×

مشرق وسطیٰ سے بڑی خبر، ایران سعودیہ روابط بحال

syed asad abbas

مشرق وسطیٰ سے بڑی خبر، ایران سعودیہ روابط بحال

تحریر: سید اسد عباس

آج مورخہ 10-3-2023ء کو چین کے شہر بیجنگ میں ایرانی اور سعودی وفود نے دونوں ممالک کے مابین سفارتی روابط کی بحالی کے معاہدے پر دستخط کر دیئے ہیں۔ ایرانی اور سعودی سفارتی ذرائع کے مطابق یہ دونوں ممالک دو ماہ کے اندر اندر اپنے سفارت خانے تہران اور ریاض میں کھول لیں گے۔ اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ ملاقات کرکے سفارتکاروں کا تعین کریں گے۔ یہ واقعی ایک بڑی خبر ہے۔یاد رہے کہ ایران اور سعودیہ کے روابط 2016ء میں تہران میں سعودی سفارتخانے پر حملے کے بعد سے معطل ہیں۔ سعودی سفارتخانے پر حملے کا واقعہ احصاء کے عالم دین شیخ نمر باقر النمر کو سعودی حکومت کی جانب سے سزائے موت دینے کے بعد ہوا، تاہم ان دونوں ممالک میں اختلاف کی دیگر وجوہات بھی موجود ہیں، جن میں فہم اسلام، تیل کی ایکسپورٹ پالیسی اور مغربی ممالک سے تعلقات ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ سعودیہ خطے میں مغربی ممالک کا ایک اہم اتحادی ہے۔ خلیج فارس کے ممالک میں ایک اہم ملک ہونے کی وجہ سے سعودیہ خطے کے دیگر ممالک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سعودیہ سے تعلقات کی تعطلی کے بعد ایران کے خلیجی ممالک سے روابط زیادہ دوستانہ نہ رہے۔ خلیجی ممالک کے ایران سے روابط میں تناؤ انقلاب اسلامی ایران کے بعد سے جاری ہے۔ ایران کے اسلامی انقلاب کو خلیجی اور عرب ممالک میں شیعہ انقلاب کے طور پر متعارف کروایا گیا، تاکہ نوجوان اس انقلاب کی فکر سے متاثر نہ ہوں۔ عرب دنیا کی لاکھ کوشش کے باجود ایران نے لبنان، فلسطین، یمن، مصر اور دیگر عرب و افریقی ممالک میں جڑیں پیدا کیں۔

ایران اور عرب دنیا کے مابین امریکہ و غرب دوستی بھی ایک اہم وجہ نزاع رہی۔ ایران چونکہ اپنے مغرب و امریکہ مخالف بیانیہ کی وجہ سے دنیا میں معروف ہے، لہذا مغرب کے اہم عرب اتحادیوں نے ایران کے ساتھ خدا واسطے کا بیر بنا لیا۔ مغرب نے بھی اس بیر کو استعمال کرتے ہوئے خوب عیاشی کی۔ دفاع اور سکیورٹی کے نام پر عرب دنیا کو اربوں ڈالر کا اسلحہ اور جنگی ساز و سامان فروخت کیا اور عرب دنیا کے وسائل سے خوب استفادہ کیا۔ منہ پھٹ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے عرب دنیا کو دودھ دینے والی گائے قرار دے کر اپنے ان ممالک سے روابط کی قلعی خود ہی کھول دی۔

1980ء میں عراق کی ایران پر چڑھائی کے وقت سعودیہ نے عراق کو 25 بلین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا، باوجود اس کے کہ عراق اور سعودیہ کے روابط اتنے مضبوط نہ تھے۔ نہ فقط خود سعودیہ نے اس جنگ میں خلیجی ریاستوں کویت، قطر، عرب امارات اور بحرین کو بھی عراق کی مالی امداد کرنے پر اکسایا۔ 1987ء میں حج کے موقع پر ایرانی حجاج پر سعودی فورسز کی اندھا دھند فائرنگ اور تشدد کا اندوہناک واقعہ دونوں ممالک کے روابط میں مزید تناؤ کا باعث بنا۔ 1990ء میں کویت پر عراق کے حملے کی ایران نے مخالفت کی، حتی کہ عراق کے خلاف اقوام متحدہ میں ووٹ بھی دیا، جس کے سبب عرب دنیا سے ایران کے روابط میں بہتری آنا شروع ہوئی، تاہم یہ روابط ہمیشہ کی طرح کبھی بھی گرمجوشی پر مبنی نہ رہے۔

یمن کا مسئلہ بھی ایران اور خلیجی ممالک کے روابط میں بہتری لانے میں ایک اہم رکاوٹ رہا۔ سعودیہ اور دیگر خلیجی ریاستوں کا ہمیشہ دعویٰ رہا کہ ایران یمن کے حوثیوں کی عسکری اور دیگر میدانوں میں مدد کر رہا ہے۔ یہ بات قارئین کے علم میں ہوگی کہ عراق حکومت ایک عرصے سے ایران اور سعودیہ کے مابین تعلقات کی بحالی کے لیے سرگرم عمل تھی، اس سلسلے میں عراق میں متعدد سفارتی سطح کی بیٹھکیں ہوچکی تھیں، تاہم اب تک کوئی اعلیٰ سطحی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی مذاکرات کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت سامنے آئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی اسی منصوبے پر کام کر رہے تھے جبکہ یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ سعودی انٹیلی جنس ادارے قاسم سلیمانی کے قتل کے حوالے سے امریکی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شام سے روابط کی بحالی چین معاہدے کے اثرات https://albasirah.com/urdu/sham-rawabit-ki-bahali-china/

ایران نے خلیج کے بعض ممالک کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ روابط کی بحالی کو عالم اسلام سے غداری گردانا، جبکہ سعودیہ وہ واحد اسلامی ملک تھا، جو پانچ بڑی طاقتوں اور ایران کے مابین ہونے والے ایٹمی معاہدے کا مخالف تھا اور اس نے اس حوالے سے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ ایسے میں اچانک چین سے ایک ویڈیو جاری ہوئی، جس میں دکھایا گیا کہ ایران اور سعودیہ نے روابط کی بحالی پر اتفاق کر لیا ہے۔ اس تقریب میں ایران کی نمائندگی علی شامخانی، سعودیہ کی نمائندگی قومی سکیورٹی کے مشیر مسعود بن محمد الایبان اور چین کے سینیئر ترین سفارتکار وانگ یی موجود تھے۔ وانگ یی نے تقریب میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دنوں ممالک کی دانشمندی لائق تحسین ہے اور چین اس معاہدے کا مکمل حامی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے اقتدار اعلیٰ کے احترام اور داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اسی طرح دونوں ممالک نے 2001ء میں دستخط کردہ سکیورٹی کے معاملات میں تعاون کے معاہدے کے احیاء پر اتفاق کیا ہے۔

ایران کے روحانی پیشوا سید علی خامنہ ای کے سکیورٹی ایڈوائزر ایڈمیرل علی شمخانی نے بتایا کہ یہ مذاکرات صاف، شفاف، تفصیلی اور تعمیری تھے۔ ایڈمیرل شمخانی نے مزید کہا کہ ایران اور سعودیہ کے مابین ابہامات کا خاتمہ نیز مستقبل کو مدنظر رکھ کر روابط کا فروغ خطے میں استحکام اور سالمیت لائے گا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے خلیجی ممالک اور مسلم دینا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں آسانی ہوگی۔ نہیں معلوم کہ چین اس سلسلے میں کب سے کوشش کر رہا تھا۔ چین کا عموماً یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ اپنے منصوبوں کو ہمیشہ خفیہ رکھتا ہے۔ حال ہی میں ایرانی صدر کے دورہ چین کے حوالے سے بھی تفصیلات کو سامنے نہ لایا گیا۔ فقط کلی طور پر کہا گیا کہ اس دورے سے چین اور ایران کے پچیس سالہ تعاون کے معاہدے کو تقویت ملے گی۔

وائٹ ہاؤس کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں دنوں ممالک کے تعلقات کی بحالی کی اطلاع ملی ہے، تاہم تفصیلات کے لیے انھوں نے سعودی حکومت کی جانب رجوع کرنے کو کہا۔ یہ تو واضح ہے کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا سودا خطے میں بدامنی اور خلفشار سے بکتا ہے، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ خلیج میں امن ہو اور اسلامی دنیا کے دو اہم ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں، جبکہ اس کے برعکس چین کو خطے میں اپنا سودا بیچنے کے لیے استحکام اور امن درکار ہے۔ اس سلسلے میں چین کی کاوش کامیاب ہوئی ہے، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ عالمی معرکے میں مغرب کہاں تک اس کاوش کو کامیاب رہنے دیتا ہے۔ جہاں اختلاف کی بنیادیں بہت گہری ہوں، وہاں مشترکات پر لانا نہایت مشکل ہوتا ہے، اس کے لیے ہر فریق کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑتی ہے، تاہم اس عنوان سے ترجیحات کا طے کرنا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ اگر خطے کے استحکام، امن و امان کو ترجیح سمجھا جائے تو یہ برا فیصلہ نہیں ہے، اس کے یقیناً بہت اچھے اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ یقیناً اس سے یمن کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہوگا اور عالم اسلام کے اہم ممالک کے مایبن تجارت و روابط کو بھی فروغ ملے گا۔

Share this content: