×

اسرائیل کا سیاسی منظر نامہ اور ہماری قیاس آرائیاں

اسرائیل کا سیاسی منظر نامہ اور ہماری قیاس آرائیاں

syed asad abbas

تحریر: سید اسد عباس

اسرائیل جیسی ریاست جو گھٹنوں تک فلسطینیوں کے خون میں ڈوبی ہوئی ہے اور جس کے عوام فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم پر نہ فقط خاموش رہتے ہیں بلکہ ایک طرح سے اس میں شامل ہیں، میں بھی عدالتی نظام سے چھیڑ چھاڑ کو قبول نہیں کیا گیا اور ملک میں عظیم الشان مظاہرے ہوئے، جس کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو بھی عدلیہ کے حوالے سے اصلاحات کو موخر کرنا پڑا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو کے خلاف کرپشن، اقرباء پروری، رشوت ستانی اور اختیارات سے تجاوز کے مقدمات چل رہے ہیں۔ یہ مقدمات، مقدمہ نمبر ایک ہزار، دو ہزار اور چار ہزار کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ 2017ء سے نیتن یاہو کے یہ مقدمات اسرائیلی عدلیہ میں ہیں، جن پر مختلف سیاسی اور سکیورٹی وجوہات کے سبب تاحال فیصلہ نہیں دیا جاسکا ہے۔ اپنے خلاف انہی مقدمات کے سبب نیتن یاہو کو پارلیمان میں اکثریتی ووٹ حاصل نہیں اور متعدد مرتبہ اسے حکومت سے بے دخلی کا سامنا کرنا پڑا۔

نیتن یاہو کا بطور وزیراعظم پہلا دور حکومت 1996ء تا 1999ء تھا جبکہ دوسری مرتبہ نیتن یاہو 2009ء میں وزیراعظم بنا۔ نیتن یاہو کا تیسرا دور حکومت 2013ء میں شروع ہوا اور 2015ء میں نیتن یاہو چوتھی مرتبہ برسر اقتدار آیا۔ نیتن یاہو کا پانچواں دور اقتدار 2020ء میں شروع ہوا، جس میں نیتن یاہو نے بینی گانتیز کے ہمراہ اتحادی حکومت تشکیل دی۔ کرپشن چارجز اور اپنے خلاف بننے والے مقدمات کے باوجود نیتن یاہو اسرائیل میں ایک بااستعداد لیڈر سمجھا جاتا ہے اور عملی طور پر اس وقت اسرائیل میں اس کا کوئی نعم البدل موجود نہیں ہے۔ اسرائیل کو درپیش معاشی، دفاعی، سیاسی اور خارجہ امور کے چیلنجز کے باعث کوئی بھی اسرائیلی پارٹی یا شخصیت اس ریاست کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہیں ہے۔ نیتن یاہو کا چھٹا دور حکومت 29 دسمبر 2022ء کو شروع ہوا۔

بر سر اقتدار آنے کے بعد نیتن یاہو نے پہلا کام یہی کیا کہ ملک میں عدالتی اصلاحات کی جائیں اور عدالتی نظام کو پارلیمان کے زیر اثر کر دیا جائے۔ نئی اصلاحات کے مطابق اسرائیل کی سپریم کورٹ ملک کی مقننہ اور انتظامیہ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکے گی، نیز سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو 120 میں سے 60 ووٹوں کی سادہ اقلیت سے کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اصلاحات کے مطابق عدلیہ ملک کے آئین کے حوالے سے رائے دینے کی بھی مجاز نہ ہوگی۔ ان اصلاحات کا مقصد سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنا ہے۔ ظاہر ہے یہ تمام اقدامات پہلے مرحلے میں نیتن یاہو اور اگلے مراحل میں سیاسی اور حکومتی شخصیات کے خلاف مقدمات کے سدباب کے لیے اٹھائے جا رہے ہیں۔ نیتن یاہو کے اس اقدام کے خلاف حکومتی اراکین میں بھی تحفظات پائے جاتے ہیں، جس کا اظہار گذشتہ دنوں اسرائیلی وزیر دفاع نے اپنے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کیا۔ یواو گیلنٹ کے اسی انٹرویو کے سبب نیتن یاہو نے وزیر دفاع کو اپنے عہدے سے برطرف کر دیا۔

اسرائیل کی لیبر یونین ہسٹا ڈرٹ نے عدالتی اصلاحات کے خلاف ملک بھر میں عظیم الشان مظاہرے کیے، نیز عام ہڑتال کی کال دی، جس کے نتیجے میں یاہو حکومت کو پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے بھی اپنے ٹوئٹر پیغام میں نیتن یاہو کو عدالتی اصلاحات کے عمل کو روکنے کا کہا۔ اسحاق کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو کو اسرائیل کے اتحاد، احساس ذمہ داری کے تحت اس منصوبے کو روک دینا چاہیئے۔ اسرائیل میں حالیہ سیاسی پیشرفت کو مختلف انداز سے دیکھا جاسکتا ہے۔ میرے خیال میں اسرائیل کی موجودہ صورتحال میں مختلف سگنلز موجود ہیں۔ کچھ لوگ اسرائیل میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کو اسرائیل کے خاتمے کی نوید سمجھ رہے ہیں، تاہم میری نظر میں عدالتی نظام کے تحفظ کے لیے اسرائیلی عوام کا کھڑا ہونا اور ملک کے معروف ترین سیاسی راہنماء کے ناجائز اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج ہونا، اسرائیلی معاشرے میں زندگی کی امید کی جانب اشارہ ہے۔

یہ مظاہرے اس جانب اشارہ ہیں کہ اسرائیل میں اب بھی سوچنے، سمجھنے والے افراد موجود ہیں، جو کم از کم ملک کے آئین و قانون کے ساتھ مخلص ہیں اور اس کی حفاظت کا عزم رکھتے ہیں یا اس کے بارے میں سوچتے ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی سیاسی قائدین کی جانب سے کرپشن، رشوت ستانی، اقرباء پروری کے واقعات اس مکڑی کے جال کی کمزوری نیز معاشرتی بے راہ روی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے سیاسی، اقتصادی، معاشی، دفاعی، سکیورٹی اور خارجہ چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نیتن یاہو کے علاوہ کسی بھی نمایاں شخصیت کا موجود نہ ہونا، ملک کے جمہوری نظام میں موجود خلل، عدالتی فیصلوں کو متاثر کرنے والے اقدامات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ ریاست اب خیالی جنت سے نکل کر حقیقی دنیا میں داخل ہوچکی ہے اور اسے بھی اب انہی مسائل کا سامنا ہے، جو کسی بھی معاشرے میں عوام کو ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:مسئلہ فلسطین پر خاموشی کیوں؟ https://albasirah.com/urdu/masla-falasteen/

اسرائیلی عوام کو درپیش سیاسی، اقتصادی اور دفاعی چیلنجز اب زیادہ دیر تک ایک مذہبی ریاست کے نام پر عوام کی آنکھوں سے اوجھل نہیں رکھے جا سکتے۔ مذہبی ریاست کا خمار اترنے کے ساتھ ہی جب اسرائیلی عوام کی آنکھیں مزید کھلیں گی تو یقیناً انھیں اندازہ ہوگا کہ مذہبیت کے نام پر وہ کس جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں۔ انسانی فطرت ہے کہ اگر وہ باہوش ہے تو کبھی بھی جہنم میں رہنا یا اپنی آئندہ نسلوں کو خطرے میں ڈالنا پسند نہیں کرے گا۔ بہت سے اسرائیلی اب اسرائیل کے قیام کو ایک غلطی کے طور پر قبول کر رہے ہیں، یورپی ممالک کو چھوڑ کر مذہبی ریاست کے قیام کے لیے لق و دق صحرا میں آنے کا خواب اور مدینہ فاضلہ کی تشکیل کے فلسفے نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی عہدیداروں کی کرپشن، رشوت ستانی، معاشی مسائل اور سکیورٹی چیلنجز کی صورت میں دم توڑ رہے ہیں۔

یقیناً اسرائیلی بہرحال انسان ہیں، ان کی بھی خواہش ہوگی کہ ان کی نسلیں محفوظ ہوں، ترقی کریں، یہ دونوں مقاصد فلسطینیوں، حزب اللہ اور ایرانی میزائلوں کے سائے میں حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ پس اس کا واحد حل یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کو واپسی یا ہجرت ہے، جس کا آغاز یقیناً ہوچکا ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ دنیا کے نقشے سے اسرائیلی ناجائز ریاست کا وجود محو ہو جائے۔ اس نوبت تک آنے میں یقیناً فلسطینی قوم کی مقاومت کا ایک اہم کردار ہے۔ مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے والی شخصیات جن میں امام خمینی قابل ذکر ہیں، ان کی خدمات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جنھوں نے یوم القدس کا اعلان کرکے مسلمانوں کے مردہ ضمیر کو جگائے رکھنے کا اہتمام کیا۔

بشکریہ اسلام ٹایمز

Share this content: