ابراہیمؑ کی معرفت اقبالؒ کی نظر سے
عید ابراھیمی کے موقع پر
اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں انبیاء کی زندگی کے نہایت اہم واقعات بیان کیے ہیں۔ بعض انبیاء کا ذکر قرآن مجید میں زیادہ نمایاں طور پر آیا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف اتار چڑھائو کو بیان کرکے دراصل قرآن مجید یہ بتانا چاہتا ہے کہ مختلف مراحل درپیش ہوں تو ایک اعلیٰ انسان ان میں سے کیسے گزرتا ہے اور کیسے وہ ان کا سامنا کرتا ہے۔ اصل میں یہ واقعات اور تاریخ کی یہ مثالیں آنے والی نسلوں کے لیے راہنمائی مہیا کرتی اور کامیابی کے راستوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی طرح سے جن قوموں کی زوال کی داستانیں بیان ہوئی ہیں، ان کا مقصد بھی یہ بتانا ہے کہ قومیں کون سا راستہ اختیار کریں تو وہ ثریا سے زمین پر دے ماری جاتی ہیں اور کمال سے زوال تک جا پہنچتی ہیں۔ قرآن حکیم کوئی داستانوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ بشریت کی ہدایت کے لیے آئی ہے۔ علامہ اقبال نے اسی حیثیت سے قرآن حکیم کا مطالعہ کیا ہے اور وہ قرآنی مثالوں اور نمونوں کو اپنے دور پر منطبق کرتے ہیں اور زوال یافتہ مسلمانوں کو یہ مثالیں اور نمونے یاد دلاتے ہیں، تاکہ وہ نشاۃ ثانیہ کی آرزو اپنے دل میں پروان چڑھائیں اور اس کے لیے راستے اور طریقے کو بھی پیش نظر رکھیں۔
حضرت ابراہیمؑ کو آسمانی ادیان کے ماننے والوں میں بہت بلند مقام حاصل ہے۔ قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم ہی کی ملت اور دین کو حنیف، درست اور سچا قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو اسی دین و ملت کے اتباع کا حکم دیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: قُلْ بَلْ مِلَّۃَ اِبْرٰھٖمَ حَنِیْفًا(۱) قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (۲) علامہ اقبال نے بھی حضرت ابراہیم خلیل اللہ، جو توحید پرستوں کے سردار اور پیشوا ہیں اور باطل کے خلاف جن کی حوصلہ مندانہ معرکہ آرائی دلوں کو ہر دور میں گرماتی رہے گی، کی سیرت و کردار سے خوب استفادہ کیا ہے۔ مادی کائنات کی کھوج لگانے والے عصری علوم کی کج روی اور جدید مادی تہذیب کا کھوکھلا پن واضح کرتے ہوئے علامہ اقبال نے ابراہیم خلیل اللہ کے بلند کردار کو اختیار کرنے کا پیغام دیا ہے۔ وہ عصر حاضر کے نمرودوں کی شناخت پر بھی زور دیتے ہیں اور امت کو اتحاد و وحدت نیز ترقی و کمال کے راستے کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم نے مختلف حوالوں سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی زندگی سے علامہ اقبال نے جس طرح سے پیغام حیات اخذ کیا ہے، ان میں سے چند ایک کی نشاندہی کی کوشش کریں گے۔
عصر حاضر کو ابراہیمؑ کی تلاش
علامہ اقبال کی نگاہِ متجسس عصر حاضر کے ابراہیمؑ کی جستجو میں ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ آج پوری دنیا ہی صنم کدہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ گویا آج کے ابراہیمؑ کو بہت بڑا عالمی معرکہ درپیش ہے۔ آج کے ابراہیمؑ کو عالمی میدان میں اترنا ہے۔ آج کا بت خانہ بھی وسیع ہے۔ بت بھی متنوع ہیں۔ آتش بھی عالم گیر ہے۔ آج کے آزر بھی نہایت دل ربا اور آنکھوں کو چندھیا دینے والے بت تراش رہے ہیں۔ اقبال نے اپنے فارسی اور اردو اشعار میں اس ساری صورت حال کو بہت خوبصورتی اور مہارت سے بیان کیا ہے۔ اس دور کے ابراہیم کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ(۳)
ابراہیمؑ کے ایمان کی ضرورت
نمرود اور شرک کے پیروکاروں کی جلائی ہوئی آگ میں جب حضرت ابراہیمؑ کو ڈالا گیا تو دھکتا ہوا تنور گوشۂ گلشن میں تبدیل ہوگیا۔ ایسا کیوں اور کیونکر ہوگیا۔ ایسا حضرت ابراہیمؑ کے مضبوط اور استوار ایمان باللہ کی بدولت ہوا اور یہ معجزہ اللہ کے حکم پر نمودار ہوا۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ہے: قُلْنَا یٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ (۴) “ہم نے کہا: اے آگ! ابراہیم پر ٹھنڈی اور سلامتی والی ہوجا۔” علامہ اقبال کے نزدیک نئی بے خدا تہذیب نے جس نئے عہد کو جنم دیا ہے، وہ بھی نمرود حاضر کا دھکایا ہوا تنور ہے اور یہ تنور اتنا وسیع ہے کہ اس میں ہر چیز شعلہ بداماں ہے۔ اس آگ سے نہ کوئی خرمن محفوظ ہے، نہ صحرا اور نہ گلشن۔ پرانی قومیں بجائے اس کے کہ اس آگ کو بجھانے کا سامان کرتیں، وہ تو الٹا اس آگ کے لیے ایندھن بن گئی ہیں۔ یہ آگ تو اسی دنیا میں گویا جہنم کی آگ بن گئی ہے، جس کے بارے میں قرآن شریف میں ہے کہ اس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں: یاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (۵) “اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچائو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔”
یہ آگ ملت ختم رسل ؐکے پیرھن تک بھی آن پہنچی ہے، تاہم اقبال اس آگ کے بجھنے بلکہ سلامتی والی بن جانے کی امید دلاتے ہیں اور اس کے لیے طریقہ بھی بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
عہدِ نو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختم رسلؐ شعلہ بہ پیراہن ہے
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا(۶)
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ عصر حاضر کی دھکائی ہوئی آگ سے کوئی چیز امان میں نہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم پر ابراہیم ؑنے جو گھر ساری انسانیت کے لیے بنایا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فِیْہِ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا(۷) “اس میں واضح نشانیاں ہیں، جن میں سے ایک مقام ابراہیم ہے اور جو کوئی اس کے اندر پہنچ جائے وہ امن میں ہے۔” گویا ابراہیم کا راستہ انسان کے لیے امن و سکون کا راستہ ہے اور ابراہیم کے راستے پر چل کر آگ بھی انداز گلستاں پیدا کر لیتی ہے۔
فرقہ پرستی شرک ہے
ہندوستان میں جس انداز سے فرقہ پرستی کا دور دورہ تھا، اسے اقبال اپنی توحید پرستانہ نظر میں شرک جانتے تھے اور فرقہ پرستی میں مبتلا کرنے والے ان کے نزدیک آزر کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اقبال مسلمانوں کو حجاز میں موجود ابراہیمی حرم کی طرف متوجہ کرتے ہیں، تاکہ وہ فرقہ پرستی اور فرقہ سازوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرسکیں اور اس حجاز کا راستہ لیں، جو انھیں ایک خدا اور عملی توحید کی طرف متوجہ کرتا ہے۔اقبال کہتے ہیں:
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا(۸)
بت شکن کی اولاد بت گری میں مصروف
حکیم الامت نے آج کے مسلمانوں کی تصویر کشی کرتے ہوئے انھیں مادی اور روحانی کمزوری کی طرف متوجہ کیا ہے۔ مسلمان آج قوت بازو سے محروم ہیں اور وہ امتیں جو قوت بازو سے محروم ہو جائیں، ان کے دل الحاد کی آماج گاہ بن جاتے ہیں، کیونکہ توحید پرستی قوموں کو قوی بنا دیتی ہے۔ جب قومیں طرح طرح کے بتوں کو پوجنا شروع کر دیتی ہیں تو منتشر ہو جاتی ہیں۔ مسلمان جو دراصل ملت ابراہیم کی یادگار ہیں، آج بت شکنی کے بجائے بت گری میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال کے نزدیک آج ہم وہ کام کر رہے ہیں، جو آزر کرتا تھا۔ مسلمانوں نے دراصل اس حرم سے منہ موڑ لیا ہے، جو ان کی یکتائی کا ذریعہ تھا۔ انھوں نے اور گھروں کے طواف شروع کر دیے ہیں۔ گویا آج اقبال کے نزدیک مسلمانوں نے نیا حرم اور نئے بت بنا لیے ہیں۔ اس لیے یہ مسلمان بھی نہیں جن کا وہ حرم ہو جس کی بنا ابراہیم نے رکھی تھی۔ اقبال کہتے ہیں:
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا براہیمؑ پدر، اور پسر آزر ہیں
بادہ آشام نئے بادہ نیا خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا بت بھی نئے تم بھی نئے(۹)
یاد رہے کہ قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم ؑکو مسلمانوں کا باپ قرار دیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑہی نے ہمیں مسلمان کا نام دیا۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ(۱۰) ایک اور مقام پر اقبال نے اسی بات کو ایک اور پیرائے میں یوں بیان کیا ہے:
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور(۱۱)
یہاں ایک اور بات واضح ہو کر سامنے آجاتی ہے کہ اقبال کے نزدیک دراصل اثر حاضر کا آزر مغربی تہذیب کا ترجمان اور بت گر ہے۔ وہ تہذیب جو کائنات کو فقط مادی نظر سے دیکھتی ہے اور روحانی آنکھ سے محروم ہے اور مسلمانوں نے اسی تہذیب کو اپنا حرم بنا لیا ہے۔ بظاہر تو مسلمان خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور ہر سال لاکھوں کی تعداد میں اس کا حج کرنے جاتے ہیں، لیکن عملی زندگی میں ان کا حرم مغربی تہذیب بن چکی ہے۔
نمرودوں سے خوفزدہ نہ ہوں
علامہ اقبال کے نزدیک ابراہیمؑ کو ابراہیم ؑبنانے کے لیے مقابلے پر نمرود کی بھی ضرورت ہے۔ ان کے نزدیک براہیمیوں کو نہ فقط نمرودوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے علم میں ہونا چاہیے کہ نمرودوں سے معرکہ آرائی ان کے وجودِ خام کو تکمیل بخشتی ہے، جیسا کہ خود حضرت ابراہیم ؑ خلیل اللہ کے ساتھ ہوا کہ اپنے دور کے نمرود کے خلاف ان کی نبردآزمائی نے انھیں ایک طرح سے امتحان کی کسوٹی میں کسا اور وہ اس میں کامیابی حاصل کرکے خُلّتِ الٰہی اور امامت ِانسانی کے حق دار بنے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
نہاں اندردوحرفے سرِّکار است
مقامِ عشق منبر نیست، داراست
براہیماں زنمرودان نترسند
کہ عودِ خام را آتش عیاراست!(۱۲)
کام کی رازدارانہ بات دو حرفوں میں پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ عشق کا مقام منبر نہیں بلکہ سولی ہے۔ ابراہیم ؑنمرودوں سے نہیں ڈرتے، کیونکہ عود خام کے لیے آگ کسوٹی کی حیثیت رکھتی ہے، یعنی آگ اسے مکمل کرتی ہے اور اسے نفیس بنا دیتی ہے۔
آج کا واعظ فقط منبر پر اپنی خطابت کے جوہر دکھاتے ہوئے ابراہیم ؑخلیل اللہ کا قصہ بیان کرتا ہے، جبکہ خود ابراہیمی طرز اختیار کرنے کے لیے اور ابراہیمی زندگی کو اپنانے کے لیے منبر کی نہیں دار کو گلے لگانے کی ضرورت ہے اور اگر کوئی توحید پرست اس مقصد کے لیے تیار ہو جائے تو پھر نمرود سے پنجہ آزمائی اس کے لیے کسی خوف کا باعث نہیں بنے گی بلکہ کامیابی کا زینہ بن جائے گی۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ہے: وَ اِذِابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ً(۱۳) “اور جب ابراہیم کے رب نے انھیں کلمات کے ذریعے آزمایا تو انھوں نے انھیں پورا کر دکھایا، اس پر اللہ نے کہا کہ میں تجھے انسانوں کا امام بناتا ہوں۔” علامہ اقبال بھی مسلمانوں کو متوجہ کرتے ہیں کہ انھیں امتحانوں اور ابتلائوں سے گزرنا ہوگا اور پاک مردوں کو امتحانوں سے گزر کر ہی کامیابی نصیب ہوتی ہے بلکہ علامہ اقبال تو یہ پیغام دیتے ہیں کہ پاک مرد خود اٹھ کھڑے ہوں اور حضرت کلیم اللہ کی طرح نیل میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ داخل ہو جائیں اور خلیل اللہ کی طرح سے خود چل کر آتش نمرود کے پاس جا پہنچیں۔ وہ کہتے ہیں:
امتحانِ پاک مرداں از بلاست
تشنگاں را تشنہ تر کردن رواست
درگذر مثلِ کلیم از رودِ نیل
سوے آتش گام زن مثلِ خلیل!(۱۴)
یعنی پاک مردوں کا بلائوں کے ذریعے سے امتحان لیا جاتا ہے اور اس امتحان گاہ میں پیاسوں کو اور پیاسا کرنا روا ہے، تاکہ انھیں آزمایا جاسکے۔ لہٰذا اے مسلمان تو حضرت موسیٰ کلیم اللہ کی طرح سے دریائے نیل سے گزر جا اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی طرح سے آگ کی طرف قدم بڑھا۔ قرآن شریف میں بھی اس بات کو طرح طرح سے بیان کیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵) “اور ہم ضرور تمھیں آزمائیں گے، کچھ خوف اور بھوک نیز اموال، جانوں اور ثمرات کی کمی سے اور بشارت ہے استقامت دکھانے والوں کے لیے۔” ایک اور مقام پر فرمایا گیا ہے: اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ O وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ لَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ(۱۶) “کیا لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ چھوڑ دیے جائیں گے، بس اتنا کہنے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں اور انھیں آزمایا نہیں جائے گا، حالانکہ ہم نے لوگوں کو اس سے پہلے بھی آزمایا ہے تو اب بھی اللہ ضرور معلوم کرے گا کہ کون سچے ہیں اور معلوم کرے گا کہ کون جھوٹے ہیں۔“
اپنے دور کے نمرود کی شناخت
حکیم الامت علامہ اقبال توجہ دلاتے ہیں کہ اپنے دور کے نمرود کی شناخت اہل توحید کے لیے بہت ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن حکیم ایک مومن کے مقابلے میں ہمیشہ شیطان اور ابلیس کے وجود کو نمایاں طور پر پیش کرتا ہے اور اسے انسانیت کا کھلا دشمن قرار دیتا ہے، اس کی علامتیں بھی بتاتا ہے اور انسان کو متوجہ کرتا ہے کہ اسے ایک بہت بڑے دشمن کا سامنا ہے، تاکہ وہ اس سے زور آزمائی کے لیے تیار رہے اور یہ جان لے کہ اسے یہ زندگی دے کر رزم گاہ میں اتارا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی میدان میں بھی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مرد میدان اپنے دشمن کو پہچانے اور اس کے دائو پیچ کو بھی جانے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
پسر را گفت پیرے خرقہ بازے
ترا ایں نکتہ باید حرزِ جاں کرد
بہ نمرودانِ ایں دور آشنا باش
زفیضِ شاں براہیمی تواں کرد(۱۷)
ایک گدڑی پوش بزرگ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تو اس نکتے کو حرز جاں بنا لے کہ اس دور کے نمرودوں سے آشنا ہوجا، کیونکہ انہی سے مقابلہ کرتے ہوئے تو براہیمی طرز عمل اختیار کرسکتا ہے۔
نمرود کی نمک خواری پر انحصار کب تک
حضرت ابراہیمؑ کی پرورش آپ کے چچا آزر نے کی تھی، جو نمرود کے خاص مصاحب میں سے تھا۔ گویا ایک عرصے تک حضرت ابراہیم نمرود کے نمک سے پرورش پاتے رہے۔ پھر ان کی بیدار فطرت نے کروٹ لی۔ انھوں نے دیکھا کہ آزر جن بتوں کو تراشتا ہے، ان کے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں، لیکن لوگ انسانی ساختہ ان بتوں کے سامنے سر جھکاتے ہیں اور نمرود ان کی اسی سادہ اندیشی بلکہ احمقانہ روش سے سوئے استفادہ کرتے ہوئے ان کے وسائل پر قابض ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے ان بتوں اور جاہلانہ نظام کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کی اور پھر بت پرستی کے خلاف ایک عظیم معرکے کا آغاز ہوا۔ آج اولاد ابراہیم بھی پروردۂ نمرود ہے۔ علامہ اقبال پوچھتے ہیں کہ آخر یہ اولاد ابراہیم کب کروٹ لے گی اور کب ابراہیم کی مجاہدانہ روش اختیار کرے گی۔
نگاہِ تو عتاب آلود تا چند
بتانِ حاضر و موجود تا چند
دریں بتخانہ اولادِ براہیم
نمک پروردۂ نمرود تا چند(۱۸)
ڈوب جانے والوں سے محبت نہیں ہوسکتی
قرآن حکیم میں حضرت ابراہیمؑ کے بارے میں ایک بہت معنی خیز اور نکتہ آفریں قصہ بیان فرمایا گیا ہے۔ بعض مفسرین اسے ایک علامتی قصہ قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیمؑ بچپن میں ایک عرصہ غار میں رہے۔ نوجوان ہوئے تو باہر نکلے۔ رات کا وقت تھا، تاریکی چھائی ہوئی تھی، ایک ستارے پر نظر پڑی تو کہا ’’یہ میرا پروردگار ہے۔‘‘ جب وہ ڈوب گیا تو کہا کہ میں ’’ڈوب جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘ پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا تو کہنے لگے: ’’یہ میرا پروردگار ہے‘‘ مگر وہ بھی ڈوب گیا تو گویا ہوئے: ’’میرا پروردگار مجھے سیدھے راستے پر نہ رکھے تو میں گمراہ لوگوں میں سے ہو جائوں۔‘‘ پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا تو کہنے لگے: ’’یہ میرا رب ہے، یہ تو سب سے بڑا ہے۔‘‘ تو جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے: ’’اے میری قوم والو! یقیناً میں بری ہوں، اس سے جو تم شرک کرتے ہو۔’’ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْہِ الَّیْلُ رَاٰکَوْکَبًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَآ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَO فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ فَلَمَّآ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ یَھْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَکُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَO فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ھٰذَا رَبِّیْ ھٰذَآ اَکْبَرُ فَلَمَّآ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنO(۱۹)
ان آیات سے پہلے اور بعد کی آیات بھی اسی موضوع سے مربوط ہیں۔ حکیم الامت علامہ اقبالؒ نے اس داستان سے بڑی عمدگی سے عصری، تہذیبی، فکری اور فلسفی مسائل کے لیے استفادہ کیا ہے۔ ’’اسرارورموز خودی‘‘ میں انھوں نے متعدد مقامات پر اس قصے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ہے’’اندرزِ میر نجات نقشبند المعروف بہ باباے صحرائی کہ براے مسلمانان ہندوستان رقم فرمودہ است۔‘‘ اس میں وہ مولانائے روم کے اس شعر کا بھی حوالہ دیتے ہیں:
علم را برتن زنی نارے بود
علم را بر دل زنی، یارے بود
علم تن اور بدن کے لیے ہو تو آگ ہے اور دل کے لیے ہو تو دوست ہے اور مفید انسان ہے۔ مجموعی طور پر اس نظم میں حسّی فلسفے کی نفی کی گئی ہے اور حقیقت و معنویت کی طرف دعوت دی گئی ہے۔ ’’انبار کتاب‘‘ کی نفی کی گئی ہے اور ’’اسرار کتاب” کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔ اسی پس منظر میں وہ اس داستان سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
علم مسلم کامل از سوز دل است
معنیٔ اسلام ترکِ آفل است
چوں زبندِ آفل ابراہیم رست
درمیان شعلہ ھا نیکو نشست(۲۰)
مسلمان کا علم سوز دل کی برکت سے کامل ہو جاتا ہے اور اسلام کا معنی ’’ڈوب جانے والے‘‘ کو ترک کر دینا ہے۔ ابراہیمؑ نے جب آفل (ڈوب جانے والے) سے رہائی پا لی تو مزے سے شعلوں میں جا بیٹھے (ان میں اتنا بڑا حوصلہ پیدا ہوگیا اور اس ایمان اور حوصلے کے نتیجے میں آگ گلزار ہو گئی۔) علامہ اقبال کہتے ہیں کہ عصر حاضر کے علم سے سوزِ عشق کو تلاش نہ کرو اور ’’کیف حق‘‘ اس ’’کافر‘‘ سے طلب نہ کرو۔ ’’رسالت‘‘ کے زیر عنوان ایک نظم کا پہلا شعر ہی اس ابراہیمی داستان سے متعلق ہے:
تارک آفل براہیم خلیل
انبیاء را نقشِ پائے او دلیل(۲۱)
ابراہیم خلیل اللہ جو ’’آفل‘‘ کو ترک کر دینے والے ہیں، ان کا نقش پا انبیاء کے لیے بھی دلیل و راہنما بن گیا ہے۔ اس کے بعد اس عظیم نظم میں آخری رسولؐ اور آخری امت کا ذکر ابراہیمؑ ہی کی آرزو کے ظہور کے طور پر کیا گیا ہے۔
طلسم علم حاضر
علامہ اقبال نے ’’علم حاضر‘‘ کے طلسم کا بارہا ذکر کیا ہے۔ یہ علم دراصل محسوسات اور مشاہدات مادی کا نتیجہ ہے۔ تاہم مادی کائنات کا کھوج لگاتے ہوئے مغربی انسان نے ہوش ربا ترقی کی بنیاد رکھی ہے۔ اس ترقی نے دنیا ہی بدل دی ہے۔ ساری توجہات کو اس مادی ترقی نے اسیر کر لیا ہے۔ علامہ اقبال اسی کو ’’طلسم علم حاضر‘‘ قرار دیتے ہیں اور اسے نمرود کی آگ سے تشبیہ دیتے ہیں۔ انھوں نے خود ان افکار کا گہرائی سے مطالعہ کیا، جو مغربی تہذیب کی بنیاد بنے، لیکن وہ ان افکار کے اسیر نہ ہوسکے۔ اس ساری کیفیت کو وہ یوں بیان کرتے ہیں:
طلسمِ علم حاضر را شکستم
ربودم دانہ و دامش گسستم
خدا داند کہ مانندِ براہیم
بہ نار اوچہ بے پروا نشستم(۲۲)
البتہ اس سے پہلے کہ اقبال ’’طلسم علم حاضر‘‘ کی آگ میں بے پرواہ جا بیٹھے، انھیں ایسا کرنے کا حکم ’’پیر رومی مرشد روشن ضمیر‘‘ نے دیا۔ مثنوی ’’پس چہ باید کرد اے اقوام شرق‘‘ میں ’’تمہید‘‘ کے زیرعنوان نظم میں وہ اپنے مرشد کو ’’کاروانِ عشق و مستی را امیر‘‘ قرار دیتے ہوئے ان کا حکم یوں بیان کرتے ہیں:
جز تو اے داناے اسرار فرنگ
کس نکوننشست درنار فرنگ
باش مانند خلیل اللہ مست
ہر کہن بتخانہ را باید شکست (۲۳)
اے فرنگ کے اسرار کے جاننے والے، تیرے علاوہ کوئی اور آتش فرنگ میں جا کر نہیں بیٹھا، لہٰذا تو خلیل اللہ کی طرح مستِ(شراب توحید) ہو جا اور ہر پرانے بت خانے کو توڑ دے(اور توحید ابراہیمی پر مبنی اپنی تہذیب کی بنیادوں پر نئی عمارت پھر سے کھڑی کر دے)۔
ابراہیمؑ اور محمدؐ
ویسے تو علامہ اقبال نے جگہ جگہ حضرت ابراہیمؑ اور آنحضرتؐ کے باہمی تعلق کو بیان کیا ہے۔ آنحضرتؐ کے ظہور اور آپؐ کی امت کے وجود کی بھی حضرت خلیل کی دعائوں میں پیش گوئی موجود ہے۔ اس کا ذکر علامہ اقبال کی نظم ’’رسالت‘‘ میں بھی ہے۔ البتہ ایک اور مقام پر حضرت محمد مصطفٰیؐ کی بے پناہ عظمت کو حضرت ابراہیم کی نسبت عجیب انداز سے بیان کیا ہے۔ اسرار و رموز میں علامہ اقبال نے ایک نظم خودی کی حقیقت اور کردار کے بارے میں کہی ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’دربیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است و تسلسل حیات و تعینات وجود بر استحکام خودی انحصار دارد۔‘‘ اس میں ’’مقام محمد‘‘ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
شعلہ ہائے او صد ابراہیم سوخت
تا چراغ یک محمدؐ بر فروخت (۲۴)
گویا ابراہیمؑ جیسی سو ہستوں نے باطل کے خلاف معرکہ آرائی کی، توحید الہیٰ کی حقیت کو آشکار کرنے کے لیے اپنے آپ کو شعلوں کے حوالے کر دیا، تاکہ ’’محمدؐ‘‘ کا ایک چراغ روشن ہو۔ محمدؐ جو خاتم النبیینؐ ہیں، جو سارے انبیاء پر شاہد ہیں، حقیقی شاہد، اپنے وجود اور شہود کے ساتھ۔ اب چراغ محمدؐ کو روشن رہنا ہے۔ یہ چراغِ محمدؐ ابراہیمؑ جیسے سینکڑوں اہل دل کے سوز سے روشن ہے۔
امام حسینؑ۔۔۔ سرّ ابراہیم ؑو اسماعیل ؑ
علامہ اقبال نے ایک نہایت دل آویز اور معنی خیز نظم سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کے بارے میں کہی ہے۔ اس شہرہ آفاق نظم کا عنوان ہے ’’درمعنیٔ حریت اسلامیہ و سرّ حادثۂ کربلا۔‘‘ اس میں وہ امام حسین علیہ السلام کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی قربانی کا راز قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:
سرِ ابراہیمؑ و اسمعیلؑ بود
یعنی آں اجمال را تفصیل بود(۲۵)
اسی نظم میں یہ مشہور شعر بھی ہے:
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنیٔ ذبحٌ عظیم آمد پسر (۲۶)
بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ دونوں شعر ایک دوسرے کی وضاحت کر رہے ہیں۔ امام حسینؑ کا باطل کے سامنے قیام اپنے دور کے نمرود کے مقابل ہی قیام تھا۔ ایک اور شعر میں آپؑ کا یزید کے مدمقابل آنا حضرت موسیٰؑ کا فرعون کے مد مقابل آنے کی طرح قرار دیا گیا ہے:
موسیٰ و فرعون و شبیر و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید(۲۷)
بہ ہر زمانہ خلیل
اقبال کی نظر میں معرکۂ خیر و شر جاری ہے۔ ہر زمانے کا ایک خلیل ہوتا ہے اور ہر زمانے میں نمرود کا ایک الائو ہوتا ہے، جس میں سے توحید کے علم برداروں کو گزرنا ہوتا ہے:
شبے بہ میکدہ خوش گفت پیر زندہ دلے
بہ ھر زمانہ خلیل است و آتشِ نمرود(۲۷)
ایک اور شعر میں اس حقیقت کو وہ یوں بیان کرتے ہیں:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفویؐ سے شرار بولہبی(۲۹)
یہ امر دلچسپ ہے کہ ’’ابو لہب‘‘ کا معنی ہی ’’شعلوں کا باپ‘‘ ہے۔ اگر یہ بات برحق ہے کہ ہر زمانے کا ایک خلیل ہوتا ہے اور یقیناً برحق ہے تو پھر ہر دور کے نمرود اور ہر دور کے ابراہیم کی معرفت ضروری ہے۔ نمرودوں کی معرفت کے حوالے سے ہم پہلے ہی علامہ اقبال کا ایک شعر نقل کر آئے ہیں اور یہ بھی بیان کر آئے ہیں کہ خود علامہ اقبال یہ کہتے ہیں کہ ’’یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے‘‘، یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمؐ کی اس حدیث پاک پر اپنی گفتگو کا اختتام کریں: من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاھلیۃ(۳۰) “جو شخص اس حالت میں مر گیا کہ اس نے اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔”
٭٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
۱۔ بقرہ: ۱۳۵
۲۔ آل عمران: ۹۵
۳۔ کلید کلیات اقبال اردو، ص، ۵۲۷
۴۔ انبیاء: ۶۹
۵۔ تحریم: ۶
۶۔ کلید کلیات اقبال اردو، ص، ۲۳۴
۷۔ آل عمران: ۹۷
۸۔ کلید کلیات اقبال اردو، ص، ۱۵۶
۹۔ کلید کلیات اقبال اردو، ص، ۲۲۹
۱۰۔ حج: ۷۸
۱۱۔ کلید کلیات اقبال اردو، ص، ۱۸۷
۱۲۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۱۰۲۲
۱۳۔ بقرہ: ۱۲۴
۱۴۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۶۷۱
۱۵۔ بقرہ: ۱۵۵
۱۶۔ عنکبوت: ۲ و ۳
۱۷۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۹۵۷
۱۸۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۸۹۴
۱۹۔ انعام: ۷۶ تا ۷۸
۲۰۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۶۸
۲۱۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۱۰۰
۲۲۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۹۳۴
۲۳۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۸۰۳
۲۴۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۱۳
۲۵۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۱۱۱
۲۶۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۱۱۰
۲۷۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۱۱۰
۲۸۔ کلیات اقبال فارسی، ص، ۳۱۴
۲۹۔ کلید کلیات اقبال اردو، ص، ۲۵۱
۳۰۔ قندوزی حنفی: ینابیع المودۃ ۳/۳۷۲، باب ۹۱
بعض کتب احادیث میں اس حدیث کی عبارت کچھ یوں آئی ہے:
قال رسول اللہ من مات بغیر امام مات میتۃ جاہلیۃ
احمد بن حنبل: مسند احمد، ج۴، ص۹۶ و ہیثمی: مجمع الزوائد، ج۵، ص۲۱۸ و سلیمان بن دائود طیالسی: مسند ابی دائود طیالسی، ص ۲۵۹
کتابیات
۱۔ القرآن الحکیم
۲۔ سلیمان بن دائود طیالسی، متوفی ۲۰۴ھ، مسند ابی دائود، دارالمعرفۃ، بیروت، لبنان۔
۳۔ احمد ابن حنبل: متوفی،۲۴۱ھ، مسند دارصادر، بیروت، لبنان
۴۔ ہیثمی،حافظ نورالدین علی ابن ابی بکر: متوفی ۸۰۷، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، طبع ۱۴۰۸، بمطابق ۱۹۸۸
۵۔ سلمان قندوزی حنفی، متوفی ۱۲۹۴ھ، ینابیع المودۃ، دارالاسوۃ، قم ایران، طبع اول، ۱۴۱۶ھ
۶۔ اقبال، محمد: کلیات اقبال فارسی، شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز، لاہور، فروری۱۹۷۳ء
۷۔ اقبال، محمد کلید کلیات اقبال اردو، مرتب احمد رضا، ادارہ اہل قلم، علامہ اقبال ٹائون لاہور، دسمبر۲۰۰۵ء
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Share this content: