حضرت امیر خسروؒامیرالمومنین حضرت علیؑ کے حضور
ابو الحسن یمین الدین خسروؒ (651ھ بمطابق 1253ء/725ھ بمطابق1327ء) کی شخصیت بڑی رنگا رنگی ہے۔ وہ دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ بلند پایہ نثر نگار بھی تھے، بے مثل ماہر موسیقی بھی، سلاطین دہلی کے محبوب ترین ہم جلیس بھی، وفادار بیٹے بھی، شفیق باپ بھی اور اپنے مرشد حضرت شیخ المشائخ نظام الدین اولیاءؒ کے بہت چہیتے اور جان نثار مرید بھی، ان کا جیسا عبقری صدیوں کے بعد ہی کبھی کبھی پیدا ہوتا ہے۔
حضرت امیر خسروؒ نے ویسے تو بہت سے قصائد لکھے ہیں تاہم ان کی کہی گئی امیرالمومنین حضرت علیؑ کی منقبتوں نے شہرت دوام حاصل کی ہے۔ ان کی کہی ہوئی منقبتیں زبان زد خاص و عام ہیں۔ قوال ان کا کلام پڑھتے ہیں تو لوگوں پر وجد طاری ہوجاتا ہے۔ حدیث نبوی مَنْ کُنْتُ مَوْلاهُ، فَهذا عَلِىٌّ مَوْلاهُکے حوالے سےکہی گئی ان کی منقبت خاص طور پر بہت مشہور ہے ، ہم ذیل میں چند ایک منقبتیں قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں جنھیں ہم محمد وصی خان کی کتاب ’’بر آستانہ مولا علیؑ‘‘ (۲)سے نقل کررہے ہیں۔ان کے متن اور ترجمے کی تصحیح کردی گئی ہے۔نیز متن رائج اسلوب میں پیش کیا جارہا ہے۔(ث ا)
منقبت۱۔۔۔متن فارسی
علی را منقبتھا گفت یزدان
امام الراشدین را می پرستم
کدام است چون علی برکند خیبر
امام الاشجعین را می پرستم
مرا عشق است بر اولادِ حیدر
امام العارفین را می پرستم
قسیم النار و جنّت، شاہِ مردان
امام القاسمین را می پرستم
تو خسرو مذہب خود را بگوئی
امام راستین را می پرستم
امیر المومنین را می پرستم
امام المتقین را می پرستم
نبی مِنی، فتیٰ گفت امت جبرئیل
امامِ این چنین را می پرستم
وصیّ و ابنِ عمّ و یار احمدؐ
امام السابقین را می پرستم
علی والیء شمشیر دو پیکر
امام الناصرین را می پرستم
دلا! از عشقِ آن شہ رو مگردان
امام العاشقین را می پرستم
اردو ترجمہ:میں مومنین کے امیر کا پرستارہوں، میں متقیوں کے امام کا پرستار ہوں۔
میں ایسے امام کا پرستار ہوں جس کے بارے میں نبیؐ کریم کا ارشاد ہے کہ وہ مجھ سے ہے اورمیں اس سے ہوں، جس کی شان میں جبرئیل نے کہا: لافتیٰ الا علی لا سیف الاذوالفقار۔
جو نبی کے وصی، آپؐ کا چچازاداور دوست ہیںمیں اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں کے اس امام کا پرستار ہوں۔
میں حضرت علیؑ صاحب ذوالفقار اور دین حق کی نصرت کرنے والوں کے امام کا پرستار ہوں۔
اے دل اس شاہ ولایت کے عشق سے غافل نہ رہ میں عاشقوں کے امام کا پرستار ہوں۔
اللہ تعالیٰ نے علیؑ کی منقبتیں کہی ہیں میں رشد و ہدایت دینے والوں کے امام کا پرستار ہوں ۔
کون ہے جو علیؑ کی طرح در خیبر اکھاڑ دے، میں بہادروں کے امام کا پرستار ہوں۔
مجھے اولاد حیدر سے عشق ہے،میں عارفوں کے امام کا پرستار ہوں۔
علی شاہؑ مرداں ہیں دوزخ اورجنت کے تقسیم کرنے والے ہیں میں دوزخ و جنت کے تقسیم کرنے والوں کے امام کا پرستار ہوں۔
اے خسرو تو اپنا مذہب بیان کرکہ میں سچوں کے پیشوا کا پرستار ہوں۔
منقبت ۲۔۔۔متن فارسی
شہر دل آباد شد از رحمت پروردگار
کاندرین شہر است حیدر برگزیدہ شہر یار
کس عَدیل مرتضیٰ نبود زیارانِ رسولؐ
آری آری کی بود ہمسر بہ شیرِ کردگار
گر نہ افضل برہمہ چون آمد این ہاتف زغیب
لافتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار
گر علی را دوست دارم در شریعت باک نیست
چون کنم لیکن بہ بخل خارجی اے دوستدار
گر تن خسرو دہی در زیرِ پایِ فیل مست
حب از دل برندارد زان شہ دلدل سوار
اردو ترجمہ:رحمت پروردگار سے دل کا شہر آباد ہے کیونکہ اس شہر میں برگزیدہ بادشاہ حضرت علیؑ کی حکمرانی ہے۔
اصحاب رسولؐ میں کوئی بھی حضرت علیؑ مرتضیٰ کا ہمسر نہیں تھا، ہاں ہاں شیر خدا کا ہمسر کون ہوسکتا ہے۔
اگر وہ سب سے افضل نہ ہوتے تو عالم غیب سے ہاتف کی یہ صدا کیوں آتی لافتیٰ الا علی لا سیف الا ذوالفقار ۔
میں علیؑ سے محبت کرتا ہوں تو شریعت کی رو سے اس میں کوئی باک نہیں، تاہم میں بخیل خارجی کی طرح کیوں بخل کروں اور انھیں دوست نہ رکھوں۔
اگر خسرو کے جسم کو مست ہاتھی کے پائوں تلے روند ڈالو تب بھی وہ اپنے دل سے شاہ دلدلؑ سوار علی کی محبت نہیں نکال سکتا۔
منقبت۳۔۔۔متن فارسی
بیا اے بندہء مومن! بہ مہر خواجہ قنبر
امام حاضر و غائب امیر المومنین حیدر
امیرالمومنین است آن ز دنیا و ہم از عقبیٰ
ولیِّ ظاہر و باطن وصیِّ مصطفےٰ حیدر
سریر سلطنت بعد از نبیؐ آن راست گو دارد
قبائے لا فتیٰ بر دوش و تاج ھل اتیٰ برسر
خدا تیغ دوسر، زان داد سلطانِ دو عالم را
کہ تا ہر دوسرا گیرد بہ ضرب تیغ دو پیکر
فروغ آفتاب چرخ را از مہر شہ باشد
وگرنہ ہست خورشید اخگری و عین خاکستر
علی گو ہست فخر تاجداران جہان، بودش
ردای فقر بر دوش و لباس صفدری بر در
چہ غم دارد بہ روز حشر از عصیان خود خسرو
چو آل مصطفیٰ دارد شفاعت خواہ در محشر
اردو ترجمہ:اے بندئہ مومن تو قنبرکے مولا کی محبت اختیار کر کے جو حاضر و غائب کے امام امیرالمومنین حیدر ہیں۔
دنیا اور آخرت دونوں کے امیرالمومنین ظاہر و باطن کے ولی اور مصطفیٰ کے وصی حیدر ہیں۔
حضرت رسولؐ خدا کے بعد تخت سلطنت ان کے لیے ہے اگرچہ ان کے کندھے پر قبائے لافتیٰ ہے اور سر پر تاج ھل اتیٰ ہے۔
اس سلطان دو عالم کو اللہ نے تیغ دوسرا اس لیے عطا فرمائی کہ ذوالفقار کی ضرب سے دونوں عالم کو فتح کرلیں۔
خورشید فلک کی چمک شاہ ولایت کے طفیل ہے ورنہ خورشید ایک چنگاری ہے اور عین خاکستر ہے۔
حضرت علیؑ فخر تاجداران جہاں ہیں، اگرچہ آپ کے دوش پر فقر کی چادر اور جسم پر لباس صفدری ہے۔
خسرو کو قیامت میں اپنے گناہوں کا کیا غم ہو سکتا ہے جب کہ آل مصطفیٰ محشر میں اس کے شفیع ہوں گے۔
حوالہ جات
۱۔سید صباح الدین عبدالرحمن:صوفی امیر خسروؒ،(جہلم،بک کارنر۲۰۱۳ء)
۲۔محمد وصی خان:آستانہء مولا علیؑ پر(کراچی،محفلِ حیدری)ص۱۵۳تا۱۵۸
Share this content: