×

مسئلہ کشمیر

پیام فروری2021

مسئلہ کشمیر

مصنفہ: پروفیسر ڈاکٹر اویا ایکگوننج
بانی رکن سعادت پارٹی سابق ممبر قومی اسمبلی

تنازعہ کی ابتدا :
دُنیا میں کئی ایسے مسائل موجود ہیں جو کہ دہائیوں سے حل طلب ہیں ، ان میں سے ایک مسئلہ کشمیر ہے- دُنیا کی اخلاقی، سماجی، قانونی ، معاشی اور اسٹریٹیجک اقدار ، اور اس کی ضروریات تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں تاہم پرانے تنازعات جمود کا شکار ہیں – اس وجہ سے کشمیری عوام ، پاکستان اور دیگر علاقوں میں بسنے والے اُن کے عزیز و اقارب کی جانب سے اپنی خوشی سے دی جانے والی عظیم قربانیوں سے متنازعہ علاقہ کے اندر اور باہر بسنے والی نئی نسل ناواقف ہے- اگرچہ دنیا میں رونما ہونے والی ہر بڑی تبدیلی ان کی حیثیت کو تبدیل کر دیتی ہے

فلسطین ،کشمیر اور سائپرس ایسے تین عالمی مسائل ہیں جن کا زخم کئی دہائیوں سے بھرنے نہیں دیا گیا۔ دلچسپ طور پر ان تمام مسائل کا بنیادی مآخذ ایک ہی ہے یعنی زوال پذیر سلطنتِ برطانیہ اوراس کے منافق بیوروکریٹس جنہیں نوآبادیات خالی کرنے کا کام سونپا گیا تھا ۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایسے گہرے شگاف چھوڑے ہیں جس سے ان علاقوں میں ہزاروں لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ کشمیر ، فلسطین اور سائپرس کی عوام پر مصائب ڈھانے والے لوگوں کے وارث آج ثالثی کا کردار ادا کرنے کی سوچ رہے ہیں ۔ ان کا مقصد خطے میں امن قائم کرنا نہیں بلکہ طاقت کی سیاست کے ذریعہ اپنے ذاتی مفادات کا حصول ہے۔
مسئلہ کشمیر دوسرا اہم بڑا مسئلہ تھا جو سیکیورٹی کونسل کے قیام کے بعداس میں اٹھایا گیا اور 70سال سے حل طلب ہے اور یہ تنازعہ پاکستان اور بھارت کے مابین تین بڑی جنگوں کا سبب بن چکا ہے۔
یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس مسئلے کی حدود کا تعین کیا جائے اور رُونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ اس کے سیاسی تناظر میں کیا جائے۔ اس طریقہ کار کے ذریعہ ہم دنیا کے نظام میں منظم ﴿systemic﴾اور ذیلی منظم ﴿sub۔systemic﴾ تبدیلیوں کا جائزہ لے سکتے ہیں اور یہ کہ اس کے کشمیر تنازعہ پر کیا اثرات مرتب ہوںگے۔ پہلے منظم تبدیلی رونما ہوتی ہے جو علاقائی عوامل میں تحرک پیدا کر کے ذیلی منظم تبدیلی کی راہ ہموار کرتی ہے اور جس کی وجہ سے اہم داخلی عدم توازن پیدا ہوتا ہے۔
آج ہم مسئلہ کشمیر کو مربوط سیاست(linkage politics) کے تعلق سے سمجھیں گے اور اس طریقہ سے ممکنہ حل بھی تلاش کریں گے۔
تا ریخی پیش رفتیں:
برصغیر میں برطانوی راج کے خاتمے اور پاکستان اور بھارت کی آزادی کے بعد 1947ئ سے 1967ئ تک کی پہلی دو دہائیاں دونوں ملکوں کیلئے قومی تعمیر و ترقی کا دور تھا۔ اس دور کا اختتام ایک منظم تبدیلی تھی، جس نے ﴿دونوں ممالک کیلئے﴾ دُنیا بھر میں نئی پیش رفت کی راہ ہموار کی۔
اگلی دو دہائیوں یعنی 1968ء سے لے کر 1988 ء تک کا عرصہ دونوں ملکوں کی جانب سے جنگوں کی نئی لہر ، غیر روایتی ہتھیاروں کی دوڑ ، سٹریٹیجک اہمیت بڑھانے کی تگ و دو اور برِّصغیر میں اپنی طاقت منوانے کی کھینچا تانی میں گزرا۔
آخری دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ یعنی 1990ء سے لیکر 2014ء تک، دُنیا میں تیزی سے رونما ہوتی اُن سیاسی تبدیلیوں کا سامنا کرتے گزری جو کہ جنگِ عظیم دوئم کی باقیات کے طور پہ طاقت کے توازن کو بُری طرح بدل رہی تھیں ۔
1989۔90ء میں سویت یونین کے اچانک ٹوٹنے کے بعد چھوٹے اور درمیانے سائز کی ریاستیں وجود میں آنے کا نیا دور شروع ہوا جنہوں نے پہلے سے قائم سوشلسٹ اور سرمایہ دار پاور بلاکس پر کم سے کم انحصار کرنے کی کوشش کی۔ بد قسمتی سے ان ریاستوں کو یہ باور ہوا کہ دو پاور بلاکس کی بجائے ان کا انحصار اب آئی یم ایف اور ورلڈ بینک کی جانب منتقل ہو گیا جو سرمایہ درانہ نظام کے زیرِ کنٹرول عالمی مالیاتی ادارے ہیں۔
سوویت یونین کے خاتمہ نے دُنیا سے اس دو قطبی نظام ﴿bi-polar system﴾ کا خاتمہ کر دیا جو کسی حد تک سیاسی استحکام کا باعث تھا۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے جو گزشتہ پچاس سال میں تعمیر ہوئے تھے، وہ یکدم فقط عالمی بحث و مباحثہ ہی کے ادارے بن کر رہ گئے ۔ عالمی قانون میں بندھی اخلاقی و سماجی اقدار اچانک گرنا شروع ہوگئیں۔
اکیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے pre-emptive strike ﴿ دشمن کے حملے سے قبل اس پر حملہ کر دینا کی نئی حکمت عملی اپنا لی ۔ امریکہ دنیا کے ہر ہونے والے واقعہ اور ہر صُورتحال کے ارتقائ پر کنٹرول رکھنے والی عالمی طاقت کے طور پر ابھرا ۔ یہ دنیا کے سیاسی محاذ پر امریکی غلبہ کی ابتدائ تھی۔ یہ واقعہ دنیا میں گلو بلائزیشن کے محرکات کے ساتھ بیک وقت رونما ہوا جس نے دنیا بھر میں کئی چھوٹی بڑی تبدیلیوں کا آغاز کیا ۔
کشمیر پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور تھا اور ایسا 1947ء سے ہی تھا۔ کشمیر کا تنازعہ نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے بلکہ پاکستان کی داخلی پالیسیوں کیلئے بھی انتہائی اہم رہا ہے ۔
دوسری جانب بھارت کے لئے کشمیرکا تنازعہ اس کی خارجہ یاداخلہ پالیسی میں اوّلین حیثیت کا حامل نہیں رہا۔ بھارت مسئلہ کشمیر کو اپنا سب سے اہم قومی مسئلہ نہیں سمجھتا ۔ یہ اس لیے ہے کہ کشمیر کے موجودہ حالات میں بھارت کا تسلط ﴿status quo﴾ قائم ہے۔ بھارت اپنی فوجی و عسکری طاقت کے ذریعے ریاست جموں و کشمیرکے سب سے زر خیز اور گنجان آبادعلاقے کوکنٹرول کئے ہوئے ہے ۔
فوجی طاقت کے اعتبار سے بھارت اپنے ہمسایہ ملک پاکستان سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔معاشی طاقت اورجمہوری اداروں کے تجربات کے اعتبار سے تنازعہ کے فریقین برابر نہیں ہیں۔ ﴿معاشی و جمہوری قُوّت کے اعتبار سے ﴾ دو غیر متناسب قوتیں زمین کے ایک بیش قیمت خطے کے لئے لڑ رہی ہیں ۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ عالمی نظام میں خصوصاً 9/11 کے بعد اُن اخلاقی اور سماجی اقدار میں ڈرامائی تبدیلی رونما ہوئی جو قبل ازیں عالمی قوانین کا حصہ تھیں ۔ ان اَقدار کی غیر موجودگی میں تکلیف دہ عالمی مسائل کے حل کیلئے صرف طاقتور کو ہی درست اور موزوں مانا جارہا ہے۔
عالمی توازن ﴿ مُنَظّم تبدیلیاں ﴾:
ایسی تبدیلیاں جو پورے خطے میں قائم توازن پر اثر انداز ہو سکتی ہیں ان کے لیے بھی ‘منظم تبدیلیوں ( Systamatic Changes) ‘ کی اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس تبدیلی کا آغازنو آبادیاتی دور کے خاتمہ اور دو قطبی نظام ﴿bi۔polar﴾ کے آغاز سے ہوا۔ بنیادی طورپر طاقت کی کشمکش ﴿سوشلسٹ( سوویت یونین اور ﴿سرمایہ دارانہ) امریکہ کے مابین تھی یہ دونوں دُنیا کے معاملات میں غالب تھے۔ ﴿ایک طرح سے باقی تمام کی حیثیت ثانوی تھی۔ اسی کشمکش کے دوران کچھ ذیلی منظم تبدیلیاں رونما ہوئیں ، جنہوں نے خطے کے نقشے کو بدلنا شروع کر دیا۔ یہ دور بھارت اور پاکستان کی پہلی دو دہائیوں کے قومی تعمیر اور جغرافیائی استحکام والا دور تھا۔ اس دوران دونوں جانب ایک مسئلہ لاکھوں مہاجرین کے مسائل کا بھی تھا جو نئے گھر اور اپنے خاندانوں کیلئے نئی زندگی بنا رہے تھے۔ اِس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تقسیمِ زمین ، قدرتی اور آدمی کی بنائی ہوئی قومی دولت کی تقسیم بھی تھی ۔ یہ تقسیم غیر منصفانہ اور غلط پیمانوں پہ مبنی تھی ۔ ﴿کیونکہ بھارت نے بر طانوی راج کے گٹھ جوڑ سے تمام اہم وسائل ہتھیا لیے ۔
ذیلی منظم سطح پہ ہو نے والے محرکات اور تبدیلیوں کے سلسلے میں مشرق وسطی میں اسرائیل کے وجود میں آنے کی صورت میں ایسا عمل وقوع پذیر ہوا جس نے خطے میں تنازعات کو جنم دیا اور بہت ہی بھیانک نتائج مرتب کیے ۔ 1948ءمیں جب مسئلہ فلسطین نے جنم لیا تو اُس وقت عالمی توجہ تقسیم ہو گئی ، اور مغربی طاقتوں کا رُخ ﴿اصل مسائل کی بجائے ﴾ ’’تیل کی دولت‘‘ سے مالا مال مشرقِ وُسطیٰ کی جانب ہوگیا۔
اتنا ہی اہم اثر ذیلی منظم سطح پر 1956ء میں سویز کینال کی نجکاری کے نتیجے میں مرتب ہوا۔ سویز کنال کے مسئلہ پر فرانس، برطانیہ اور اسرائیل کے مؤقف کی حمایت اختیار کرنے سے پاکستان عرب اور غیر وابستہ ﴿(Non۔Alighned )ریاستوںکی زیادہ دوستی حاصل نہ کر سکا خصوصاً جب اقوام ِ متحدہ میں کشمیر کا معاملہ آیا۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی اہم معاہدے طے پائے جن میں Baghdad Pactاور Cento اور بعد ازاں RCD وغیرہ شامل ہیں۔جس وقت طرفین اپنے بلاکس مضبوط بنانے کیلئے کئی معاہدے اور پیکٹ کرنے میں مصروف تھے اسی وقت دنیا نے ایک غیر جانبدار گروپ ﴿(Non۔Alighned )کو اُبھرتے دیکھا جس نے چند بڑی اور غیر متوقع ریاستوں مصر، بھارت اور یوگو سلاویہ کو اپنے مرکز پر اکٹھا کیا۔ اس گروپ نے اور بھی کئی ابھرتی ہوئی ریاستوں کو اپنی جانب کھینچا جو دونوں بلاکس ﴿اشتراکی و سرمایہ دار میں کسی کے زیرِ اثر نہیں رہنا چاہتی تھیں ۔ اِس چال کی وجہ سے بھارت کو ان ریاستوں کی جانب سے بہت حمایت حاصل ہوئی، بالخصوص مسئلہ کشمیر پر!
اس موقع پر پاکستان، باجود مغربی طاقتوں سے قربت رکھنے اور اپنی پالیسیاں اُن کی پالیسیوں کے مطابق ترتیب دینے کے، اُن سے کشمیر جیسے اہم مسائل پر اُس طرح کی حمایت حاصل نہ کر سکا ۔
اُس وقت دُنیا میں ایک رونما ہونے والی منظم تبدیلی چین کا ایک بڑی کمیونسٹ طاقت بن کے ابھرنا اور غیر جانبدار گروپ میں شامل ہونا تھا۔ ان منظم تبدیلیوں نے ذیلی منظم تبدیلیاں بھی رونما کیں:
} اولاً : بھارت اور چین کے مابین جنگ تھی جس کی وجہ سے بڑی طاقتوں کو تشویش لاحق ہوئی کیونکہ اس سے طاقت کا توازن ممکنہ طور پہ یکسر تبدیل ہو سکتا تھا۔
} سیاسی طور پر پاکستان نے ہمیشہ چین سے اچھے تعلقات بنائے رکھے جس سے اسلام آباد کو علاقائی سیاست میں مخصوص تقویت حاصل ہوئی۔
} دوسرا : یہ کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان کشیدگی تھی۔ سوویت یونین نے روس کی سرحد میں امریکہ کا جاسوس طیارہ مار گرایا اور امریکی پائلٹ گیری پاول کو گرفتار کر لیا۔ یہ واقعہ ایک عالمی بحران کی صوت اختیار کر گیا ۔ اس کے نتیجے میں سوویت یونین نے پاکستان کو ایٹمی حملے کی دھمکی دی یہاں تک کہ وہ ایئر بیس بند نہ کر دی جائے جس سے اس طیارہ نے پرواز بھری تھی ۔ پاکستا ن نے امریکہ کو ایئر بیس خالی کرنے کو کہا ۔ اِس واقعہ کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین کشیدہ صورت حال پیدا ہوگئی۔
} تیسرا اہم واقعہ: 1965ء میں کشمیر کے تنازعہ پر پاک بھارت جنگ کا تھا۔عالمی طاقت کے توازن میں رُونما ہونے والی تبدیلیوں کے زیرِ اثر دونوں ممالک کے مابین یہ ایک اہم جنگ تھی۔
} 1970 ء کی دہائی کی ابتدا میں سوویت یونین کا خطے میں اثرورسوخ بڑھ رہاتھا ۔
ذیلی منظم تبدیلیاں :
دُنیا میں رونما ہونے والی بڑی منظم تبدیلیاں اپنے اثرات دُنیا پر چھوڑ رہی تھیں، اسکے ساتھ ساتھ ذیلی منظم تبدیلیوں نے ان کے اثرات میں مزید اضافہ کیا۔ ان میں سے ایک اہم واقعہ اسرائیل اور اس کے ہمسایہ عرب ممالک کے درمیان اکتوبر کی جنگ تھی۔ اگرچہ یہ بذاتِ خود ایک ذیلی منظم تبدیلی تھی لیکن اس کے نتیجے میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی جوابی حکمت عملی کی صورت میں منظم تبدیلی رونما ہوئی۔ اس جوابی حکمت عملی کا محرک مغربی ممالک کی جانب سے اکتوبر کی جنگ کے دوران اسرئیل کی مدد تھی۔
گزشتہ دو دہائیوں کی ان تبدیلیوںکے دوران کشمیر کا مسئلہ ثانوی حیثیت اختیار کر گیا۔ بھارت اور چین کی جنگ کے دوران مغربی ممالک نے پاکستان کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کی اور اسے چین کی حمایت سے روکا ۔ یہ وقت مغرب کی جانب سے بلند بانگ وعدوں کا دور تھاکہ خطے کے پرسکون ہوتے ہی مسئلہ کشمیر حل کیا جائے گا۔ جنگ کے اختتام کے بعدچند سفارتی کوششوں اور کچھ مغربی ممالک کے سربراہان کے دورے کے بعد مسئلہ کشمیر آنے والے برسوں کیلئے جوں کا توں ہی چھوڑ دیا گیا ۔
عالمی سیاست کا بدلتا توازن:
دُنیا کاسیاسی توازن اس وقت تبدیل ہو گیا جب 1979ء میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کی صورت میں منظم تبدیلی رونما ہوئی۔ 1980ء کی نئی دہائی میں خطے بھر میں، شمالی برصغیر اور افغانستان میں نئے مفادات اور سرگرمیوں کا تعین ہواجس کااثر وسطی ایشیا اور تمام ہمسایہ ممالک پر پڑا۔ یہ اثرات ایران میں آنے والے انقلاب اور شاہ کی حکومت کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ رونما ہوئے۔ان دونوںواقعات نے اچانک دُنیا کے سیاسی تناسب و توازن کو ہلا کر رکھ دیا اور منظم تبدیلیوں میں نئے اور غیر متوقع شراکت دار شامل ہوگئے۔ ان منظم تبدیلیوں کے سائے تلے بہت سی ذیلی منظم تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔
1۔ 1970۔71ء کی جنگ میں بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی ہوئی۔اس جنگ کے پاکستان پر منفی اثرات مرتب ہوئے جبکہ بھارت نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں اتحاد کو تقسیم کرنے کی بھر پور کوشش کی۔
2۔ 1974ء میں بھارت کے پہلے ایٹمی تجربہ نے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ کوبڑھادیا اور پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوگئے۔
3۔ افغانستان میں ہونے والے واقعات، ملک میں سوویت مخالف قوتوں کے بننے والے اتحاد اور آزادی کیلئے ان کی مشترکہ کوششوں نے خطے کی صورتحال کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ان تمام تبدیلیوں کا اثر کشمیر کے خطہ اور بذاتِ خود مسئلہ کشمیر پر بھی پڑا۔
4۔ بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے گئے مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں:
} 1948ء سے لے کر اب تک بھارتی قبضہ میں کشمیری مسلمانوں کو چین کا سانس نصیب نہیں ہوا۔
} سیاسی قائدین کی جیل میں بندش معمول کی بات ہے ۔
} لوگوں کا لاپتہ ہوجانا غالب امر بن گیا ہے۔
} عورتوں سے زیادتی اور ان کا اغوا کے واقعات اکثر رونما ہوتے ہیں۔
} بھارتی قا بض افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور آزادی پر قدغن رواج بن گیا۔
اگرچہ یہ ذیلی منظم تبدیلیاں تھیں مگر مستقبل کے واقعات پر اس کے دور رَس اثرات مرتب ہوئے مثلاً آنے والے برسوں میں افغانستان میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد طالبان حکومت کیلئے راستہ بالکل صاف ہوگیا ۔ یہ اثرات اور تبدیلی آج بھی علاقائی اور عالمی سیاست میں ایک اہم کردار ہیں۔
1980 ء کی سیاسی تبدیلیوںکے دوران کشمیر کی تحریکِ آزادی ﴿Kashmir Freedom Movement﴾ شروع کرنے والے کشمیری مسلمانوں نے اپنے آپ کو کشمیر کی سیاست کا اہم ترین حصہ بنا نا شروع کیا ۔ انہوں نے بھارت میں ایکشن لئے اور بھارتی حکومت پر دبائو بڑھانا شروع کیا۔اس کے ردِّ عمل میں بھارت نے کشمیری مسلمانوں کو ﴿بزورِ شمشیر دَبانے کے لئے مزید افواج بھیج دیں۔
اس دہائی کا خاتمہ خطے کیلئے تاریخی واقعہ سے ہوا ۔ یہ Glasnost and Perestroika ﴿سوویت یونین میں صراحت اور جدت کی تحریکیں کا آغاز تھااور اس کے بعد 1989ء میں روس میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئیں ۔ یہ منظم تبدیلی توقعات سے بڑھ کر تھی ۔ اس نے کمیونسٹ دور کے خاتمہ اور1990ء کی دہائی کے دوران bi۔polar نظام کا خاتمہ کیا۔
سوویت یونین ،پھر یوگو سلاویہ کے ٹوٹنے اور مشرقی اور وسطی یورپ میں کمیونسٹ دور کے خاتمہ نے دنیا پر انتہائی اہم اثرات مرتب کئے۔ غیر جانبدار گروپ کا دور بھی اختتام پر پہنچا اوردنیا میں کئی نئی ریاستیں وجود میں آتی دیکھی گئیں۔
ان سب حالات سے خانہ جنگیوں اور نسلی و مذہبی جنگوں کی غیر متوقع لہر آئی ، مثلاً بوسنیا ہرزیگوینااور کوسوو کی جنگ ۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے الحاق کے بعد یورپی یونین کی تیزی سے ترقی ایک نئے دور کا آغاز تھا ۔ یک قطبی نظام ﴿uni۔polar world﴾ میں امریکہ ایک نئی عالمی طاقت بن رہا تھا۔
ذیلی منظم سطح پر،اپنے اپنے ایٹم بموں کے تجربات کے بعد پاکستان اور بھارت نئی ایٹمی طاقتیں بن کر اُبھرے ۔ اس کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصہ کے دوران کارگل جنگ نے دونوں ملکوں کو ایٹمی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔
صرف کشیدہ صورتحال میں نئی سامراجی طاقتوں نے مسئلہ کشمیر پہ توجہ دی۔پاکستان کو کارگل کا علاقہ خالی کرنے کا کہا گیا اور وہاں بھارتی کنٹرول بحال کردیا گیا۔ یہ عسکری تنازعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستان اور ہندوستان کی سول قیادت کے مابین خفیہ طور پر کشمیر کے مسئلہ پہ لے دے ﴿Negotiations﴾ ہو رہی تھیں ۔
دلچسپ اور مضحکہ خیزطور پر پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں سے مغربی طاقتوں کو بہت سے تحفظات تھے جب کہ ایسی ہی ﴿نیوکلیئر صلاحیتوں کے حامل دیگر ممالک سے اُن طاقتوں کو ایسے تحفظات نہ تھے۔ اِس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ اس صورتحال نے مغرب کی جانب سے مسلم ریاستوں کے ساتھ غیر منصفانہ رویوں اور دوہرے معیارات کے احساسات کو پروان چڑھایا۔
مربوط سیاست کے ڈرامائی اثرات:
اکیسویں صدی میںمنظم تبدیلی غیر متوقع طور پر امریکہ میں ہونے والے 9/11 کے حملوں سے آئی۔ درج ذیل واقعات ’طریقہ کار اور رویہ‘ میں تبدیلیوں سے رونما ہوئے:
} افغانستان پہ ’ایک مرتبہ پھر‘ چڑھائی کردی گئی۔ اِس مرتبہ خود مریکہ نے چڑھائی کی ۔
} جس القاعدہ کو نیویارک جڑواں ٹاور اور واشنگٹن کی پینٹا گون عمارتوں پہ حملوں کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا تھا ، افغان طالبان اُس القاعدہ کو پناہ دینے کے مرکزی ملزم ٹھہرے ۔
} اس سے رائے عامہ میںایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی ، دنیا بھر میں جاری ’’آزادی کی تحریکوں‘‘ کو ’’دہشت گردی‘‘ گردانا جانے لگا۔
} جنگ کے ایک نئے تصور نے ایک بُنیادی عنصر کے طور پہ جنم لیا اور امریکہ نے اس پر عمل شروع کردیا۔یہ تصور’ خدشہ کے باعث حملہ آوری ﴿pre۔emptive strike﴾ کا تصور تھایعنی ﴿پہل کرتے ہوئے ﴾ دشمن کو اس کی سرزمین پہ جا کے مارا جائے تاکہ وہ آپ پر حملہ کی پہل نہ کرسکے ۔ اس نئی اور یک طرفہ طور پر بنائی گئے حکمت عملی کے تحت امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ اس کے دو سال بعد امریکہ نے عراق پر یہ کہہ کر حملہ کردیا کہ وہاں پر تباہ کن ہتھیار ﴿weapons of mass destruction﴾ موجود ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ نے عراق کا ڈھانچہ مکمل طور پہ تباہ کر دیا ، صرف اِس بُنیاد پہ کہ ، صدام حُسین امریکہ کی سیکیورٹی کیلئے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
ایک اور بڑی تبدیلی یہ رُونما ہوئی کہ عیسائی مذہب کے عالمی نفاذ پر یقین رکھنے والے اور اس بشارت کو عام کرنے والے مکتبِ فکر ﴿Evangelist Group﴾ کا امریکہ کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر اثر رسوخ بہت زیادہ بڑھ گیا ۔ ﴿اِشارہ صدر بُش رجیم کی جانب ہے ۔ اِس گروپ نے بائیبل کے مستقبل بین تصورات ﴿Biblical prophesies﴾ اور تہذیبوں کے تصادم کے دعووں کو تکمیل تک پہنچانے کی غرض سے اسلام اور مغربی طاقتوں کو ایک دُوسرے کے مدِّمقابل لا کھڑا کیا ۔ اِس کے ساتھ ساتھ گلوبلائزیشن کے بھی معیشت ، سیاست ، ثقافت اور روابط پر اَن گنت اثرات مرتب ہوئے۔ اسی طرح نسلی فسادات کی نئی روشیں پھوٹ پڑیں جو دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھیں ۔
ان تمام مذکورہ حالات میں مسئلہ کشمیر کو نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ آج کے حالات میں کشمیر، دنیا کی نئی سامراجی طاقتوں کو کسی بھی تزویراتی فائدے ﴿Strategic Advantage﴾ کے طور پر نظر نہیں آتا ۔ بہت سے اہل دانش سکالرزاور سربراہان مملکت کی طرف سے مسئلہ کشمیرکو ’’بارود کی بوتل‘‘ تک کہا جانا عالمی برادری کی توجہ اِس جانب مرکوز نہیں کروا سکا ۔
امریکہ کے پاکستان، افغانستان، وسطی ایشیا اور قفقاز ﴿Caucuses ﴾ میں ہوائی اڈے موجودہیں اور وہ خلیجِ عرب کے قیمتی وسائل کو قابو میں لئے ہوئے ہے ۔ لہٰذا اس وقت امریکہ کو کشمیر میں مزید ہوائی اڈوں کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے برعکس اس کی نظر صوبہ سرحد(کے پی کے) اور بلوچستان میں موجود مذہبی مدرسوں پر ہے جن کے نظام و انصرام کے سلسلے میںامریکہ پاکستان سے نالاں ہے ۔
نتائجConclusions﴾:
جب منظم اور ذیلی منظم سطح پر ڈرامائی تبدیلیاں ہو رہی ہوں تو ایسے مسئلہ کے حل کیلئے کوئی کیا امید رکھ سکتا ہے ؟جب کہ یہ مسئلہ سپر پاور اور غاصب طریقہ سے قابض قُوّت کیلئے اہم نہ ہو ایسی غاصب قُوّت جو اُس متنازعہ خِطّہ کے وسیع زرخیز علاقہ پہ قابض ہو ۔
اِس مسئلہ پہ بعض مہارت رکھنے والوں نے ﴿Authorities﴾ نے چند ممکنہ حل تجویز کئے ہیں :
۱۔کشمیر کو مکمل آزاد کر دیا جائے۔
۲۔ کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے مابین دوبارہ تقسیم کردیا جائے اور دونوں کو ثقافت کی قربت کے اعتبار سے علاقے دیئے جائیں ۔ جبکہ وادی کو برابر تقسیم کر دیا جائے ۔
۳۔لائن آف کنٹرول کو پاکستان اور بھارت کے درمیان مستقل عالمی سرحد تسلیم کر لیا جائے ۔
۴۔کشمیر کی مشترکہ حیثیت ﴿ condominium status﴾ ۔
۵۔ طرفین کے مابین تجارت اور ’’فری زون ایپلی کیشن‘‘ کے ذریعے آہستہ آہستہ روابط بڑھائے جائیں ۔
اوپر بیان کی گئی تجاویز میں سے پہلی چار بہت سی وجوہات کی بِنا پر بالکل ناقابلِ عمل ہیں۔
پہلی : اگر کشمیر کو مکمل آزاد ریاست بنا دیا جائے تویہ چاروں طرف سے خشکی میں محصور ﴿landlocked﴾ ہونے کے سبب اپنا وجود بر قرار نہیں رکھ سکے گا ۔ مزید یہ کہ بھارت بھی کسی طور اِسے مکمل آزاد نہیں بننے دے گا ۔
دوسرا آپشن شاید آئیڈیل ہے لیکن بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ یہ اس کے سیکیولر نظریات کی تفہیم کے خلاف ہے ۔ یعنی زمین کو مذہب اور ثقافت کی بُنیاد پر تقسیم کرنا ، بھارت کے ﴿نام نہادسیکولرازم کے خلاف ہے ۔
تیسری آپشن گو کہ بھارت کئی سالوں سے پیش کررہا ہے جو خود اس کیلئے بھی ناقابلِ قبول ہے ۔ لیکن یہ آپشن پاکستان کو تو کسی بھی طرح قبول نہیں ہوگی کیونکہ تین بڑی جنگیں لڑنے کے بعد پاکستان ﴿۱﴾ ایک چھوٹے سے علاقہ پر اِکتفا نہیں کرسکتا ۔ اور ﴿۲﴾ نہ ہی جموں و کشمیر کی لاکھوں عوام کو بھارتی قابض افواج کے رحم و کرم پر چھوڑ سکتا ہے۔
چوتھی آپشن پر شاید چھوٹے سویٹزرلینڈ کی مانند کام ہو سکے مگر طرفین کے عزائم اور تاریخی تنازعات کے باعث علاقہ کا اچھا نظم و ضبط ممکن نہیں ہے ۔
پانچواں اور آخری آپشن نسبتاً نیا ہے جس پر کامیابی کی امید کے ساتھ کام کیا جاسکتا ہے ، بشرطیکہ دونوں ممالک اسے بڑھنے دیں ۔
اگر مسئلہ کشمیر کا ﴿تمام فریقوں کیلئے کوئی پُر اَمَن حل تلاش نہیں کیا جاتا تو یہ پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک بم کے طور پر دہک رہا ہے ۔ پُر اَمن اور منصفانہ حل نہ ہونے کی صورت میں کئی گروہ اور افراد اس مسئلے کا پر تشدد حل چاہیں گے ۔
چونکہ منظم سطح پر دنیا کے اس حصہ میں اس مسئلہ کے حل کے لئے کوئی اشد ضرورت نظر نہیں آتی جس سے لگتا یہی ہے کہ یہ مسئلہ آنے والے وقت میں سرد خانے ہی میں دھرا رَکھا جائے گا ۔
آج دنیا کا سیاسی ماحول پھر سے اسلام مخالف ہے۔ لوگوں کے دل و دماغ جیتنے کے مقابلہ کے دور میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کرنے کیلئے سخت محنت کرنا ہو گی وگرنہ ہمارا مقدر انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہوگا جو ہماری اقدار و روایات اور ہمارے نبی اکرم ﷺ کی شان میں بے حرمتی کرتے ہیں۔ اب یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم کس طرح کی دنیا میں جینا چاہتے ہیں؟ اور اپنے آنے والی نسلوں کے لئے کیسی دنیا چھوڑ کر جاتے ہیں ؟
کشمیر کا مسئلہ اپنی آزادی کیلئے لڑنے والی وہاں کی عوام کی جد و جہد سے حل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا ایک بڑا نقصان ﴿draw back﴾ یہ ہوگا کہ مغرب کی جانب سے ایسی تمام کاوشوں کو “دہشت گردی “اور ’’ القاعدہ‘‘ سے جوڑ ے گا ۔ یہ رویہ کشمیریوں کی جد وجہد آزادی کو خاتمے پہ پہنچا دے گا ۔
ایک اور آپشن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ افغان عوام آزادی کیلئے لڑنے والے کشمیر یوں کی مدد کریں ۔ لیکن اس سے بھی امریکہ اور دوسری بیرونی طاقتیں خصوصاً بھارت تلملا اُٹھّیں گے ۔
روس کا بھارت مخالف تحریک کو ہوا دینے سے کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے ۔ روس کا سب سے بڑا مسئلہ قفقاز ﴿Cascasus﴾ میں چیچنیا کی آزادی کی تحریک کا خاتمہ ہے ۔ وہ چیچنوں سے محاذ آرائی کے دوران کشمیر یوں کی مدد نہیں کر نا چاہے گا۔
دوسری جانب چین کے ترکستان میں اپنے مسائل ہیں جہاں اوغر ﴿ygur ﴾ ترک خودمختاری یا مکمل آزادی چاہتے ہیں ۔ پاکستان کے چین سے قریبی تعلقات کبھی بھی ترکستان سے آنے والی مدد کی اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی اِس کے برعکس (یعنی کشمیر سے ترکستان کی مدد کی اجازت بھی پاک چائینہ تعلقات کبھی نہیں دیں گے۔) یہ پاکستان کے لئے انتہائی ضروری ہے کہ وہ چین اور باقی ایشیا سے قطع تعلق نہ ہو۔
تو نتیجۃً :
} مسئلہ کشمیر کے حل سے قبل کسی بڑی منظم اور ذیلی منظم تبدیلی کا انتظار کرنا ضروری ہے۔ اس دوران پاکستان کو اپنی فوجی استعداد اور ایٹمی صلاحیت کو بہتر بنانے پہ توجُّہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔
} پاکستان کو ایشیائی ممالک، خاص کر مشرق بعید سے نئے تعلقا ت استوار کرنے چاہئیں اور چین کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنے چاہئیں۔
} روس ایک نئے اتحادی کے طور پہ ساتھ ہو ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ ۔ پاکستان ان تمام کو مستقبل میں توانائی کی راہداری فراہم کرسکتا ہے ۔ مختصراً پاکستان کو اپنے اردگرد وسیع تجارتی اورعالمی تعاون کی فضا قائم کرنی چاہئے۔
} پاکستان کو کشمیریوں کی مدد جاری رکھنی چاہئے۔
} پاکستان کوسرحدی صوبہ ﴿KPK﴾ میں کسی بیرونی اشتعال انگیزی کی مدد سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا چاہئے ، بھلے وہ سابقہ اتحادیوں کی جانب سے ہی کیوں نہ ہو ۔
} پاکستا ن کو آزاد کشمیر کی تعمیر و ترقی کا کام جاری رکھنا چاہئے ۔
کشمیر کو ابھی مزید انتظار کرنا ہوگا تاکہ باہمی حل کے لئے حالات سازگار ہو سکیں ۔ لیکن اس دوران پاکستان کو وقت کا صحیح احساس اور استعمال کرتے ہوئے کشمیریوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مضبوط بنانا چاہئے۔
کشمیر کے معاملے پر بھارت کے ساتھ مذاکرات طویل تر اور غالباً بلا نتیجہ ہوں گے کیونکہ بھارت اور پاکستان دونوں میں اندرونی طبقات ’’کچھ چھوڑنا‘‘ کے ﴿تحت کسی بھی ﴾حل کی اجازت نہیں دیں گے : طرفین اپنے لئے مکمل جیت ﴿win۔win ﴾ کا حل چاہیں گے۔
کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی حل کی ضرورت ہے۔ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل اور دیگر ایسے ادارے اسکا حل پیش کرنے میں ناکام ہو ئے ہیں اور اِن کی جانب سے اور دیگر اِن جیسے عالمی اِداروں کی جانب سے اخلاقی یا قانونی مدد کا بھی بہت امکان کم ہے۔

Share this content: