غزہ جنگ سے اسرائیل کیا چاہتا ہے؟
تحریر: سید اسد عباس
اللَّهُمَّ الْعَنِ الْعِصَابَةَ الَّتِي (الَّذِينَ) جَاهَدَتِ الْحُسَيْنَ، وَ شَايَعَتْ وَ بَايَعَتْ وَ تَابَعَتْ (تَايَعَتْ) عَلَى قَتْلِهِ، اللَّهُمَّ الْعَنْهُمْ جَمِيعاً، “اے اللہ اس گروہ پر لعنت بھیج، جنھوں نے امام حسین ؑ سے جنگ کی یا ان کے ساتھی بنے، ان سے عہد کیا اور اور اس عہد کی پیروی کی۔ اے خدایا ان سب پر لعنت بھیج۔” یہ زیارت عاشورہ کا جملہ ہے، جس میں نہ فقط امام حسین ؑ کو قتل کرنے والوں بلکہ ان سے جنگ کرنے والوں، ان کے ساتھیوں، حامیوں، ان جنگ کرنے والے افراد سے عہد و پیمان باندھنے والوں اور اس عہد پر عمل کرنے والوں پر لعنت کی گئی ہیں۔ اس جملے میں بتایا جا رہا ہے کہ ظلم کے فقط وہ دو کردار نہیں ہیں، جو کہ ہمیں ظاہراً نظر آتے ہیں بلکہ اس ظلم کے وہ کردار بھی ہیں، جنھوں نے جنگ کرنے والوں کو اکسایا، جو ان کے ساتھی ہیں، بھلے جنگ میں شریک نہیں ہوئے، وہ بھی ظالم ہیں، ایسے ہی جنھوں نے حملہ کرنے والوں سے عہد و پیمان کیے اور ان وعدوں پر عمل درآمد کیا، وہ سب بھی گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔
آج انبیاء کی سرزمین فلسطین پر بھی ایک کربلا سجی ہوئی ہے، اگرچہ میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ حق و باطل کا ہر معرکہ کربلا کا معرکہ نہیں بن سکتا، کیونکہ کربلا سجانے کے لیے حسین ؑ اور زینب سلام اللہ علیہا درکار ہیں۔ امام حسین ؑ کے بعد بھی تاریخ اسلام میں بہت سے ایسے واقعات ہوئے، جس میں دو فریقین کے مابین جنگیں ہوئیں اور ایک فریق کے مکمل خاتمے پر جنگ کا خاتمہ ہوا۔ توابین جن کی سربراہی سلمان بن صرد خزاعی کر رہے تھے، میدان جنگ میں تمام کے تمام مقام شہادت سے بہرہ مند ہوئے۔ زید بن علی بن حسین ؑ نے جو تحریک شروع کی، اس کا خاتمہ بھی تمام افراد کے قتل اور شہادت، حتی کہ اجساد کے جلائے جانے اور پانی میں بہانے پر ہوا۔ واقعہ حرہ جو امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد وقوع پذیر ہوا، میں بہت زیادہ ظلم روا رکھا گیا۔ تین روز تک مسجد نبوی میں اذان و نماز نہ ہوئی۔ مدینہ کے اصحاب اور تابعین کی بیٹیاں لشکر یزید پر حلال کر دی گئیں۔
مکہ پر آگ برسانے کا واقعہ اور عبداللہ ابن زبیر کا قتل بھی چھوٹا واقع نہیں ہے، لیکن یہ سب واقعات اپنی ہولناکیوں، بربریت اور مظالم کے باوجود انسانی معاشرے میں کربلا جیسی تاثیر نہ حاصل کرسکے، نہ ہی انھوں نے انسانی نسلوں کو کربلا کی مانند متاثر کیا۔ لہذا کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ کا ہر واقعہ کربلا نہیں ہے، کربلا کے لیے نواسہ رسول ؐ اور ان کا حرم درکار ہے۔ بہرحال فلسطین مظالم کے تناظر میں مثل کربلا ہے۔ اس وقت تک اطلاعات کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں تقریباً چار ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، جن میں آدھی سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔ ہسپتال، چرچ، میڈیا کے مراکز، مسجدیں، بازار کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔ 7 اکتوبر 2023ء سے فلسطین میں پانی، بجلی، خوراک، ادویات کی ترسیل بند ہے۔ عمارات ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں مسمار ہوچکی ہیں۔ ان حملوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد زخمی ہیں، جو اگر اپنے زخموں سے بچ بھی گئے تو پوری زندگی نارمل زندگی نہ گزار سکیں۔
یہ تمام واقعات حماس کے ایک حملے کا جواب ہیں، جو 7 اکتوبر 2023ء کو علی الصبح غزہ کے بارڈر کو کراس کرکے کیا گیا۔ مجھے اسی روز توقع تھی کہ اس حملے کا جواب انتہائی بھیانک ہوگا، کیونکہ وہ اسرائیل جو بغیر کسی ظاہری وجہ کے فلسطینیوں کو قتل کر رہا ہے، اب تو اسے 1400 لاشیں مل چکی ہیں۔ ان لاشوں سے بڑا نقصان ٹیکنالوجی کی برتری کا بھرم، بہترین انٹیلیجنس اور ناقابل تسخیر ہونے کا مخمصہ تھا، جسے حماس کے جنگجوؤں نے چند ہی گھنٹوں میں ہوا میں اڑا دیا۔ اسرائیل کو اپنا وجود قائم رکھنے کے لیے ان مخمصوں کی از حد ضرورت ہے۔ اندرونی طور پر بھی اسرائیل کا یہ بھرم ٹوٹ گیا کہ ہماری افواج ہر قسم کے بیرونی خطرے کے مقابل ہمارا دفاع کرسکتی ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا یہ خیال ہے کہ شاید اسرائیل نے حماس کو یہ موقع خود فراہم کیا، تاکہ اسے ایک جواز میسر آسکے کہ وہ غزہ سے حماس کا خاتمہ کرے اور ایک بڑی کارروائی انجام دے، جس میں اسے بین الاقوامی ردعمل کا سامنا کم سے کم کرنا پڑے۔
اس سلسلے میں بعض شواہد بھی پیش کیے جاتے ہیں، جیسے مصر کا ایک ماہ قبل حماس کی غیر معمولی سرگرمیوں کے بارے اسرائیل کو آگاہ کرنا، نیز غزہ کے بارڈر کے بالکل قریب ایک میوزک شو کا منعقد کرنا ہے، جس میں بہت سے غیر ملکی سیاح بھی موجود تھے اور ان سیاحوں میں سے کچھ افراد قتل اور اغواء ہوئے، جس نے مغربی معاشرے کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ اگرچہ اس تجزیہ اور شواہد کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے، کیونکہ جب تک اسرائیل فوجی کارروائی نہیں کرتا اور حماس اس کے مقابل اپنا ردعمل ظاہر نہیں کرتی، اس سے پہلے کوئی پیشین گوئی نہیں کی جاسکتی۔ بہرحال اسرائیل کو حماس کے اس حملے کے نتیجے میں کچھ فوائد بھی ہوئے ہیں۔ جن میں پہلا اور اس سب سے اہم فائدہ عالمی ہمدردیوں کا حصول ہے۔
چین اور روس کے علاوہ مغربی دنیا کے اکثر ممالک نے اسرائیل کے دفاع کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے اسے حماس کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار دیا ہے۔ برطانیہ، امریکا، جرمنی اور فرانس جو پہلے بھی اسرائیل کے اقدامات کی پوشیدہ طور پر حمایت کرتے تھے، اب کھل کر حمایت اور مدد کر رہے ہیں۔ فقط امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے لیے 14 بلین ڈالر کے سکیورٹی پیکیج کا اعلان کیا ہے، جو پہلے فقط 3 بلین ڈالر تھا۔ فرانس اور جرمنی سمیت بعض ممالک میں فلسطین کے حق میں مظاہرے کرنے پر پابندی ہے۔ ہزاروں ٹن بارود غزہ کی چھوٹی سی آبادی پر برسایا جا چکا ہے۔ پانی، بجلی، خوراک اور ادویات دستیاب نہیں، لیکن دفاع کے حق کے جواز کو ذرہ برابر اثر نہیں ہوا۔ ہسپتال پر ہونے والی بمباری کو پراپیگنڈہ کے ذریعے اسلامی جہاد کے سر تھونپا جا رہا ہے۔ مسلم امہ بھی ہسپتال پر حملے سے قبل چپ کا روزہ رکھے ہوئے تھی۔ ہسپتال پر حملے کے بعد غیرت مسلم بیدار ہوئی اور اس واقعہ کے خلاف آواز بلند ہونا شروع ہوئیں۔
عملاً ہمسایہ ریاستوں کی حکومتیں مغربی ممالک کے اشاروں پر چل رہی ہیں۔ اگرچہ ان کی قلبی ہمدردیاں اپنے مسلمان فلسطینی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ ہوں گی، تاہم اقدامات مغرب کی منشاء کے مطابق اٹھائے جا رہے ہیں۔ نہیں معلوم کب اسرائیل غزہ میں داخل ہونے کا فیصلہ کرتا ہے، یہ اہم سوال ہے کہ کیا وہ اپنی فضائی طاقت کے بھرپور استعمال سے قبل غزہ میں داخل ہوگا۔ افغانستان، عراق اور لیبیا میں ہونے والی حالیہ جنگوں کے تناظر میں تو آسانی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زمینی افواج اس وقت تک غزہ میں داخل نہیں ہوں گی، جب تک حماس کا کنڑول اور کمانڈ سسٹم، ہتھیاروں کے ذخیرے اور نیٹ ورکس کو مکمل طور پر تباہ نہیں کر دیا جاتا، تاکہ زمینی فوج اتارنے پر کم سے کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔
میرا نہیں خیال کہ اسرائیل کسی خاطر خواہ نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس جنگ کو ختم کرنا چاہے گا۔ اسے اپنی ساکھ، ناقابل تسخیر ہونے کے مخمصے، داخلی سکیورٹی میں ناکامی کے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے۔ گذشتہ دو برس سے نیتن یاہو سیاسی مخالفت کا سامنا کر رہا ہے، جنگ کا خاتمہ نیتن یاہو کے حق میں بھی نہیں ہے۔ مغربی ممالک کی ایک پریشانی فلسطینی پناہ گزین ہیں، جو شمالی غزہ کو ترک کرکے مصر اور غزہ کے مابین موجود رفح بارڈر کی جانب بڑھ رہے ہیں، دس لاکھ لوگ پہلے ہی اپنے گھروں کو چھوڑ کر خان یونس کے کیمپوں تک پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ ان پناہ گزینوں تک امداد پہنچانے کی کوشش کر رہی ہے، جنگ بندی کی قرارداد سکیورٹی کونسل میں ویٹو ہوچکی ہے۔
میری نظر میں یہ حملہ جیسا کہ اسرائیل نے بیانیہ دیا ہے کہ “حماس کے خلاف ہے” بالکل درست نہیں ہے۔ یہ حملہ غزہ کے شہریوں کے خلاف ہے، اس کا مقصد غزہ کو فلسطینیوں سے خالی کرنا اور ان کو صحرائے سینا کی جانب دھکیلنا ہے۔ اسرائیل اور مغربی طاقتیں شاید اس مسئلہ پر بھی متفق ہو جائیں کہ ہم فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے میں مصر کی مدد کریں گے۔ مصری حکومت فی الحال رفح کراسنگ کو انسانی امداد کی رسانی کے لیے کھولنے پر آمادہ ہوئی ہے، تاہم شاید وہ وقت دور نہیں کہ افغان مہاجرین کی تاریخ کو دہرایا جائے اور پناہ گزینوں کا ایک ریلا مصر میں داخل ہو۔
میری نظر میں اسرائیل حماس کے اس حملے کو حماس کی حکومت کے خاتمے اور فلسطینیوں کے غزہ سے انخلاء کے علاوہ دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کرے گا، تاہم وہ تمام محاذ ایک ہی وقت پر نہیں کھولنا چاہے گا۔ یہ محاذ آہستہ آہستہ کھولیں جائیں گے اور عین ممکن ہے کہ خفیہ کارروائیوں کے ذریعے دیگر مقاصد کو حاصل کیا جائے۔ یہ میری آراء ہیں، جن سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ فلسطین کی گذشتہ ستر سالہ تاریخ، مسلم حکومتوں کی مسئلہ فلسطین کے حوالے سے سنجیدگی اور اسرائیل کے ساتھ روابط کی بحالی کے تناظر میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ حالیہ واقعات پر بھی مسلم امہ کی جانب سے عملی تو دور کی بات کوئی خاطر خواہ زبانی ردعمل بھی نہیں آئے گا۔ خداوند کریم فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے مظلومین کا حامی و ناصر ہو، آمین۔
یہ بھی پڑھیں: کیا طوفان الاقصیٰ کی ہمہ جہت منصوبہ بندی کی گئی ہے؟
https://albasirah.com/urdu/tofan-alaqsa-mansoba-bandi/
Share this content: