امام خمینی ؒ کی نظر میں فہم ِقرآن کریم کے اصول
ڈاکٹر سید علی عباس نقوی
مقدمہ
امام سید روح اللہ موسوی الخمینیؒ کی عالم گیر شخصیت نہایت جامعیت کی حامل ہے۔آپ ؒ کی شخصیت کے جس پہلو کی جانب نظر کریں،آپ ؒ ہمیں بلندی پر فائز نظر آتے ہیں۔ عام طور پر ان کی زندگی کے سیاسی و اجتماعی پہلو کو دیکھا گیا ہے، حالانکہ آپ ؒ کی شخصیت کے دینی ،عرفانی ، اخلاقی و ملکوتی ،علمی و اجتہادی پہلو آپ ؒ کی شخصیت کو کامل طور پر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ آپ ؒ کی شخصیت میں سے ایک اورنمایاں پہلو آپ کا قرآنیات میں متخصص و مفسر ہونا بھی ہے۔ آپ ؒ کی زندگی میں قرآن کریم ایک جزو لا ینفک ہی نہیں بلکہ ایک محور و مرکز کی حیثیت سے دکھائی دیتا ہے۔
ہم زیرِ نظر مضمون میں امام خمینیؒ کی نظر میں فہم قرآن کریم کے اصول و شرائط اور اس کو درپیش موانع اور رکاوٹوں کو زیر ِغور لائیں گے ۔آپ ؒ کے نزدیک فہم قرآن کریم آج کے دور کے بنیادی موضوعات و مسائل میں سے ہے چونکہ جس طرح دنیا نے ارتقاء و کمال کے زینوں کو عبور کیا ہے وہیں لوگوں کے ذہنوں میں ابہام و اشکالات و سوالات نے بھی جنم لیا ہے۔ان اشکالات و سوالات کا حقیقی جواب حاصل کرنے کے لیے ہمیں ِکتابِ خدا کے در پر دستک دینی پڑتی ہے اور اس کے لیے ہماری فہم قرآن کریم سے آگاہی ضروری ہے تاکہ ہم موجودہ دور میں قرآن کریم کے فیوض و برکات سے استفادہ کرتے ہوئے اشکالات کے جوابات بھی دے سکیں اور ابہام کو ختم کر کے معاشرتی ارتقاء کا سفر قرآن کریم کی رہنمائی میں طے کر سکیں۔
یہاں ایک اہم اور بنیادی سوال جنم لیتا ہے کہ کیا قرآن کریم سب کے لیے قابلِ فہم ہے یا فقط ائمہ،مراجع،علماء ،مجتہدین و مفسرین ہی اس کی رحمات کو سمیٹ سکتے ہیں اور اس کے علمی استعداد سے بہرہ ور ہو سکتے ہیں ؟ اس سلسلے میں امام خمینی ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے انوار و کرامات سے ہر انسان استفادہ کر سکتا ہے مگر اس کے لیے کچھ معیارات و شرائط ہیں چونکہ ہم علمی استعداد سے تو ظواہر قرآن کریم سے مستفید ہو سکتے ہیں مگر بطون قرآن کریم سے بہرہ ور ہونے کے لیے ہمیں باطنی پاکیزگی اور تہذیب ِنفس درکار ہے ۔
پہلےہم امام خمینیؒ کی نگاہ میں فہمِ قرآن کریم کی اہمیت و ضرورت کو زیر بحث لائیں گےبعد ازاں اس کے سمجھنے کی شرائط کو بیان کریں گے نیزاسے سمجھنے کی راہ میں درپیش موانع کا ذکر بھی کیا جائے گا ۔ آخر میں آپ کے نزدیک تفسیر کے اصول و مبانی کو بیان کرتے ہوئے تفسیرکرنے کی صحیح روش و طریقہ کار اور قرآن کریم کےاغراض و مقاصد پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
فہمِ قرآن کریم کی اہمیت و ضرورت
امام خمینیؒ کی نظر میں قرآن ایک وسیع الٰہی دسترخوان ہے جس سے سب استفادہ کر سکتے ہیں ۔ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ قرآن ایک ایسادسترخوان ہے جسے خدانے پوری انسانیت کےلیے بچھایاہے۔بشرطیکہ کوئی ایسا مریض نہ ہوجس کی کھانے کی طلب ہی ختم ہو چکی ہو۔ امراض قلب بھی انسان کی طلب کو ختم کرسکتے ہیں۔اگرمریض نہ ہواور اس کی طلب اور خواہش باقی ہوتووہ قرآن کریم سے استفادہ کرے گا۔ جیساکہ یہ دنیابھی ایک وسیع دسترخوان ہے جس سے سب لوگ استفادہ کرتے ہیں۔کوئی اس کی گھاس سے فائدہ اٹھاتا ہے توکوئی اس کے پھلوں سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کوئی اس کےدیگر وسائل سے فائدہ اٹھاتا ہے۔انسان اس سےایک طرح سے فائدہ اٹھارہاہےحیوان ایک اور طرح سے اور انسان مقام حیوانیت میں ایک اور انداز میں اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ انسان جتنا اوپرجائے گاخدا کے اس وسیع دسترخوان سے زیادہ سےزیادہ استفادہ کرےگا۔قرآن بھی اسی طرح سب کےلیے ایک عظیم دسترخوان ہے جس شخص کو جتنی بھی طلب اور خواہش ہوگی جس قدرقرآن کی طرف جائے گا اسی قدراستفادہ کرےگا۔سب سے عظیم استفادہ تووہ کرےگاکہ جس پریہ نازل ہواہے۔(۱)
امام خمینی ؒ معتقد ہیں کہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جو مشرق سے لے کر مغرب تک وقت وحی سے تاروز قیامت تمام انسان چاہے وہ عام آدمی ہو یا عالم، فیلسوف ہو یا عارف، اسی طرح فقیہ ہو یا کوئی اورسب اس سے استفادہ کریں گے۔ اس میں ایسےمسائل بھی ہیں جو بزرگ علماء سے مختص ہیں جو بڑے فلسفی اور بزرگ عرفاہیں،انبیاء ؑاور اولیاء ہیں۔ اس قرآن کےبعض مسائل کا اولیاءکے علاوہ اور کوئی ادراک نہیں کرسکتامگریہ کہ تفسیرکے ذریعے جس قدر اس بشر میں استعداد ہے اس کے مطابق استفادہ کرسکتا ہے۔ایسے بھی مسائل ہیں کہ فلاسفراوراسلام کے حکماء ہی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔کچھ ایسے مسائل ہیں جن سے فقہائےبزرگ ہی استفادہ کرسکتے ہیں۔یہ الٰہی دسترخوان سب کے لیےہے۔جس سے سب کے سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔سیاسی ،اجتماعی ،ثقافتی اور انتظامی ودفاعی مسائل سب اس کتاب میں موجود ہیں۔(۲)
آپ ؒ اس بات پر زور دیتے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کےاطراف میں عامیانہ بات نہیں کی جاسکتی ۔قرآن ایسا الٰہی دسترخوان ہے کہ جس سےتمام بشرازل سےابدتک فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور اٹھاسکتے ہیں،البتہ ہرطبقےکاایک خاص شعبہ ہےتووہ اسی خاص شعبے میں اس سے استفادہ کرتا ہے فلاسفر فلسفی مسائل پر، عرفاعرفانی مسائل پر، فقہافقہی مسائل پر،سیاستدان سیاسی و اجتماعی مسائل کے لیے اس سے استفادہ کرتے ہیں لیکن اسلام میں سب کچھ ہے قرآن میں سب چیزیں ہیں، قرآن ایسی رحمت ہے جو سب کےلیےہے۔(۳)
فہِم قرآن کریم کی شرائط:
قرآن کریم پڑھنےکا ہدف سمجھنا ، عمل کرنا اور رشد و ارتقا ہے۔ امام خمینیؒ کے نزدیک قرآن کریم پڑھنےکا ہدف اور اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ انسان کے قلب کو متاثر کرے اور انسان کا باطن کلام الہی کی تجلی بن جائے ۔یہ اسی صورت ممکن ہے کہ تلاوت قرآن کریم کے ظاہری اور باطنی آداب کا خیال رکھا جائے چونکہ اس کے بغیر سرفرازی کے مرتبے تک رسائی نا ممکن ہے ۔امام خمینیؒ نے قرآن کریم سمجھنے کے اصول و شرائط اور چند معیارات بیان فرمائے ہیں جنھیں ذیل میں ذکر کیا جا رہا ہے:
1. شیطان کے شرسے خدا کی پناہ میں آنا
وسوسہ شیطانی انسان کے لیے معرفت کے حصول میں رکاوٹ ہے ۔ اسی لیے پناہ گاہِ خداوندی اختیار کر کے فہم قرآن حاصل کرنا آسان ہے اور امام ؒ کے مطابق یہ اس کی شرط بھی ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؛ (۴) پس جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو راندہ درگاہ شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔اسی لیے حصارِ رحمت الہی اور قرب پروردگار ہی وہ ذریعہ ہے کہ جس کے طفیل معرفت الہی کے سفر کو طے کیا جا سکتا ہے۔(۵)
2. اخلاص اور نیت کی پاکیزگی
خلوص اور نیت کی پاکیزگی قلوب کو متاثر کرتی ہے۔ اعمال کی بنیاد جس قدر خلوص اور پاکیزہ نیت پر ہوگی، اسی طرح اعمال کے معیاری ہونے کا اندازہ ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں امام ؒ کے نزدیک اخلاص اور نیت کی پاکیزگی کی وجہ سے قلوب متاثر ہوتے ہیں اور اخلاص دلوں میں تبدیلی کا بنیادی کردار ادا کرتا ہے اور اس کے بغیر اعمال کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی بلکہ تمام امور فضول اور عبث ہوتے ہیں ۔(۶)
3. ظاہری و باطنی طہارت
جب تک دنیا کی غلاظت انسان کے دل و قلب میں ہو اس وقت تک وہ قرآن کریم سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا چونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ؛ (۷)کہ یہ قرآن یقینا بڑی تکریم والا ہے، جو ایک محفوظ کتاب میں ہے، جسے صرف پاکیزہ لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
4. ترتیل
قرآن کی ترتیل سے تلاوت انسان کے قلب و روح پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کے پڑھا جائے اور جلدی و تیز تیز پڑھنے سےاجتناب کیا جائے (۸) چونکہ قرآن میں ہے کہوَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا ؛(۹) اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجیے ۔
لغت میں ترتیل کا معنی یہ ہے کہ آیات ایک دوسرے کے بعد اور خاص نظم و حساب سے آئی ہیں۔ یہ نظم و حساب قرآن کی تلاوت میں بھی حسن پیدا کرتا ہے اس کا تقاضا ہے کہ قرآن کو آرام سے اور آہستہ آہستہ پڑھا جائے۔ اصطلاح میں ترتیل کا معنی قرآن کی آیات کا ایک نظم کے ساتھ پڑھنا، حروف کو صحیح ادا کرنا، کلمات کی تبیین،آیات کے معنی میں پوری توجہ کرنا اور اس کے نتائج کے بارے میں فکر کرنا ہے۔
5. قرآن کی عظمت و احترم
امام خمینیؒ قرآن کریم کا احترام اور اس کی تعظیم کرنے کو قلب کی نورانیت اور باطنی ِزندگی کو جلا بخشنے کا باعث سمجھتے ہیں نیز اسے قرآن کریم کے اہم آداب میں شمار کرتے ہیں ۔(۱۰)آپ کے نزدیک قرآن کریم کا احترام ایک ظاہری عمل نہیں ہے بلکہ عملی امر ہے اوریہ اس صورت میں متحقق ہو سکتا ہے کہ جب ہم قرآن کریم اور جس پر یہ عظیم آسمانی کتاب نازل ہوئی ہے اس کی حقیقی معرفت و شناخت حاصل کریں ۔ اس آسمانی کتاب کی عظمت کے بیان کے لیے یہی کافی ہے کہ خدائے بزرگ و برتر نے اس کے بارے میں فرمایا:
لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَ تِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ (۱۱)
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو آپ اسے اللہ کے خوف سے جھک کر پاش پاش ہوتا ضرور دیکھتے اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ شاید وہ فکر کریں۔
6. تفکر اور تدبر
آیات مبارکہ کے معانی پر غور کرنانیز ظلمات اور تاریکیوں سے نکل کر نور و روشنی کے سفر پر گامزن ہونے کے لیے غور و فکر کرنا ، تلاوت و قرائت قرآن کریم کے نہایت اہم و عظیم آداب میں سے ایک ہے کہ جس کے بارے میں شریعت میں بہت زیادہ تاکید و سفارش کی گئی ہے ۔(۱۲)قرآن کے نزول کا بنیادی مقصد اور ہدف غور و فکر کرنا ہے۔(۱۳)اور امام علی علیہ السلام بھی بغیر غور و فکر کے پڑھنے کو بے فائدہ اور خیر و بھلائی کے فقدان سمجھتے ہیں آپ ؑ فرماتے ہیں کہ جس قرائت میں تدبّر نہ ہو، اس میں کوئی خیر نہیں ہے۔(۱۴) (۱۵)امام خمینیؒ کی نظر میں تدبر کی ذریعہ ہی قرآن سے مستفید ہونے کی راہ ہموار ہوتی ہے اور انسان کے لیے نئے باب کھلتے ہیں اور یوں وہ قرآن کریم کی جدید معارف سے استفادہ کرسکتا ہے۔(۱۶)
7. قرآن کا تطبیق و نفاذ( قرآن سے معیار و موازنہ )
انسان آیات کے معانی و مفاہیم پر اپنی شخصیت کو پرکھے کہ آیا اس کی زندگی دستورِ قرآنی کے مطابق ہے یا نہیں؟ آیا وہ اپنے مسائل و مشکلات کا حل قرآن سے اخذ کر کے کامیابی،فلاح اور نجات کا سامان مہیا کر رہا ہے ۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم ایسی کتاب ہے کہ جو ہمارے درد کا درمان اور علاج پیش کرتی ہے۔ اس کے حروف اور پیغام بھی روحانی بیماری کی شفا اور بھٹکے ہوؤں کے لیے رہنما ہے(۱۷)نیز امام خمینیؒ کے نزدیک جس طرح روایات کی صحت و سقم کا معیار قرآن کریم ہے ، (۱۸)اسی طرح انسان کی سعادت و شقاوت اور انسانی اعتقادات کا معیار بھی قرآن کریم ہے۔جو قرآن کریم سے موافق ہو وہ موجب سعادت ہوتا ہے اور جو قرآن کریم سے مخالف ہو وہ شقاوت وبدبختی کا باعث بنتا ہے اور اسے ترک کر دینا چاہیے۔(۱۹)
فہمِ قرآن میں موانع اور رکاوٹیں
امام خمینیؒ اور دیگر مفسرین نے قرآن کریم کو سمجھنے کی راہ میں درپیش موانع کا بھی ذکر کیا ہے جنھیں ترک کیے بغیر قرآن کریم کا فہم حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے۔(۲۰) (۲۱) (۲۲)ان موانع کو امام ؒ خمینی نے حجاب سے تعبیر کیا ہےجن میں سے چند ایک کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں:
1) علمی غرور
فہم قرآن کے موانع اور حجابات میں سے سب سے بڑا خود بینی ہے یہ انسان میں خدا اور قرآن کی رہنمائی سے بے نیاز ہونے کا زعم پیدا کرتی ہے۔ امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ اس دسترخوان الٰہی سے بے نیاز ی کا خیال درحقیقت شیطانی وسوسہ کی وجہ سے ہوتا ہے کہ انسان اپنی شخصیت کو کامل سمجھنے لگنے لگتا ہے اور یہ خیال اس کو حقیقی کمالات سے دور کر دیتا ہے۔مثلاً تجویدکے ماہرین علم تجوید پر ہی نازاں ہو جاتے ہیں اور قرآن کے دیگر علوم و معارف کو اہمیت نہیں دیتے۔(۲۳)اسی طرح ماہرین ادب لفظی و ادبی سانچے پہ اکتفا کر لیتے ہیں مگر اس کی روح اور پیام سے بے بہرہ رہتے ہیں اور قرآن کے جن محدود علوم سے آگاہ ہوتے ہیں فقط انہی کی ترویج کرتے ہیں اور بدقسمتی سے قرآن کی مختلف علمی ابعاد و جہات کو اسی میں محدود کرتے ہیں۔اسی طرح اہل تفسیر بھی پرانے دھارے پر چلتے رہنے میں سرگرم رہتے ہیں اور مختلف قرائت کی وجوہات، ارباب لغت کی مختلف آراء،وقت نزول، شان نزول آیات اور سورتوں کے مکی و مدنی ہونے جیسی باتوں میں ہی لگے رہتے ہیں۔یہ علمی غرور قرآن کریم کو سمجھنے کی راہ میں رکاوٹ ہے جسے ترک کیے بغیر قرآن کریم کی مختلف جدید ابعاد و جہات سے آشنائی ناممکن ہے۔(۲۴) (۲۵)
2) گناہ اور معصیت
قرآن مجید کو سمجھنے اور اس کتاب الہی کے معارف و نصائح سے مستفیض ہونے میں ایک حجاب، ان گناہوں اور معصیتوں کا حجاب ہے جو پروردگارعالم کی بارگاہ اقدس میں سرکشی اور نافرمانی سے سرزد ہوتی ہیں، دلوں کو سیاہ کر دیتی ہیں اور یہی اعمال بد اور معصیتیں انسان کی تنزلی اور قرآن کریم سے دوری کا موجب بنتی ہیں۔ درحقیقت انسان کے اعمال کے اثرات اس کے قلب پر ہوتے ہیں ۔اگر وہ اعمال نیک انجام دے تو باطن نفس میں نورانیت پیدا ہوتی ہے جس سے قلب پاکیزہ اور نورانی ہوتا ہے ۔ اسی طرح پلید اور غلیظ افعال انجام دیے جائیں تو لوح قلب زنگ آلود اور آئینہ قلب میلا ہو جاتا ہے اور معارف الہی سے فیضیاب ہونے میں موانع پیدا ہو جاتے ہیں۔چونکہ ایسی صورت میں قلب شیطانیت کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور مملکت روح پر ابلیس کا قبضہ ہو جاتا ہے۔اس لیے آنکھ ، کان اور دیگر قوتوں پر ابلیس کے قبضے کی وجہ سے کان معارف الہی سننے سے بہرے اور آنکھیں الہی روشن نشانیوں کو دیکھنے سے اندھی ہو جاتی ہے۔چنانچہ حق تعالیٰ نے فرمایا : لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَ لَہُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ؛ (۲۶)ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔
دراصل ان کے دل چوپایوں اور جانوروں کی طرح ہو جاتے ہیں جو تفکر و تدبر سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔ بلکہ آیات میں نظر و فکر اور معارف و نصیحت سننے سے ان کی غفلت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا ہےلہذا وہ حیوانات سے بھی زیادہ پست اور گمراہ ہیں۔(۲۶)
3) مفسرین کے اقوال پر اکتفااور جمود
قرآن جیسے نورانی صحیفہ سے استفادہ کے موانع میں سے ایک مانع یہ اعتقادہے کہ مفسرین جو کچھ لکھ اورسمجھ چکے ہیں اس سےہٹ کےکسی کوقرآن سے استفادہ کا حق نہیں ہے۔ اس نظریے کے حامل افراد آیات شریفہ میں تدبراورتفکرکو تفسیربالرائےقرار دیتے ہیں جو ممنوع ہے اس فاسد رائے اورباطل عقیدے سےقرآن شریف سے استفادہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے اس طرز عمل نےاسےکلی طورپرمہجورکردیاہےحالانکہ اخلاقی،ایمانی اور عرفانی استفادے کا تفسیرسےکوئی تعلق نہیں کہ تفسیربالرائےکاسوال پیداہو۔(۲۸)
4) تعصب اور اندھی تقلید ( فاسدآراءدرک قرآن میں رکاوٹ)
ایک اور حجاب،فاسدآراء اور باطل مذاہب اور مسالک کا ہےجوکبھی خود انسان ہی کی سوءاستعداد سے اور زیادہ تر اندھی تقلیدسے پیداہوتاہے۔یہ ایسے حجابوں میں سےایک ہے جس نےخاص کر معارف قرآن سے ہمیں محروم کیاہواہے۔مثلااگرکوئی فاسداعتقادصرف ماں باپ سے سن لینے کی وجہ سے،یابعض جاہل اہل منبرسےسن کرہمارےدل میں راسخ ہوگیا،تویہ فاسداعتقاد ہمارےاورآیات الٰہیہ کے درمیان پردہ بن جائےگا،چاہےہزاروں آیات و روایات بھی واردہوجائیں اندھے مقلد انھیں سنجیدگی سے نہیں لیتے ۔(۲۹)
امام ؒ خمینی کے تفسیری اصول و مبانی
قرآن کریم کی تفسیر چند اصول و مبانی پر مبنی ہوتی ہے جن میں سے چند اہم کو یہاں امام خمینیؒ کے نقطہ نظر سے زیر بحث لایا جا رہا ہے:
1. فہمِ قرآن کریم کا مکمل علم
امامؒ خمینی کے نزدیک قرآن کریم کے تمام حقائق اور تعلیمات کا علم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ ﷺ کے بعد آپ ﷺ کے وارثان ِعلم یعنی ائمہ علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔(۳۰) امامؒ خمینی کے اس نظریہ کی تائید روایات کے علاوہ عقل و عرفان سے بھی ہوتی ہے ۔ کلام الہی میں لامحدود پوشیدہ حقائق و علوم کے خزانے موجود ہیں۔
قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا » (۳۱) کہ دیجئے: میرے رب کے کلمات (لکھنے) کے لیے اگر سمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اگرچہ ہم اتنے ہی مزید (سمندر) سے کمک رسانی کریں۔
اس حوالے سے امام خمینیؒ فرماتے ہیں کہ محدود ہرگز لامحدود کو اپنی قدرت کے احاطے میں نہیں لے سکتا مگر یہ کہ وہ محدودیت سے خارج ہو جائے اور لامحدود ہو جائے ۔ امام خمینیؒ کے نزدیک اس لامحدود انسان کے مصداق پیغمبرﷺ اور ائمہؑ ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسانِ کامل ہی لامحدود کے مقام تک رسائی حاصل کر سکتا ہے ۔یہ تبھی ممکن ہے جب محدود، لامحدود کمال مطلق سے متصل ہو جائے اور لامحدود میں فنا کے مقام تک پہنچ جائے۔ اس صورت میں وہ تمام صفات میں لامحدود ہو جاتا ہےاور یوں وہ قرآن کریم کے تمام علوم و حقائق سے بطور کمال احاطہ کر لیتا ہے اور جس طرح قرآن سے استفادہ کرنے کا حق ہوتا ہے ،استفادہ کر لیتا ہے۔ (۳۲)
امام خمینیؒ ایک اور مقام فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کو کامل طور پر سمجھنے کی قدرت ہم نہیں رکھتے،اسے وہی سمجھ سکتا ہے جو ’’ انما یعرف القرآن من خوطب بہ‘‘ ہو، قرآن کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کا مخاطب ہے اور واضح ہے جو ہستی’’ من خوطب بہ ‘‘ ہے اور قرآن کو سمجھ سکتی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے۔(۳۳)
2. سب کی فہمِ قرآن تک محدود رسائی
امام خمینیؒ کے بیانات کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ قرآن کریم سے تمام افراد اپنی استعداد کے مطابق قرآن سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ امام خمینیؒ دیگر بعض اخباری علماء کی طرح نہیں ہیں جو فہم قرآن کے دروازے کو غیر معصوم کے لیے بند تصور کرتے ہیں اور انسان کی عقل، فہم و خرد کو بے اعتبار جانتے ہیں۔ امام خمینیؒ کے مطابق قرآن کے نزول اور مبعثِ رسولﷺکا مقصد یہ ہے کہ تمام افراد تعلیمات قرآنی سے فیضیاب ہو کر کمال کا سفر طے کریں۔ علماء،عرفاء،فقہاء،محدثین و فیلسوف قرآن کریم سے فیضیاب بھی ہوتے ہیں جب کہ بسا اوقات ان کا زاویہ نگاہ مختلف ہوتا ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ فہم قرآن کے مختلف مراتب ہیں اور ہر ایک خاص مرتبے تک رسائی پاتا ہے ۔(۳۴)
3. ظاہر و باطن قرآن کریم
تفسیر قرآن کریم کے اصولوں میں سے مزید ایک اصول امام ؒ خمینی کی نظر میں یہ ہے کہ قرآن کریم کے مختلف مراتب ہیں جو ظاہر قرآن سے شروع ہو کر باطن کے آخری مرتبے تک ہیں۔ یہ گمان نہ کرنا کہ قرآن جسے اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے یہی پوست اور صورت ہے ۔جان لو کہ اس کی جلد کی صورت کی حد تک رک گیا اور اس کے ظاہری مقام تک رہنا اس کے باطن و روح تک نہ پہنچنا باعث ہلاکت ہے ۔
سب سے پہلے جو ظاہری حد تک رک گیا اور اس کے دل کی آنکھ باطن تک نہ پہنچ سکی اور اندھی ہو گئی وہ شیطان لعین تھا چونکہ وہ آدمؑ کی ظاہری صورت کو ہی دیکھ سکا ۔اصل حقیقت اس پر عیاں نہ ہو سکی ۔آدمؑ کے باطن کو درک نہ کرنا اور فقط ظاہر پر نظر رکھنا بغیر توجہ کے نورانیت و روحانیت کے مقام کو نہ دیکھنا مذہب سے خارج ہونے کا باعث ہے ۔ (۳۵)
تفسیر کا درست طریقہ کار
امام خمینیؒ مفسرین پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مفسرین کیوں قرآن کے مقصود کا ادراک نہیں کرتے اور کتب کے نزول اور انبیاء (ع) کی بعثت کے اصل مقصد کی تشریح کیوں نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے تفسیری نظریات کا ایک نمایاں نکتہ قرآن کے مقاصد سے متعلق آپ کی تاکید ہے۔ ان کی نظرمیں اگر مفسر کتاب کے مقاصد کو واضح نہ کرے تو چاہے تشریح کلمات میں کامیاب ہوجائے پھر بھی وہ مفسر نہیں ہے۔ مفسر قرآن ہونا قرآن کے مقاصد کا مفسر ہونا ہے۔ آپ ؒ فرماتے ہیں کہ یہ تفاسیر کہ جو شروع سے اب تک لکھی گئی ہیں، قرآن کی تفاسیر نہیں ہیں ۔ ان میں سے بعض قرآن کا تقریباً ترجمہ ہیں اور ان سے قرآن کی بہت کم خوشبو آتی ہے۔ (۳۶)
قرآن کریم کے اغراض و مقاصد
امام خمینیؒ تفسیر کے معنی کو مقاصد کے ذکر اور شرح وبیان سے متعلق فرماتے ہیں :
کلی طورپر کتاب کی تفسیر کے معنی یہ ہیں کہ اس کتاب کے مقاصد کی تشریح کی جائے اور اہم مقصد صاحب کتاب کا مقصود بیان کرنا ہو۔ یہ کتاب شریف جو خدا تعالیٰ کی گواہی کے مطابق ہدایت وتعلیم کی کتاب اور سلوک انسانیت کے راستے کا نور ہے، مفسر کو چاہیے اس کے قصص میں سے ہر واقعے، بلکہ آیات میں سے ہر آیت کے عالم غیب کی جانب ہدایت کے پہلو، سعادت وسلوک کے راستوں اور معرفت وانسانیت کی راہ کی جانب راہنمائی کے طریقے سے متعلم کو آگاہ کرے۔ مفسر جس وقت ہمیں مقصد نزول سمجھاتا ہے مفسر ہے، نہ کہ وہ سبب نزول کہ جس طرح تفاسیر میں بیان ہوا ہے کو ذکر کرتے وقت مفسر ہے۔(۳۷)
امام خمینی (ره) اپنی تحریروں اور تقاریر میں قرآن کے گوناگوں مقاصد کو زیر بحث لائے ہیں اور انسان کے کمالات کی زیادہ تاکید کی ہے :
کتاب خدا، معرفت واخلاق اور کمال وسعادت کی طرف دعوت کی کتاب ہے اور تفسیر کتاب بھی عرفانی اور اخلاقی کتاب اور عرفانی واخلاقی اور سعادت کی دوسری جہات کی دعوت کی کتاب ہونی چاہیے اور اس پہلو سے غفلت کرنے، اسے اہمیت نہ دینے اور اس سے صرف نظر کرنے والے مفسر نے آسمانی کتب کے نزول اور انبیاء کی بعثت کے اصل مقصد سے غفلت کی ہے اور یہ ایک ایسی خطا ہے جس نے صدیوں اس ملت کو قرآن کے استفادے سے محروم رکھا اور لوگوں کی ہدایت کے راستے کو بند کردیا ۔(۳۸)
حاصل بحث:
زیر نظر مضمون میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ امام سید روح اللہ موسوی الخمینیؒ کی قرآنی تعلیمات و افکار ہمیں ظواہر قرآن سے نکال کر بواطن تک جانے کی رہنمائی کرتی ہیں اور ہمیں کمالات کا سفر طے کرنے کی سمت فراہم کرتی ہیں۔ امام خمینیؒ ہمیں قرآن کریم کو مختلف ابعاد و جہات سے سیکھنے،سمجھنے اور اس پر کاربند ہونے کی جانب متوجہ کر رہے ہیں اور دریچہ عقل انسانی پر دستک دے کر پرواز کی دعوت دے رہے ہیں نیز آپ کے قرآنی افکار درحقیقت انسان کو قرآن کریم کے محدود علوم سے نکال کر لامحدود علوم قرآنی میں غوطہ زن ہو کر محدودیت سے لامحدودیت کی جانب لانے کا زینہ فراہم کر رہی ہیں۔
آپ نے فہمِ قرآن کی جن ابعاد پر روشنی ڈالی اس مضمون میں ان کو مختصراً بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ابتدائی سطور میں اہمیت فہم قرآن اور قرآن کریم کو سمجھنے کی ضرورت کو بیان کیاگیا ،بعد ازاں اس کے سمجھنے کی شرائط کو بیان کیا گیا اور قارئین کرام کو امام خمینیؒ کی نظر میں شیطانی جال سے نکل کر حصارِ رحمتِ الہی میں آنے کی دعوت دی گئی اور خلوص نیت کی جانب متوجہ کیا گیا۔چونکہ اعمال ،نیت اور پاکیزگی خلوص پر منحصر ہوتے ہیں اور قرآن کریم کی رحمات سے بہرہ مند ہونے کے لیے بھی پاکیزگی خلوص اور طہارتِ نیت درکار ہے۔ امام خمینیؒ ایک بنیادی نکتے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان کو باطن و ظاہر کی طہارت درکار ہے اور ترتیل سے تلاوت کرکے اپنے قلب و روح کو متاثر کرے اور ترتیل درحقیقت آیات قرآنی میں تفکر و تدبر کی دعوت دیتا ہے نیز آپ معتقد ہیں کہ انسان کو قرآن سے اپنی زندگی کا تقابل و موازنہ کرنا چاہیے ، اگر اس کی زندگی تعلیمات قرآنی کے موافق ہو تو وہ راہ فلاح پر ہے وگرنہ وہ بربادی کے دہانے پر ہے۔
ہم نے کوشش کی کہ امام خمینیؒ کی نگاہ میں فہم قرآن کی راہ میں درپیش موانع و حجابات کو بھی بیان کیا جائے اور اس کے لیے آپ کے قرآنی افکار ہمیں علمی غرور کو ترک کر کے لامحدودیت کا سفر طے کرنے کی دعوت دیتی ہیں اور گناہ و معصیت سے بچنے کی رہنمائی کرتی ہیں۔ہم نے اخذ کیا کہ آپ معتقد ہیں کہ علمی غرور یا معصیت و گناہ کے ذریعے قرآن کریم سیکھنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل ہو جاتی ہیں نیز آپؒ کی نگاہ بابصیرت کے مطابق مفسرین کو چاہیے کہ روایتی انداز کے بجائے مقاصد قرآن کو اپنی تفاسیر کا موضوع بنائیں۔موانع و حجابات کے آخری نکتے میں ہم نے دیکھا کہ آپ تعصب و اندھی تقلید کی شدید نفی کرتے ہیں۔
اس مضمون میں امام خمینیؒ کے نقطہ نظر کے مطابق تفسیر کے اصول و مبانی کو بھی زیر بحث لایا گیا جس میں آپ فہم ِ قرآن کے مکمل علم تک عدم رسائی کو بیان کر رہے ہیں اور عقل و فہم و خرد کے ذریعے لامحدود علوم و حقائق ِ قرآنی تک دسترس حاصل کرنے کی جانب متوجہ کر رہے ہیں نیز آپ کی قرآنی تعلیمات کی روشنی میں ہم نے تفسیرکرنے کی صحیح روش و طریقہ کار اور قرآن کریم کےاغراض و مقاصد کو بھی اخذ کیا اور قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرکے امام خمینیؒ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق فہمِ قرآن کی دعوت دی ہے۔
حوالہ جات:
1. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۰۰
2. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص۱۰۱
3. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۰۲
4. سورہ نحل/ ۹۸
5. امام خمینی، آداب الصلوة، ص۲۲۱، چ ۱، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
6. امام خمینی، چهل حدیث، ص۵۰۰.
7. واقعہ / ۷۷ تا ۷۹
8. امام خمینی، شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص۵۰۴، چ ۲، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
9. مزمل / ۴
10. امام خمینی، آداب الصلوة، ص۱۸۱، چ ۱، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی،
11. حشر / ۲۱
12. امام خمینی، چهل حدیث، ص۵۰.
13. نحل / ۴۴، ص / ۲۹
14. امام خمینی، آداب الصلوة، ص۲۱۲، چ ۱، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
15. فیض کاشانی، ملامحسن، المحجة البیضاء، ج۲، ص ۲۳۷، چ ۲، قم دفترانتشارات اسلامی.
16. امام خمینی، آداب الصلوة، ص۲۰۵، چ ۱، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
17. امام خمینی، آداب الصلوة، ص۲۰۶، چ ۱، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
18. حر عاملی، وسائل الشیعه، ج۱۸، ص۷۸، بیروت، داراحیاء التراث العربی.
19. امام خمینی، آداب الصلوة، ص۲۰۸، چ ۱، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۰ ش.
20. امام خمینی، آداب الصلوة، ص۱۹۷-۱۹۵، چ ۱، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، ۱۳۷۰ ش.
21. فیض کاشانی، ملامحسن، المحجة البیضاء، ج۲، ص۲۴۱، چ ۲، قم دفترانتشارات اسلامی.
22. تنکشف نراقی، محمد مهدی، جامع السعادات، ج۳، ص۳۷۴، چ ۳، تهران، مؤسسه مطبوعاتی اسماعیلیان، ۱۳۸۳ ق.
23. فیض کاشانی، ملامحسن، المحجة البیضاء، ج۲، ص۲۴۱، چ ۲، قم دفترانتشارات اسلامی.
24. امام خمینی، شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص۸، چ ۲، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
25. امام خمینی، شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص۶۲، چ ۲، تهران، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
26. اعراف / ۱۷۹
27. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۰۶
28. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۰۵
29. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۰۵
30. کلینی، اصول کافی، ج۲، ص۲۲۸، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی
31. کھف / ۱۰۹
32. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۰۹
33. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۱۲
34. امام خمینی، صحیفه نور، ج۱۴، ص۲۵۲.
35. امام خمینی ؒ کے قرآنی افکار ، ص ۱۰۸
36. صحیفہ امام، ج ۱۹، ص ۸
37. آداب الصلاة ، ص ۱۹۲
38. آداب الصلاة ، ص ۱۹۲
یہ بھی پڑھیں: قرآن اور عقل
https://albasirah.com/urdu/quran-aur-aqal/
Share this content: