غلطیاں نہ کرو۔ میں نے ان الفاظ پر تحقیق کی ہے، ان کی املاء ایسے نہیں جیسے عام ہے۔ ان کی بتائی ہوئی غلطیوں سے مجھے ایک طویل عرصہ اختلاف رہا، لیکن ان کے احترام میں کچھ نہ کہتا تھا۔ پھر ایک روز انھوں نے کہا کہ آپ خود دیکھیں کیا آپ نہیں دیکھتے کہ میں آج بھی مطالعہ کرتا ہوں۔ کسی بھی موضوع پر لکھنے سے قبل دسیوں صفحات پر مشتمل لٹریچر کا مطالعہ کرکے اس موضوع پر قلم اٹھاتا ہوں۔ آپ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیئے۔ قبلہ سید ثاقب اکبر نے مجھے کہا کہ اپنی تحریر میں ہمیشہ گنجائش رکھا کریں، کبھی بھی قطعیت کا انداز نہ اپنائیں۔

ترجمہ، تحریر، کالم، مقالہ، رپورٹ، پریس ریلیز، کتاب کی تالیف، ماہنامہ کی تیاری ان تمام شعبہ جات میں وہ ان گذشتہ تیرہ برسوں میں مسلسل میری راہنمائی کرتے رہے۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے میرے سیاسی امور میں شغف کو دیکھتے ہوئے مجھے سیاسی امور پر تجزیہ کاری کے لیے آمادہ کیا۔ یہ میرے لیے ایک اور آزمائش تھی، تاہم میرے مدنظر تجزیہ نگاری سے بڑھ کر سید ثاقب اکبر کی نظروں میں کامیاب ہونا تھا۔انھوں نے مجھے بتایا کہ میں نے پہلے بھی بہت سے افراد کو تجزیہ کار کے طور پر متعارف کروایا ہے، تاہم ان میں سے کچھ کامیاب نہیں ہوئے، تاہم مجھے امید ہے کہ آپ کامیاب ہو جائیں گے۔ ان کی بات درست ثابت ہوئی۔ سحر ٹی وی، ریڈیو تہران اور دیگر خبری چینلز پر میرے سیاسی تجزیے نشر ہونے لگے، جو الحمد للہ اب بھی جاری ہیں۔اب وہ میرے ساتھ عالمی و علاقائی سیاسی امور پر بھی بات اور مباحثہ کرنے لگے اور میرے مطالعات و تجزیات سے بہت خوش ہوتے۔

اسی دوران میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کے احیاء کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ سید ثاقب اکبر قاضی حسین احمد مرحوم کی امارت جماعت اسلامی سے فراغت کے بعد ان سے ملے اور انھیں “کچھ بڑا” کرنے کا کہا۔ قاضی صاحب مرحوم نے ان سے پوچھا کہ کیا بڑا کیا جانا چاہیے تو سید ثاقب اکبر نے اتحاد امت کا نظریہ پیش کیا اور اس سلسلے میں ملی یکجہتی کونسل کے احیاء کا مشورہ دیا، تاکہ ملک میں مسلکی ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکے۔ قاضی صاحب نے اسے فوراً قبول نہ کیا بلکہ کہا کہ میں بعض دوستوں سے مشورہ کرکے آپ کو جواب دوں گا۔ بہرحال چند دنوں بعد ہی قاضی صاحب نے سید ثاقب اکبر کی اس تجویز کو قبول کر لیا اور ملک کی دینی جماعتوں کا اجلاس گیارہ اکتوبر 2010ء کو طلب کر لیا۔ قاضی حسین احمد مرحوم نے سید ثاقب اکبر کو اپنی مرکزی کابینہ میں ڈپٹی سیکریٹری جنرل کے عہدے پر اپنے ساتھ رکھا۔

انھوں نے کہا کہ آپ کے پاس ڈپٹی سیکریٹری جنرل کے ساتھ ساتھ دفتر چلانے کی ذمہ داری بھی ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کی ذمہ داری سے قبلہ کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہوگیا۔ دفتری ریکارڈ کی تیاری، روابط، پروگراموں کا انعقاد، کانفرنسوں کا انعقاد، دورہ جات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ راقم ان تمام امور میں ہمیشہ سید ثاقب اکبر کے ہمراہ رہا۔ تادم رخصت سید ثاقب اکبر ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھے، آج ان کی رحلت کے موقع پر کونسل کے قائدین سمیت ان کے احباب نے جن جذبات کا اظہار کیا ہے، واقعا لائق تحسین ہے۔ خداوند کریم کا شکر ہے کہ شہرت کے بعد گمنامی کا ایک زمانہ گزارنے کے بعد سید ثاقب اکبر ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سطح پر جگمگانے لگے۔

اپنی گمنامی کے زمانے میں سید ثاقب اکبر نے کبھی بھی اپنی راہ و روش کو ترک نہ کیا، وہ ہمیشہ بھیڑ چال کے بجائے بابصیرت اقدام کی تشویق دلواتے تھے۔ قم سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود انھوں نے روحانی لباس کو ترک کیا، وہ کہتے تھے کہ میں اس کے بغیر زیادہ بہتر کام کرسکتا ہوں۔ علامہ ہونے کے باوجود انھوں نے اپنے نام کے ہمراہ علامہ نہیں لکھوایا، وہ کہتے تھے کہ میرا کام اس لاحقے کا محتاج نہیں۔سید ثاقب اکبر ایک کہنہ مشق اور قادر کلام شاعر تھے، ان کی شخصیت کا ایک حسن ہر کام میں مشاورت تھا۔ شعر لکھتے تو میاں تنویر قادری کو ضرور سناتے، آرٹیکل تحریر کرتے تو مجھے پاس بلا لیتے اور کہتے کہ پڑھتا ہوں، آپ دیکھیں کوئی غلطی تو نہیں ہے۔ ہم نے ماہنامہ پیام کا گذشتہ شمارہ رسالت مآب ؐ پر سادات کرام کی نعتوں کے حوالے سے ترتیب دیا، آقا صاحب نے کہا کہ آپ کے دادا، والد شاعر ہیں، آپ کو بھی شعر کہنا چاہیئے۔ آپ میں شعری ذوق ہے، کوشش کریں کہ نعت لکھیں، حتی مجھے ایک مصرعہ بھی لکھ کر دیا کہ اس زمین پر شعر کہیں، تاہم میں ججھکتا رہا، پھر ایک روز نعت لکھ کر ان کے پاس لے گیا، بہت خوش ہوئے اور اپنی عادت کے مطابق انعام دیا۔

یہ ایک شخص کی سید ثاقب اکبر سے رفاقت کی کہانی ہے، اس طرح کے دسیوں افراد موجود ہیں، جن کو انھوں نے کسی نہ کسی انداز میں راہنمائی کی۔ اس وقت شاید کسی کو احساس نہ ہوتا ہوگا کہ وہ کس خاموشی سے ہماری بہتری کی کوشش کر رہے۔ آج ان کے جانے کے بعد کئی ایک افراد کو احساس ہوا ہے کہ انھوں نے کیسا ہیرا تہ خاک پنہاں کر دیا۔ قبلہ سید ثاقب اکبر اپنے مربی مولانا سید صفدر حسین نجفی، اپنے دوست ڈاکٹر محمد علی نقوی اور دیگر چند ایک شخصیات کا تذکرہ اکثر کیا کرتے تھے۔ انھوں نے زندگی بھر دوست بنائے، اس کے باوجود کچھ لوگ ان کے مخالف رہے۔ وہ کہتے تھے ہم اس وقت تک روحانی ترقی حاصل نہیں کرسکتے، جب تک اپنے دلوں سے تمام تر برائیوں کو دور نہ کر دیں۔ کینہ و بغض بھی برائی ہے دل کو اس سے رہا کرنا چاہیئے۔

یہ بھی پڑھیں: https://albasirah.com/urdu/dr-sab-aa-gai/

آقا صاحب دوست پرور انسان تھے، اپنی دوستیوں کو دکھ اور سکھ میں فراموش نہ کرتے تھے، ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ دکھ کی گھڑی میں اپنے دوستوں کے پاس ضرور پہنچا جائے۔ وقت کی پابندی، ایفائے عہدان کی خاص خصوصیات تھیں، جن پر وہ سختی سے کاربند رہتے تھے۔ ڈاکٹر ندیم بلوچ نے درست کہا کہ بعض لوگوں کے بارے میں وہ چند باتیں ایسی کرتے تھے، جو شاید خود اس شخص کے علم میں بھی نہ ہوں کہ یہ خوبی بھی اس میں موجود ہے، یہ جناب ثاقب اکبر کی وہ خصوصیت تھی، جو بہت کم انسانوں میں پائی جاتی ہے۔ آج بہت سی شخصیات آقا صاحب کی صلاحیات کا اعتراف کر رہی ہیں، جس پر یقیناً الگ سے تحریر کی ضرورت ہے اور بہت کچھ ایسا ہے، جو لکھا جانا چاہیئے، خداوند کریم نے توفیق دی تو ان شاء اللہ ضرور لکھوں گا۔

Share this content: