انقلاب اسلامی ایران اور پاکستانی فرزندان انقلاب
تحریر: سید اسد عباس
اپنی گذشتہ تحریر میں راقم نے ایران میں مشروطہ تحریک کے آغاز، اس تحریک کی (1909ء) کامیابی اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پارلیمان پر اجمالاً روشنی ڈالی تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایران میں قائم ہونے والی پہلی پارلیمان میں تقریباً چالیس کے قریب علماء منتخب کیے گئے۔ ان علماء کا عراق کے مراجع سے مسلسل رابطہ رہتا تھا، اس کے بعد منتخب ہونے والی پارلیمنٹ میں بھی علماء کی ایک کثیر تعداد موجود ہوتی تھی۔ قاجار دور میں برطانوی سپاہیوں کی ایران تعیناتی کے سامنے آیت اللہ کاشانی ڈٹ گئے، روسی افواج کی ایران آمد کی مخالفت آیت اللہ تقی شیرازی نے کی۔ ان دونوں معرکوں میں ناکامی کے بعد برطانیہ نے ایرانی فوج کے ایک افسر رضا شاہ پہلوی کو شہ دی اور اس نے حکومت کا تختہ الٹ کر 1925ء میں ایرانی جرنیل رضا شاہ پہلوی نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اس نے آئین و قانون کو پس پشت ڈال کر مطلق العنانیت کا راستہ اختیار کرنا شروع کیا۔ پارلیمان کو عملاً معطل کر دیا گیا۔
ملک میں قوانین کابینہ اور شاہ کے احکامات سے جاری ہونے لگے، مغربی ممالک سے روابط کا آغاز بالخصوص اسرائیل کو قبول کرنے کے حوالے سے پیشرفت کا آغاز ہوا۔ اس موقع پر ایران کی روحانی قیادت و مرجعیت آیت اللہ بروجردی اور آیت اللہ کاشانی میدان عمل میں اترے، ان علماء کی قیادت کے سبب شاہ کو ہار ماننی پڑی اور ڈاکٹر مصدق 1950ء میں برسر اقتدار آئے۔ اپریل 1951ء میں برطانیہ سے کیا گیا تیل کا معاہدہ 1933ء منسوخ ہوا۔ اکتوبر 1952ء میں ایران نے برطانیہ سے سفارتی تعلقات منقطع کیے۔ جس کے بعد انگریزوں نے خفیہ سیاسی مہم کے ذریعے ملک میں ہنگامے کرائے، مگر شاہ کو ملک چھوڑنا پڑا، شاہ کے ملک بدر ہوتے ہی امریکی ایجنٹ حرکت میں آئے اور مصدق کی حکومت ختم گرا دی۔ شاہ ایک مرتبہ پھر برسر اقتدار آیا۔ شاہ نے آتے ہی دوبارہ انگریزوں کی خواہش کے مطابق کام شروع کیا۔
1960ء کے لگ بھگ بادشاہ کھلم کھلا جارحیت پر اتر آیا اور اس نے خلاف آئین و قانون اسلامی اصول پامال کرنے کی ٹھان لی۔ اس نے سوچا کہ فوج اور اسمبلی میں مسلمانوں کی قوت ختم کر دی جائے اور یہودیوں، بہائیوں کو اوپر لایا جائے۔ سینٹ اور اسمبلی کی عدم موجودگی میں بادشاہ کی ساختہ پرداختہ کابینہ نے وزیراعظم اسد اللہ علم کی زیر صدارت قانون انتخاب میں ایک ترمیمی بل منظور کیا، جس کی رو سے یہ طے ہوا:
1۔ ایرانی عدالتوں اور دوسرے اداروں میں قرآن مجید کے بجائے ’’آسمانی کتاب‘‘ کی طرف رجوع کیا جائے گا۔
2۔ عورتیں انتخاب میں حصہ لے سکیں گی، ووٹر کی حیثیت سے بھی اور امیدوار کی حیثیت سے بھی۔
3۔ غیر مسلم کو ووٹ دینے اور امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑنے کا حق ہوگا۔
علماء اور عوامی حلقوں میں پہلے ہی رضا شاہ پہلوی کے اقدامات کے حوالے سے بے چینی پائی جاتی تھی۔ ملک میں عام ہونے والی عریانیت، مغرب پرستی نیز اسلامی شناخت کو مٹانے کے اقدامات، اقتصادیات پر غیروں کا تصرف، یہ وہ مسائل تھے، جو ایران کی دیندار عوام اور علماء کے لیے مسلسل پریشانی کا سبب بن رہے تھے۔ اس بل کے اجراء نے عوامی جذبات پر تیل کا کام کیا۔ ایسے میں قم کی مذہبی قیادت بالخصوص امام خمینی اس بل نیز ایران کی شاہی حکومت کے غیر آئینی اور غیر اسلامی اقدامات کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔ ایران کے اس وقت کے حالات اور امام خمینی کا اقدام نیز ایرانی عوام کی انقلاب اسلامی ایران سے قبل قربانیاں عزم و ہمت اور مقصد کے لیے ہر تکلیف برداشت کرنے کی ایسی لازوال داستان ہیں، جو ہر ملک و قوم کے لیے نمونہ عمل بھی ہیں اور اس میں ہر قوم کے لیے عبرتیں بھی پوشیدہ ہیں۔
انقلاب اسلامی ایران سے قبل کے حالات کے حوالے سے اگرچہ فارسی زبان میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، تاہم اردو زبان میں ہمیں اس زمانے کے حالات کے بارے میں کم ہی معلومات ملتی ہیں۔ ایک کتاب ایران میں انقلاب کی آمد کے بعد کے حالات پر روشنی ڈالتی ہے۔ پاکستان کے معروف عالم دین سید مرتضیٰ حسین صدر الفاضل نے اس زمانے میں ایک کتاب “آیت اللہ خمینی قم سے قم تک” لکھی، جسے امامیہ پبلیکشنز نے شائع کیا۔ اب یہ کتاب تقریباً ناپید ہے۔ اس کے مولف کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں: “یہ کتاب پاکستانی اور ایرانی مطالعات کا خلاصہ ہے۔ بروقت ریکارڈ اور چشم دید واقعات۔۔۔ یہ کتاب تمام مسلمانوں خصوصاً نوجوانوں کے لیے سرمایہ فخر و اساس عمل کی دستاویز پیش کرتی ہے۔ ایک مرد مومن ایک عالم علوم محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین اللہ پر بھروسہ کرکے باطل سے ٹکرایا اور اسے پاش پاش کر دیا۔”
سید مرتضی حسین صدر الفاضل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اس متنازعہ بل کے پاس ہونے کے بعد علماء نے اس پر شدید احتجاج کیا اور اسے ایران کی اسلامی حیثیت کو بدلنے کی سازش گردانا۔ اس وقت آیت اللہ روح اللہ موسوی الخمینی نے کہا: “یہ بل خلاف اسلام ہے، اس کے ذریعے یہود و بہائی اور دوسری اسلام دشمن قوتوں کو بال و پر بخشے گئے ہیں۔ اس ملک کا دین اسلام ہے، یہاں کے اٹھانوے فیصد باشندے مسلمان ہیں، جنھیں ہرگز بے دین اور دین دشمن افراد کا غلام نہیں بنایا جاسکتا۔” علماء نے مخلوط انتخابات اور غیر قرآن پر حلف لینے کے حوالے سے کہا کہ یہ حکم واضح طور پر مٹھی بھر یہودیوں اور امریکی ایجنٹوں کو ملک کے وسائل اور اقتصادیات پر قبضہ دینے کے مترادف ہے۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
آیت اللہ روح اللہ موسوی الخمینی جو اس وقت قم میں تدرس و تدریس سے وابستہ تھے، انہوں نے آیت اللہ شیخ عبد الکریم موسس حوزہ علمیہ قم کے مکان پر علماء کا ایک اجلاس بلایا۔ جس میں آیت اللہ سید محمد رضا گلپائیگانی اور آیت اللہ کاظم شریعتمدار بھی شریک ہوئے۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ: “حکومت کے شائع کردہ پروگرام کو فوری طور پر روکنے کے لیے بادشاہ کو تار دیا جائے۔ تمام ملک میں علماء کو اس پروگرام کے خطرات سے آگاہ کیا جائے اور ان سے درخواست کی جائے کہ وہ اس کی مخالفت کریں۔ ہفتے میں ایک مرتبہ یا اس سے زیادہ علماء قم کا اجلاس ہوا کرے اور باہمی اتحاد سے قدم بقدم آگے بڑھا جائے۔” اس اجلاس کے فیصلے کے مطابق جو تار تیار کیا گیا، اس کا توہین آمیز جواب موصول ہوا، جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ملک کے وزیراعظم اسد اللہ علم کو تار بھیجا جائے۔
تار کی یہ عبارت ایران میں حالیہ انقلاب اسلامی کی بنیادوں اور اسباب کو واضح کرتی ہے، تار میں امام خمینی نے لکھا:
۱۔ ایران کے قانون اساسی اور اصول مشروطہ کے برخلاف طویل مدت سے اسمبلی اور سینٹ کا تعطل غلط ہے۔
۲۔ دونوں ایوانوں کی غیر موجودگی میں مخالف شرع و دستور نئے نئے قوانین کا نفاذ درست نہیں۔
۳۔ حکومت کو خبردار کیا جاتا ہے کہ احکام اسلام اور قانون اساسی کو نظر انداز کرنے سے قوم مشتعل ہوگی اور حکومت کو جوابدہی مشکل ہوگی۔
۴۔ حکومت اپنے آپ کو مطلق العنان نہ سمجھے اسے قانون شکنی کا حق نہیں، اس کا خیال غلط ہے کہ اس کے اقدامات پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔
۵۔ یاد دہانی کروائی جاتی ہے کہ علماء اعلام ایران و عتبات مقدسہ (نجف و کربلا) اور تمام مسلمان خلاف شریعت معاملات پر خاموش نہیں رہیں گے۔ (تار: ۲۸ مہر ماہ ۱۳۴۱ماخوذ از امام خمینی قم سے قم تک)
علماء اور امام خمینی نے اسداللہ علم کی رفتار میں جب تبدیلی نہ دیکھی تو امام خمینی نے ایک اور تار لکھا، جس کی زبان سخت تھی، اس کے جملے حسب ذیل ہیں: “آپ ناصح ملت و مشفق امت علمائے اسلام کی نصیحت نہیں سننا چاہتے، آپ کا گمان ہے کہ قرآن کریم اور قانون اساسی نیز عوامی جذبات کے خلاف اقدام کیا جاسکتا ہے۔؟ علمائے قم و نجف اور دوسرے ملکوں اور شہروں کے علماء نے آپ کو متنبہ کیا اور بتایا کہ مجوزہ و مجریہ بل غیر قانونی ہے۔ شریعت اسلامیہ اور قانون اساسی و قوانین مجلس کے خلاف ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ چند روزہ قوت کے سہارے قرآن مجید کو قانونی درجے سے ہٹا کر زردشتی، اوسا اور انجیل و کتب ضالہ کو رائج کریں اور قدامت پرستی کا راستہ لیں تو یہ تصور خام ہے۔ اگر آپ قانون و دستور ضامن ملت و استقلال ملک کے خلاف مجوزہ بل کے ذریعے اسلام اور ایران کے خائن دشمن کے لیے راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں تو بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ ہم آپ کو دوبارہ نصیحت کرتے ہیں کہ اطاعت اللہ اور قانون اساسی کے سامنے گردن جھکا دیں اور قرآن مجید و احکام علمائے ملت و زعمائے اسلام کو مان لیں اور ملک کے لیے خطرہ نہ پیدا کریں، ورنہ علمائے اسلام آپ کے بارے میں اپنا فیصلہ صادرر کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔” (تار ۱۵ آبان ۱۳۴۱ھ ماخوذ از امام خمینی قم سے قم تک)
مولانا صدر الفاضل اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: آقای خمینی نے قوم کو صرف بل کی منظوری، نامنظوری کے لیے نہیں بلکہ ہمہ جہت سلامتی و آزادی و اسلام دوستی بلکہ اسلامی انقلاب کے لیے متحد ہونے پر زور دیا، تاکہ دونوں ایوانوں کا تعطل، قانون شکنی، دستور سے انحراف، پریس پر بندش، عوام کو ہراساں کرنے اور ناہموار زندگی بسر کرنے، صہیونزم کے خطرات، آزادی ایران، ملک کی اقتصادیات کی تباہی، قوم کی تمام حقوق سے محرومی کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ امام خمینی اور علمائے ایران و عوام کی تحریک کے مقابل حکومتی سختیوں اور مظالم کا سلسلہ پھیلتا گیا، مدرسہ فیضیہ پر حملہ، علماء کی گرفتاریاں، ریفرنڈم کا بائیکاٹ، مظاہرین پر حملے اور شہادتیں، مجالس میں شاہ کے کارندوں کے نعرے، قم میں کرفیو، ایران کے مختلف شہروں میں مظاہرین اور اہم شخصیات کی گرفتاریاں۔
عراق کے مراجع آیت اللہ محسن الحکیم، آیت اللہ ابو القاسم خوئی کے مذمتی تار، رمضان المبارک میں خوف و وحشت، فوج میں بغاوت، علماء میں اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں، دھونس، دھمکی، کریک ڈاون، پریس کے ذریعے پراپیگنڈہ، امام خمینی کی گرفتاری، علماء کا احتجاج اور گرفتاریاں، امام خمینی پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کا منصوبہ، ایک جیل سے دوسری جیل، امام خمینی کی نظر بندی، ملک بدری کونسا ایسا حربہ ہے، جو شاہ نے امام خمینی کی آئینی و قانونی تحریک کو دبانے کے لیے نہیں آزمایا، تاہم امام خمینی اور ایرانی قوم ہر امتحان سے سرخرو ہو کر نکلے اور 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ شاہ کو ملک سے فرار کرنا پڑا اور امام خمینی ایک کامیاب راہنماء کی حیثیت سے پیرس سے ملک میں واپس آئے۔
یہاں رکیں! آئیں آج پاکستان کے ماحول پر ایک سرسری نگاہ ڈالیں اور اس کا موازنہ انقلاب اسلامی کی تحریک کے آغاز سے کریں۔ پاکستان میں ایوان عملاً معطل ہیں، ملک کی تعزیرات میں ترامیم کی سفارشات ایک عرصے سے اسلامی نظریاتی کونسل کی الماریوں میں پڑی ہوئی ہیں، پریس کی آزادی، بنیادی انسانی حقوق، قانون شکنی، عدل و انصاف کا قتل، ہراسگی، صہیونزم کو تسلیم کرنے کے خطرات، ملک کی آزادی، الحاد، اقتصادی بدحالی اور کرپشن جیسے خطرات منہ پھاڑے پاکستان کو گھور رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے میں فرزندان انقلاب کی کیا ذمہ داری ہے۔؟ کیا فقط نعرے بلند کرنے سے کوئی پیرو امام خمینی بن سکتا ہے یا اس کے لیے میدان عمل میں اترنے کی ضرورت ہے۔؟ امام خمینی نے تو ملک میں آئین، دستور اور اسلامی قوانین کی بالادستی کے لیے قیام کیا تھا، کیا ہم پارلیمان، آئین اور دستور کی بالادستی کی تحریک سے پیچھے ہٹ کر راہ امام کے راہی بن سکتے ہیں۔؟
امام خمینی کا انقلاب ایک عوامی اسلامی انقلاب ہے، جس میں ریفرنڈم، انتخابات کے ذریعے پارلیمان اور مجلس خبرگان کا چناؤ ملکی نظام کا لازمہ ہیں۔ ایسے میں جمہوریت کا بائیکاٹ، ملک کے آئینی اداروں کو طاغوت قرار دینا اور ان کی حمایت کو طاغوت کی حمایت سے تشبیہ دینا، فوجی جمہوریت کا پرچار امام خمینی کی راہ کیسے اور کیونکر ہوسکتے ہیں؟ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کو ملک کے دانشوروں، علماء اور عوام کی ایک بڑی اکثریت نے قبول کیا ہے، اس آئین میں تمام مسالک کے اکتیس جید علماء کے بائیس نکات کو شامل کیا گیا ہے، قرارداد مقاصد اس آئین کا حصہ ہے اور تعزیرات میں موجود غیر اسلامی شقوں کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل موجود ہے، جس کی سفارشات سامنے آچکی ہیں، ایسے میں اس سب کو لایعنی اور غیر ضروری قرار دینا اور اپنے فہم کو ایک نظام کے طور پر پیش کرنا عجیب و غریب منطق کی علامت ہیں۔ بالفرض اگر آپ کی عقل سلیم میں پاکستان میں موجود نظام فرسودہ ہے تو جس نظام کی آپ ترویج کر رہے ہیں، کیا وہ آپ کو موجودہ حالات میں خانقاہ سے للکارنے پر اکتفا کی اجازت دیتا ہے۔؟
یہ بھی پڑھیں: ایران میں انقلاب کے بعد علمی و تحقیقی پیشرفت
https://albasirah.com/urdu/iran-me-inqalab/